اسٹنٹ

0
154

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

اسلم جمشید پوری

’’ اللہ اکبر۔۔۔‘‘
امام صاحب نے نیت باندھ لی تھی۔
سلطان حمید نے اِدھر اُدھر دیکھا ۔ اس کے بائیں مرزا شفقت ، ان کے بازو میں میر عثمان اور دائیں واحد علی، ان کے بازو میں شیخ مبارک علی، اگلی صف میں سفید براق کرتا پاجامہ پہنے سلیم ۔ ان کے دائیں شہاب الدین قینچی والے اور بائیں حسن شاہ پچھلی صف میں زاہد کپڑے والے۔ غرض تین صفوں پر جب اس نے نظر ڈالی تو مسجد میں اسے اپنے آگے،پیچھے، دائیں بائیں جاننے والے لوگ نظر آئے۔ کسی نے نیت باندھ لی تھی ۔ کوئی اپنی ٹوپی درست کر رہا تھا۔ کوئی پاجامے کو اونچا کرنے کو اسے نیفے سے موڑ رہا تھا۔ کوئی جھک کر اپنی پینٹ کی مہری کوٹخنے سے اوپر کررہاتھا۔ منور حسن نے فوراً نیت باندھ لی تھی ۔ امام ثنا، الحمد کے بعدپہلا پارہ شروع کر چکے تھے۔ آج پہلی تراویح تھی کل سے رمضان کا رحمت و برکت والا مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ ویسے تو رمضان کا مہینہ مغرب بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن روزے کی شروعات کل سے ہونے والی تھی۔ گیارہ مہینے بعد آنے والا یہ مہینہ بڑی برکتوں کا ہوتا ہے۔ اس ماہ نیکیاں عام ہوجاتی ہیں۔ کہا جاتاہے کہ اس مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ، اس مہینے غلط کام کم اور نیک ا عمال بڑھ جاتے ہیں۔نمازی کچھ اس طرح مسجد میں اُمڈتے ہیں ، جیسے شہد کی مکھیاں چھتے پر اُمڈ آتی ہیں ۔ اس مہینے کی تیاریاں بہت زور شور سے ہو تی ہیں۔ شبِ برات سے ہی رمضان کی آمد کی دھمک سنائی دینے لگتی ہے۔ نفل روزے رکھ کر اس کا احساس بھی ہوتاہے۔ یوں تو پوے سال ہی ہمیں خود کو راہ ِ راست پر رکھنا جاہئیے لیکن رمضان کے مہینے میں اس کا خاص اہتمام کرنا چاہئیے۔
شب برات میں بھی کیا رونق ہوتی ہے۔ مسجدوں ، قبرستانوں ، آستانوں کو سجایا جاتاہے۔ سناہے اس رات قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس رات پورے سال کا رزق لکھا جاتاہے۔ موت زندگی ، طے ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ اس رات کی عبادت کا بہت ثواب ہے۔ نوجوانوں کے لیے اس رات کے معنی کچھ اور ہوتے ہیں ۔ اس سال شب برات پر کیا مزہ آیا !
’’ اوشہاب ۔۔ ۔ یار اس سال میرٹھ کے سارے قبرستان میں فاتحہ پڑھنا ہے۔‘‘
سلطان نے بڑے جوشیلے انداز میں شہاب سے کہا۔
’’ ٹھیک ہے یار۔۔۔ سب چلیں گے۔۔۔ چاروں ۔۔۔‘‘شہاب نے بھی جوش دکھایا ۔
’’ شہاب، ایسا کرتے ہیں ایک ہی بائیک پر چلیں گے۔ پہلے پتھر والی مسجد میں نماز عشاء ادا کریں گے،پھر قبر ستانوں کا رُخ کریں گے۔‘‘
’’ہاں ۔۔۔ ٹھیک ہے۔‘‘
دونوں دوستو ں نے منصوبہ بنالیا تھا۔ بقیہ دو دوست حسن شاہ اور منّا قریشی ، کو بھی موبائل سے خبرکردی۔ پورا پلان عشاء سے فجر تک کا تھا ۔ فجرجامع مسجد ، کو توالی میں ، وہیں سحری بھی کھائیں گے،اور اگلے دن کا روزہ ۔۔۔اگلے دن کے روز ے کی بڑی فضیلت ہے۔ نفل روزے رکھنا بہت مشکل کام ہے۔
’’ اللہ اکبر۔۔۔‘‘
امام کی آواز پر جب اس کے آس پاس کے نمازی رکوع میںگئے تو سلطان بھی خیالات کی دنیا سے ایک جھٹکے میں باہر آیا۔ جلدی سے رکوع میں گیا۔ اگر تھوڑی دیر ہو جاتی تو اس کا ر کوع چھوٹ جاتا۔ نماز میں رکو ع کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ رکوع گیا تو رکعت بھی گئی۔ سجدوں کے بعد پھر دوسری رکعت شروع ہو گئی تھی۔ امام صاحب نے اپنی برق رفتاری سے قرآن پڑھنا شروع کر دیاتھا۔ اس نے ہمہ تن گوش ہوکر بھی سننے اور سمجھنے کی کوشش کی ، لیکن سوائے آواز کے مدوجزر کے کچھ بھی پلے نہیں پڑرہا تھا۔ آہستہ آہستہ امام کی آواز دور ہوتی گئی اور سماعت سے شبِ برات کے پٹاخوں کے دھوم دھڑاکے ٹکرانے لگے تھے۔
’’ دیکھو یار ۔۔۔ آتش بازی صرف مغرب سے عشاء تک ۔ اس کے بعد سب بند۔۔۔‘‘
شہاب نے اپنے دوستوں سلطان ، حسن شاہ، منّا قریشی سے کہا جو شاہ پیر گیٹ کے سامنے والی سڑک پر آتش بازی کر رہے تھے۔
’’ ہاں ، ہاں ۔۔۔اب تو لکچر بند کر اور لے یہ راکٹ داغ دے۔ ‘‘
سلطان نے ایک ڈبل ساؤنڈ بم کو آگ دکھاکر سڑک پر پھینکتے ہوئے کہا۔
بم پہلے زمین پر پھٹا، پھر کچھ اوپر ہوا میں جاکر زور سے پھٹا ۔ ہر طرف روشنی کے دھماکے او ر جھما کے ہورہے تھے۔ پورا آسمان لمحہ بھر کو روشنی میں نہا جاتا ۔راکٹ کی سرسراہٹ،پھٹنے کی آواز،بموں کے دھماکے جاری ہیں۔کبھی کبھی تو بم اتنی زور سے پھٹتا کہ دل دہل جاتے۔ راکٹ ادھر ادھر بھی چلے جاتے، تب بڑی مصیبت آتی۔کبھی کبھار تو لڑائی کی نو بت آجاتی۔پتلے پتلے پٹاخوں کی لڑی کے پلیتے میں جب آگ لگائی جاتی تو پھر کئی منٹ تک مسلسل دھماکے ہو تے رہتے۔آواز کبھی زور دار ہوتی اور کبھی پھٹ پھٹ ہو کر رہ جاتی۔اور کبھی تو بالکل پھس۔۔۔پوری شاہراہ راکٹ، بم ،پٹاخے وغیرہ سے بھر جا تی۔ہر لمحہ آواز اور روشنی کے دھماکے اور جھماکے ہو تے رہتے۔ان دھماکوں میں گھڑیال کی وقت بتانے والی آواز بھی سنائی نہیں پڑتی۔
اندرا چوک سے شاہ پیر گیٹ اور ہاپوڑ چوراہے سے ترنگا گیٹ اور پھر کریم نگر نالہ سے ذاکر کالونی تک پٹاخوں کا عجب سماں تھا۔ پولس انتظامیہ نے ایل بلاک تراہے سے بچہ پارک تک کی شا ہراہ کو عام ٹریفک ک لیے بند کر دیا تھا۔ ہر سال پولس انتظامیہ کو امن و امان بحال کرنے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ۔ علماء کرام شب برات سے قبل مساجد اور جلسوں میںآتش بازی کو حرام اور گناہ عظیم بتاکر نئی نسل کو اس سے باز رکھنے کی تاکید کرتے، وعیدیں سناتے۔معاملہ کچھ کم تو ہوا، مگر ختم نہیں ہوپایا۔
ایک اور معاملہ علماء ، والدین اور پولس انتظامیہ کے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا۔ بائک سوار بچے پورے شہر میں دندناتے پھرتے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر بائک پر کرتب دکھاتے ۔ ایک بائک پر تین تین، چار چار نوجوان ۔ کوئی چلتی بائک پر سیدھا کھڑا ہو جاتا، کوئی اگلا پہیہ اُٹھاکر ، پچھلے پر بائک چلاتا، کوئی پوری بائک کو پھرتی سے دائرے نما گھماتا۔ یہ سب دیکھاکر ایسالگتا گویاپورا شہر موت کا کنواں بن گیا ہے اور بائکرس اُس میں اپنی رفتار اور کرتب دکھاکر تالیا ں بٹور رہے ہیں۔ اِس خطرناک کھیل میں کئی بار موت بالکل قریب آجاتی ہے۔ میرٹھ میں کئی نوجوان اس کی نذر بھی ہو چکے ہیں ، لیکن نئی نسل کے جنون میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
ٓٓٓآتش بازی سے فارغ ہو کر چاروں دوستوں نے خیر نگر چوراہے پر پتھر والی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کر چاروں نے پوری رات کا پروگرام بنایا ۔ جینس ٹی شرٹ اور قمیض پینٹ میں ملبوس چاروں کے سروں پر ٹوپیاں تھیں۔ پہلے سلطان، پھرشہاب اور اس کے بعدحسن شاہ اور آخر میں منّا قریشی بائک چلائیں گے اور بیچ بیچ میں اپنی مہارت کا، کرتب دکھا کر ثبوت پیش کریں گے۔
’’ اللہ اکبر‘‘
امام کی تکبیر پر وہ خیالات کی سڑک پر دوڑتے دوڑتے رکوع میں چلا گیا۔ دورکعت کے بعد امام نے پھر نیت باندھ لی ۔قرآن کی قرآت کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ وہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ پایا تھا کہ نماز میں ذہن اِدھر اُدھر کیوں بھٹکتاہے۔ نجانے کیسے کیسے خیالات اور تصّور زندہ ہو جاتے ہیں ۔ کبھی کسی کا تصور تو کبھی کسی کا جمال پیکر ۔ اس چکر میں کئی بار رکعتوں کا حساب بھی غلط ہو جاتا۔ چار کی جگہ تین اور دو کی جگہ کبھی ایک تو کبھی تین ۔ کبھی دو رکعت کے بعد کا قاعدہ غائب تو کبھی وتر کی مخصوص دعا کے بغیر رکوع ۔اس نے اپنے دوستوں سے اس کا تذکرہ کیا تو پتہ چلاان کے ساتھا بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس بار اس کے دوستوں نے ۱۰؍ روز کی تر اویح پڑھنا طے کیا تھا۔ شبینہ کم ایام کا ہوتو محنت زیادہ ہوتی ہے۔ کھڑے کھڑے پیر دکھنے لگتے ہیں۔کبھی کبھی پیرو میں سوجن بھی آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگ تو کچھ رکعتوں کے بعد، بیٹھ کر نماز تراویح پڑھنے لگتے ہیں ۔ کم ایام کی تراویح میں قرآن کے الفاظ ، رفتار کے حصار میں آکر اپنی واضح شناخت برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں۔ ہاں رکعت کے اختتام کے حروف کی ادائیگی سمجھ میں آتی ہے۔یا پھر نئی سانس کے ساتھ کسی کسی لفظ کو کھینچ کر پڑھنے میں کچھ لفظ صاف ہو جاتے ہیں ۔ تین تین دن اور ایک ایک شب کے شبینے بھی ہوتے ہیں ۔ جن کے لیے خاص حافظ ہوا کرتے ہیں۔ بعض تو اپنے القاب سے جانے جاتے ہیں۔ طوفان میل،آندھی ایکسپریس وغیرہ۔ گذشتہ کئی سال سے وہ اور اس کے دوست ایسے شبینے پڑھتے ہیں، لیکن آج تک قرآن سمجھ میں نہیں آیا۔ ابتدائی دنوں میں تراویح میں اکثر حفاظ لمبی لمبی رکعتیں کرتے ہیں ۔ یعنی وہ شروع میں قرآن کا زیادہ حصّہ پڑھ کر بعد کی رکعتوں میں کم قرآن پڑھتے ہیں ۔ ایسے میں بہت سے نمازی جن میں اکثر بچے اور کچھ نوجوان ہوتے ہیں پہلی رکعت میں بہت دیر تک نیت ہی نہیں باندھتے ۔ پیچھے بیٹھے باتیں کرتے ہیں ، کبھی لیٹ جاتے ہیں اور جیسے ہی امام رکوع میں جاتے ہیںدوڑ کر فوراً نیت باندھتے ہی رکوع میں چلے جاتے ہیں ۔ ایسا وہ ہر پہلی رکعت میں کرتے ہیں ۔ بعض چھوٹے بچے دوران ِ تراویح بھی مسجد کے پچھلے حصّے میں باتیں کرتے اور ایک دوسرے کی ٹوپی اچھالتے رہتے ہیں۔ سلام پھیرتے ہی ، کبھی کبھار کے نمازی ان بچوں کوپر خوب ڈانٹ پلاتے ہیں ۔
قرآن سنتے سنتے ذہن نے قلابازیاں کھانا شروع کر دیاتھا۔سب سے پہلے سلطان نے بائیک کا ہینڈل سنبھالا۔ طے شدہ پروگرام کے تحت پہلے عیدگاہ سے متصل حاجی صاحب قبرستان جانا تھا۔ یہ دہلی روڈ پر ریلوے چوراہا سے کچھ آگے اور میڑوپلازہ سے پہلے پڑتا ہے۔ دہلی روڈ ویزبس اڈہ سے فیض عام اور ریلوے روڈ چوراہے سے دہلی کی طرف بڑھیں گے تو عید گاہ سیدھے ہاتھ پر پڑے گی ۔ سناہے یہ بہت پرانی عیدگاہ ہے۔ میرٹھ کی جامع مسجد اور عید گاہ سلطان نصیرالدین نے 1249ء میں بنوائی تھی ۔ عیدگاہ سے متصل ایک بڑا قبر ستان ہے۔ عیدگاہ روڈ سے ذراپہلے سیدھے ہاتھ میں ریلوے روڈ پر معروف قدیمی مدرسہ، منصبیہ ہے، جواب منصبیہ عربک کالج کے نام سے بھی جاناجاتاہے۔ یہ منصب علی خاں کا وقف ہے۔ اس میں بھی ایک بڑاقبرستان ہے۔ اس میں زیادہ تر اہلِ تشیع حضرات کا دفینہ ہوتاہے۔ اسی دہلی روڈ پر مسلمانوں کی ایک اور بہت بڑی درس گاہ فیض عام ڈگری و انڑ کالج ہیں ۔یہ دونوں ادارے میرٹھ کے مسلمانوں کی شان ہوا کرتے تھے۔ منصبیہ کی وقف جائیدادیں بے شمار ہیں ۔ یہی حال فیض عام کا بھی ہے۔ فاتحۃ وغیرہ سے فارغ ہوکر چاروں پھر چل دیے ۔ سلطان نے بائیک تیز چلاکر اور اچانک بر یک لگا کر اسے کنٹرول کر کے دکھایا۔ ایسا اُس نے کئی بار کیا ۔ اس کے دوستوں کے ساتھ ساتھ، عام لوگ بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔
’’چل بے سالے ۔۔۔ گیدڑ کی ۔۔۔ تجھے کچھ آتا بھی ہے ۔ یہ تو میرا پیشاب بھی کر دے گا ۔ بڑا آیا سالا کرتب باز۔۔۔ ‘‘
سارے دوست خاموش تھے ۔ انہیں پتہ تھا کہ منّا قریشی بڑاجذباتی ہے اور گالیاں بکنے میں ماہر ، وہ تو اُس نے رحم کر دیا ورنہ وہ کچی پکی گالیوں کی قطار لگا دیتا۔ یہی نہیں منّا قریشی نے بائیک سلطان سے لے کر ، خودسوارہو گیا۔ بائک پیچھے کی طرف لے گیا، کوئی پچاس میٹر کے بعد وہ بائیک گھما کے لایاقریب آکر اس نے رفتار بڑھادی اور پھر بریک کا کمال اور اگلے پہیے کو ہوا میںتھامنا،لمحہ بھر کو پچھلا پہیہ تو زمین پر تھا اور اگلا ہوا میں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب تب میںمنّا، آسمان پر بائیک دوڑانے والا ہے۔ دائرہ نما کھڑے لوگوں نے زور دار تالیاں بجائیں۔
’’ چلو یار ، دیر ہو رہی ہے آگے بھی جانا ہے۔‘‘
شہاب کے کہنے پر منّا قریشی نے تینوں کو سوار کیا اور بائیک ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ دہلی روڈ کو بھی، شب برات میں عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ خاص کر سوتی گنج سے باغپت چوراہے تک کی سڑک رات بھر کے لیے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کردی جاتی ہے۔ دہلی روڈ کے ایک طرف قیصر گنج، ریلوے روڈ، شانتی نگر، باغپت روڑاور دوسری جانب پوروہ فیاض علی، پوروہ مہابیر، گھنٹہ گھر، کوٹلہ، ویلی بازار ، خیرنگر، وغیرہ آباد ہیں۔ گھنٹہ گھر ایک یادگار تاریخی عمارت ہے۔ یہ دراصل ایک بڑا دروازہ ہے جس پرایک بڑی سی گھڑی آویزاں ہے۔ اسی کی وجہ سے یہ گھنٹہ گھر ہے۔ منّا قریشی نے برق رفتاری کا زبردست مظاہرہ کیا۔ ابھی جلی کوٹھی چوراہے پر پہنچے ہی تھے کہ وہاں بائیکرس کے تماشے دیکھ کر رک گئے۔جلی کوٹھی میرٹھ کا مشہور علاقہ ہے ۔ یہاں پر انی دلی کی طرح پتلی پتلی گلیاں ہیں۔ گھر گھر میںباجے ،ڈھول ،تاشے،ڈرم وغیرہ بنائے جاتے ہیں ۔ یہاں نادرعلی اینڈ سنز کے نام سے ایک بہت معروف کمپنی ہے جو میوزیکل انسٹیومینٹ (موسیقی کے آلات ) بنانے کے معاملے میںایشیا میں نمبر ون کمپنی ہے۔ اس علاقے کا نام جلی کوٹھی ، کیوں پڑا ، یہ بہت صاف نہیں ہے۔ متعدد روایات ہیں ، جن میں سب سے زیاوہ معتبر یہی ہے کہ یہاں ایک بڑی کوٹھی کبھی جل گئی تھی۔ بہرحال دہلی روڈپر جلی کوٹھی سے متصل ایک چوراہا ہے۔ جس کے ایک طرف نادر علی کی دور تک پھیلی ایک بڑی عمارت ہے،اور اس کے پیچھے جلی کوٹھی ،پٹیل نگر،تھاپر نگر اور سامنے تحصیل ہے۔ جلی کوٹھی سے ہوتا ہوا ایک راستہ چھتری والا پیر،خیر نگر چوراہا،بڈھانہ گیٹ ہوتے ہوئے اندرا چوک پر حفیظ میرٹھی مارگ یعنی ہاپوڑ روڈ میں مل جاتا ہے۔ اس راستے پر بڈھانہ گیٹ کے پاس اسماعیل میرٹھی نیشنل گرلس پی جی کالج ہے،جو شہر میں مسلم بچیون کی اعلیٰ تعلیم کا واحد ذریعہ ہے۔جلی کوٹھی چوراہے سے ایک راستہ ، انکم ٹیکس آفس اور ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی کے میوزیم کے بیچ سے ہوتا ہوا ویسٹ اینڈ روڈ میں جاملتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی یادگاروں کو اپنے دامن میں سمیٹے میوزیم کا ہرا بھرا وسیع و عر یض احاطہ ۔ یہاں ایک بہت بلند چوکور مینار ہے۔ غالباً 100 فٹ ہوگا۔ اس کے دائرے نما سفید سنگ مرمر کے پتھروں کی بنی کھلی راہداری میں اُن ۸۵ سپاہیوں کے نام درج ہیں جنھوں نے شیخ پیر علی ، امیر قدرت علی اور ماتا دین کی رہنمائی میں ۹؍مئی ۱۸۵۷ کو چربی لگے کارتوس چلانے سے منع کر دیا تھا۔ جس کی سزا کے طور پر ان کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں وکٹوریہ جیل میں قید کیا گیا۔ جنھیں ان کے ساتھیوں نے ۱۰؍مئی کو رہا کرایا اور ان کی بیڑیاں اور ہتھکڑیاں ، شاہ پیر گیٹ پر ایک لوہار سے کٹوائیں ۔ یوں پہلی جنگ ِ آزادی کا بگل بج اُٹھاتھا۔ایک راستہ ، جسے دہلی روڈ کہاجاتاہے، ایک طرف بیگم پل، گاندھی باغ، مودی پورم ، کھتولی ہوتا ہوا مظفرنگر چلا جاتاہے اور دوسری سمت فیض عام ، ریلوے روڈ چوراہا ، ڈی این کالج ، باغپت چوراہا، پرتا پور ، مودی نگر ،مرادنگر ، موہن نگر،( غازی آباد)سے دہلی کی طرف جاتاہے۔
چوراہے پربھیڑ لگی تھی اور بائیکرس کرتب دکھا رہے تھے ۔ منّا کو بھی جوش آگیا ۔ اُس نے اپنے ساتھیوںکو اُتارا اور خود بھی کرتب بازی میں شامل ہو گیا۔ منّا نے بائیک پر خوب کرتب دکھائے کہ سب حیران رہ گئے ۔ پہلے سے کرتب کرنے والے لڑکوں کو اپنی سبکی محسوس ہوئی تو وہ گالی گفتار اور ہنگامے پر اتر آئے۔
’’چل بے۔۔۔ او قصائی کے ۔۔۔ ابھی نکالوں تیرے کرتب ۔۔۔ جہاں سے آیا ہے وہیں گھسیٹڑ دوں گا۔‘‘
ایک لڑکے نے غصّے سے نے قابو ہو کر منّا پر حملہ بول دیا۔ منّا کہا ں چوکنے والا تھا۔اس نے حملہ آور کی گرون دبوچ کر ایسی پٹحنی دی کہ وہ زمین پر آرہا ۔ایک لمحہ ضائع کیے بنا منّا نے اس کی دونوں جانگھوں کے درمیان زبردست لات ماری ۔ذبح ہوتے بکرے کی سی چیخ بلند ہوئی۔ چیخ سن کر اس کے دوسرے ساتھی جو منّا کو گھیرنے کی تیاری میں تھے ، بھاگ لیے ۔ منّا کے دوستوں نے بھی مورچہ سنبھال لیا تھا۔ بھاگتے ہوئے ایک کو سلطان نے پکڑ لیا ۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کی خوب حجامت بنائی ۔
’’ لے بہن۔۔۔ وہیں چلا جا، جہاں سے آیاتھا۔ ‘‘منّا قریشی کی گالیوں سے بھیڑ نے اِدھر اُدھر کا رخ کرنا شروع کردیا تھا۔ اتنے میں پولس کا سائرن سنائی دیا۔ منّا، سلطان اور ان کے دوست بھی بائیک پر سوار ہو کر رفوچکر ہوگئے ۔
ایک بار پھروہ امام کی آواز پر شب برات سے ، رمضان میں واپس آگیاتھا۔ واپسی کچھ ایسی ہوئی کہ بقیہ رکعتوں میں وہ مسجد ہی میں رہا۔ ہوایوں کہ امام صاحب رکعت کی ترتیب بھول گئے ۔ نماز یوں میں بحث شروع ہوگئی تھی کوئی کہہ رہا تھا کہ پندرہ ہوئی ہیں ، کوئی کہتا سولہ ۔ بحث اتنی بڑھی کہ امام صاحب کو مداخلت کرنی پڑی اور دو رکعتوں کو دہرایا گیا۔تھوڑی دیر بعد ۔۔۔شاید چار رکعت بعد ہی ایک نیا معاملہ سامنے آ گیا۔ کسی مقتدی نے لقمہ دے دیا۔سلام پھیرتے ہی امام صاحب کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔
’’کس نے لقمہ دیا ؟ کون تھا۔؟ ‘‘
خاموشی ۔۔نے سب کو ڈھانپ لیا تھا۔امام صاحب کے غصے کے سامنے لقمہ دینے والے کا دم نکلنے کو تیار تھا۔اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔کسی طرح معاملہ ٹھنڈا ہوا اور نماز دوبارہ شروع ہوئی۔تراویح کے بعد وہ گھر آگیا تھا۔ آج ساتواں روزہ اور آٹھویں تراویح مکمل ہوئی تھی بس دو دن میں قرآن مکمل ہو جائے گا۔وہ اور اس کے دوست بھی اس کے ساتھ ہی نماز پڑھ رہے تھے ۔ تراویح کا یہ دس روزہ شبینہ چھپروالی مسجد میں ہو رہا تھا۔ مسجد گذری بازار میں تھی،جس کے اطراف میں قاضی واڑہ،مفتی واڑہ ،کوتوالی، اسماعیل نگر،کرم علی،شاہ نتھن، وغیرہ محلے تھے۔ چھپروالی مسجد سے اس کے گھر کی دوری یہی کوئی دو کلو میڑ تھی ۔ وہ تیواری کیمپس میں اور اس کے دوست مقبرہ ڈگی میں رہتے تھے۔ مقبرہ ڈگی کے آس پاس مچھیران کا علاقہ ہے۔ یہاں زیادہ تر مسلم مچھیرے آباد ہیں ۔ مچھلی بازار کی طرح ان کی آبادی بھی شور شرابے اور ہنگامے کے لیے مشہور تھی ۔ چھوٹی چھوٹی بات پر چاقو نکلنا اور گولی چل جانا یہاں عام بات تھی ۔ کئی بار یہاں کے جھگڑوں سے شہر میں فساد ہوتے ہوتے بچا ہے۔ پولس بھی یہاں بہت آسانی سے داخل نہیں ہوتی ہے۔ فساد کا کیا ہے ، میرٹھ فساد کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھاجب ہندومسلم عوام نے مل کر ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے چھکے چھڑادیے تھے ۔ اب نفرت کی فصلیں کاٹتے تھے۔بات بات میں جھگڑا ، ذاتی معاملات اور تو تو، میں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اختیار کرلیتی ۔ 1982اور 1987 کے فساد بہت ہولناک اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے تھے۔ ملیا نہ اور ہاشم پورہ کا خونی منظر نامہ اور گنگ نہر مرادنگر میں بے گناہ مسلمانوں کو مارمار کر بہادینے کا انتہائی ذلیل واقعہ آج بھی میرٹھ کے بھائی چارے کے نام پر بدنما داغ کی مانند ہے۔
اگلے دن سلطان جب عشاء اور تراویح کے لیے چھپر والی مسجد پہنچا تو وہا ں ایک اور تماشا منتظر تھا۔ ایک دن بعد تراویح کی نماز پوری ہونے والی تھی ۔ اس لیے امام صاحب کے نذرانے کے لیے چندہ شروع ہو گیا تھا۔میرٹھ میں نذرانے کا رواج بھی پرانا ہے۔یہاں زیادہ تر مساجد میں تراویح مکمل ہونے پر اچھی خاصی رقم حافظ صاحب (اگر امام بھی ہو تو) کو مل جاتی ہے۔ تحفے تحائف بھی خوب ملتے ہیں۔ کئی مسا جد میں لاکھوں روپے امام کی نذر کیے جاتے ہیں۔ شہاب وہاں پہلے سے ہی موجود تھا اور چندہ کرنے والو ں میں پیش پیش تھا۔ ایک دو ڈاکٹرز اور انجینئر بھی مستقل تراویح پڑھ رہے تھے وہ امام صاحب کو نذرانہ دینے کے خلاف تھے ۔ بات تو ، تو میں ،میں سے جھگڑے کی صورت اختیار کر رہی تھی ۔ شہاب ،دین کے معاملے میں بہت ضدی تھا۔ اسے جو با ت سمجھ میں آجاتی ، پھر وہ پتھر کی لکیر بن جاتی ۔ رمضان کے مہینے میں وہ سارے غلظ کام چھوڑ دیتا تھا۔ ورنہ عام دنوں میں سٹہ لگانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ آئی پی ایل کے زمانے میں اس نے خاصی رقم کمائی تھی۔ سلطان جیسے کماتاویسے ہی خرچ کرتا دوستوں کو فلمیں دکھاتا ، ہائی فائی ہوٹلوں میں کھانا اور کباڑی بازار کے چکر بھی لگالیتا۔ مسجد کا معاملہ ہاتھا پائی کو پہنچتا اور شہاب بے قابو ہو تا ، اس سے قبل ہی سلطان نے دانش مندی سے معاملہ آخری دن پر ملتوی کر اکے نماز کے لیے راہ ہموار کی۔
امام صاحب ۲۷ ویں پارے میں آگئے تھے ۔ سلطان کو اس کا علم سورہ رحمن سے ہوا ۔ اسے سورہ رحمن بہت پسند تھی۔ اس نے بہت غور سے قرآت سنی ۔ اس کے بعد پھر قرآت میں لفظ گڈ مڈ ہونے لگے۔ رفتار نے توجہ کو منتشر کر دیا ، اور وہ دماغ کی سڑک پر ٹہلتا ہوا شب برات میں پہنچ گیا۔
دوستوں کا ٹولہ میرٹھ کے زیادہ ترقبرستانوں شاہ پیر قبرستان ، شاہ ولایت ، گلزار ابراہیم ، تیج گڑھی قبرستان کی سیر کرتا ، راستے میں پڑنے والی مساجد میں دو رکعت نفل ادا کرتا اور چائے وغیرہ کا لطف اُٹھاتا ہوا اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ اب بالے میاں قبرستان رہ گیا تھا ۔ جس کے بعد انہیں جامع مسجد پہنچنا تھا۔ بالے میاں ایک بزرگ تھے جو کئی صدی قبل یہاں آئے تھے اور یہیں پیوندِ خاک ہوئے۔ اس قبرستان اور اس سے ملحق بڑے سے میدان پر صدیوں سے نوچندی میلہ لگتا آیاہے۔مسلمان اسے نئے چاندکی مناسبت سے نوچندی کا میلہ مانتے ہیں تو ہندو بھائی بالے میاں کے مزار کے بالمقابل واقع چنڈی دیوی کے مندر سے جوڑتے ہیں ۔ ایسے یہ میلہ بر سہا برس سے ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہے۔ ہر سال ہولی کے بعد یہ میلہ شروع ہوتا ہے اور تقریباً دو ماہ تک پورے زوروشور سے جاری رہتا ہے۔ یہاں کے مشاعر ے اور کوی سمیلن بہت مشہور ہیں ۔
میرٹھ قینچی ریوڑی ، گزک ، کباب ، کھیل کا سامان اور سوتی کپڑے کے لیے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ بعض بڑے بڑے محلّوں میں گھر گھر میں قینچی بنانے اور کپڑے بُننے کے کارخانے لگے ہیں ۔ سورج کُنڈ روڈ پر کھیل کے سامان بنانے اور فروخت کرنے والوں کے کارخانے اورشوروم ہیں۔ یہاں کے بنے کرکٹ بلّے ، پوری دنیا کی کرکٹ ٹیمیں استعمال کرتی ہیں ۔ یہی معاملہ ریوڑی اور گزک کا ہے۔ سردیوں میں میرٹھ کی تقریباً ہر بڑی چھوٹی دکان پر ریوڑی گزک فروخت ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔معروف فکشن نگار انتظار حسین( جن کا دیرینہ تعلق میرٹھ سے تھا) پاکستان میں دم ِ آخر تک بھی خیر نگر کے کباب،گذری بازار کی ریوڑی،گھنٹہ گھر کی لسی اور ودیار تی والوں کے کرتے یاد کرتے رہے۔ سورج کنڈ روڑ پر سورج کنڈ پارک ہے ۔اس کی بھی تاریخی اہمیت ہے۔ ۱۸۵۷ء کے معاملے سے قبل یہاں کچھ فقیر آکر رکا کرتے تھے جنھوں نے روٹیوں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف فضا ساز گار کی تھی۔
چاروں نے پہلے بالے میاں کے مزار ، پھر قبرستان کی زیارت کی۔ فاتحہ پڑھی ۔ پھر مسجد میں جاکے نفلیں پڑھیں ۔ تقریباً ساڑھے تین بج چکے تھے ، اور سحری کا وقت ختم ہونے میں چالیس منٹ کا وقفہ اور تھا۔ آخر میں بائیک ایک بار پھر سے منّا قریشی کے ہاتھوں میں تھی ۔ تینوں دوستوں کی پشت پناہی میں منّا نے ہاپوڑ روڈ پر آتے ہی بائیک کو چوتھے گیئر میں ڈالا اور ایکسیلیڑ کا دباؤ بڑھایا۔ بائیک ہوا سے باتیں کرنے لگی ۔ ہاپوڑ چوراہا آیا تو منّا نے کچھ رفتار کم کرلی ۔ ہاپوڑ چوراہا بھی میرٹھ کا مشہور اور معروف ترین چوراہا ہے۔ یہاں اکثر جام کی حالت بنی رہتی ہے۔ یہاں سے میرٹھ شہر میں ایک عجیب سی تقسیم عمل میں آتی ہے۔ یہاں سے ایک راستہ تیز گڑھی چوراہا ہوتاہوا کٹھور اور پھر گڈھ سے مرادآباد ، حتیٰ کہ لکھنو تک چلا جاتا ہے۔ اس روڈ پر دونوں طرف ہندو آبادی ہے۔ اس کے بر عکس ہا پوڑ چوراہے سے ایل بلاک تراہا، نوگزہ پیر سے کھر کھودہ ، پھر ہاپوڑ سے بلند شہر ، علی گڈھ ہوتا ہوا کانپور تک چلا جاتا ہے۔ اس روڈ پر نوگزہ پیر تک دونوں طرف کثیر مسلم آبادی والے محلّے اسلام آباد ، تالا فیکڑی ، قدوائی نگر،شام نگر، ذاکر کالونی ، ہمایو ں نگر ، جمنا نگر،شاستری نگر سیکٹر۱۲ اور۱۳ ، کریم نگر، ڈھوائی نگر، رام باغ زیدی فارم ،زیدی نگر سوسائٹی وغیرہ آباد ہیں۔
ہاپوڑ رچوراہے پر کرتب بازی جاری تھی ۔ چاروں دوستوں نے بھی شرکت کی ۔ یہاں شہاب اور حسن شاہ نے بھی ہاتھ آزمائے۔لیکن سب کو منّا قریشی کے کرتب دیکھنے تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر منّا نے بائیک سنبھالی ۔ بائیک کو ہاتھ چھوڑ کر چلایا ۔ ایک بار بائیک کی سیٹ پر کھڑے ہوکر چلایا۔ تیز بریک لگاکر کبھی اگلا اور کبھی پچھلا پہیا ہوا میں لہرایا۔ منّا پر جنون سا سوار ہو گیا تھا ۔تالیاںبج رہی تھیں۔’’ منّا منّا‘‘ ۔۔۔ کی آواز نے اس کے خون کی رفتار اور گرمی کو بڑھا دیاتھا۔ جوش میں آکر اس نے ایک خطرناک کرتب کا اعلان کردیا۔
’’اے اپنی اپنی ماؤں کے بچو!، چلو ہٹو! میں تمہیں ایک نیا کرتب دکھاتاہوں ۔۔۔ میں دو بائیکوں پر بہ یک وقت سواری کروں گا۔۔۔‘‘
دوسری بائیک کا انتظام فوراً ہوگیا۔ ایک بائیک سلطان نے سنبھالی اور دوسری حشمت نام کے مقامی لڑکے نے ۔ منّا کا ایک پاؤں ایک بائیک پر اور دوسرا دوسری پر ۔ اُس نے کرتب دکھانے سے قبل ہی دونوں با ئیکرس کو سمجھادیا تھا کہ اپنی رفتار ایک جیسی رکھنی ہے۔ دراصل منّا نے یہ کرتب اپنے پھوپھی زاد بھائی سے سیکھے تھے ۔وہ میلوں میں کرتب دکھانے کا کام کیا کرتے تھے۔ منّا نے کرتب توسیکھے پر اس پیشہ کو نہیں اپنایا، وہ اپنے خاندانی پیشے ہی میں مست تھا۔شبِ برات اور دیگر مواقع پر جب سڑکیں سنسان ہوتیں ، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرتب دکھاتا ۔ کرتب کے ساتھ ساتھ گالیاں بکنا بھی اس کا معمول تھا۔ رمضان میں گالیوں پر یوں بریک لگ جاتا ،گویا کسی نے بائیک کو بریک لگاکر ایک پہیے پر کھڑا کر دیاہو۔ کہ ذراسی بے احتیاطی بھی بائیک کا توازن بگا ڑ سکتی ہے۔ تقریباً یہی معاملہ منّا کا رمضان میں ہوتا تھا۔ وہ گالی نہ بکنے کا مصمم ارادہ کر لیتا تھا لیکن اگر کسی نے پہل کی تو وہ پھر روزے کا خیال بھی بھول جاتا تھا۔
دو بائیکوں پر سوارمنّا قریشی نے زبردست توازن کا مظاہرہ کیا،ارد گرد کھڑے جم ِ غفیر نے تالیاں بجانی شروع کردیں ۔۔۔ منّا نے اپنی ٹانگیں پھلا کر دونوں بائیکوں کی دوری کو کور کیا۔
’’منّا منّا۔۔۔ منّا دی گریٹ ‘‘، کی آوازوںسے ماحول پر جوش بنا ہوا تھا۔
تالیوں کے شور میں دبی پولس کے سائرن کی آواز قریب آنے پر سنائی پڑی ۔ مجمع میں بھگدڑ سی مچ گئی ۔ سلطان تو موقع کی نز اکت سمجھتے ہوئے اپنی بائک کی رفتار کو یکساں رکھے ہوئے تھا۔ حشمت پر پولس کی دہشت طاری ہوگئی اور اس کاایکسیلیٹرپر اچانک دباؤ بڑھ گیا ۔ اس کی بائیک تیز رفتاری سے آگے نکل گئی ۔ سلطان کی بائیک ایک طرف گری اور منّا قریشی کا جسم ہوا میں یوں اُچھلا گویا کسی نے ٹیڈی بئیر اچھالا ہو۔ حشمت بھی دور جاکر گرا ، لیکن وہ جلد ہی سنبھل کر بائیک چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلا ۔ منّا قریشی پہلے بجلی کے کھمبے سے ٹکرایا اور بعد میں ڈیوائڈر کی ریلنگ پر آکر گرا اور ریلنگ کے اوپر نکلے ہوئے لوہے کے سریوںمیں پھنس گیا۔ فلک شگاف چیخ ، لمحہ بھر میں ہی خاموش ہوگئی تھی ۔ آناً فاناً اُسے اتاراگیا لیکن وہاں منّا کہاں تھا، وہ تو کرتب دکھاتا بائیک پر سوار آسمان کی سیر کو نکل چکا تھا۔
’’ منّا۔۔۔منّا۔۔۔‘‘
وہ زور سے چیخا تو امام صاحب اس کی طرف دوڑے ۔ تراویح کے بعدو تر کی نماز بھی ہوچکی تھی لوگ سنت پڑھ کر جاچکے تھے۔ اکا دکا نمازی مسجد میں مصروف ِنماز تھے۔ سلطان قاعدے کی حالت میں تھا ۔ امام صاحب نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’ کیا ہوا۔۔۔؟ کیا ہوا۔؟‘‘
’’کچھ نہیں ! ‘‘ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔
اگلے دن ختم قرآن میں سلطان ، شہاب کے ساتھ تھا۔ امام صاحب نے اس پر درودھ پڑھ کر دم کیا تھا۔ اب اس کی حالت بہتر تھی ۔ اُس نے سارے کرتب چھوڑ کر اللہ سے لو لگا لی تھی۔ اب اس کا زیادہ تر وقت مسجد میں گذرتا ۔ وہ بالے میا ں قبرستان جانا بھی نہیں بھولتا۔ جہاں منّا ، بائیک پر سوار اس کا انتظار کر رہا ہوتا ۔
اس کی گالیاں ، اس کا پیچھا کرتیں اور وہ تیز قدم چلتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوجاتا۔
جیسے ہی وہ نماز کی نیت باندھتا ، اور آنکھیں بند کرتامنّا قریشی اُسے بائیک پر سوار ہنستا ہوا نظر آتا ،ا ور وہ ’’منّا۔۔ منّا ۔۔‘‘آواز دیتا اس کے پیچھے پیچھے دور خلاؤں میں نکل جاتا۔

٭٭٭
Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu, CCS University, Meerut
[email protected]
09456259850,/8279907070(Whatsapp)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here