گجرات میں لوجہاد قانون کی سیاسی ضرورت – The political necessity of jihad law in Gujarat

0
135

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


The political necessity of jihad law in Gujarat

ڈاکٹر سلیم خان
گجرات میں بی جے پی گزشتہ ربع صدی سے برسرِ اقتدار ہے لیکن اس طویل عرصے کے بعد اسے اچانک اس نے ’لو جہاد‘ کاقانون وضع کردیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ آخر فی الحال وہاں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ سیاسی نکتۂ نظر سے دیکھیں تو اس کی ڈانڈے ڈیڑھ ماہ قبل منعقد ہونے والے شہروں اور دیہاتوں میں بلدیاتی انتخاب سے جڑ جاتا ہے۔ ریاست کے بڑے شہروں کی بیشترمیونسپلٹی پر پہلے سے بی جے پی کا قبضہ رہا ہے ۔ ان مقامی اداروں کا بنیادی کام شہری سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس فرض منصبی میں وہ سب ناکام ہوچکی تھیں اس لیے امکان تھا کہ لوگ متبادل تلاش کریں ۔ اس وقت کسان تحریک بامِ عروج پر تھی ۔ اس کے سبب ہریانہ اور راجستھان میں بی جے پی کا سپڑا صاف ہوچکا تھا۔ ایسے میں عوام کے جذبات بھڑکانے کے لیے لوجہاد کو اچھالا گیا حالانکہ اس کا تعلق بلدیات سے نہیں صوبائی حکومت سے ہے۔ بی جے پی اگر سارے میونسپل الیکشن ہار جاتی تب بھی وہ اسمبلی میں اپنی اکثریت کی مدد سے یہ قانون بنا سکتی تھی ۔ اس لیے وہ مقامی انتخاب میں اس کاذکر بے محل تھا لیکن پھر اس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
بلدیہ کے انتخابات کے دوران عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے یہ تجربہ کیا گیا اور لوگوں نے اس کےجھانسے میں آکر بی جے پی کو کامیاب کردیا۔ بی جے پی کے سارے پاپ لوجہاد کی سابرمتی میں بہہ گئے اور وہ پوتر( پاک صاف ) ہوکر انتخاب جیت گئی حالانکہ دو دن بعد ہی دہلی کےضمنی انتخابات میں اسے پھر سے منہ کی کھانی پڑی اور سارا مزہ کرکرا ہوگیا۔وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے لو جہاد کا راگ 14فروری 2021 کو بڑودہ کے نظام پورہ علاقہ میں چھیڑا۔ وہاں پر عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وہ خود اس قدرجذباتی ہوگئے کہ اچانک طبیعت بگڑ گئی اور وہ دورانِ تقریر بیہوش ہو کر گرگئے۔ اسٹیج پر موجود سلامتی دستوں کے جوانوں نے ان کو فوراً سنبھالا اور بڑودہ کے کسی دواخانے میں بھرتی کرانے کے بجائے ۱۱۱ کلومیٹر دور احمد آباد کے مہتا اسپتال لے گئے۔ وزیر اعلیٰ کو ممکن ہے بڑودہ کے رائے دہندگان کی مانند ڈاکٹروں پر بھی اعتماد نہ ہو ۔
اہم سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں کو اصل فکر اپنی کرسی کی ہوتی ہے ۔ ان انتخابات میں اگر بی جے پی ہار جاتی تو یقیناً روپانی کو شاہ جی کی دوستی کسی کام نہ آتی۔ روپانی جانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی کسی وفادار یا احسانمند نیںا ہوتا ۔ انسان جب بے فائدہ یا نقصادن دہ ہوجائے تو بلاتکلف اس کو ٹیشو پیپر کی مانند کوڑے دان کی نذر کردیا جاتا ہے اور یہی سلوک ان کے ساتھ ہوجاتا لیکن لوجہاد کے خیالی خوف نے ان کی ڈوبتی کشتی پار لگا دی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسمبلی کا اگلا انتخاب انہیں کی قیادت میں لڑا جائے گا۔ احمد آباد میں مہتا اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر کے پٹیل نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد پہلے تو کہا تھا کہ ان کی صحت مستحکم ہے کیونکہ تمام رپورٹیں پوری طرح ٹھیک ہیں۔ اس کے باوجود چونکہ وہ امیت شاہ کے چہیتے ہیں اس لیے انہیں 24 گھنٹے کی نگرانی میں رکھا گیا ۔ یہ غشی کا طاری ہونا ممتا کے پلاسٹر کی مانندتھا یا حقیقی تھا ؟ یہ کسی کو نہیں معلوم لیکن کسی نے روپانی پر ہمدردی بٹورنے کے ناٹک کا الزام نہیں لگایا کیونکہ ہر کوئی بی جے پی سطح پر نہیں اتر پاتا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے فون کر کے روپانی کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا اور انہںا نے آرام کرنے کا مشورہ دیا حالانکہ سیاست کی دنیا میں الیکشن سے پہلے کام اور بعد میں آرام ہی آرام کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کے سیاسی اکھاڑے میں آرام کرنے والوں کو ٹھکانے لگادیا جاتا ہے جس کی ایک مثال کیشو بھائی پٹیل تھے اور دوسری لال کرشن اڈوانی ہیں۔ یہ قسمت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ اڈوانی نے مودی کے لیے کیشو بھائی کو آرام کرنے کے لیے بھیجا اور مودی نے خود اڈوانی کے ساتھ کیشو بھائی والا سلوک کردیا ۔ جمہوری سیاست میں احسانمندی کا پاس و لحاظ اس طرح رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آر کے پٹیل نے اپنے وی آئی پی مریض وجئے روپانی کی ای جی سی اور سٹی اسکین سمیت کئی ٹیسٹ کرنے کے بعد اطمینان کا اظہار کیا تھا مگر کورونا کی رپورٹ اس وقت تک نہیں آئی تھی۔ آگے چل کر موصوف کورونا ر پازیٹیو پائے گئے اور اس کے بعد وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرنا ان کی مجبوری بن گیا ۔ یہ وہی وجے روپانی ہے جس نے گجرات میں کورونا کے پھیلاو کی خاطر تبلیغی جماعت کے مرکز کو کمال بے حیائی کے ساتھ ذمہ دار ٹھہرایا تھاحالانکہ اس وقت وزارت صحت نے مرکز کے اجتماع میں شریک ہونے والے شرکاء کی جوفہرست شائع کی تھی اس میں ایک بھی فرد گجرات کا نہیں تھا لیکن مودی اور شاہ کی صحبت میں رہ کر اگر روپانی یہ فن بھی نہیں سیکھتے تو انہیں ایسی اہم ذمہ داری پر کیونکر فائز کیا جاتا۔ خیر مشیت نے امیت شاہ کے بعد ان کے دست راست وجئے روپانی کو بھی کورونا کا مزہ چکھا دیا۔
گجرات اسمبلی میں حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے 2003 میں آزادیٔ مذہب ایکٹ کا ترمیمی بل پیش کیا۔ یہ ترمیم بنیادی طور پر لوجہاد نامی مفروضے کی روک تھام کے لیے تھی ۔ اس میں مذموم لفظ کا استعمال اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ فی الحال اس کی آئینی حیثیت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے اترپردیش اور اتراکھنڈ کی ریاستی حکومتوں کو جواب داخل کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔فی الحال ماہرین قانون کی رائے تو اس قانون کے خلاف ہے مگر آج کل چونکہ عدالتوں کے فیصلے اربابِ اقتدار کی مرضی کے تابع ہو تے ہیں اس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس موضوع دہلی کے معروف صحافی آفتاب عالم نے کئی ماہرین قانون سے گفتگو کی ۔ ان میں سے سبھی رائے ہے کہ یہ قانون عدالت میں ٹک نہیں سکے گا۔ وہ اس کے حق میں پیش کیے جانے والے روایتی بیانیہ مسترد کرکے ان دعووں کوسفدے جھوٹ اور مسلمانوں کے خلاف کھوکھلا پروپگنڈا قرار دیتے ہیں ۔
کراالہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولس این سی استھانا کے مطابق ہندو لڑکوھں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادی کرنے پر مجبور کرنے سے روکنے کے لیے ملک کی مختلف ریاستوں مںر پہلے سے ہی جبراً تبدییِک مذہب کے خلاف قانون موجود ہونے کے سبب اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔یہ قانون گجرات میں پہلے سے موجود ہے اور اب اس کے اندر ترمیم کی گئی ہے اس طرح مدھیہ پردیش کے بعد اس قانون کی حامل وہ نویں ریاست بن گئی ہے۔ جبراً شادی کرنے والوں کے خلاف اغوا کرنے کا مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔اس جرم کی سزا پانچ کے بجائے دس سال ہے۔2013 میں بین ا لمذاہب شادیوں کا سروے اس کی شرح صرف 2.21 فصد بتاتاہے ۔
گجرات سے قبل مدھیہ پردیش کابینہ نے بھی نام نہاد ’’لوجہاد‘‘ پر قابو پانے کیلئے تبدیلی ٔ مذہب قانون کے مسودہ میں ترمیم کرکے ۱۰؍ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کا التزام کیا ۔ مجوزہ قانون میں مجرم ثابت ہونے تک بے قصور سمجھے جانے کے آفاقی اور انصاف کے بنیادی اصول کو بالائے طاق رکھ کر اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دی گئی ۔ باالفاظ دیگر ایک بار ملزم بنائے جانے کے بعد پولیس کو یہ نہیں ثابت کرنے سے آزاد کردیا گیا ہے کہ الزامات درست ہیں۔ مجوزہ قانون کے تحت کسی کو مذہب تبدیل کرنے کیلئےمجبور کرنے پر ایک سے ۵؍ سال قید اور ۲۵؍ ہزار روپے جرمانہ کی سزا رکھی گئی ہےلیکن اگر تبدیلی مذہب کیلئے مجبور کیا جانے والا فرد درج فہرست ذات وقبائل کا یا نابالغ ہے تو سزا ۲؍ سے ۱۰؍ سال تک اور جرمانہ ایک لاکھ روپے تک ہوسکتاہے۔ اس میں مذہب تبدیل کرنے کے متمنی افرادکے لیے ۲؍ ماہ قبل حکومت کو اطلاع دینا لازمی کردیا گیا ہے۔
یہ تو تھی کاغذی ہمدردی لیکن وہاں پرخواتین کی درگت کا اندازہ 30 مارچ 2021کی اس شرمناک خبر سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ایم پی پولیس کو علی راجپور ضلع میں 6؍ افراد کو اس وقت گرفتار کرنا پڑا جب گاؤں والوں نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی شکار ایک 16؍ سالہ بچی کو اس شخص کے ساتھ پریڈ کروائی جس پر زیادتی کا الزام تھا ۔ گرفتار ہونے والوں میں عصمت دری کا ملزم اور اس واقعے میں ملوث5؍ دیگر افراد شامل ہیں۔اس سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو وائرل موجود ہے۔اس میں شکایت کنندہ اور ملزم، دونوں کو رسیوں سے بندھے ہوئے نظر آ تے ہیں ۔ ان کے گرد پریڈ کرانے والے مرد بھی نظر آتے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ان دونوں کو پریڈ سے پہلے پیٹا گیا ۔
قارئین اگر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی مذموم حرکت کو انجام دینے والے کون لوگ تھے تو اس کی چغلی ظالموں کے نعروں نے کردی ہے ۔ وہ لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے ۔ اس ملک میں جنگ آزادی کے دوران انقلاب زندہ باد اور جئے ہند کا نعرہ لگایا گیا لیکن سنگھ پریوار اس وقت انگریزوں کے ساتھ ساز باز کررہا تھا۔ آزادی کے بعد اس نے اپنی خجالت مٹانے اور منفرد تشخص قائم کرنے کے لیے بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگایا اور یہ لو اپنے ظلم و جبر کا جشن اس نعرے کے ساتھ مناتے ہیں ۔ لوجہاد پر قانون دراصل ملک میں خواتین کے سنگین ماھئل کی پردہ پوشی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔اعدادو شمار اس حقیقت کو بھی کھول کر بیان کرتے ہیں کہ جن صوبوں میں مظالم زیادہ ہیں وہیں یہ قانون بنایا جارہا ہے تاکہ عوام کی توجہ ہٹا کر انہیں بیوقوف بنایا جاسکے ۔
٭٭٭

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here