پروین شاکر کی تانیثی شاعری مشرقی تصورات سے ہم آہنگ- Parveen Shakir’s feminine poetry is in tune with Eastern ideas

0
319

 Parveen Shakir's feminine poetry is in tune with Eastern ideas

حیدرآباد15فروری (یواین آئی) پروین شاکر اردو کی مقبول شاعرہ تھیں۔ وہ خوش شکل، ذہین اور اعلی عہدے پر فائز تھیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر شناخت رکھتی تھیں۔ ان کی شاعری میں حزن و ملال کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ عورت کے کرب اور احتجاج کی زیریں لہر موجود ہے۔ اور یہی ان کی کا راز ہے۔ ان کے یہاں ریڈیکل فیمنزم نہیں ملتا۔ ان کی تانیثی شاعری مشرقی تصورات سے ہم آہنگ ہے۔ ان خیالات کا اظہار نامور افسانہ نگار اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے پروین کی شاعری کی پیشکش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پروین شاکر کے لہجے کی تازگی، نئی تراکیب مدھم انداز ان کی وہ خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری سیدھے دل میں اترتی ہے۔ کوئی فنکار یہ سوچ کر نہیں لکھتا کہ وہ مرد کی شاعری کر رہا ہے یا عورت کی۔ اچھی شاعری ماحول اور مسائل کے دین ہوتی ہے۔ پروین شاکر کو نسائی خانے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی نئی شاعری کا ذکر آئے گا پروین شاکر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خوشبو ایک استعارہ ہے۔ پروین شاکر کی شاعری خوشبو کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شاذیہ عمیر، استاد شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی نے بحیثیت مہمان خصوصی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نقاد پروین شاکر کو گھر آنگن، چوڑیوں کی جھنکار اور مرد و عورت کے رشتہ کی شاعرہ کہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ آج کے پروگرام میں ان کے پہلے مجموعے سے غزلوں کا انتخاب پیش کیا گیا۔ خوشبو پروین شاکر کی شناخت بن گئی ہے اور ان کے کلام میں یہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ خوشبو ایک استعارہ ہے عورت کے مقدر بے سروسامانی، وحشت اور بے گھری کا۔ زندگی کی آبلہ پائی اور کوچہ گردی کا۔ پروین شاکر کی شاعری گھر آنگن تک ہی محدود نہیں ہے ان کی شاعری میں سماج کا کرب عورت کے مسائل اور آفاقی شعور ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی نشست بھی ہونی چاہیے جس میں نسائی حسیت پر بھرپور گفتگو ہو سکے۔ ڈاکٹر محمود کاظمی، استاد ترجمہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کہا کہ اگر ہم اپنی بحث کو پہلے مجموعے تک محدود رکھیں تو اس کا پیش لفظ پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ پروین شاکر نے لکھا کہ شہر ذات کے تمام دروازے اندر کی طرف کھلتے ہیں۔ پروین شاکر کا لہجہ احتجاج کا لہجہ نہیں ہے ان کی شاعری میں کرب ذات ہے، نسائی درد ہے۔ احتجاج نہیں بلکہ خود سپردگی کا انداز ہے۔ میں پروین شاکر کی شاعری کو تانیثیت کی بڑی آواز نہیں سمجھتا۔ ابتدا میں ممتاز منور پیر بھائی نے جو خود بھی اچھی شاعرہ ہیں دلکش انداز میں پروین شاکر کی غزلیں پیش کیں۔ ابتدائمیں باز گشت کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم استاد شعبہ ¿ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے شرکا کا استقبال کیا۔ انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید پرنسپال گورنمنٹ کالج فار ویمن سنگاریڈی نے پروین شاکر اور مہمانِ خصوصی ڈاکٹر شاذیہ عمیر کا تعارف پیش کیا۔ پروین شاکر کا تعارف کرواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پروین شاعر اردو نسائی شاعری کا ایک منفرد نام ہے۔ وہ صرف ایک شاعرہ تھیں بلکہ استاد بھی رہیں۔حکومت پاکستان میں سول سرونٹ کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔ پروین شاکر 24نومبر 1952ئکو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام سید شاکر حسین اور تخلص ثاقب تھا۔ ان کے والد ضلع بہار کے علاقے شیخوپورہ کے رہنے والے تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ پروین کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ ان کے ابتدائی کلام پر ان کے والد کا رنگِ سخن غالب ہے۔ پروین شاکر نے رضویہ گرلز اسکول کراچی سے میٹرک کیا۔ 1971ء میں سر سید گرلز کالج سے انگریزی ادب میں بی اے آنرس 1972ئمیں جامعہ کراچی میں داخل ہوئیں اور وہاں ایم اے انگریزی کا امتحان اعلیٰ درجے میں کامیاب کیا۔ اور 1992 میں ماسٹرس ان بینک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اسی سال مینجمنٹ انفارمیشن کا کورس کیا۔ رول آف میڈیا ان 1971ؤار پروہ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا چاہتی تھیں لیکن مکمل نہ ہو پایا۔ پروین شاکر کی شاعری میں نسائی حسیت نمایاں ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ”خوشبو“ بہت مقبول ہوا اور اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کے اشعار گھر گھر پہنچے اور ہر ایک کے دل میں گھر کر گئے۔ ان کی پہلی تصنیف خوشبو کو ہندی والوں نے بھی سراہا اور کئی ایڈیشن چھپے۔ 1980ئمیں شعری مجموعہ ”صد برگ“، ”خود کلامی“ اور 1990 میں ”انکار“ منظر عام پر آئے۔ ”ماہِ تمام“ کے عنوان سے ان کا کلیات مرتب کیا گیا۔ 1994ئمیں ایک کار حادثہ میں پروین شاکر ہم سے جدا ہوگئیں۔
انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر گل رعنا، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد نے جلسے کی نظامت کی اور ڈاکٹر ممتاز منور پیر بھائی کا تعارف کروایا اور پروگرام کے آخر میں اظہار تشکر کیا۔ اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلباؤ طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ان میں پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، پروفیسر غلام شبیر رانا (پاکستان)، جناب سردار علی (کنیڈا)، ڈاکٹر سعید نواز، جناب غوث ارسلان، محترم فرح تزین (سعودی عرب)، ڈاکٹر جاوید رحمانی استاد شعبہ اردو آسام یونیورسٹی، جناب ملکیت سنگھ مچھانا، ڈاکٹر محمود کاظمی، ڈاکٹر ابو شہیم خان،(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)، سید امتیاز الدین، ڈاکٹر حمیدہ بیگم (حیدرآباد)، محترمہ عظمیٰ تسنیم، پونے؛ ڈاکٹر عطیہ رئیس، دہلی؛ محترمہ صائمہ بیگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here