Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldغالبؔ کی ایک غزل کے قوافی

غالبؔ کی ایک غزل کے قوافی

[email protected] 

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ڈاکٹر ہارون رشید

بات شروع ہوئی ہمارے دوست اور معروف شاعر و ادیب شکیل گیاوی کے ان تین اشعار سے جن میں انھوں نے مطلع میں تسلی اورشرمندۂ معنی قوافی کاا ستعمال کرتے ہوئے بعد کے اشعار میں دم افعی،تقوی ،دم عیسی اور راضی(یا ساکن ما قبل مکسور) جیسے الفاظ کو قافیہ بنایا اور فیس بک پراہل دانش کی نذر کیا ۔اشعار اس طرح ہیں:۔
تو نہیں ہے تو ملے دل کو تسلی کیسے
ہو محبت مری شرمندہ ٔ معنی کیسے
ہر نفس زہر کے دریا سے گذرتا ہوں میں
ڈس رہا ہے مجھے پوچھو دم ِافعی کیسے
ایک لمحہ بھی گناہوں سے نہیں ہے فرصت
تم کو مل سکتی ہے پھر منزل تقوی کیسے
پھونکتا ہوگا خدا جانے یہ اسرار نہاں
روح مردوں میں دوبارہ دم عیسی کیسے
ایک بار اور شکیل اس کو مناؤ تو سہی
یہ نہ سوچو کہ وہ ہو پائے گا راضی کیسے
ظاہرہے کہ فیس بک کی روایت ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ہے بس اسی کے مطابق واہ واہ شروع ہو گئی۔داد و تحسین کے اس شور میں وہ بھی شامل ہو گئے جو معتبر شعرا کی صف میں سمجھے جاتے ہیں کسی نے شکیل گیاوی کے ’’نوٹ ‘‘کی طرف دھیان نہیں دیا۔میرا تو خیال یہ بھی ہے کہ اکثر نے اشعار کو پڑھنا بھی گوارہ نہیں کیا بس شکیل گیاوی کا نام دیکھا اور واہ واہ کی دوڑ میںلگ گئے۔
راقم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ
’’بلا شبہ عمدہ اشعار ہیں لیکن قوافی میں جو مہین کام لگایا گیا ہے
اس پر میں بھڑکوں گا نہیں۔کوئی اور بھڑکے تو بھڑکے‘‘
ظاہر ہے کہ اس تبصرے میں قوافی پرخاموش سوال قائم کر دیا گیا تھا۔جس پر کچھ دوستوں نے کہا کہ ہارون صاحب دامن بچا کر نکل گئے۔لیکن شکیل گیاوی کوبھی شکوہ ہوا ’’کیسی مہر لگا دی آپ نے کہ ساری امیدوں پر پانی پھر گیا‘‘فیس بک پریہ شکیل گیاوی یا میری دہشت تھی کہ کسی نے یہ سوچ کر لب کشائی نہیں کی کہ پھر دامن چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔(کیونکہ ہم دونوں ہی کا یہ مزاج ہے کہ کوئی بحث جب چھیڑی جائے تو اسے منزل مقصود تک پہنچایا جائے۔بحث برائے بحث کے ہم دونوں ہی قائل نہیں)اور یہ بھی خیال رہا ہوگا کہ اگر شکیل صاحب نے اہل دانش کی نذر کیا ہے تو اس میں ضرور کوئی چال ہوگی اہل دانش کے لئے۔کیونکہ شکیل صاحب ایک سینئر شاعر ہیںوہ دانستہ اتنی بڑی غلطی تو کر نہیں سکتے (حالانکہ فیس بک کے باہر کچھ لوگوں نے ان اشعار پرگفگتوضرور کی۔ ان میں نئے لب و لہجے کے شاعر احمد جمال ،سراج الدین سیف اور واصف فاروقی کے نام نامی شامل ہیں۔مہتاب حیدر صفی پوری جو براہ راست گفتگو میں شریک نہیں ہوئے لیکن ان کے تبصرے بھی سماعت تک پہنچے)اور بات تھی بھی یہی کیونکہ شکیل گیاوی چاہتے تھے کہ ان قوافی پر کوئی زبان کھولے کہ جب مطلع میںتسلی اور شرمندہ معنی بطور قافیہ آ گیا تو تقوی،افعی اور عیسی قافیہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے تلفظ میں الف مقصورہ ہے جو الف کی طرح بولا جاتا ہے۔اگر انھیں الف کی طرح پڑھا جائے تو قافیہ غلط ہوتا ہے اور اگر تسلی کی مناسبت سے پڑھیں تو افعی ،تقوی اور عیسی کاتلفظ بگڑتا ہے۔ہاں’’ معنی‘‘میں اختلاف ہے بعضے اسے یا ما قبل مکسور پڑھتے ہیں اور بعض الف مقصورہ کی شکل میں۔
در اصل شکیل گیاوی کی نظر سے غالب کی ایک غزل گذری تھی جس میں کچھ ایسے ہی قوافی کا استعمال ہوا تھا ۔ملاحظہ ہوں غالب کے وہ اشعار:۔
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہو
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
دل گذر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزل ِتقوی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں ،سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
نا توانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا
(بحر رمل مثمن سالم مخبون محذوف)
شکیل گیاوی کا گیم سیف تھا کہ اگر کوئی ان قوافی کو غلط کہتا ہے تو وہ تھوڑے بحث و مباحثے کے بعدسند کے طور پر غالب کو پیش کر دیتے۔لیکن شکیل صاحب کوان اشعار کو گڑھنے کی ضروت ہی کیوں پڑی۔اس کی تحلیل نفسی کی جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ خود شکیل صاحب نے بادی النظر میں ان قوافی کو غلط سمجھا تھا اور غالب کے ان قوافی سے وہ مطمئن نہیں تھے ۔ورنہ وہ اپنے اشعار نہ گڑھتے بلکہ سیدھے سیدھے غالب کی غزل ہی پیش کرتے اور اہل دانش کو دعوت کلام دیتے۔ظاہر ہے ایسی صورت میں شاید ہی کوئی کلام کی زحمت اٹھاتا یہ الگ بات ہے کہ دوسری صورت میں بھی کسی نے زحمت نہیں اٹھائی۔
غالب اردو کا ایسا پہلا شاعر ہےجس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود شناس بھی تھا۔یعنہ وہ اپنی منزل اور مرتبہ کو پہچانتا تھا۔بعد کے ناقدین کے اقوال اور آرا اس بات کی ضامن بنیں کہ اپنے بارے میں غالب کے دعوے غلط نہیں تھے۔غالب ہی ایسا شاعر بھی ہے جس پر دنیا کی ہر بڑی زبان میں لکھا گیا اور ان کے کلام کی شرحیں بھی خوب خوب لکھی گئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔غالب پر جو آخری اہم کتاب آئی وہ گوپی چند نارنگ کی’غالب معنی آفرینی جدلیاتی وضع شونیتاشعریات‘‘ ہے ۔جس کی ملک اور بیرون ملک میں نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ غالب فہمی اور غالب شناسی کی نئی بحث کا آغاز بھی ہوا۔نارنگ سے پہلے غالب فہمی کے تعلق سے ایک اہم کتاب شمس الرحمن فاروقی کی ’’تفہیم غالب‘‘بھی آئی تھی۔جس میں قدیم و جدید شعریات کی روشنی میں ٖغالب کے منتخب اشعار کی شرح پیش کی گئی تھی۔لیکن کسی نے غالب کی اس غزل کے قوافی کی طرف دھیان نہیں دیا جس میں عجیب و غریب قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دانشوروں نے ان قوافی کو قابل اعتنا اس لئے نہیں سمجھا کہ ان کی نظر میں یہ کچھ خاص نہیں تھا۔جب کہ شرح اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک غزل کے خارجی اور داخلی دونوں عناصر پر یکساں نظر ڈالی جائے۔ جب میں نے اپنے تین اردو پروفیسروں سے رابطہ کیا تو وہ بھی اس پہیلی کو سلجھا نہیں پائے ۔حد تو تب ہوگئی جب انھوں نے قوافی کی صوتی مناسبت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہی تلفظ ادا کیاجو ان کا اصل تلفظ ہے۔یعنی عی سی ک،اف عی،تق وی وغیرہ کو ان کے اصل تلفظ کے ساتھ عیسیٰ ،افعیٰ اور تقویٰ پڑھا۔انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یائے ساکن ما قبل مکسور کا قافیہ الف مقصورہ کیسے ہو سکتا ہے۔اسی لئے استاد محترم پروفیسر انیس اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ شاعری پر تنقید لکھنے کے لئے ناقد کا شاعر ہونا ضروری ہے۔میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس استاد کے اندر بھی شعری شعور ہونا چاہئے جو شاعری پڑھا رہا ہو۔جب میں با قاعدہ یونیورسٹی کاطالبعلم تھا اور دیوان غالب نصاب میں شامل تھا تب بھی یہ گفتگو کسی دن نہیں ہوئی۔لیکن میں شکیل گیاوی کا شکر گذار ہوں کہ ان کی اس ادبی شرارت سے ایک کار آمد گفتگو کا دروازہ کھلا اور میں نے اسے سمجھنے کے لئے کتابیں کھنگالیںاو اپنے اساتذہ اور احباب سے رابطہ کیا ۔پروفیسر احمد محفوظ (دہلی)نے بتایاکہ:۔
’’ غالب کی اس غزل میںاصلاً قوافی کی صحت زیر بحث نہیں ہے کیونکہ قافیے تو سب اصولی طور پر درست ہیں. یہاں مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ بطور قافیہ جو الفاظ آئے ہیں وہ درست ہیں کہ نہیں۔اس سوال کے جواب میں عرض یہ ہے کہ معنی, افعی ,تقوی اور عیسی کی یہ صورتیں بالکل درست ہیں. اصل میں یہ الفاظ عربی کے ہیں اور ان میں عربی صرفی قاعدے کی رو سے الف مقصورہ ہے. یعنی عربی کے لحاظ سے یہ سب الف کے قافیے والے الفاظ ہیںلیکن فارسی اور اردو میں ان کے استعمال کی صورت یہ رہی کہ انھیں دونوں طرح استعمال کیا گیا. یعنی الف مقصورہ کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی. لیکن اس کے بھی کچھ آداب ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ مثلاً عیسیٰ اور موسیٰ وغیرہ کو جب بھی بطور مضاف لاتے ہیں تو اس میں مقصورہ نہیں لاتے جیسے عیسی مریم اور موسی عمران وغیرہ. مضاف الیہ کی صورت میں دونوں صورتیں روا رکھی گئی ہیں جیسے غالب کے شعروں میں بغیر مقصورہ کے ہے۔کچھ الفاظ ایسے ہیں جو مضاف کی صورت میں بھی مقصورہ کے ساتھ برتے جاتے ہیں جیسے دعوی اور لیلی وغیرہ جیسے دعواے گرفتاری الفت اور لیلاے شب وغیرہ. مضاف کے طور پر انھیں بغیر مقصورہ کے استعمال کرتے ہیں جیسے میر کا شعر:۔
چمن گل نے جو کل دعویٔ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
جہاں تک لفظ’’ معنی ‘‘کا سوال ہے تو اسے فارسی اور اردو میں زیادہ تر بغیر مقصورہ کے ہی استعمال کیا گیا ہے خواہ مفرد ہو یا مضاف اور مضاف الیہ کی صورت میں ہو.‘‘
حالانکہ پروفیسر احمد محفوظ نے افعی ،اور تقوی کے استعمال کی دلیل یا سند پیش نہیں کی لیکن بہت حدتک انھوں نے عقدہ حل کر دیا۔پھر بھی یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ آج اردو شاعری بالخصوص اردو غزل ارتقائی مراحل سے گذر کر جس منزل ارتفاع پر پہونچ چکی ہے وہاں عی سی اور تق وی بطورقافیہ قابل قبول نہیں ہوں گے۔اگر غالب کو سند مان کر ایسے قوافی برتے جائیں گے تو بھی مناسب نہیں ہوگا کہ زبان میں بہت سی تبدیلیاں ہو چکی ہیں اور بہت سے متروکات کا استعمال اب زبان و ادب میں روا نہیں رہ گیا ہے۔نیز غالب سے آج تک کے سفر میں صوتیات قوافی کی بنیاد قرار پا چکی ہیں۔اورویسے بھی قرآن پاک میں ” موسیٰ ” اور ” عیسیٰ ” نیز ” تقویٰ ” الف مقصورہ کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے اس لئے اس کے خلاف قوافی غیر مانوس متصور ہوں گے اور ان سے احتراز بہتر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ غالب کے ان قوافی کی طرف ان کے عہد میںیا بعد میں کسی ناقد یا شارح نے دھیان کیوں نہیں دیا ۔فضل حق خیر آبادی جنھوں نے غالب کی ایما پر ان کا دیوان منتخب اورمرتب کیا انھوں نے کوئی نوٹ کیوں نہیں لگایا۔یامحمد حسین آزاد اور حالی بھی کیوں خاموش رہے ۔تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اس عہد میںان الفاظ کو اس طرح باندھنا جائز رہا ہو۔لیکن پھر بھی یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کسی اور نے ان الفاظ کو اس طرح کیوں نہیں باندھا جس طرح سے غالب نے باندھا ہے۔یہ سوال میں محققین پر چھوڑتا ہوں۔ممکن ہے کہ غالبیات پر کوئی اور زاویۂ گفتگو روشن ہو اوراس بحث پر مزید روشنی پڑ سکے۔
ڈاکٹر محمد ہارون رشید
9956779708

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular