مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوش قدح سے بزم میں چراغاں کیے ہوئے
شعر وادب کی بات کی جائے یا کوئی ادبی محفل سجائی جائے تو سب سے پہلے مرزا سد اللہ خاں غالب کا نام ذہن میں گردش کرتاہے ۔۔ جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا تو دوسری طرف مشرقی تہذیب کا آفتاب غروب ہونے کو تھا۔ اس وقت دنیائے ادب میں چند ایسی شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے آنکھوں کو خیرہ کردیا ۔۔نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب کا نام اس میں سر فہرست ہے۔۔ فارسی ادب ہو یا اردو ادب نثر ہو یا شاعری غالب سب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔۔ 27 دسمبر 1797 آگرہ میں مرزا اسد اللہ غالب نے میرزا عبداللہ بیگ کے گھر آنکھ کھولی۔۔1802میںء مرزا اسداللہ خاں غالب کے والدِ محترم مرزا عبداللہ بیگ خاں راج گڑھ کی جنگ میں گولی لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے
1810ء ،اگست 9 کو نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی الٰہی بخش خاں معروف کی 11 سالہ صاحبزادی امراؤ بیگم سے مرزا اسداللہ خاں غالب کی شادی ہوئی .جب غالب کی عمر صرف 13 سال تھی1813ءمیں مرزا اسداللہ خاں غالب آگرہ سے دہلی منتقل ہوگئے
غالباَ1868کے آخر میں یا 1869کے آغاز میں مرزا غالب بیمار ہو گئے14فروری 1869کو بیماری سے کچھ افاقہ ہوا تو کھانے کی خواہش کا اظہار فرمایا – پھر ملازم سےکہا کہ میرزا جیون بیگ (یعنی میرزا باقر خاں کامل کی سب سے بڑی صاحبزادی ) کو بلاؤ – نوکر نے آکر بتیا کہ وہ سو رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ جب وہ آئے گی تو تب میں کھانا کھاؤں گا – اُس کے بعد جونہی گاؤ تکیے پر سر رکھا بے ہوش ہوگئے – فوراّ حکیم محمود خاں اور حکیم احسن اللہ خاں کو اطلاع دی گئی- انہوں نے تشخیض کی کہ دماغ پر فالج اٹیک ہوا۔
1869ء ، فروری 15 کا دن … اُس کے بعد … انہیں پھر ہوش نصیب نہ ہوا – آخرکار…… وہ دہلی میں زندگی کی بازی ہار گئے ۔1869ء ، مارچ ، 6 ، اُردوئے معلٰی (رقعات) شائع ہوئی۔سات بچے بچیوں کی ولادت ہوئی لیکن کوئی بھی 15 ماہ سے زیادہ عمر نہ پا سکا۔1870ء ،فروری 4 غموں اور سر پر چڑھے قرضوں سے نڈھال ، غالب کی پہلی برسی کی تیاریوں میں مصروف ،ان کی بیگم بھی اللہ کو پیاری ہو گیئں .
رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
غالب کی علمی وادبی زندگی کی بات کی جائے تو ان کی تلمذ خاص میںمولانا اسماعیل میرٹھی، مرزا ہرگوپال تفتہ، منشی شیونرائن اکبرآبادی، مرزا خضر سلطان، نواب ضیاء الدین احمد خان نیر رخشاں، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ شامل ہیں۔ ۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب پہلے پہل شاعری میں اسد تخلص کرتے تھے پھر بعد میں غالب کا تخلص استعمال کیاا انکی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی میں نہیں ہے۔ بلکہ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ اپنے تخلص غالب کی طرح سب اہل سخن پر غالب رہے ۔۔۔ ان کی تصانیف میں۔ دیوان غالب ،دستنبو،مہر نیمروز،قاطع برہان،میخانہ آرزو،سبد چین،عود ہندی،مکاتیب غالب،نکات غالب رقعات غالب اورقادر نامہ شامل ہیں ۔۔۔ دیوان غالب میں میں مرزا کا اردو کلام ہے جس میں غزلو ں کے علاوہ قصائد، قطعات اور رباعیات ہیں۔
دستنبو:اس کتاب میں 1850 سے لے کر 1857 تک کے حالات درج ہیں۔ یہ کتاب فارسی میں ہے جو پہلی بار 1858 میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا ترجمہ خواجہ احمد فاروقی نے کیا ہے
۔مہر نیمروز:تیمور سے ہمایوں کے عہد تک کے حالات لکھے۔ پھر بادشاہ کی فرمائش پر حکیم احسن اللہ خاں نے حضرت آدم سے چنگیز خاں تک کی تاریخ مرتب کی جسے غالب نے فارسی میں منتقل کیا۔
قاطع بُرہان:فارسی لغت ‘برہانِ قاطع’ از مولوی محمد حسین تبریزی کا جواب ہے۔ قاطع برہان کی اشاعت 1861 میں ہوئی بعد میں اعتراضات کا اضافہ کرکے غالب نے اسی کو ‘دُرفش کاویانی’ کے نام سے 1865 میں شائع کیا
میخانۂ آرزو:فارسی کے کلام کا پہلا ایڈیشن 1845 میں اسی نام سے چھپا۔ پھر بعد میں کلیات کی شکل میں کئی ایڈیشن چھپے۔
سبد چین:اس نام سے فارسی کلام1867 میں چھپا۔ اس مجموعے میں مثنوی ابر گہربار کے علاوہ وہ کلام ہے جو فارسی کے کلیات میں شامل نہیں ہو سکا تھا۔دعائے صباح:عربی میں دعا الصباح حضرت علی سے منسوب ہے۔ غالب نے اسے فارسی میں منظوم کیا۔ یہ اہم کام انھوں نے اپنے بھانجے مرزا عباس بیگ کی فرمائش پر کیا تھا۔
عودہندی:پہلی مرتبہ مرزا کے اردو خطوط کا یہ مجموعہ 1868 میں چھپا۔اردوئے معلیٰ:غالب کے اردو خطوط کا مجموعہ ہے جو 1869 میں شائع ہوا۔
مکاتیب غالب:مرزا کے وہ خطوط شامل ہیں جو انھوں نے دربار رامپور کو لکھے تھے اور جسے امتیاز علی خاں عرشی صاحب نے مرتب کرکے پہلی مرتبہ 1937 میں شائع کیا
۔نکات غالب رقعات غالب:نکات غالب میں فارسی صَرف کے قواعد اردو میں اور رقعات غالب میں اپنے پندرہ فارسی مکتوب ‘پنج آہنگ’ سے منتخب کرکے درج کیے تھے۔ غالب نے ماسٹر پیارے لال آشوب کی فرمائش اور درخواست پر یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
قادرنامہ:مرزا نے عارف کے بچوں کے لیے آٹھ صفحات پر مشتمل یہ ایک مختصر رسالہ قادرنامہ[16] لکھا تھا جس میں ‘خالق باری’ کی طرز پر فارسی لغات کا مفہوم اردو میں لکھا گیا تھاجیسے اس نظم کا پہلا شعر ہے
قادر اللہ اور یزداں ہے
خداہے نبی مرسل، پیمبر رہنما
غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی دہلی کہ دہلی کے برباد ہونے کا غم دلی طور پر محسوس کیا اس اس کٹھن دور میں انھوں نے جو بربادیاں دیکھیں اس کو قلم بند کیا اور زندگی کے جن نشیب وفراز سے گزرے ان کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔۔تبھی تو دنیا کو بازیچہ اطفال کہا جیسا کہ ان کا مشہور شعر ہے۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے اگے
مندرجہ بالا شعر کی روشنی میں غالب کہتے ہیں کہ یہ حادثات انکی زندگی کا روزمرہ کے معمول ہیں کوئی بڑا حادثہ ہو یا چھوٹا ان کی طبعیت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔۔زندگی کہ ہر پہلو پر قلم اٹھایا آپکا کلام ستارہویں صدی سے اب تک یکساں مقبول ہے۔عشق حقیقت اور عشق مجازی کو شعروں میں بیان کیا۔ شیریں و فرہاد کا تذکرہ تو کہیں لیلی مجنوں کا ذکر
کہیں ہجرووصال کی باتیں تو کہیں غم جاں تو کہیں غم جہاں ہجر و صال کے تناظر میں دل کو یوں تسلی دیتے ہیں
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
تیرے وعدے پر جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مشکل پسندی انکا خاصہ تھی مشکل الفاظ، ستعارات، تشبیہات اور تلمیحات کا اپنے کلام کا جزو بنایا اور اردو شاعری میں نئ طرہ ڈالی۔لفاظی کی مٹھاس اور لہجے کی چاشنی سے قاری کو اپنی زندگی کے تجربات اور دکھ درد سے متعارف کروایا۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
خود پسندی اور انانیت غالب کی شاعری کا عنصر تھا کبھی صریر خامہ نوائے سروش ہیں تو کبھی ولی ہیںکہتے ہیں۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے تو جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب کی منفرد انداز کے شاعر ہیں لفظوں کا بےباک ،اچھوتا اور بے تکلفانہ انداز ان کی شاعری کو انفرادیت کا حامل بناتا ہے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
غالب وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر جہت میں اپنا موقف بیان کیا ان کے کلام کو جس دور میں پڑھا جائے اس دور کا ہی عکاس ہے۔یہی ان خوبیاں ان کلاسیکل کے درجے پر فائز کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اہل ادب غالب کو اسی ذوق و شوق سے پڑھ اور پڑھا رہے ہیں اور ہر آنے والی نسل ان کے کلام سے مستفید ہو رہی ہے ان کے کلام کا جادوئی اثرہے جو سب کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔۔امید واثق ہے ادبی دنیا میں ان کی تخلیقات کو کبھی زوال نہیں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
ا سکالر لاہور گیریژن یونی ورسٹی لاہور، پاکستان
ضضض