9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
احمر ندیم
مِری ناکام چالوں پر وہ ایسے مسکراتا ہے
کہ گویا زخم دیتا ہے وہ پھر مرہم لگاتا ہے
وہ ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر قسمت بتاتا ہے
تصور میں امیدوں کا حسیں دیپک جلاتا ہے
کسی کو قتل کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے
وہ اپنی زلف میں اک لام سا خنجر بناتا ہے
امیرِ شہر یہ پوچھے کسی مفلس کے بچے سے
کتابیں بیچ کر کیسے وہ اپنا گھر چلاتا ہے
اگر قسمت میں ماتم ہی منانا ہے بچھڑنے کا
تو ساقی جام الفت کا مجھے کیوں کر پلاتا ہے
اگر ہے حوصلہ احمر تو منزل کی طرف دیکھو
وگرنہ شوق بھی رَستے میں ہمت ہار جاتا ہے