سر سید احمد خاں کی صحافتی خدمات

0
2011

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL

https://avadhnama.com/wp-admin/post.php?post=68937&action=edit

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588


عبدالقادر

9807202855

اٹھارہ سو ستاون کے خونیں انقلاب کے بعد مسلمانوں کے لئے حالات بدسےبد تر ہو چکے تھے اور اس انقلاب سے سب سے زیادہ نقصان ہندوستانی مسلمانوں کا ہوا تھا ۔ ایک تو ان پر بغاوت کا الزام لگا دوسرے انہیں سماجی ، معاشی وتعلیمی ترقی میں پیچھے کر دیا گیا ۔ اور انگریزی سامراج کے ان سازشی اقدامات کہ وجہ سے مسلمان جہل وافلاس کی تاریکیوں میں ڈوبتے جا رہے تھے ۔ اس ضمن میں اگر ہم آج کے حالات کا جائزہ لیں تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ آج ہندوستانی مسلمان تعلیمی اعتبار سے کافی اچھے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے کو ششیں کر رہے ہیں ۔ لیکن اُس وقت کے حالات اتنے بد تر ہو چکے تھے کہ نہ کوئی پر سان حال تھا اور نہ ہی انکی حالات زار پر کوئی رونے والا ۔ ایسے نازک وقت میں سر سید احمد خاں نے ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس عزم کو کامیاب بنانے کےلئے علم وعمل ہر دو سطح پر نمایاں خدمات انجام دیں۔ سر سید کی ان نمایاں خدمات میں ان کی صحافت کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ سر سید نے اپنی زندگی کو قوم کے لئے وقف کردیا تھا ان کی کوششوں کی بدولت ہی مسلمان تعلیم اور دیگر شعبوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ سر سید احمد خاں نے اپنے ناتواں کندھوں پر پوری قوم کا بار اٹھایا اور قوم کی کامیابی کے لئے اپنے عیش وآرام اپنے اوقات اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ اسی لئے ان کے بعد بھی ان کے کارنامے اور ان کا فیض زندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں

یومِ جرمن اتحاد

صحافت کا پہلا دور :۔ سر سید نے صحافتی زندگی کی شروعات اپنے بھائی سید محمد خاں کے اخبار سید الاخبار سے کی تھی ۔ یہ اخبار ہفتہ وار تھا اور اس کی قیمت دو روپیہ ماہانہ تھی ۔ اس اخبار کے مالک سر سید کے بڑے بھائی سید محمد تھے ،اخبار کی اشاعت کے آغاز کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد عتیق صدیقی کے مطابق یہ اخبار 1837 میں شروع ہوا تھا جب کہ نادر علی خاں نے اس کا سنہ اشاعت 1841 لکھا ہے ۔ مرزا غالب کے اردو دیوان کا پہلا ایڈیشن سید الاخبار کے مطبع سے ہی شائع ہوا تھا اور سر سید کی مشہور و معروف کتاب آثارالصنادید بھی 1847 میں اسی مطبع سے شائع ہوئی تھی ۔ سیدا الاخبار کو دہلی کے لوگ دم الاخوان بھی کہا کرتے تھے ۔ یہی وہ اخبار تھا جس سے سر سید نے پہلی بار صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور آگے چل کراخبار نویسی میں انہیں ایک معتبر مقام حاصل ہوا ۔اس اخبار کے مضامین وکلاء عام لوگوں کے مسائل ، روز مرہ کے کام کاج کے متعلق ہوتے تھے کبھی کبھی اخبار میں فن تعمیر مختلف تاریخی عمارات کا بھی ذکر کیا جاتا تھا۔ خاص طور سے اس اخبار میں جون پور کی تاریخی عمارتوں پر لکھے مضامین ہوتے تھے ۔ سید الاخبار کے علاوہ سر سید کے مضامین اس وقت کے دوسرے اخباروں اودھ پنج وغیرہ میں بھی شائع ہوتے تھے۔ سر سید احمد خاں نے اردو صحافت کو ایک نیا رخ اور نئی زمین عطا کی اور صحافت کو ایک مشن کی طرح استعمال کیا ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے اس مشن کی وجہ سے صحافت کے فن سے رو گردانی کی ہو ۔ ان کا صحافت سے متعلق ایک تعلیمی نظریہ تھا ایک خاص مقصد تھا اور اپنے اس مقصد کی تکمیل میں وہ پوری طرح سے کامیاب ہوئے۔

صحافت کا دوسرا دور :۔ سر سید کی صحافت کے دوسرے دور کو ہم انکی صحافت کا سنہری دور کہ سکتے ہیں ۔ سر سید پہلے اپنے بھائی کے اخبار میں طبع آزمائی کر رہے تھے اور دوسرے اخبارات میں لکھ رہے تھے لیکن پھر انہوں نے اپنا اخبار شروع کیا اور صحافت کے میدان میں اپنی فتح کا نشان لہرا دیا ۔ ان کی اخبار نویسی نے بعد میں اخباروں کو صحافت کے رخ متعین کرنے میں مدد دی ۔ 1857کی بغاوت نے مسلمانوں کو جاہلیت اور پسماندگی کے پر آشوب دور میں لاکھڑا کیا تھا اور مسلمان اس تباہی سے نکل نہیں پارہے تھے ۔ اس وقت ایسے حالات بن چکے تھے کہ انگریز مسلمانوں کو ہی اس بغاوت کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے ۔ ان حالات میں سرسید جیسا مرد مجاہد کھڑا ہوتا ہے اور انگریزوں کے سامنے صفائی پیش کرتا ہے کہ مسلمان اس بغاوت کے ذمہ دار نہیں تھے ۔ سر سید نے رسالہ” اسباب بغاوت ہند” لکھا اور انگریزوں کو بغاوت کی وجوہات بتانے کی کوشش کی ۔اور اس بات کو بھی غلط ثابت کیا کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیاتھا ۔اس سلسلے میں سر سید نے اپنی مثال دی اور کہا کہ میں نے مسلمان ہوتے ہوئےبھی انگریز حاکموں کی ساری رات پہرے داری کی ان سب باتوں کے علاوہ سر سید نے فساد کےاصل سبب کو سامنے لانے کی کوشش کی ۔رعایا کی غلط فہمی ، یعنی رعایا نے حکومت کی تجاویز کا مطلب غلط سمجھا۔ حکومت نے ایسے قانون وضوابط جاری کیے جو ہندوستانیوں کے عادات کے مطابق نہیں تھے، حکومت رعایا کے اصل حالات اور مصائب سے ناواقف رہی ، حکومت نے بعض ایسی باتیں ترک کردیں ۔ جن کی موجودگی ضروری تھی۔ فوج کی بد انتظامی ۔ان وجوہات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان کسی بھی طرح اس بغاوت کے ذمہ دار نہیں تھے۔ اس رسالے کے لکھنے کے بعد سر سید نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھ کر اس کی کاپیاں نہ صرف ولایت بھیجیں بلکہ اس کی ایک کاپی گورمنٹ آف انڈیا کو بھی ارسال کردی سر سید کی یہ پہلی کوشش تھی جسے ہم انگریزوں کے سامنے ایک علم بغاوت کا نام دے سکتے ہیں ۔ اس لیے اس وقت ایک ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے اس بات پر پوری تحقیق کی کہ آخر مسلمانوں پر الزام کیوں لگائے گئے ۔

سائنٹفک سوسائٹی:۔۔ سر سید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی اور معاشی پسماندگی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک کہ ایک منظم تحریک یا مشن کی شکل میں کوشش نہ کی جائے ۔اور ایسا کرنے کے لئے عوام کے خیالات میں ،ان کے احساسات میں تبدیلی لانا لازمی ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ نئےخیالات اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہی تو ہم پرستی اور جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلا جا سکتا ہے ۔ مسلمانوں پر چھائے ہوئے پسماندگی کے گہرے کہرے کو دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ایک انجمن قائم کی جائے۔ چنانچہ اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے 1863 میں غازی پور سائنٹفک سوسائٹی کی شروعات کی گئی اس سوسائٹی کا پہلا جلسہ کا 9/ جنوری کو غازی پور میں ہوا تھااس جلسے کا انعقاد سر سید نے اپنے ہی مکان پر کیا تھا ۔ اسی سال جب وہ غازی پور سے علی گڑھ آئے تو سائنٹفک سوسائٹی بھی ان کے ساتھ ساتھ علی گڑھ منتقل ہوگئی ۔ ہندوستان میں اس وقت کے پر آشوب دور میں ایک تنظیم قائم کرنا اور وہ بھی ایسی تنظیم جو تمام جدید اصولوں اور سائنٹفک قانونوں پر منحصر ہو ۔ سر سید نے اپنی کوششوں سے سوسائٹی کو کامیاب بنایا ہر مہینہ جلسوں کا اہتمام کرنا مضامین جن پر لکچر ہوتے تھے وہ خاص طور سے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے ہوتے تھے 14 فروری 1866 کو سوسائٹی کے اخبار کی شروعات ہوئی یہ اخبار پہلے ہفتہ وار تھا لیکن بعد میں ہفتے میں دوبار نکلنے لگا اس اخبار کا اداریہ سر سید خود ہی لکھا کرتے تھے ۔ اس اخبار نے اردو صحافت میں ایک نیا تعمیری نظریہ پیش کیا ۔ اس اخبار میں سوشل ، اخلاقی ،علمی اور سیاسی ہر طرح کے مضامین چھپتے تھے ۔ ساتھ ہی خبروں کو بھی جگہ دی جاتی تھی ۔

اخبار سائنٹفک سوسائٹی:۔۔ ہندوستان میں 1822 سے اردو صحافت کی شروعات ہوتی ہے اس وقت سے لیکر 1857 اور اس کے بعد تک اردو صحافت ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکی تھی۔ اس سفر میں رام موہن رائے ، مولوی باقر ، سید محمد خاں ، ماسٹر رام چندر ، منشی کنول کشور جیسے لوگوں نے صحافت کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ۔ لیکن اب بھی اردو صحافت کا ایک سیدھا رخ متعین نہیں ہوا تھا صحافت کا مقصد ابھی تک پوری طرح سے واضح نہیں تھا سر سید احمد خاں نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی سے اردو صحافت میں ایک نئی شروعات کی اور اپنی صحافت کا ایک معیار ایک نصب العین بنایا جس سے اردو زبان وادب ، قوم وملک، معاشرے اور صحافت کے جہاں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔

سر سید احمد خاں نے اپنے صحافتی سفر میں کاغذ اور ٹائپ وغیرہ کا بھی خاص خیال رکھا تھا ۔ طباعت صاف ستھری ہو تکنیکی باتوں پر بھی ان کی نظر رہتی تھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے صحافت کے میدان میں اپنی کامیابی کا لوہا منوایا۔ ایک کامیاب صحافی بننے کے لئے اس کا دولت مند ہونا ضروری نہیں بلکہ ذہنی استعداد ، سچی لگن اور حوصلہ مندی اسے ایک کامیاب صحافی بناتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کے صحافت کا ایک مقصد ہو تبھی وہ اچھا نڈر اور بے باک صحافی بن سکتا ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ میں گنے چنے نام ایسے صحافیوں کے ہیں اور ان میں ایک نام سر سید احمد خاں کا ہے جنہوں نے نہ تو مذہب کے ٹھیکے داروں کی پرواہ کی اور نہ ہی حکومت کی بس اپنی صحافیانہ کوششوں سے عوام کو بیدار کرتے رہے ۔

شعبہ اردو خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی لکھنؤ

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here