Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim World’رام‘ اور ’ہنومان‘

’رام‘ اور ’ہنومان‘

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

علی سنجر نیازی گونڈوی

مکرمی! ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اچھا ۔دوسرا برا۔ دونوں پہلوئوں میں سے دوسرا پہلو ہر خاص و عام پر حاوی ہوگیا ہے۔ یعنی کام کم ڈرامہ بازی زیادہ۔ اسی کی زد میں آکر ہنومان کی ذات و مذہب پر بیان بازی شروع ہوگئی ہے۔ کوئی دلت بتا رہا ہے تو کوئی مسلمان، کوئی جاٹ بتا رہا ہے تو کوئی کھلاڑی۔ اور کیا کیا گل کھلیں گے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ قدیم زمانے میں لوگوں کو اچھا بنانے کیلئے مورتیوں کے ذریعہ سمجھایا جاتا تھا ۔ ہنومان (انومان) کا معنیٰ (اندازہ، سوچ، فہم)، رام کا معنیٰ روشنی اور سیتا معنیٰ سچائی۔ یہ تینوں اُس زمانے کے کردار ہیں جیسے کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اندازہ کرلیں یا سوچ سمجھ لیں، دوسرا یہ کہ ہر طرف علم کی روشنی پھیلائی جائے تاکہ لوگ واقف ہوسکیں اور تیسرا یہ کہ وعدہ کا پکا یا سچائی پر کھرا اُترے تاکہ لوگ اعتبار کریں۔ مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اس سے کسی کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے۔
رام مندر کے بارے میں ہندو بھائیوں اور سادھو سنتوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ رام مندر بنے تو کس ’رام‘ کا بنے؟ مندرجہ ذیل شعر پر غور فرمائیں:
(۱) ایک رام دشرتھ کا بیٹا
(۲) ایک رام گھٹ گھٹ میں بیٹھا
(۳) ایک رام کا سکل پسارا
(۴) ایک رام سب ہوں سے نیارا
(ہندی رسالہ ’ستیہ کتھا‘ لائبریری، یوپی اردو اکادمی قیصر باغ لکھنؤ۔ 1988-89 )
پہلے مصرعہ کے بارے میں سبھی ہندو بھائی اور مسلمان بھی جانتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں جو ’رام‘ ہے وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ تیسرے مصرعہ ’رام‘ کو حضرت آدمؑ کہا گیا ہے۔ جیسے لنکا میں ’پل آدم‘ کو انگریزی میں ’ایڈم بریج‘ اور ہندی میں ’راماسیتو‘ کہا گیا ہے۔اسی ’رام‘ یعنی حضرت آدم سے اولادوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک بدستور قائم ہے۔ چاہے کوئی ہندو یا مسلم، سکھ ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا پارسی حتیٰ کہ دنیا میں جتنے بھی اقوام ہیں سبھی اولادِ آدم ہیں۔ چوتھا مصرعہ ’رام‘ حضور اکرمؐ سے منسوب ہے یعنی سب سے معزز، افضل اور نور سے منور ۔حضوؐر کے بابت کسی ممتاز شاعر کی نعت ہے: ’’نورِ مجسم نیر اعظم صلی اللہ علیہ و سلم‘‘
میری معلومات کی حدتک ’ستیہ کتھا‘ کے حضرت شاعر کی جو بھی منشاء رہی ہو لیکن یہ شعر یہی بتا رہا ہے۔
ہمارے معززین ہندو بھائی اگر مندر بنانا چاہتے ہیں تو کس ’رام‘ کا بنائیں گے؟اس پر تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی بھی عدالت ہو جب تک دونوں فریق متفقہ طور سے بیان نہیں دیں گے تو فیصلہ ہونا مشکل ہے۔ دونوں فریقوں کو آپس میں مل بیٹھ کر سمجھ لینا چاہئے اس کے بعد عدالت سے رجوع کرنا مستقبل کیلئے نیک فال ہوگا۔ نہیں تو ابھی 26 سال گذرے ہیں اور مزید 26 سال گذرے گا تو 52 سال ہوجائیں گے اس اثناء میں اگر منافرت اور بڑھ گئی تو مستقبل کیلئے نیک فال نہیں ہوں گے۔
معذرت:روزنامہ اُردو اودھ نامہ 26 اگست 2018 ء کے مراسلہ ’’رویت ہلال اور چاند گرہن‘‘ میں غلطی سے ’’اگر ہم پیش کریں کہ 2019 ء میں پہلا روزہ 6 مئی اور عید 5 جون کو ہوگی‘‘ کو اس طرح پڑھا جائے ’’پہلا روزہ 7 مئی اور عید 5 جون کو ہوگی۔‘‘ کیونکہ ہم نے 11 دن کے بجائے 12 دن گھٹا دیئے تھے جس میں مئی 31 دن کا ہے اس لئے غلطی سے روزہ ’6 مئی ‘ ہوگیا اسے براہِ کرام درست فرمالیں۔ بقیہ حسب سابقہ رہیں گے۔ ابھی سال بدلنے میں ایک ہفتہ اور رمضان المبارک آنے میں 5 ماہ باقی ہیں۔ مذکورہ بالا غلطی کیلئے سبھی معزز قارئین کرام سے معذرت خواہ ہیں۔

، 486/32 ، ببووالی گلی ڈالی گنج لکھنؤ۔ 226020
E-mail : [email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular