پاکستان ہار گیا، ہندوستان جیت گیا

0
99

9415018288

پاکستان ہار گیا، ہندوستان جیت گیا

میرتقی میر نے برسوں پہلے یہ شعر شاید اُن لوگوں کے لئے ہی کہا تھا جنہیں آج دہلی کے انتخابات میں سیٹیں نہیں ملیں، خاص طور سے دہلی میں ایک بار پھر کانگریس کا جو برا حال ہوا۔ کانگریس کا ذکر اس لئے کیونکہ اس نے اپنے اشتہار بہت اچھے بنائے تھے، دہلی کی ترقی میںشیلا دکشت کی یاد دلائی تھی اور یہ کوشش کی تھی کہ دہلی کا الیکشن ترقی پر لڑا جائے، اپنے کئے کام پر لڑا جائے، دہلی کی بہتری کیلئے لڑا جائے کیونکہ کجریوال انہیں مدعوں پر الیکشن لڑرہے تھے، مگر کانگریس کی بدقسمتی کہ اس کے پاس کوئی زندہ لیڈر ہی نہیں تھا اس لئے وہ پوری طرح شیلا دکشت کے نام پر الیکشن لڑرہی تھی لیکن دہلی کی عوام جانتی تھی جو کانگریس نہیں جانتی تھی کہ شیلا دکشت اب اس دنیا میں نہیں ہیں جو وہ دہلی کو ترقی کے راستے پر آگے لے جائیں گی۔
دوسری طرف پاکستان کا نام ایک بار پھر الیکشن میں سرگرم تھا جبکہ پاکستان نام ہے نفرت کا، بے روزگاری کا، اقتصادی مندی، دہشت گردی کا، جو کسی ہندوستانی کو پسند نہیں۔ دہلی کی عوام میں باقی ہندی بھاشی صوبوں کے مقابلے کم اندھی تقلید ہے، وہ تعلیم یافتہ ہے، وہ یہاں پر کام کرنے آئی ہے، یہاں پر پڑھنے آئی ہے اپنا کیریئر بنانے آئی ہے، اس لئے وہ اچھی طریقے سے جانتی ہے کہ ہندوستان نام ہے ایسے گلستاں کا جہاں ہر رنگ کے پھول کھلتے ہیں، ہندوستان نام ہے محبت کا، بھائی چارے کا، میل ملاپ کا، قومی یکجہتی کا، سبھی مذاہب کے تئیں اعتماد کا، یہاں پاکستان کا نام لینے والے کی کوئی ضرورت نہیں، جو ہندوستان کا نام لے کر الیکشن لڑے گا، اس کی ترقی کیلئے لڑے گا، اسے تعلیم یافتہ بنانے کے لئے لڑے گا، اسے صحتمند بنانے کیلئے لڑے گا، اس کی غریبی دور کرنے کیلئے لڑے گا، اسے خودکفیل بنانے کیلئے لڑے گا، اس میں روزگار پیدا کرنے کیلئے لڑے گا، اس کی اقتصادی مندی دور کرنے کیلئے لڑے گا، اس کے رنگ برنگے گلستاں کو آباد رکھنے کیلئے لڑے گا، ہم دہلی میں اسے ہی جتائیں گے شاید اسی لئے 100 ایم پی، کئی ریاست کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی کمان کی اٹوٹ محنت بھی کوئی کام نہ آسکی۔
دہلی کے انتخابی نتائج ہندوستانی سیاست کا نظریہ بدلنے پر مجبور کریں گے، اب انہیں سمجھنا ہوگا کہ اب کوئی بھی پارٹی صرف ڈراکر، دھمکاکر، مذہب کے نام پر، عقیدت کے نام پر،آپس میں بانٹ کر ووٹ نہیٰں حاصل کرسکتے بلکہ ملک کی ترقی کیلئے کچھ کرنا ہوگا، اسے اقتصادی مندی سے نکالنا ہوگا، روزگار پیدا کرنے ہوں گے، ملک سے ناخواندگی کو ختم کرنا ہوگا، ملک کو صحتمند بنانا ہوگا۔
کرکٹ کے جانکار جانتے ہیں کہ جیسی پچ ہوتی ہے ویسے کھلاڑی میدان میں اتارے جاتے ہیں، اگر اسپن پچ ہوتی ہے تو زیادہ اسپنر کھلائے جاتے ہیں اور جب بیرون ممالک میں تیز گیند بازوں کو مدد کرنے والی پچ ہوتی ہے تو تیز گیندباز زیادہ رکھے جاتے ہیں۔ حالانکہ کجریوال کو سیاست میں آئے زیادہ عرصہ نہیںہوا لیکن انہوں نے اپوزیشن کو اس دہلی کے الیکشن میں اپنی کمپین سے بہت کچھ سیکھنے کو چھوڑ دیا، وہ اتنا ہی بولے جتنا بولنے کی ضرورت تھی جبکہ کانگریس زیادہ تر الیکشن اپنے زیادہ بولنے کی وجہ سے ہار گئی، گجرات کے الیکشن میں منی شنکر کا وہ ایک نیچ لفظ ہی ہار کا سبب بنی تھی، دوسرے کجریوال نے نہ صرف شاہین باغ کو اپنے مخالفین کو کیش نہیں کرانے دیا بلکہ سی اے اے اور این سی آر پر بھی نپا تلا جواب دیا، مخالفین نے ایک بار وندے ماترم کہا انہوں نے ہر جگہ وندے ماترم کہا، اپوزیشن نے اگر جے شری رام کہا تو انہوں نے اس سے زور جے ہنومان کہنا شروع کردیا، اپوزیشن نے ایک بار پاکستان مردہ باد کہا، کجریوال نے ہر جگہ پاکستان مردہ باد کہا یعنی کجریوال نے اپنے اپوزیشن کے اسلحوں کو ہی اپنی ڈھال بنایا، نتیجہ آپ کے سامنے ہے، اسی لئے وہاٹس ایپ یونیورسٹی پر سرگرم ہے کہ جب کسی نے دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری سے جاننا چاہا کہ یہ پرُاعتماد 48 سیٹوں کا اعداد و شمار آپ کہاں سے لائے تھے؟ تو انہوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ کیا کریں جس سے پوچھتا تھا کہ ووٹ آپ نے کس کو دیا تو سب کہتے تھے کہ آپ کو، ہم سمجھے کہ ہم کو لیکن جب انتخابی نتائج آئے تو پتہ چلا کہ وہ ’آپ‘ ہم نہیں عآپ پارٹی تھی۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here