ملک میں موجودہ معاشی بحران کی جڑ 8 نومبر 2016 کی افسوسناک رات کو اعلان کردہ نوٹ بندی ہے۔ پارلیمنٹ میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بصیرت انگیز الفاظ کے مطابق، اس نوٹ بندی نے ملک کی جی ڈی پی کو 2 فیصد کا نقصان پہنچایا ہے، جس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد قوم پر جلدبازی میں ایک ناقص جی ایس ٹی کو مسلط کر دیا گیا، جس سے درمیانے اور چھوٹے کاروباری اداروں کو دھچکا لگا، نیز اس نے معیشت کو سہارا دینے والے وسیع غیر رسمی شعبہ کو بھی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ حکومت کی طرف سے لائی جانے والی یہ دونوں آفات لاکھوں افراد کے معاش بحران کا باعث بنیں اور ہندوستانی معیشت ایک طویل مدتی کساد بازاری کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی، جس پر کورونا (کووڈ-19) کے دور میں اور بھی چوٹ پہنچی۔
تیل پر بھاری ٹیکس اور سرکاری کمپنیوں کی نجکاری
عالمی بازار میں تیل کی قیمتوں میں تاریخی نرمی حکومت کو ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے فوائد کو عام لوگوں تک پہنچائے، جس سے معیشت کو فروغ مل سکے لیکن مودی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پٹرولیم مصنوعات پر ضرورت سے زیادہ ٹیکس اور سرچارج لگا کر ہر کنبہ کے بجٹ کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ اتنا ہی نہیں حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کو 2019 میں ٹیکس میں کٹوتی کا تحفہ دیا، جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ قومی بجٹ کو 1.45 لاکھ کروڑ روپے کی چپت لگی۔مودی حکومت نے ان خودکش اقدامات سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے کوونا کے دور میں قوم کے اثاثوں کا ایک بڑا حصہ اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں کے حوالے کر کے معیشت کو تاریخی نقصان پہنچایا۔ حکومت نے سرکاری کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا اعلان کر کے ’گھر کا سرمایہ‘ گنوانے کی منشا ظاہر کر دی ہے!’ڈِس انوسٹمنٹ‘ یعنی عدم سرمایہ کاری (عوامی شعبے کی کمپنیوں میں سرکاری حصص کا کچھ حصہ کی فروخت) کو اگر احتیاط اور حکمت عملی سے انجام دیا جائے تو اس سے حکومت کے لئے وسائل پیدا ہوتے ہیں، کمپنیوں کے انتظام میں بہتری آتی ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالہ سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو پیش ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کانگریس پارٹی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے اپنے منشور میں عدم سرمایہ کا ایک درمیانی طریقہ پیش کیا تھا جس میں غیر اہم سرکاری کمپنیوں میں عدم سرمایہ کاری کا ذکر کیا گیا تھا۔
بھاری رعایت پر فروخت
لیکن مودی حکومت نے عدم سرمایہ کاری کے بجائے نجکاری کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس تعلق سے حکومت کے الفاظ اور زبان سے اس کی منشا ظاہر ہوتی ہے۔ ملکی معاشی صورتحال سے نمٹنے میں ناکامی اور سرمایہ کاری بڑھانے کے عمل میں نجی شعبہ کو مائل کرنے میں ناکام حکومت نے گھبراہٹ میں قومی اثاثے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فروخت سے قلیل مدتی بہتری تو آ سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس سے عوامی املاک کو طویل مدتی فائدہ ہو سکے گا؟بھاری رعایت پر کی جانے والی اس فروخت کو حکومت کمپنیوں کی افادیت بڑھانے اور رقومات جمع کرنے جیسے دلائل پیش کر کے اور اس پیسے کو عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں میں خرچ کرنے کا منصوبہ قرار دے کر منطقی ٹھہرا رہی ہے، جبکہ یہ ایک دھوکہ دینے والی دلیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی شعبے کی کمپنیوں سے حاصل ہونے والا منافع نجی ہاتھوں میں جائے گا، منافع بخش اور قیمتی اثاثے کوڑیوں کے دام اپنے پسندیدہ سرمایہ داروں کے حوالے کر دیئے جائیں گے، جو اس سے خود دولت کمائیں گے۔ دوسری طرف بڑے قرض لے کر ادا نہ کرنے والے سرمایہ داروں کو اس رقم سے راحت دی جائے گی۔اٹل بہاری واجپئی کی سربراہی میں این ڈی اے حکومت نے جب وی ایس این ایل (ودیش سنچار نگم لمیٹڈ) کو فروخت کیا تھا، تو اس کی پوری قیمت حاصل نہیں ہوئی تھی اور اس سے عام لوگوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسی طرح بہت سے ہوٹلوں کو کوڑیوں کے دام یہ کہتے ہوئے فروخت کیا گیا کہ حکومت اس کاروبار میں موجود نہیں رہنا چاہتی۔ اب اگر مودی حکومت بھی یہی پالیسی اختیار کرتی ہے تو پھر شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شفافیت کا مطالبہ کریں اور یہ معلوم کریں کہ آخر ان سرکاری اثاثوں کی قیمت کس بنیاد پر طے کی جا رہی ہے!سرکاری اثاثوں کی فروخت سے مودی حکومت کی ساکھ پر بھی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ حکومت گزشتہ کچھ سالوں میں اپنے عدم سرمایہ کاری کے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدم سرمایہ کاری کے مبینہ طور پر کامیاب کچھ منصوبے صرف سرکاری کمپنیوں کو دوسری سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنے تک محدود رہے ہیں۔ مثلاً ’آئی ڈی بی آئی‘ بینک کو لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) کی نذر کر دیا گیا اور ہندوستان پٹرولیم کارپوریشن کو او این جی سی کی نذر کر دیا گیا، ایسی اور بھی مثالیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی فروخت سے قوم کو کیا حاصل ہو سکتا ہے؟اس کے علاوہ اس سے طویل مدتی نقصان بھی ہو سکتا ہے، جس کو حکومت نظرانداز کر رہی ہے۔ ایل آئی سی میں سرکاری حصص فروخت کرنا اور آئی پی او متعارف کرانے جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت انشورنس کے شعبے میں ملک کی قیمتی کمپنی کو فروخت کرنے جا رہی ہے۔ لیکن کیا نجی ہاتھوں میں پہنچ جانے والی ایل ای سی طویل مدتی انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے لیے مالی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب رہے گی؟
سماجی انصاف پر اثرات
مودی حکومت کی نجکاری کی پالیسیاں سماجی انصاف پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی میں سرکاری کمپنیاں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دلتوں، قبائلیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو سرکاری کمپنیوں سے بہترین ملازمتیں حاصل ہو رہی ہیں لیکن ایک بار جب ان کمپنیوں کی نجکاری یا عدم سرمایہ کاری ہو گئی اور حکومت کا حصہ 50 فیصد سے کم رہ گیا، تب یہ پسماندہ طبقات ریزرویشن سے محروم ہو سکتے ہیں۔موجودہ حکومت کے دور میں یوں تو بے روزگاری تاریخی تنزلی کی سطح پر پہنچ چکی ہے، ۔
تاہم، سرکاری کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ملازمتیں ختم ہوں گی، جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔
بینکوں پر خطرہ
اس حکومت کے دور میں بینکنگ کے شعبے میں این پی اے (نان پروفٹیبل اسیٹ) میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2019 کے درمیان، بینکوں کے این پی اے 2008 سے 2014 کے یو پی اے حکومت کے آخری 6 سالوں کے دوران بینکوں کے این پی اے کے مقابلہ تقریباً 365 فیصد بڑھ گیے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ول فل ڈیفالٹرز‘ (جان بوجھ کر قرض ادا نہ کرنے والے) کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ این پی اے کے بحران کی اصلاح کے بجائے سرکاری بینکوں کو نجی ہاتھوں کے سپرد کیا جا رہا ہے، جس سے بینکنگ کے شعبے کی بدعنوانی شاید ہی کم ہو۔اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بینکوں کو قومیانے کی وجہ سے ہی 2008 کی عالمی کساد بازاری کے دوران ملک کو معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ سرکاری بینک ہی عشروں سے تمام علاقوں میں بینک خدمات انجام دے رہے تھے جس سے ہر طبقہ مستفید ہو رہا تھا۔ تو کیا عوامی شعبے کے بینکوں کے نجی ہاتھوں میں جانے کے بعد دیہی علاقوں میں شاخیں بند ہو جائیں گی، جن کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ ہر طبقہ کو مستفید کرنا تھا؟اتنا ہی نہیں، آر بی آئی بھی اپنے طے شدہ اصولوں کے برخلاف صنعتی گھرانوں کے بینکاری کے شعبے میں داخل ہونے پر اعتراض ظاہر نہیں کر رہا، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت چند ہاتھوں تک محدود رہنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔کانگریس نے ہندوستان کی معیشت کو ایک مضبوط عوامی شعبہ کی بنیاد پر استوار کیا تھا اور 1991 کے تاریخی لبرلائزیشن کے ذریعہ اس کو مزید تقویت فراہم کی تھی، ایسے حالات میں کانگریس عوامی خواہش کے تحت عوامی کمپنیوں کی نجکاری میں شفافیت کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ احتساب اور تشخیص کو ممکن بنایا جا سکے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بارے میں حکومت کو آگاہ کریں اور ان لوگوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے جو اس نجکاری سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
ہر شعبے کے لئے مختلف حکمت عملی کی ضرورت
ہمارے متعدد سرکاری ادارے اور عوامی شعبہ کے بینک منافع بخش ادارے ہیں جو ترقی میں تعاون دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ادارے ایسے ہیں جن کو سہارے اور سرمایہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ منافع کما سکیں۔ سرکاری خزانے میں ان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے حکومت کو ہر کمپنی کے لیے ایک مناسب لائحہ عمل وضع کرنا چاہئے۔ اس کے لئے احتیاط، تفصیلی تندہی اور قوم کے اثاثوں کی امانتدار کی حیثیت سے حکومت کے کردار کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ اس ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے مودی حکومت قلیل مدتی فوائد کے لئے سرکاری اداروں اور اور عوامی شعبے کے بینکوں کو بند کرنے کا انتخاب کر رہی ہے۔ یہ غلط ہے اور عوامی دولت کے طویل مدتی نقصان کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔عوامی شعبہ کے اداروں کی نجکاری کی جلد بازی لوگوں کے اس شبہ کی تصدیق کرتی ہے کہ مودی حکومت کچھ صنعتی گھراوں کی وفادار دلال ہے۔ حکمران جماعت کو انتخابی بانڈوں سے حاصل ہونے والی زبردست آمدنی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پسندیدہ سرمایہ دار پہلے ہی حکومت کو اپنی ادائیگی کر چکے ہیں۔ اب حکومت اس سودے بازی کے اپنے حصے کا کام کر رہی ہے۔وزیر اعظم نجکاری پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا کام کوئی کاروبار کرنا نہیں ہے۔ انہیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایسی حکومت ہے جو ملک کے مالی معاملات کا انتظام نہیں کر سکتی، جو روزگار پیدا نہیں کر سکتی، جو جامع ترقی کو یقینی بنانے سے قاصر ہے، جسے اخراجات کا انتظام کرنے کے لیے ملک کے اثاثوں کو فروخت کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت میں اس حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
سونیا گاندھی کا مضمون: قومی املاک فروخت کرنے والی حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں- Sonia Gandhi’s article: A government that sells national property has no right to stay in power
Also read