[email protected]
9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹرزیبا محمود
وقار ناصری کی تازہ ترین کتاب پروفیسر مہدی حسین ناصری۔ افکارو آثار کو ادبی حلقوںمیں مقبولیت کا شرف حاصل ہوگا۔کتاب کا آغاز محمد حسین آزاد کے اس قول سے ہوا جس سے وقار ناصری کے نصب العین کا ادب کے تعلق سے پتہ چلتا ہے ۔مہدی حسین ناصری ایک متحرک سرگرم اور با صلاحیت ادیب نقاد مصنف اور با کمال شاعر ہیں ۔ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو قابل توجہ بھی ہے ۔ مذکورہ کتاب میں تحریر کردہ موضوعات کو یکجا کرنا آسان نہیں تھا لیکن نوجوان قلم کار وقار ناصری نے اس مشکل کام کو مجتمع کردیا ہے کہ کتاب قابل مطالعہ ہے ، لائق قراء ت ہے ۔
تمام مشمولات لکھنوء اور اس کا ادبی ماحول ، دبستان لکھنئو کی شعری روایات اور پروفیسر مہدی حسین ناصری کا ان سے شیفتگی ، اساتذئہ لکھنئو سے ان کے مراسم اور ہم عصر شعرائے کرام سے ان کے تعلقات کا تنقیدی جائزہ مصنف نے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کردیا ہے ۔ مہدی حسین کی زندگی کے محتلف گوشوں سے جہاں آشنا کیا وہی دوسری طرف ان کے ابتدائی کلام کے رموزو نکات بطور خاص ان کی غزل گوئی کو تغزل کی چاشنی سے لبریز قرار دیا ۔اس کے ساتھ ہی اردو ادب کی دیگر شعری اصناف قصائد ، رباعیات ، مخمس اور فارسی کلام کے محاسن بیان کرنے میں صاحب کتاب کی محنت شاقہ پر رشک آتا ہے ۔ نثری نقوش پر مبنی باب بھی دل چسپی سے عاری نہیں ہے ۔ اس طرح سے شہر نگاراں لکھنئو کی ادبی حیثیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی ادبی تاریخ کو اختصار کے ساتھ سمو دیا ہے جو کم از کم ان قارئین کے لئے جو لکھنئو کی ادبی اور علمی خدمات سے لا علم ہے ان کے لئے یہ کتاب بیش قیمت تحفہ ہے ۔ صاحب کتاب نے کتاب کے مشمولات پر بھی گفتگو کی ہے جس میں ان کے سنجیدہ تنقیدی پہلو کے ساتھ مہدی حسین کے ستائشی پہلو کا رنگ زیادہ شوخ ہے جسے وقار ناصری کے مدلل مداحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس سے موضوعات کے الگ الگ گوشوں کے قوس و قزحی رنگ عیاں ہو رہے ہیں ۔کتاب میں مصنف نے اردو زبان و ادب کے تعلق سے مہدی حسین ناصری کے جوش و خروش کی بھرپور تعریف کی ہے اور انھیں نئی شیرازہ بندی اور معیار سازی میں نمایا ںکردار ادا کرنے والا فنکار لکھ دیا ہے جس سے ان کے طرز فکر اور ان کے کارناموں پر مثبت روشنی پڑتی ہے ۔ وقار ناصری نے ان کی تخلیقیت کا بڑی دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔
ماضی کا غم ، حال کی پریشانی مستقبل اور تاریخ کی رفتار سے نا واقفیت ان حالات نے پروفیسر ناصری کی شاعری پر اثرات مرتب کئے ہیں۔ صفی کا ایک مصرعہ اس امر کا مصداق ہے ، رنگ رخ بدلا کیا گردش میں جب تک جام تھا ،کلام ناصر کے مدلل تجزیہ نے ان کے فنکاروں میں ایک روشن شعور اور پاکیزہ ذوق کی ترویج کو بیدار کیا ہے ۔معاصر شعراء میں یوں تو ناصری کے تقریباََ سبھی شعرا سے مراسم تھے لیکن اس طویل کے فہرست میں صفی ، عزیز ، ثاقب ، محشر ، حامد علی خان و غیرہ سے ان کی خاص قربت تھی ۔ ، ،ذکر ناصری ،،کے عنوان سے صفی نے ایک شاندار مدحیہ نظم آپ کی شان میں لکھا چند اشعار مثال کی طور پر پیش کر رہی ہوں ۔
آپ نقاد سخن بھی ہیں سخنور خود بھی
نثر میں نظم میں ہر صنف میں پایہ برتر
فلسفی بھی ہیں مورخ بھی ہیں ماشاء اللہ
ایک گلدستہ ہرایک رنگ میں جس میں گل تر
شوق تصنیف سے بھی ذوق ہے تالیف سے بھی
ماہر السنہ دیں مختلف نام آور
اسی طرح فراق گورکھپوری نے اپنے مجموعہ کلام روح کائنات میں ناصری کے فیض محبت کا اقرار کیا ہے ۔شاگردوں میں فراق گورکھپوری کے ساتھ ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا نام بھی شامل ذکر ہے ۔ صاحب کتاب وقار ناصری نے اپنی تحقیقی بصیرت کے تیئں اس غلطی کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ فراق اور اعجاز حسین نے ناصری کانام مہدی حسن لکھا ہے جبکہ ان کا اصل نام مہدی حسین ہے۔ مصنف نے اس ضمن میں ناصری کا ایک شعر پیش کیا جو خود شاہد ہے کہ ۔
ارتباط باہمی ثابت ہے بین المشرقین
ہم عدد بھی ہیںعلی عبّاد اور مہدی حسین
( ناصری ۔ نذر احباب ۔ ص ۵۹ )
تصوف کے مضامین کو برتنے کا بھی ہنر آپ میں بدرجہ اتم موجود ہے لیکن کہیں کہیں حزنیہ لہجہ دبا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ بقول صاحب کتاب مہدی حسین ناصری کا محبوب شاعر میر تقی میر تھا اس لئے کلام میں سوزو گداز کے جملہ عناصر موجود ہیں ۔
مجموعی طور پر یہ کتاب پروفیسر مہدی حسین ناصری کے تعلق سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ مواد کی یکجائی کی منطقی اور استدلالی اظہار نے کلام ناصر کی وسعت کو نمایاں کیا ہے اور ادب کی صالح روایت کی نئی تصویر پیش کیا ہے ۔ اس کتاب کی دانشوارانہ نمو کی تقلید کی جائے گی اس کا مجھے یقین ہے ۔ کتاب ایک ایسی دروں بینی اور ضوفشانی کا مظہر ہے جس کے منظر عام پر آنے کے سلسلے میں وقار ناصری نے بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی کاثبوت دیا ہے ۔ متنوع موضوعات کی شانہ آرائی کا انہماکی انداز قابل غور ہے جس سے مواد کی اہمیت اور لطافت کا سنہرا باب ضرور ہوا ہے ۔
تحقیقی کام کرنے کا وقار ناصری کے پاس سلیقہ بھی ہے اور شعور بھی ۔ بہر کیف یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر لائبریری کی زینت بنے تاکہ ذوق شناسان ادب اس کے مطالعہ سے گزرے ۔ سلیقے سے مزین ، ترتیب کی دلکشی مطالعہ کو شوق کو بڑھاتی ہے اور ہمارے ذہن پر انبساطی کیف بر پا ہوتا ہے ۔ کتاب کے ہر باب میں شامل اقتسابات اگر نقل کئے جائیں تو طوالت کے خدشے سے ایسا کرنے سے قاصر ہوں ۔ اس کی ترتیب و تہذیب میں وقار ناصری نے یقینی طور پر دیدہ ریزی سے کام لیا ہے ۔مجھے بڑی خوشی ہے کہ ایک مبسوط کتاب شائع ہوئی ہے۔میری دلی خواہش ہے کہ وقار ناصری کا یہ ادبی اور تحریری سفر جاری رہے اس طرح کی تحقیقی کتابیں منصئہ شہودپر آتی رہیں۔ الغرض اہل علم و دانش کہ تحریریں ہی اردو زبان و ادب کی بقا کا ضامن ہیں ۔
صدر شعبئہ اردو
گنپت سہائے پی جی کالج سلطان پور