प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————– —
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|
شاہد حبیب
مولانا آزاد جیسی مذہبی، علمی اور سیاسی شخصیت کے نام کے ساتھ فنون لطیفہ کا لاحقہ کئی لوگوں کو چونکا سکتا ہے. لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ مولانا آزاد فنون لطیفہ کو اسلام کے مزاج کے خلاف نہیں مانتے. وہ فرماتے ہیں کہ فقہاء نے سد وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا ہے اور اس کو خلاف شرع قرار دیا ہے. وہ مزید فرماتے ہیں کہ “عہد وسطٰی کے کتنے ہی مقدس علماء ہیں جن کے حالات پڑھیے تو معلوم ہوتا ہےکہ گو وہ موسیقی کے اشتغال سے دامن بچائے رہے لیکن فن کے ماہر اور نکتہ شناس تھے”. ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ”جہانگیری عہد تک موسیقی کا فن بھی فنونِ دانشمندی میں داخل ہو گیا تھا اور اس کی تحصیل کے بغیر تحصیل علم اور تکمیل تہذیب کا معاملہ ناقص سمجھا جانے لگا تھا. امراء وشراء کی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے جس طرح تمام فنونِ مدارس کی تحصیل کا اہتمام کیا جاتا تھا، اسی طرح موسیقی کی تحصیل کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا. جو نوجوان تکمیل علم کے لیے بڑے شہروں میں آتے، وہ وہاں کے عالموں اور مدرسوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے باکمالان موسیقی کو بھی ڈھونڈتے اور پھر ان کے حلقہ تعلیم میں زانوئے تحصیل تہ کرتے”.
فن لطیف یا Fine Art دراصل اس ہنرمندی یا لیاقت خصوصی کو کہتے ہیں جس کا تعلق ہمارے نازک ترین احساسات اور شدید جذبات سے ہوتا ہے. اس فن کی تشکیل میں ندرت، حیرت افروزی، جمال آفرینی، اکملیت اور سکون دل و دماغ کی شمولیت کو لازمی اجزائے ترکیبی کی حیثیت حاصل ہیں. فنون لطیفہ سے مراد وہ فنون ہیں جو انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین کرتے ہیں. مثلاً رقص، موسیقی، تھیئٹر و سینما، مارشل آرٹ، فن تعمیر، مجسمہ سازی، مصوری، دستکاری و ملبوسات. اول الذکر چار کو جدید تقسیم کی بنیاد پر پرفارمنگ آرٹس کے زمرے میں رکھا گیا ہے جبکہ آخر الذکر چار کو ویزؤل(بصری) آرٹس کے زمرے میں. اسی کے ساتھ شعروادب، فن خطاطی اور علم طباخی کو مستقل شعبہ تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کا بھی اہم جزء سمجھا جاتا ہے. کوئی بھی انسان جو دماغی کاموں میں یا علوم عقلیہ کی خدمت میں مشغول رہتا ہو وہ فنونِ لطیفہ سے جڑے بغیر یا ان میں سے کسی بھی فن لطیف سے لطف اندوز ہوئے بغیر کوئی بڑا کام سرانجام نہیں دے سکتا. اسی لئے جدید طریقہائے نظام تعلیم میں ایک خاص تناسب کے ساتھ فنون لطیفہ کے کسی بھی ایک زمرے میں خاطرخواہ آگاہی کو لازمی طور سے جگہ دی گئی ہے. مولانا آزاد جیسی نابغہ روزگار ہستی کے لئے، جسے آگے چل کر ملک وملت کی سربراہی کے ساتھ ساتھ علم کے وسیع سلطنت کی قیادت سنبھالنی تھی، کیسے اس کوچے کی ہوا خوری کے بغیر گزر جانا زیبا تھا. چنانچہ انہوں نے قلعہ احمد نگر سے مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی کے نام 16 ستمبر 1943 کو لکھے ایک خط میں خود ہی ایمانداری کے ساتھ اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے.
کہا جاتا ہے کہ مشیئت ایزدی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا. 1905 کی کوئی سہانی شام تھی. مولانا تکمیل درس نظامی کے بعد حسب معمول کلکتہ مدرسہ کالج کے سامنے خدا بخش خان کتب فروش کی دکان پر جا پہنچے. خدا بخش خان نے سنسکرت سے ترجمہ شدہ فن موسیقی پر عالمگیری عہد کے فقیر اللہ سیف خان کی “راگ درپن” نامی خوشخط اور مصور نسخہ مولانا کو دکھایا. اتنے میں مدرسہ کالج کے پرنسپل مسٹر ڈینسن راس آ دھمکے اور مولانا کے ہاتھوں میں موسیقی کی کتاب دیکھ کر کہنے لگے کہ تم اسے نہیں سمجھ سکتے. مولانا نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور گھر آکر اپنے والد مولانا خیرالدین صاحب کے شاگرد و مرید مسیتا خان نامی ایک سابق پیشہ ور موسیقار کے توسط سے ایک رازدار کے گھر پر موسیقی کا علم بہم پہنچانے لگے. کوئی چار پانچ سال کی ریاضت سے ستار وبین کی اچھی مشق کر لی. دریں اثناء علم موسیقی پر معارف النغمات نامی کتاب کی ترتیب کا ارادہ کیا تو لکھنؤ کے زمانہ قیام میں مرزا محمد ہادی رسوا سے کافی معلومات حاصل کئے. مولانا کے نزدیک طبیعت کا توازن اور فکر کی لطافت بغیر موسیقی کی ممارست کے حاصل نہیں ہو سکتی. اس پانچ سالہ ریاض کا یہ اثر ہوا کہ مولانا فرماتے ہیں کہ “موسیقی کا ذوق اور تاثر جو دل کے ایک ایک ریشہ میں رچ گیا تھا کہ دل سے نکالا نہیں جا سکتا تھا اور آج تک نہیں نکلا”. آگے فرماتے ہیں “میں زندگی کی احتیاجوں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں. آواز خوش میرے لئے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم ودل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے”. دراصل سفر و حضر میں لاسلکی کا ایک سٹ ہمیشہ مولانا کے ساتھ رہتا، لیکن حکام کی طرف سے جیل کے دروازے پر اسے روک لیے جانے کی وجہ سے یہ غم یہاں شدت اختیار کر گیا ہے. مولانا پر طبیعت کی خودرفتگی اور محویت کا ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ آگرہ کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں. جب رات کا پچھلا پہرشروع ہوتا تو چاند پردہ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا. میں نے خاص طور پر کوشش کر کے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا. پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی، ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا”. مولانا نے 1908 میں عراق و مصر و شام کا سفر کیا تو اس وقت کی عربی موسیقی کا علم کھوج کھوج کر حاصل کیا. قاہرہ کے اوپیرا ہاؤس میں جوق شیخ سلامہ کی موسیقی کو بارہا سننے جایا کرتے ساتھ ہی موقع نکال کر شیخ سلامہ سے موسیقی کے موضوع پر مذاکرے بھی کیا کرتے. اسی زمانے میں عالمہ طائرہ نامی مشہور مغنیہ کا دھوم تھا. مولانا فرماتے ہیں کہ “وہ خود بھی بلاے جان تھی مگر اس کی آواز اس سے بھی زیادہ آفت ہوش و ایمان تھی، میں نے اس بھی شناسائی بہم پہنچائی اور عربی موسیقی کے کمالات سنے، دیکھئے اس خانماں خراب شوق نے کن کن گلیوں کی خاک چھنوائی”. اس کے کئی سال بعد مصر میں ام کلثوم کا شہرہ ہوا تو مولانا نے اس کے بے شمار ریکارڈنگ کے سننے کا تذکرہ کیا ہے. عقد الفرید اور کتاب الاغاني جیسی حجازی موسیقی کی کتابوں نے مولانا کے ذوق موسیقی کو تقابلی مطالعے کے لئے مزید مہمیز لگانے کا کام کیا تھا. مولانا فرماتے ہیں کہ” ماننا پڑتا ہے کہ قدیم یونانی موسیقی کی طرح عربی موسیقی بھی نسبتاً سادہ اور دقت تالیف کی کاوشوں سے خالی ہے. ہندوستان نے اس معاملے کو جن گہرائیوں تک پہنچا دیا، حق یہ ہے کہ قدیم تمدنوں میں سے کوئی تمدن بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا. حسن تقسیم اور دقت ترتیب یہاں کی ہر فنی شاخ کی عام خصوصیت رہی ہے”. آگے فرماتے ہیں کہ”یورپ کا موجودہ فن موسیقی جس کی بنیاد نشاۃ ثانیہ کے باکمالوں نے رکھی تھی، منتہائے کمال تک پہنچا دیا گیا ہے اور گو ذوق سماع کے اختلاف سے ہمارے کان اس کی پوری قدر شناسی نہ کر سکیں، لیکن دماغ اس کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا”. آج جس طرح امریکی موسیقار باب ڈیلن کو ادب کے زمرے میں نوبل پرائز ملا ہے، اس سے مولانا کا یہ احساس حرف بحرف صادق آتا دکھ رہا ہے، اور انکے موسیقی کے رمز شناس ہونے پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے.
مولانا کے نزدیک موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقت کے دو جلوے ہیں تو کس طرح یہ ممکن تھا کہ موسیقی کے اس اعلی مذاق کے بعد مولانا شاعری کی طرف متوجہ نہیں ہوتے. بلکہ مولانا نے موسیقی سے پہلے شاعری کے میدان میں ہی قدم رکھا تھا. چنانچہ1898 میں شاعری کی ابتداء کی اور 1899 میں پہلی غزل شائع ہوئی تو اس کا مطلع تھا:
نشتر بدل ہے آہ کس سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
مولانا نے شاعری کے میدان میں امیر مینائی، داغ دہلوی، امداد حسین، ظہور میرٹھی اور ظہیر حسن شوق نیموی جیسے باکمالوں سے مشورہ سخن کیا تھا. مولانا کے نزدیک شعر الفاظ و معانی کا نام ہے تو موسیقی ألحان و ایقاع کا. مولانا کی ایک غزل اس وقت کے مشہور اخبارات میں شائع ہوئی، جس کی دھوم مچ گئی تھی. مطلع تھا:
ان شوخ حسینوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
ایسوں کی اداؤں میں مزہ اور ہی کچھ ہے.
مشہور شامی عالم شیخ الاسلام ابن تیمیہ(1328- 1263) مولانا کے ہیرو تھے، ابن تیمیہ نے اپنے مجموعہ فتاوی کے تقریباً 32 جلدوں میں تفسیر، حدیث، فقہ، معقولات و فلسفہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے موضوعات پر داد تحقیق دیا ہے، جس میں موسیقی بھی شامل ہے. اسی کے ساتھ انہوں نے 1299،1301 اور 1303 کے منگول حملہ آوروں کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ حکام وقت کی ناراضگی مول لینے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے اندر بھی رہے. اس کے باوجود اپنے علمی سفر کو رکنے نہیں دیا. فتاوی کی بیشتر جلدیں انہی زمانے کی یادگار ہیں. اتنی جامع الصفات اور اولوالعزم شخصیت سے متاثر رہنے والی مولانا آزاد جیسی شخصیت کو بھی تقریباً انہی مراحل سے گزرنا پڑا. چنانچہ انگریزوں کے خلاف جنگ مول لینے کے جرم میں 6 بار مولانا نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں. 23 مارچ 1916 کو جاری ڈیفینس آف انڈیا آرڈیننس کے تحت جولائی میں پہلی بار مولانا کو رانچی میں نظر بند کر دیا گیا. یکم جنوری 1920 کو جب رہائی ہوئی تو ترجمان القرآن اور تذکرہ کے ساتھ ساتھ مولانا کی زبان پر یہ شعر بھی جاری تھا:
قصد کرتا ہوں جو اس جا سے کہیں جانے کا
دل یہ کہتا ہے کہ تو جا، میں نہیں جانے کا
فنونِ لطیفہ کی مذکورہ بالا دونوں اقسام کے علاوہ کسی اور فن لطیف سے مولانا کی وابستگی کا ابھی تک علم نہیں ہو سکا ہے. لیکن جدید ہندوستان کی تعمیر کا ایک ایسا کارنامہ جو مولانا جیسی جامع الصفات شخصیت ہی کے اخاذ و زرخیز ذہن کا کارنامہ ہو سکتا ہے، اس کے تذکرے کے بغیر فنونِ لطیفہ سے مولانا کی وابستگی کو کما حقہ نہیں سمجھا جا سکتا، وہ ہے آزاد ہندوستان میں درج ذیل فنون لطیفہ اور اس کے معاون اداروں کا قیام :
1- یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن( موجودہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) :1948
2- انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز (آئی سی سی آر ) : 1950
3- سنگیت ناٹک اکیڈمی : 1952
4- سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن( موجودہ سی بی ایس سی) : 1952
5- للت کلا اکادمی : 1954
6- ساہتیہ اکادمی : 1954
ان متنوع اداروں کا نہ صرف مولانا نے خاکہ تیار کیا بلکہ مکمل طور سے اپنی سربراہی میں اسے قائم بھی کیا. اور اس کی چیئرپرسن کی ذمہ داری کو قبول کر کے ان اداروں کو وقار بھی بخشا. یہ وہ ادارے ہیں جن سے جڑے رہنے کی وجہ سے بالواسطہ اور بلا واسطہ لاکھوں فنکاروں کے گھر آج چولہا جل رہا ہے اور ہندوستان فنون لطیفہ کے معاملے میں آسمان کی نئی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے.
فنونِ لطیفہ کو سامنے رکھ کر کہا جائے تو 1905 میں کتب فروش کی دکان سے شروع ہوا مولانا آزاد کا یہ ذہنی سفر 1954 میں ساہتیہ اکادمی کے قیام کے ساتھ تکمیل کو پہنچتا ہے. جس کی بدولت ان کا شمار عہد قدیم کے اشوک اور وکرمادتیہ، عہد وسطی کےابراہیم عادل شاہ( صاحب کتاب نورس) اور اکبر و جہانگیر کے ساتھ کرنے میں جدید ہندوستان کا مؤرخ اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے. جس نے سرکاروں کی آمد و رفت سے پرے ہٹ کر فنکاروں اور باکمالوں کی سرپرستی کے لئے جدید ہندوستان کو ایک نئے نظام سے متعارف کرایا. آج اگر پنڈت روی شنکر اور پنڈت بھیم سین جوشی کو باوقار گریمی ایوارڈ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی فنکاروں کی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے تو کہیں نہ کہیں اس کا سہرا مولانا آزاد کے قائم کردہ ان اداروں کو جاتا ہے اور مولانا آزاد کو بھی.
ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
Also read