اقلیتوں کے حقوق پر اکثریت کی بالادستی کا ننگا ناچ، خاموشی طوفان بھی بن سکتی ہے- The orgy of majority supremacy over the rights of minorities can also become a storm of silence

0
61

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


م. افضل
اس وقت ہمارا ملک نہ صرف معاشی و اقتصادی زوال کی طرف گامزن ہے بلکہ تہذیبی واخلاقی طور پر بھی یہ تباہی کے راستہ پر چل پڑا ہے، آزادی کے بعد ہمارے قائدین نے آئین کی جس ڈور میں تمام قوموں اور مذاہب کے لوگوں کو باندھا تھا اسے تقریباً کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے چنانچہ اب جو کچھ ہم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں وہ حیرت انگیز کم مایوس کن زیادہ ہے، ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے مذہبی شدت پسندی کا کھیل تو آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا، لیکن ادھر جب سے مودی سرکار آئی ہے یہ کھیل اب کھلے طور پر کھیلا جا رہا ہے آر ایس ایس کے نظریہ ساز شاید یہ یقین کرچکے ہیں کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں جو نایاب موقع ہاتھ آگیا ہے اگر اس کا استعمال کرکے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل نہیں کیا گیا تو یہ سنہری موقع دوبارہ پھر نہیں آئے گا۔
یہ لوگ ترقی اور سب کا ساتھ سب کا وکاش کے نعرہ کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے مگر یہ نعرہ اب کاغذوں کا حصہ بن کر رہ گیا ہے، ہاں مودی جی جب کسی اہم تقریب سے خطاب کرتے ہیں تو اس نعرہ کی گردان ضرور کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سال سے ہم جس طرز حکمرانی کا نظارہ کر رہے ہیں اسے ہندوستان کے بھولے بھالے عوام ممکن ہے ابھی نہ سمجھ سکے ہوں، لیکن غیر ملکی ادارے اور ایجنسیاں اس کی حقیقت جان چکی ہیں اور اسی لئے اب ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ایک منتخب آمریت کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے اور جمہوریت مصنوعی قوم پرستی کے بوجھ تلے دب کر نیم مردہ ہوچکی ہے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز تہذیبی واخلاقی زوال سے کیا ہے درحقیقت انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں کی ترقی اور زوال میں تہذیب واخلاق کا بنیادی کردار ہوتا ہے، تہذیب واخلاق کے دائرہ میں ہی ہمارا سماجی رویہ آتا ہے، ہندوستان چونکہ ایک کثیر مذہبی ملک ہے اس لئے یہاں سماجی رویہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہ سماجی رویہ ہی ہے جو ہمیں کبھی تو اعلیٰ قدروں کا حامل انسان بنا دیتا ہے، تو کبھی شیطان۔ آئین نے جو ہمیں قانونی نظام فراہم کیا وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماراسماجی رویہ کیا ہونا چاہیے، خیر سگالی، رواداری ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ، مذہب کا لحاظ کیے بغیر ہر ضرورت مند کی مدد وغیرہ، یہ تمام چیزیں سماجی رویہ سے جڑی ہوئی ہیں، ہمارے قائدین کو غالباً اس بات کا اندیشہ تھا کہ جس خیر سگالی اور رواداری کی ضرورت ملک کو ہے ایک وقت آسکتا ہے کہ جب اکثریت اور قلیت کی کشمکش اور بالادستی کی جنگ میں یہ ضمنی بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے آئین میں انہوں نے اقلیتوں کے لئے الگ سے التزامات کیے تھے۔
ان التزامات میں جہاں ملک کے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب چننے کا اختیار دیا گیا وہیں انہیں یکساں حقوق بھی دیئے گئے، یہ ہدایت بھی کی گئی کہ ملک کے کسی شہری کے ساتھ مذہب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی امیتاز نہیں ہوگا بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے گا، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی اقلیتوں کے تعلق سے آئین میں جو ہدایات یا رہنما اصول درج ہیں ان پر ایمانداری سے اس وقت بھی عمل نہیں ہوا جب اقتدار میں خود کو سیکولر کہنے والے لوگ تھے، اگر ان ہدایات پر سختی سے عمل درآمد ہوا ہوتا تو آج ملک تاریخ کے جس نازک موڑ پر آکھڑا ہوا ہے اس سے بچا جاسکتا تھا اور تب شاید یہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں اس کی ضروت بھی پیش نہ آتی، اب تو اقتدار پر وہ لوگ قابض ہیں جو نہ تو آئین کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی کسی ہدایت پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پچھلے چھ سال کے دوران اس قبیل کے لوگوں نے ترقی کے نام پر مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کا کام کیا ہے، مذہبی ایشوز کو ہوا دیکر ناکامیوں پر پردہ ڈالے رہنا ان کا یہ ہنر بہت پرانا اور آزمودہ ہے، دوسرے اس کے نتیجہ میں معاشراتی سطح پر جو صف بندی قائم ہوتی ہے وہ الیکشن میں بہت کام آتی ہیں، چنانچہ اب یہ بات بھی عام ہوچکی ہے کہ جب بھی کہیں الیکشن ہوتا ہے اچانک زہریلے بیانات اور اشتعال انگیزی کا ایک سیلاب سا آجاتا ہے، اب پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہو رہے ہیں، بی جے پی کے قائدین انتخابی مہم میں حسب معمول قابل اعتراض اور ہتک آمیز تقریریں کر رہے ہیں، دوسری طرف آرایس ایس اور اس سے جڑی دوسری تنظیموں کے لوگ بھی پوری طرح سرگرم ہوچکے ہیں اور زہریلے بیانات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ پورے ملک میں چل پڑا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب اذان پر بھی اعتراض ہونے لگے ہیں، پہلا اعتراض الہ آباد یونیورسٹی کی نئی وائس چانسلر نے کیا، انہوں نے انتظامیہ سے شکایت کی کہ اذان کی آواز سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے اس کے بعد گودی میڈیا نے اس پر بحث کا سلسلہ شروع کر دیا، اسی دوران اترپردیش کے ایک وزیر نے بھی اذان پر اپنا اعتراض درج کرا دیا، یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ یوگی سرکارکے ایک دوسرے وزیر نے یہ زہریلا بیان دیا کہ اب ہم مسلم خواتین کو طلاق ثلاثہ کی طرح برقعہ سے بھی نجات دلانے کی مہم شروع کریں گے، ابھی اس بیان کی سرخی مدھم بھی نہیں پڑی تھی کہ جھانسی میں ایک ٹرین سے سفر کر رہی چار راہیباؤں کو جبراً ٹرین سے اتارنے کی خبر آگئی، رپورٹوں کے مطابق بجرنگ دل کے کارکنان کی شکایت پر جھانسی جی آر پی پولیس نے ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ مذہب تبدیل کرانے جا رہی ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب دارالحکومت دہلی کے بالکل قریب واقع غازی آباد کے ڈانسہ قصبہ میں ایک مسلم بچے کو محض اس لئے مار مار کر ادھ مرا کر دیا گیا کہ اس نے مندر میں داخل ہوکر پانی پی لیا تھا، یہ واقعہ سوشل میڈیا پر عام ہوا تو اس کے ردعمل میں اتراکھنڈ کے تمام مندروں کے دروازے پر یہ بورڈ آویزاں کر دیا گیا کہ یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے، گویا ملک کی حالت اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر کسی دوسرے مذہب کا پیاسا مندر کا پانی پی لے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے، حالانکہ کسی بھی مذہب کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ پیاسے کا مذہب معلوم کرکے پانی پلایا جائے اس سے پہلے ہمارے ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ایک دور تھا کہ دہلی میں جگہ جگہ پیاؤ ہوتے تھے، جہاں بلالحاظ مذہب وملت سب کو پانی پلایا جاتا تھا، آئی ٹی او پر واقع مسجد جھیل پیاؤ تو اب بھی ایک روشن مثال بنی ہوئی ہے ادھر سے گزرنے والی ہر گاڑی اور ہر بس یہاں پانی کے لئے ضرور رکتی ہے جب سے اس مسجد کا انتظام وانصرام صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے ہاتھ میں آیا ہے اس میں ٹھنڈے اور صاف وشفاف پانی کا خصوصی انتظام رہتا ہے، یہاں سے ہر شخص کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو پانی لینے اور پینے کی پوری آزادی ہے۔
شرمناک بات تو یہ ہے کہ ڈاسنہ کے مذکورہ مندر کا مہنت شرمندہ ہونے کے بجائے مسلسل زہریلے بیانات دے رہا ہے اور اب تو اس نے اپنے ایک انٹرویو میں ملک کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی جہادی قرار دیدیا ہے، مگر اس کے خلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی، ادھر خاتون وائس چانسلر کی تعصب پر مبنی انتہائی بچکانہ شکایت پر الہ آباد کی انتظامیہ نے کارروائی کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی اور اذان کے تعلق سے ایک حکم نامہ جاری کر دیا گیا جبکہ اعتراض کے بعد ہی سول لائن علاقہ میں واقع مسجد کی انتظامیہ نے نہ صرف لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کر دی تھی، بلکہ اس کا رخ بھی تبدیل کر دیا تھا، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے معاملوں میں انتظامیہ کی سطح پر امیتاز کیوں برتا جاتا ہے؟ شور اذان سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ مندروں اور دوسری عبادت گاہوں میں بھی لاؤڈ اسپیکر نصب ہیں جن سے شور پیدا ہوتا ہے اور جب اکھنڈ رامائن پاٹھ ہوتا ہے تو کئی کئی روز تک بغیر رکے لاؤڈ اسپیکر بجتا رہتا ہے، اب اگر مسجد کا شور کچھ لوگوں کے لئے پریشانی کا سبب بنتا ہے تو آئین کی رو سے سب کے لئے ایک جیسا حکمنامہ جاری ہونا چاہیے۔
ہمارے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ مسجدوں اور مندروں پر سے لاؤڈ اسپیکر اتار دیئے جانے چاہیے بلکہ ہم تو آئین میں کیے گئے التزامات کی بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کے ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے جہاں تک برقعہ کا تعلق ہے تو ہر معاشرہ میں خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے جو لوگ مسلم خواتین کے نام پر صنفی مساوات کی وکالت کرتے ہیں ان کے یہاں تو کچھ زیادہ ہی عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے تو پھر تمام طرح کی سماجی برائیوں کے خاتمہ کے لئے آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی؟ اگر برقعہ مسلم خواتین کی مظلومیت کی علامت ہے تو گھونگٹ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہماری تہذیب اور اخلاق کا آئینہ دار ہیں آج ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے میں جو برائیاں درآئی ہیں بے پردگی اور آزاد خیالی اس کا ایک بڑا سبب ہے اس پر غوروفکر کرنا دانشوروں اور سماجی لوگوں کا کام ہے مگر ان کی جگہ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ فرمان جاری کر رہے ہیں، اس طرح کا جب بھی کوئی تنازعہ کھڑا کیا جاتا ہے تو نہ تو آئین کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی اقلیتوں کے حقوق کی، بلکہ اسے خالص مذہبی رنگ دے کر اکثریت کی بالادستی کی برہنہ نمائش ہونے لگتی ہے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here