ٹکنالوجی کے زمانے میں کتاب اور لائبریر ی کی اہمیت

0
453

زین البشر انصاری
لائبریرین برینس کانونٹ کالج، لکھنؤ

سقراط نے کتاب کی اہمیت کے حوالے سے ایک بہت ہی تاریخی جملہ کہا ہے۔
’’جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں ہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوکا قبرستان ہے۔‘‘
ماضی کی تہذہب و تمدن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ماضی کی کتابوں کو تحفظ کر نے اور اس عہد کے علوم سے واقفیت کرنے کا ایک اہم ادارہ لائبریری ہے جو ماضی سے ہی اپنی خدمات قاری کو فراہم کر تی چلی آرہی ہے۔ ہر دور میں لائبریری کی اپنی ایک الگ اہمیت رہی ہے۔ یہاں کے ذخائر میں موجود مواد میں قدیم زمانے کے معاشرہ کی تشکیل کی تاریخ ان کی تہذیب و تمدن اس وقت کے سرکاری فرامین اور اصول ، معاشی حالات وغیرہ کے بارے میں ہم سب کو اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہے۔ اس ادارے کے ذریعہ سے قاری اپنے علم کی تشنگی کی پیاس کو بجھا سکتا ہے۔ اس ادارہ کے زمانہ قدیم مین کون سے الفاظ کا استعمال ہوا ہے اور موجودہ دور میں کیا استعمال ہو رہا ہے۔ ان سے کے بارے میں معلومات ہو نا ہر ایک کے لیے لازمی ہے ۔
ماضی میں جب سب بنی نوع انسان علم کو حاصل کر ناسیکھ لیا تھا تبھی سے ہی اس کو اپنا خیالات کو محفوط کر نے کا خیال آیا ۔ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے اسے وہ ایک الماری یا پھر ایک کمرے میں بہت ہی سلیقے سے رکھتا تھا لیکن جیسے جیسے لوگوں میں علم عام ہو تا گیا ویسے ویسے اس نے ایک ادارے کے روپ لے لیا ۔ آج اس کے لئے لائبریری کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ موجودہ زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کے اس عہد میں اس کے لئے ایک نیا لفظ ـ’’انفارمیشن سنٹر ‘‘کا استعمال ہو تا ہے۔ قدیم زمانے میں اسے کس زبان میں کیا کہا جاتا ہے اس سے تفصیل سے معلومات فراہم کی جارہی ہے۔ لائبریری کے لیے لائبریری،گرنتھ گار، گرنتھالے، پوتھی خانہ ، کتاب گھر، پستکالیہ وغیرہ لفظوں کا استعمال ہو تا ہے، سنسکرت ادب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کتب خانہ کے لے گرنتھ گار اور پستکا گار لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔ پانینی سے پہلے پٹل، کانڈ، پتر، سوتر وغیرہ الفاظ مستعمل تھے۔ جب ان سب کو ایک ساتھ گانتھ کر رکھا جا تا تھا تو اس بندھے ہوئے اور اق کا نام گرنتھ ہو تا تھا اور جہاں گرنتھوں کو جمع کر کے رکھا جا تا وہ ’’گرنتھ کٹی‘‘ کہلاتا تھا۔ پراکرب ادب ، بودھ ادب اور اب بھرنش ادب میں لائبریر ی کے لیے لفظ ’’سرسوتی ‘‘ استعمال ہوتا تھا۔ قدیم عربی میں کتب خانہ کو خزائن کتب کہا جا تا ہے۔ جدید عربی اور فارسی میں اسے دار الکتب اور کتب خانہ کے نام سے مو سوم کیا جا تا ہے۔
مغربی ممالک میں بھی کتب خانہ کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں۔ لاطینی زبان میں لائبرییا لفظ استعمال کیا جا تا ہے جو رومن لفظ لائبر سے ماخوذ ہے۔ جرمن زبان میں ببلیوتھک، اسپینش زبان میں ببلیوٹک اور رنچ میں ببلیوتھک الفاظ کا استعمال کیا جا تا ہے۔ یونانی زبان میں کتب خانہ کو ایتھنیم کہا جا تا ہے۔ ہندی اور سنسکرت کے علاوہ مختلف ہندوستانی زبانوں میں کتب خانہ کے لیے کئی الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ تلگو زبان میں گرنتھالیم، تامل زبان میں ملنیم، ملیالم میں گرنتھ شالا اور گرنتھا لیم ، اردو زبان میں دار المطالعہ اور کتب خانہ جیسے لفظ کا استعمال کیا جا تا ہے۔
سنسکرب ادب میں کتب خانہ کے لیے سروستی بھنڈار، پستک بھنڈار لفظ کا استعمال ہو ا ہے ۔ جس کے معنی ایسی عمارت ہے جس میں کتابیں فہرست وار اور درجہ بندی کے ساتھ الماری میں اچھی طرح رکھی ہیں۔ قدیم زمانے میں چھپی ہوئی کتابوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کتابو ں کو ہاتھ سے لکھا جا تا تھا ۔ ویدک عہد میں منتر وغیر ہ کو لکھ کر محفوظ کر کے رکھا جا تا تھا۔ کاغذ کے ایجاد اور چھاپے خانے کے ایجاد کے بعد موجودہ زمانے میں چھپی ہوئی کتابیں دلکش وخوبصورت انداز میں میسر ہونے لگیں ہیں ۔ یہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشمہ سازی کا بین ثبوت ہے۔
جہاں بہت زیادہ تعداد میں کتابیں جمع ہوتی ہیں اسے کتب خانہ کہتے ہیں۔ یہاںپر لوگ بغیر کسی تفریق کے اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ کار لائل کے مطابق۔’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور ِ جدید کی سچی یونیوورسٹی ہے۔‘‘ اچھی کتابوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہی صالح فرد اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل کا ذریعہ ہے۔
کاغذ، چھپائی اور دیگر سہولتوں کے باعث کتابوں کی تعداد میں روز ابروزا ضافہ ہو رہاہے ۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ کتب خانہ کے لیے کتابوں کا انتخاب ایک دلچسپی کے ساتھ کیا جائے۔ ساتھ ہی مطالعہ بھی منتخب شدہ اور کار آمد کتابوں کا کر نا چاہئے تاکہ اس کا اثر ہمار ے کردار و عمل پر اچھاپڑے۔ کچھ کتابیں تفریح کے غرض سے پڑھی جاتی ہیں لیکن کچھ کتابیں کچھ حاصل کرنے ، اخذ کر نے اور کچھ سیکھنے کے غرض سے پڑھی جاتی ہیں۔دراصل یہ مطالعہ کار آمد مطالعہ کے دائرہ میں آتا ہے۔ مشہور فلسفی اور اسکالر نے اظہار خیال کر تے ہوئے کہا ہے کہ:
’’جو نوجوانی میں مطالعہ سے گریز کرتاہے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے مر دہ ہے‘‘۔
کتابیں انسانی ضروریات کا اہم جزو ہے۔ آج کی سماجی زندگی رسل و رسائل و کتب بینی کی مرہون منت ہے۔ کتابیں تعلقات عامہ کا ذریعہ ہیں۔ یوں تو کتابوں کی پیش کش اور تقسیم کی ٹکنیک میں اتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ اس وجہ سے بہتر سے بہتر کتابیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مناسب قیمت پر لوگوں کو حاصل ہو جاتی ہیں۔ واقعتا کتابوں کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہوا ہے پھر بھی اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس سے کہ ہمارے ملک کا ہر شخص پڑھے اور ہر پڑھے لکھے شخص کو مطلوبہ مضمون کی کتابیں با آسانی فراہم ہو سکیں۔ ماضی قریب میں پڑھنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کی رفتار اور تعلیم کے فروغ کے سبب کتابوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ جس سے جدید کتب خانوں کے قیام اور اس کی ٹکنیک نے کتابوں کی فراہمی کو بہت سہل بنا دیاہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی و معاشرتی فلاح و بہبودمیں اچھی کتابوں کی اشاعت کا ایک اہم حصہ ہے۔
کتابوں کو بھی مختلف زبانوں میں ایک الگ نام سے جانا تا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان میں بک، فرنچ Lirve،اطالوی اور ہسپانوی زبان میں Libro، پرتگیز میں Livro، جرمن میں Buch،رومن میں Liber،گریک میں Biblion،ہبرو میں Cafer،روسی میں Kniga،سویڈش میں Bog،جاپانی میں Hon،انڈونیشین میں Buku،اور ترکی میں کتاب ، ہندی میں پستک لفظ کہا جا تا ہے اس کے علاوہ گرنتھ اور کتاب بھی کہتے ہیں۔سنسکرت زبان میں پست،پستیکا اور گرنتھ کتاب کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس کے علاوہ پوتھی،بہی اور کتاب کا بھی استعمال ہو تاہے۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں کتاب کے لیے کئی طرح کے الفاظ ہیں۔ مثلاً پنجابی میں پستک اور کتاب ، اردو اور کشمیری میں کتاب ،سندھی میں کتاب، گجراتی میں چوپڑی،مراٹھی میں پستک اور گرنتھ،آسامی میں پوٹھی اور کتاپ ، اڑیا میں بہی ، تلگو میں پستکم ، تمل میں نوٹو اور پستکم ،ملیالم میں پستکم کنڑ میں ہوں گے اور بنگلہ میں بہی۔
یوگینی تنتر کے مطابق کتاب کی جسامت ، ہاتھ بھر، مٹھی بھر،بارہ انگلی،دس انگلی،یا آٹھ انگلی ہونی چاہئے، اس سائز کی کتاب اچھی ہو تی ہے۔ سائز میں فرق ہونے سے کتاب کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔ قدیم زمانے میں کتابوں کے سائز کو اس طرح سے ناپ کر پتا لگا یا جا تا ہے ۔زمانہ قدیم میں کاغذ کی ایجاد سے قبل کتابیں بھوج پتر اور تاڑ کے پتے پر لکھی جاتی تھی۔ صاحب ِ حیثیت اسے سونے کے پتر، تامر پتر، کیتکی پتر، مار تنڈ پتر اور وٹ پتر پر لکھا کر تے تھے اس کے علاوہ کسی اور چیز پر کتاب لکھنا ٹھیک نہیں ما نا جا تا تھا۔پدم پران کے اترا کھنڈ میں لکھا ہے کہ دھرم شاتر اور پران شاستر لکھ کر اگر برہمن کو دان کیا جائے تو بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ گرڑ پرن ، کے ۲۱۵ ویں باب میں لکھا ہے کہ دیدارتھ یگ شاستر ، دھر م شاستر اتہاس اور پران وغیر ہ روپے دے کر دوسروں سے لکھا کر برہمن کو دان کرنے سے ثواب ملتا ہے۔
کتاب کی عظمت و بڑائی اٹل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب کے لفظوں میں دیوتا کا بسیرا ہوتا ہے ۔تاریخ کے اواراق کی گردانی کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ’’ ماضی سے ہی ہندوستان میں کتابوں کی بے پناہ عزت کی جاتی ہے‘‘۔ کتابوں کو بھگوان کے روپ میں پوجا جا تا ہے۔ سرسوتی کا تہوار بہت ہی دھوم دھام سے منا یا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں امیر ،غریب، مرد ، عورت بچے ، جوان ، بوڑھے سبھی کتابو ں کی عزت کرتے ہیں۔ مصنف کتابوں کی تخلیق کر تاہے اور ناشر اس کی اشاعت کر تا ہے۔ کتابیں شایع ہوتے ہی عوام کے استعمال کے قابل بن جاتی ہیں۔ کتابوں کے شوقین طالب علم، اساتذہ اور علم کے پیاسے لوگ انھیں اپنی دلچسپی کے مطابق خرید تے اور پڑھتے ہیں۔ کتابو ں کی قدر قیمت کی پیمائش دوطرح سے کی جا سکتی ہے۔ ایک قیمت سے اس کی تجارتی اور مادی قیمت کا اندازہ ہو تا ہے جس کا تعلق رقم سے ہے جو عام طور پر کتابوں کی سروق یا اندرونی صفحہ پر لکھا رہتا ہے لیکن کتابوں کی اصل قدر و قیمت اس کی مادی قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جس کا انحصار کتابو ں کے موضوع پر ہے کہ یہ کن خیالات اور کن پیغاموں کو دوسروں تک پہنچاتی ہے جس سے پڑھنے والے دلچسپی اخذ کر تے ہیں یا قیمت افزائی اور رہبری حاصل کرتے ہیں۔
کتابیں فرقہ واریت، علاقائیت اور قومیت جیسے محدود جذبہ سے پرے ہیں۔ کتابوں کے لیے یکساں ہے کوئی بھی شخص کسی بھی کتاب کو پڑھ سکتا ہے جو شخص کتابوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے تصرف میں لا تا ہیوہ اتنا ہی اپنی زندگی کو سجاتا، سنوارتا اور پر کشش بنا تا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ انسانوں نے سائنس کی کرشمہ سازیوں کی وجہ سے کائنات کی ہر شے پر اپنا قبضہ جما لیا ہے اور ان سے اپنے تصرف کے بے شمار چیزیں حاصل کی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مطالعہ کے شوقین لوگ بھی اپنے آباء و اجداد کی حاصل کی ہوئی عظیم و ہمہ گیر عظیم وہمہ گیر تعلیم کو کتب خانوں سے نکال کر اسے فروغ دینے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ گر چہ ہزاروں عظیم شخصیتیں اس دارِ فانی سے رخصت ہو کر فنا ہو گئیں ہیں لیکن ان کے کارنامے کتابوں کی شکل میں ہماے سامنے موجود ہیں جو انھیں زندہ جاوید بنائے ہوئے ہیں۔ کتب خانے کی مدد سے ہم ایسے عظیم شخصیتوں سے تعلق قائم رکھتے ہیں ان کے زریں حروف سے اپنی زندگی سجاتے سنوارتے ہیں۔ان کی ہنسی خوشی، غم و غصہ ، پندو نصیحت کا واضح احساس کرتے ہیں۔ ان کے زرّین اقوال ہماری زندگی کی رہبری کر تے ہیں۔ کتب خانہ ہی ہم کو سراط مسقیم پر چلنے کے لیے ہدایت زخائر مو جود کتابوں سے فراہم کرتے ہیں۔ ماضی کے آئینے میں ہم اپنے حال اور مستقبل کو سجانے کے لائق ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لائبریری نہ صرف کاغذ کے خشک اواراق کا مجموعہ ہے بلکہ زندگی کے گو نا گوں تجربوں ، عمل اور عقل کا چلتا پھر تا خزانہ ہے۔یہاں پر آ کر ہر شخص اپنی زندگی کی کمی و خامی کو دور کر سکتا ہے ۔ کتابوں کی مدد سے ذہین دماغ ہماری رہبری اور ہمت افزائی کرتے ہیں۔ہم اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہو کر ذہین دماغ کی جوت سے اپنی زندگی کوروشن و منور کرتے ہیں۔
کتابوں میں پھیلے ہوئے خیالات و نظر یات ان ارواح کو لافانی بناتے ہیںجو ان کی تحلیق کا باعث بنے ۔ آج ہمارے سامنے کالی داس ، تلسی داس، بالمیکی، ورچل ، شیکسپیر ، ٹیگور ، غالب ، اقبال وغیرہ بڑے فلسفی موجود نہیں ہیں لیکن ان کی اعلیٰ تخلیق انھیں زندہ جاوید بنائے ہوئے ہے۔ کتابوں کے اوارق میں پھیلے ہوئے ان کے اعلیٰ و عمدہ خیالات و اقوال آج بھی ان کی زندگی کی گواہی دے رہے ہیں۔ کورو اور پانڈو کو گزرے ہوئے ہزاروں سال ہو گے لیکن ان کی کہانی آج زبان زد عام ہے۔ کشن کا پیغام گیتا میں آج بھی مو جو د ہے۔ آج بھی وید، گیتا، انجیل اور قرآن کی پاکیزگی اور اہمیت اٹل ہے۔ اس طرح عیسیٰ، گوتم بدھ، مہاتما گاندھی سبھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے اصول ان کی ہدایت ان کی رہبری آج بھی ہمارے راستوں کو روشن و منور کیے ہوئے ہے۔ کتابیں ، قومی یک جہتی اور بین الاقوامی دوستی کا ذریعہ ہیں۔ اچھی کتابیں انسان کی رہبری کرتی ہیں، بھلے برے کا تمیز سکھاتی ہیں۔ کتابوں کو دوست بنا کر ان پڑھ، پڑھنے والوں کی گنتی میں آتا ہے اور پڑھے لکھے لوگ عالم فاضل کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔
لاعلمی ایک کلنک ہے ا س سے نجات حاصل کر نے کا واحد ذریعہ کتابیں ہیں۔ کتابیں امیر غریب ، جوان ، بوڑھے ، بچے ،عورت ،مرد سب کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اس پر کسی ایک طبقہ کسی ایک جنس یا کسی خاص عمر والوں کا ہی حق نہیں ہے بلکہ اس سے پورے انسانی برادری یکساں طور پر مستفید ہو سکتی ہے۔ کتابیں علم کی تشنگی مٹاتی ہیں قوت ِ عمل کو بڑھا وا دیتی ہیں اور انسانی زدگی کو سہل اور مہذب بناتی ہیں۔کتب خانہ ایک سمندر ہے جس میں ہر قسم کی کتابیں رہتی ہیں۔ پڑھنے والے اپنی دلچسپی کا مواد کھوج نکالتے ہیں۔ دقیق سے دقیق مسئلے سے متعلق اور ہلکی سے ہلکی دلچسپی والی کتابیں موجود ہیں۔ قاری اپنی دلچسپی اور ضرورت سے متعلق کتابوں سے استفادہ حاصل کر تا ہے۔ وقت اور زمانہ کی رفتار کے مطابق کتابیں ہمارا ساتھ دیتی ہیں۔ زمانئہ جنگ میں ہمارے اندر انقلاب کی روح پھونکتی ہی۔ موضوع کے اعتبار سے کتابیں مہمل اور موزوں ، دونوں طرح کی ہوتی ہیں۔ اب یہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہتر طور پر کرے اور اس سے فیض حاصل کرے۔ اس کے متعلق انگریزی شاعر رابر ٹ سائووے کے الفاظ میں ’’کتابیں لافانی ساتھی ہیں جس کے ساتھ آپ جب چاہیں گفتگو کی پیاس بجھا سکتے ہیں۔‘‘
مشہور فلسفی ایمرسن نے کتاب کی اہمیت پر اظہار خیال کر تے ہوئے کہا ہے کہ’’اچھی کتاب مثالی دوست اور سچا ساتھ ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے۔‘‘
موجودہ زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کا ہے ۔ اس عہد میںروزانہ جدید سے جدید تحقیق ہمارے سامنے آ رہی ہیں اس سے استفادہ حاصل کر نے کے لئے قاری کو کتب خانہ سے کتابیں رسائل و جرائد بڑی تعداد میں حاصل ہو جاتے ہیں۔ ٹکنیکل کتب خانہ کی شر وعات ہو نے کے بعد بھی کتابوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹکنالوجی کی اتنی زیادہ استعمال ہو رہی ہے کہ انسان کے پاس اسمارٹ فون ہونے کے بعد وہ کہیں پر بھی بیٹھ کر اپنے مواد سے متعلق ذخائر کو ڈھونڈ سکتا ہے۔ اور ڈیجیٹل کتاب سے اپنے علم کی پیاس کو بجھا سکتا ہے۔ اس لئے آج کی موجودہ دور میں ٹکنیکل لائبریری کا قیام عمل میں لا یا جا رہا ہے۔ جس سے عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو سکے۔
لا علمی بڑی لعنت ہے۔ اسے دور کرنے کے لیے کتابوں کو دوست بنا نا ہوگا۔ کتب خانوں سے ناطہ جوڑ نا ہوگا۔ جمہوریت کے اس دور میں عوام کو تعلیم ہو نا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کے لیے ایک اچھے اور پڑھے لکھے شہری کا ہو نا بہت ضروری ہے اور اچھے شہری بنے کے لیے اچھی کتابیں ہونا ضروری ہے۔ ملک کے بارے میں پوری معلومات رکھنے کے لیے نئے معاشرے کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے ،سائنس ، ٹکنالوجی ، ادب ، تاریخ،عمرانیات، اخلاقیات وغیرہ مضمون کی کار آمد کتابوب کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو نی چاہئے ۔ جس سے ہر شخص اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو سکے اور اسے ایک اچھا شہری بننے کا فخرحاصل ہو سکے۔
کوئی ملک کس حد تک تہذیب یافتہ ہے ۔ اس کا اندازہ اس ملک کے کتب خانوں سے ہوتا ہے۔ کتب خانہ ہماری قدیم تہذیب اور اعلیٰ خیالات کا مظہر ہیں۔ کتب خانوں میں بیٹھ کر کتابیں پڑھ کر دماغ کو علم و عقل کی روشنی حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ اس بات کا شاہد ہے کہ جب بھی حکومت بدلی ہے ایک حکمراں پر دوسرے حکمران کا حملہ ہوا ہے تو سب سے پہلے لائبریری کو نشانہ بنا یا جا تا ہے تاکہ جسم خود بخود ختم ہوجائے۔لائبریری ہمار ی مکمل ترقی کاذریعہ علمی، عقلی روشنی کا مظہر اور روحانی قوت کا سر چشمہ ہے۔
*********

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here