Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاظہر عنایتی :اک سخن ور

اظہر عنایتی :اک سخن ور

مبصر : خان محمد رضوان

اظہر عنایتی:ایک سخنور” پروفیسر شہزاد انجم کا محنت شاقہ اور فنی باریکی کے ساتھ مرتب کیا گیا ایک اہم اور قابل قدر یک موضوعی کام ہے- وہ اس لیے بھی کہ اظہر علی خاں اظہر عنایتی جیسے معروف اور معتبر شاعر پر ابتک کوئی تشفی بخش کام نہیں ہوسکا ہے- جب کہ اظہر عنایتی ہم عصروں میں نہ صرف اپنے معیاری اشعار بلکہ منفرد لب ولہجہ کے مقبول عام شاعر ہیں – ذیل کا شعر ان کے دلی کیفیات، جذبات واحساسات، خود کلامی اور تہذیبی قدروں کا نمائندہ شعر ہے، جس کی نظیر مشکل ہی سے مل سکے گی –
راستو! کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
پروفیسر شہزاد انجم معتبر نقاد،مستند محقق اور ماہر مترجم ہیں- ساتھ ہی ان کا شعری ذوق بھی بے حد بالیدہ اورمعیاری- وہ عمدہ شعر بھی کہتے ہیں مگر یہ بات سب کو معلوم نہیں – ابتک ان کی درجن بھر سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آکر مقبول ہوچکی ہیں-
ان میں ‘احتشام حسین کی تخلیقی نگار شات – ایک مطالعہ(تنقید) ‘ ‘سوراج واد (ترجمہ) ‘ آزادی کے بعد اردو تنقید (ترتیب) ‘مکتی بودھ(تر جمہ) ‘ دیدہ ور نقاد :گوپی چند نارگ (ترتیب) اظہر عنایتی :ایک سخنور (تر تیب) ‘ معاصر افسانہ اور ذوقی (مقدمہ اور انتخاب) ‘سید احتشام حسین (مونو گراف ساہتیہ اکادمی،دہلی) –
جب میں علم اور علمیت کی علت تلاش کرتا ہوں تو صفات خدا وندی بے تحاشا یاد آنے لگتے ہیں، چونکہ علم نور ہے اور نور ایک ایسی سچائی ہے جس سے انکار کی کوئی صورت نہیں، نور ہدایت دینے،قلب وجگر کو منور کرنے کا کام کرتا ہے،نور زندگی کی تلخ وشیریں حقائق سے روشناس کرانے کاکا بھی کرتا ہے-نور ہی خدا ہے اور خدا ہی نور ہے، اسی نور کے فیض سے عالم کون ومکاں منور، بلکہ پر نور ہے، علم آگہی، واقفیت اور مناظر قدرت وفطرت کی سچائیوں سے بہرمند کراتا ہے- اللہ تعالی ان دونوں صفات سے متصف ہے- علم انسان کا زیور ہے، علم ہی کی بدولت انسانیت کادرس عام ہوتا ہے-جب بندہ اس صفت سے متصف ہوجاتا ہے، تو اس کے اندر کا سچا انسان مرتب اور منضبط ہوجاتا ہے-اور اس کے اندر تخلیقیت نمو پانے لگتی ہے، پھر وہ خدا کا شاہکار بحیثیت تخلیق کار خالق کی صفت خلق کامظہر ہو جاتا ہے- شاعرزمین کا سچا فن کار ہوتا ہے، وہ اپنی زندگی کے حقائق اور مشاہدات کو اسی حق گوئی، بے باکی اور جرات اظہار کے ساتھ پیش کرتا ہے- سچ تو یہ ہے کہ اس علم اور نور کی صفات بابرکات سے شاعر اور مرتب دونوں متصف ہیں –
اظہر عنایتی نئی غزل کے بسیط آسمان پر اپنے منفرد اور توانا لہجے،غزل کی نئی زمینوں کی بازیافت، تجربات و مشاہدات کے خاص طرز اظہار کی وجہ سے اپنی امتیازی شناخت بنانے والوں میں ایک اہم اور معتبر نام ہے -ان کے یہاں غزل کی بڑی زرخیز زمینیں ہیں، بیان کا طور طریق اپنے ہم عصر وں سے باکل الگ ہے- بیان کی تازگی، خیال کی برجستگی اور فکری و فنی تنوع ان کے کلام کاخاص حسن ہیں- چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
مری آواز کو محفوظ کرلو
کہ میرے بعد سناٹا بہت ہے
اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پاے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آے گا
اے خدا اب مرے گھر میں بھی اجالا کردے
میرے آنگن کو بھی اک چاند کا ٹکڑا دے دے
وہ آے گا تو وہ میری خبر بھی رکھے گا
وہی سجا کے سلیقے سے گھر بھی رکھے گا
اظہر عنایتی کے یہاں ندرت بیان کا عجیب وغریب طلسم ہے عام قاری کے لیے جسے پانا تو دور کی بات ہے مجھے لگتا ہے کہ اس کا تعاقب بھی مشکل ہے- شاعری کے کئی رنگ ان کے یہاں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں -ان کی فکری جدت طرازی اور فنی رچاؤ نے ان کے شعروں کو جاوداں کیا ہے- انہوں نے جہاں اپنے معاشرے کی بکھرتی قدروں پر نوحہ کیا ہے وہیں قدیم ہندوستانی تہذیبی اقدار کی شکست وریخت پر بھی ماتم کیا ہے- اور اس کا اظہار بہت عمدگی اور فنی چابک دستی کے ساتھ اپنے اشعار میں کیا ہے- ان کے یہاں ولولہ انگیزی کم اور فکر انگیزی زیادہ ہے- جیسے یہ اشعار دیکھیے :
لرز رہا ہوں کہ تہذیب کا یہ سرمایہ
نئے اجالوں کے سیلاب میں نہ بہہ جاے
یہ رات اپنے جرائم کے واسطے کم ہے
اب آفتاب کو دن میں غروب کرنا ہے
اب کوئی شہر اڑتا ہے تو یہ لگتا ہے
جیسے اس شہر کو آباد کیا تھا میں نے
اپنی تصویر بناؤ گے تو ہو گا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ کرنا
اظہر عنایتی نے اپنے بیانیہ اظہار اور بے تکلف برجستگی سے زندگی کی کئی تصویریں کھینچی ہیں- اپنے جذبوں کی مصوری کے ساتھ انسانی جذبات کی مصوری بھی خوبصورتی سے کی ہے -جو کہیں نہ کہیں ہمیں اجتماعی لا شعور سے ہم آہنگ کر تی ہیں-جذبوں کے فنی اظہار میں جو کمال انہیں حاصل ہے وہ مبہوت اور متحیر کردینے کے لئے کافی ہیں- وہ جس آسانی اور خوبی سے منظر، پس منظر اور پیش منظر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں وہ کسی کرامت سے کم نہیں – چند اشعار دیکھیے :
جو لمحہ لمحہ تجسس بڑھانا چاہتا ہے
خدا ہماری سمجھ میں بھی آنا چاہتا ہے
رخصت تو کردیا اسے ہنستے ہوے مگر
آنکھوں میں اک عجیب سا ڈر تیرتا رہا
میرے دل پر تو بوجھ تھا غم کا
وہ مرے ساتھ کیوں ہنسا جانے؟
میں اب دیوار و در خود رہ گیا ہوں
عجائب گھر اکیلا دیکھنے کو
اظہر عنایتی کے یہاں امکانات کا وسیع جہان آباد ہے- موضوعات کی رنگا رنگی اور فکری کینوس اعجاز کمال کی وسعت سے ہم کنار ہے- ان کی شاعری قاری کو پڑھواتی ہے اور بغیر کسی جبر کے لکھنے پر مجبور بھی کرتی ہے کہ آپ نے جو سمجھا- جو محسوس کیا اسے قرطاس ابیض پر اتاریں-اتنے باکمال شاعر اور باوصف شاعری پر اس مختصر تحریر میں تمام خصوصیات کا احاطہ ممکن نہیں- ان شاءاللہ حیات رہی تو تفصیل سے ان کی شعری جہات پر خامہ فرسائی کروں گا- توقع فی الوقت اس مختصر تحریر کو اہالیان ادب ضرور پسند فرمائیں گے –
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular