مسلم سماج، خصوصی طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں عدم برداشت والا ہوتا جا رہا ہےاور ہندوؤں کا لنچنگ کے ذریعہ قتل، آبروریزی،، لوٹ مار، مذہبی مقامات کی توہین جیسے ہزارہا واقعات ہو ر ہے ہیں۔
جب پوری دنیا کورونا وبا کے پھیلاؤ سے خوفزدہ ہے اور اس پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اس وقت بھی وشو ہندو پریشد کی زبان فرقہ وارانہ ہی ہے اور وہ بحران کے اس دور میں بھی ہندو مسلم کا راگ الاپ رہی ہے۔ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندوؤں کے خلاف مبینہ تشدد کے واقعات پر زبردست غصے کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے مجرم عناصر اقلیتوں میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی سازش کرنے والوں پر قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔
وی ایچ پی کے بین الاقوامی کارگزار صدر ڈاکٹر آلوک کمار نے یہاں کہا کہ ہندوستان آئین اور قانون سے چلتا ہے۔ یہاں کی معاشرتی زندگی میں تشدد کا کوئی مقام نہیں ہونا چاہئے۔ ہر قسم کے تشدد، چاہے وہ کوئی بھی کرے اور وہ کسی کے بھی خلاف ہو، قابل مذمت اور ناقابل معافی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ حالیہ دنوں میں ملک کے کئی حصوں میں بعض مسلمانوں کی طرف سے ہندوؤں کی موب لنچگ اور دیگر اقسام کے تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم سماج، خصوصی طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں عدم برداشت والا ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے خلاف لنچنگ کے ذریعہ قتل، آبروریزی،، لوٹ مار، مذہبی مقامات کی توہین جیسی ہزارہا واقعات ہو ر ہے ہیں۔
ڈاکٹر کمار نے آسام، بہار، مغربی بنگال، اتر پردیش، پنجاب، جھارکھنڈ، کرناٹک، ہریانہ اور دہلی کے کچھ مبینہ واقعات کی مثال دیتے ہوئے الزام لگایا اور کہا کہ یہ مثال واضح کرتی ہیں کہ اکثریتی ہندو سماج تشدد اور موب لنچنگ کا شکار دیگر کمیونٹیز کے مقابلہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر یہ واقعات بڑے اخباروں اور میڈیا میں نہیں آتے۔ ان پر بحث نہیں ہوتی۔ ہندوؤں پر ہونبے والے ظلم خبروں کا موضوع ہی نہیں بنتے۔ نام نہاد سیکولر لوگوں کا گروہ دہشت گرد، جہادی یا دیگر کسی اقلیت کے مجروح ہونے پر جیسا بولتا ہے، ویسا غصہ ہندوؤں پر ہونے والے مظالم پر نہیں بولتا۔