بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے!- We came out of your coach with great disgrace!

0
55

عبید اللّہ فیضی
پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک الگ طرح کا ہنگامہ برپا ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ایک خصوصی پلیٹ فارم ٹویٹر پر جس پر شاید موجودگی ان لوگوں کی زیادہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جو سماج و ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواہاں ہیں۔یہ ہنگامہ اس وقت سے ہے جب سے کسان تحریک میں صحافیوں کو گرفتارکر کے ان پر مقدمات درج کئے گئے، کسان تحریک کی آواز بن کر ان کی آوازوں کو عوام تک پہنچانے والے مشہور ترین ایکٹوسٹ، سماجی کارکن، اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدان اور مختلف اہل علم و قلم کار وغیرہ کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کر دیئے گئے وہ محض اس لئے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم کے متعلق یہ ٹویٹ کیا تھا کہ وہ کسانوں کو مروانا چاہتے ہیں، ہندوستان میں ٹویٹر کو منیجمنٹ کرنے والے لوگ کسی ایک خاص پارٹی کی غلامی و چاپلوسی کر رہے ہیں، ہندوستان میں ٹویٹر سنگھی ہو گیا ہے۔ اس پر حکومت نے بنا کسی جانچ پڑتال کے، بنا کوئی رائے جانے لاکھوں فالورز و کروڑوں لوگوں تک خبریں فراہم کرنے والے اکاؤنٹ بند کر دیئے یہ تمام ٹویٹر اکاؤنٹس ہندوستان کے وہ چنندہ اکاؤنٹ تھے جو فی الوقت حکومت کے دلوں و آئی ٹی سیل والوں کو تابڑتوڑ جواب دیتے تھے مزید ان اکاؤنٹس کو بند کرنے کی وجہ ہوم منسٹری نے یہ بتایا کہ یہ ٹویٹر اکاؤنٹ کسان تحریک کو اشتعال اور لوگوں کو بھڑکانے والے نظریات پیش کرتے ہیں جبکہ ان اکاؤنٹس کے ذریعے صرف کسانوں کی حمایت اور وہاں ہو رہے حقائق پیش کئے جا رہے تھے ۔
یہ دیکھ کر لوگ اس بات سے حیران ہیں کہ ان اکاؤنٹس میں صرف سماجی کارکن و ایکٹوسٹ کے اکاؤنٹ ہی نہیں شامل ہیں بلکہ جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے میڈیا ہاؤسز کے ویریفائڈ اکاؤنٹ کو لاک کیا گیا ہے جن میں کارواں میگزین سرفہرست ہے اس کے علاوہ کسان ایکتا مورچہ، ٹریکٹر ٹویٹر، مشہور اداکار سشانت سنگھ، معروف سماجی کارکن محمد آصف خان، نوجوان لیڈر ہنس راج مینا کے اکاؤنٹس شامل ہیں ۔
بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق کم و بیش ٢٥٠ اکاؤنٹس پر حکومت نے نظر کشی کی اور انھیں ڈیلیٹ کرا دیا ۔ آخر کیوں؟ محض اس لئے کہ یہ تمام عوام کی آواز بن کر ان کی حمایت کر رہے تھے اس لئے؟ یا پھریہ کہ حکومت ان سے ڈر گئی تھی؟ خیر اگر اسے ہم اعلانیہ طور پر حکومت کے ذریعے کی جانے والی ایک متعصبانہ ایمرجنسی کہیں تو کوئی غلط بات نہیں ہو گا جس کو حکومت نے عوام کے ڈر سے انجام دیا جو کہ ایک جمہوری ملک میں سرا سر غلط ہے بحر حال شدید ردعمل کے بعد چند گھنٹوں میں تمام ٹویٹر اکاؤنٹ واپس کرنے پڑے، عالمی سطح پر بے عزتی کرانے کے بعد ہی یہ حکومت پریشر میں آتی ہے خیر! اپنا اپنا مزاج ہے لیکن اوقات میں رہنا چاہیے
قارئین! سوشل میڈیا پر یہ ہنگامہ تب مزید طول پکڑا جب کسان تحریک کو لے کر بین الاقوامی سطح پر آواز بلند ہونی شروع ہوئی ان آوازوں میں تین لڑکیوں کی آوازیں گریٹا تھنبرگ، رہانا و میاخلیفہ کی تھیں جن کے ایک ٹویٹ نے ہندوستانی حکومت کی دھجیاں اڑا دیں اس ضمن میں ہندوستان حکومت نے ایک نرالا رویہ اختیار کرتے ہوئے، وہ ہتھیار اپنایا جو عوام کی پسندیدہ تھی یا یوں کہیں کہ عوام کے پسندیدہ ستارے یا اسٹارز جن کی وجہ سے ان ستاروں کو شہرت ملی وہ حضرات کسانوں کی حمایت نہ کر کے حکومت کے حوالے سے لفاظیاں کرنے لگے ایک ایسا دن جس دن ہندوستان کا ایک باشعور طبقہ، ہندوستانی مردوں کا ایک ایسا گروہ جو پورا دن ایک عورت کے ٹویٹ سے لڑائی کرتا رہا اور اس پر مزید یہ کہ اپنے الفاظ نہ استعمال کر کے پورا کا پورا ٹویٹ کاپی و پیسٹ پر منحصر تھا ۔بیرون ممالک کی ان بہادر لڑکیوں سے ٹویٹر پر لفاظی کرتے ہوئے ہمارے سلیبرٹیز جنہیں ہم اپنا رول ماڈل بناتے ہیں انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے یہ کہا کہ کسان تحریک ہمارے ملک کا معاملہ ہے اس میں کسی غیر ملک کے عوام کو دخل اندازی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم تمام ملک والے ایک ساتھ ہیں ۔
ایک ایسا جملہ جو نہایت ہی شرمندگی کا باعث بناتا ہے اسے ہمارے ملک کے فلم اسٹارز اکشے کمار، اجے دیوگن و سنیل سٹی اور ہمارے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی وراٹ کوہلی، روی شاستری، سچن تندولکر، سکھر دھون، سریش رائنا و انل کنبلے جیسے لوگ اس جملے کی پیروی کرتے ہیں صرف انھوں نے ہی نہیں بلکہ ملک کے اور دوسرے لوگ بھی جو انھیں کی طرح مشہور ہیں ان تمام نے اس جملے کی حمایت کو اقرار کیا اور پورا دن ان لڑکیوں کو ٹویٹر پر ٹرول کرتے رہے ۔
آخر ایسے لوگ ہمارے آئیڈیل و رول ماڈل کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو ہمارے مصائب کے وقت کام نہ آسکیں؟ جو ہمارے کسانوں کی حمایت نہ کر سکیں؟ آج ان تمام ٹویٹ سے میں بذات خود بہت شرمندہ ہوں، جنہیں میں اپنا کہیں نہ کہیں زندگی کے کسی شعبے میں رول ماڈل مانتا تھا ان سے ایسی امیدیں نہیں تھیں ۔اس کے برعکس ان میں کچھ ایسے سیلبریٹیز شامل ہیں جنہوں نے کسانوں کی حمایت کی، ملک کے جمہوریت کا دامن تھامے رہے اور بغیر کسی ڈر و دباؤ کے اپنی باتوں کو اپنے تئیں لوگوں تک عام کیا ۔
اس فہرست میں ہندوستان کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر رہے عرفان پٹھان کا نام سرفہرست کروں گا کیونکہ یہ ایسے مسائل پر ہمیشہ اپنی آواز اٹھاتے ہیں کسان تحریک کو لے کر انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے ایک پرانے واقعے کو کوڈ کرتے کہا کہ ” جب امریکہ میں ایک پولیس والے کو وہاں کے لوگوں کے ذریعے مار دیا جاتا ہے، اس معاملے میں ہم دخل اندازی کر سکتے ہیں تو ہمارے معاملے میں وہ لوگ کیوں نہیں کر سکتے۔عرفان پٹھان کا یہ جملہ ملک کے ان لوگوں کو ناگزیر لگا جو کسانوں کو اتنکوادی، خلستانی و نکسلوادی سمجھتے ہیں، ان کے اس جملے پر پورا دن ان وام پنتھیوں نے ٹرول کیا لیکن وہ اپنے بات پر اڑے رہے ایک کرکٹر کے طور پر عرفان پٹھان کی جتنی عزت تھی، انکی اس زندہ دلی نے ہمارے دلوں میں کروڑوں گنا اور اضافہ کر دیا ہے ۔اس کے علاوہ نام چین ہستیوں میں سے دو اور نام شامل ہیں جنہوں نے بے باکی کے ساتھ اپنے رائے رکھے ان میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے اوپنر بلے باز روہت شرما اور فلمی اداکارہ تاپسی پنو شامل ہیں جنھیں پچھلے کچھ دنوں سے لگاتار ٹویٹر پر ٹرول کیا جا رہا ہے لیکن سچ کے ساتھ کھڑے ہو کر وقت کو اس کا آئینہ دکھانے کے لئے ہم ایسے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
قارئین! علاوہ ازیں کسان تحریک کو بلندیوں تک لے جانے والی، بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے والی لڑکی سے آپ کو روبرو کرانا مناسب سمجھتا ہوں جس کے ایک ٹویٹ سے ہندوستانی حکومت کے کان کھڑے ہو گئے میں بات کر رہا ہوں سویڈش کی ١٨ سالہ گریٹا تھنبرگ کی گریٹا یوروپ میں سویڈن کی ماحولیاتی طالب علم ہیں وہ ابھی صرف ١٨ سال کی ہیں، لیکن عالمی سطح پر ان کی شہرت ہے کیونکہ انھوں نے اپنی ہمت و جدوجھد سے عالمی لیڈروں و حکمرانوں کو ماحولیاتی تحفظ کے لئے للکارا تھا ١٥ سال کی عمر سے اس لڑکی نے سویڈن پارلیمنٹ کے باہر اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی شروع کر دیا تھا جسے پوری دنیا نے سنا اور دیکھا بھی ماحولیات کے میدان میں کئیو اعزاز سے گریٹا کو نوازا بھی گیا اور اس طرح انھوں نے اقوامِ متحدہ تک اپنا نمایاں کردار ادا کیا آج لاکھوں کی تعداد میں لوگ گریٹا کو فالو کرتے ہیں اور ان سے انسپائر بھی ہیں ۔کسان تحریک کو گریٹا کی حمایت ملنے پر ہندوستانی وزیراعظم کو عالمی سطح پر سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ہندوستان ہے، ان شرپسندوں کا ہندوستان جن کے ہاتھ نا جانے کتنے کالے کرتوتوں سے رنگے ہیں پھر بھی وہ حکمرانی کر رہے ہیں انھیں شرپسندوں کے حکم پر ملک کے راجدھانی کے پولیس نے سویڈن میں رہ رہی گریٹا کے اوپر ایف آئی آر درج کیا، گریٹا پر مقدمہ درج کر کے دہلی پولیس نے عالمی سطح پر اپنا چہرہ دکھا دیا ہے کہ کس قدر ہندوستان کے راجدھانی کی پولیس اپنے آقاؤں و رہنماؤں کے ناجائز احکامات کی غلامی کرتی ہے ۔گریٹا جیسی ١٨ سالہ نوجوان لڑکی دنیا بھر کے نوجوانوں کے لئے ہمت و حوصلوں کی نشان ہے کسان تحریک کی حمایت کرنے پر جہاں اسے ٹویٹر پر ان شرپسندوں کے گالیوں و دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کیا گیا ان سب کے باوجود گریٹا نے اپنے موقف سے نا ہٹنے کا اظہارِ رائے پیش کیا ہے اس پر مزید یہ کہ گریٹا نے اپنے ایک دوسرے ٹویٹ میں کھلی طور پر اور مظبوطی کے ساتھ کسان تحریک کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے ۔
آج اس حرکت کے بعد دنیا بھر کے لوگ ہندوستان پر ہنستے اور مزے لیتے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان حکومت اور پولیس کس گمان میں جی رہی ہے؟ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کس حد تک بزدل و کم ظرف ہے کہ اپنے خلاف دوچار ٹویٹ بھی برداشت نہیں کر پاتا ۔ہمارا ملک ہندوستان اور یہاں کے عوام اس گوشے میں ہلکورے کھا رہے ہیں جہاں کے لوگ کبھی ٢٣ سالہ مسلم نوجوان شرجیل عثمانی کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں، تو کبھی مسلم رہنماؤں کے اور اب فی الحال گریٹا تھنبرگ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ( بحوالہ بی بی سی ہندی)۔موجودہ وقت کا ہندوستان بہت ڈرتا ہے، بچوں سے ڈرتا ہے، نوجوانوں سے ڈرتا ہے، عورتوں سے ڈرتا ہے، کاپی قلم و ایک عدد متحرک دماغ رکھنے والوں سے ڈرتا ہے ۔خیر! گریٹا تھنبرگ پر ایف آئی آر کے ٢٤ گھنٹوں کے بعد عالمی سطح پر انڈین پولیس سسٹم پر تطنہ کشی اور ردعمل کے بعد بالآخر دہلی پولیس نے رجوع کر ہی لیا ہے کہ کسی خاص شخص کے خلاف مقدمہ درج نہیں کئے ہیں بس صرف ٹول کٹ پر مقدمہ کئے ہیں ۔جبکہ دی ہندو، انڈین ایکسپریس، این ڈی ٹی وی، دی وائر اور پورے نیشنل میڈیا نے یہ خبر موصول کی تھی کہ دہلی پولیس نے گریٹا تھنبرگ کے خلاف ایف آئی آر درج کیا ہے بحر حال کتے کی دم ٹیڑھی ہی ہوتی ہے اسے کتنا بھی سیدھا کریں، یہ لوگ بھی ایک بار پھر عالمی سطح پر بے عزتی کے بعد اپنے اوقات میں آگئے ہیں ۔
بقول غالب صاحب…..
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن ،
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے !!
اور ہاں! سن لو گریٹا تھنبرگ کو آپ چھو بھی نہیں سکتے، اب وہ محض ایک ١٨ سالہ نوجوان ہی نہیں رہی بلکہ اقوامِ متحدہ کے صفوں میں شامل ہے، عالمی شہرت یافتہ لڑکی ہے، تمہارے یہ دو ٹکے کے ٹویٹ اس کا بال باکہ بھی نہیں کر سکتے اس بات کو تمام شرپسند و ان کے تھنکرز بھی جانتے ہیں اور یہ گھمنڈی، نشے میں دھت حکومت بھی ۔سلام ہے ان تینوں لڑکیوں کو و ان تمام لوگوں کو جنہوں نے کسان تحریک کے لئے آواز بلند کی اور کماحقہ کسانوں کے تئیں پیش پیش رہے اور اس تحریک کو اتنی بڑی تحریک بنائی جو اس جمہوری ملک کے لئے مثال ہو گا ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں زیر تعلیم)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here