Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldتعلیم کے تئیں سنجیدہ اقدام کی ضرورت!

تعلیم کے تئیں سنجیدہ اقدام کی ضرورت!

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

اس حقیقت سے ہم سب آگاہ ہیں کہ دنیا کی جتنی بھی قومیں ترقی یافتہ قوم میں شمار ہوتی ہیں وہ سب تعلیم کی بدولت ہی ترقی کے اوجِ ثریاّ تک پہنچی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جس قوم نے پوری دنیا کو تعلیم کی اہمیت وافادیت سے آشنا کیا وہ خود تعلیمی شعبے میں پسماندگی کی شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ واضح ہو کہ اسلام نے ہر مرد اور عورت پر تعلیم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے تمام تر جغرافیائی حدود کو سر کرنے کی بھی اجازت دی ۔ کیوں کہ جب حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جائو۔تو اس کا صاف اشارہ تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں ملک کی سرحد اور زبان وتہذیب کبھی دیوار نہیں بن سکتی ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری پسماندگی جگ ظاہر ہے لیکن ہندوستان میں جس طرح تعلیمی شعبے میں ہماری پسماندگی ہے اس کے لئے صرف اور صرف ہم حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیوں کہ اسی ملک میں دوسری اقلیتیں بھی رہتی ہیں ۔ سکھ ، عیسائی، بدھ اوراب جین بھی شامل ہیں ۔ آخر ان طبقوں نے تعلیمی میدان میں خود کو نمایاں کس طرح کیا ہے اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان میں اب تک سال2011کی مردم شماری کی بنیاد پر ہی تمام تر ڈاٹے دستیاب ہیں ۔اس مردم شماری کا سرسری جائزہ لینے سے یہ حقیقت اجاگر ہو جاتی ہے کہ جین کی شرح خواندگی 84.7فی صد ہے ، عیسائی کی 74.3فی صد،بدھشٹ کی71.8فی صد ، سکھ کی 67.5فی صد اور مسلم کی 57فی صدہے۔غرض کہ آزادی کے بعد کے حالات خواہ کتنے بھی دیگر گوں رہے ہوں لیکن اس ملک کی دیگر اقلیتیں تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں مسلم طبقے سے آگے رہی ہیں۔ اگر چہ یہ سرکاری ڈاٹا صد فی صد درست نہیں ہوتے اس کے باوجود حکومت اپنے تمام تر ترقیاتی نشانے ملک کی آبادی کو سامنے رکھ کر بناتی ہے اور تعلیمی شعبے میں شرح خواندگی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان میں مسلم آبادی 14.2فی صد ہے لیکن تعلیمی شعبے میں ہم کہاں کھڑے ہیں اس کا مذکورہ ڈاٹا آئینہ دار ہے۔ جہاں تک خواتین کی تعلیمی شرح کا سوال ہے تو اس میں تو مسلم طبقے کی حالت اور بھی بد تر ہے ۔ کیوں کہ قومی سطح پر عورتوں کی تعلیم کی شرح 44فی صد ہے مگر مسلم طبقے کی عورتوں کی شرح 30.25فی صد ہے اور اس فی صد میں کیرالہ اور میزورم کے مسلمانوں کی صد فی صد تعلیمی شرح شامل ہونے کی وجہ سے مجموعی فی صد میں اضافہ دکھائی دے رہاہے کیو ںکہ کیرالہ میں 93.95فی صد اور میزورم 91.68فی صد تعلیمی شرح ہے ۔ ہم جب مسلمانو ںکی تعلیمی پسماندگی پر غور کرتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ مسلم معاشرہ تعلیم کے تئیں اتنا سنجیدہ اور بیدار نہیں ہے جتنا کہ ہمارے برادرِ وطن ہیں۔ کیوں کہ حکومت کی طرف سے جو تعلیمی نظام ہے بالخصوص اسکولی تعلیم کا نظام ہے وہ سب کے لئے ہے ۔ملک میں چودہ لاکھ پرائمری اسکول ہیں جن میں 70لاکھ اساتذہ تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ بچے ہر سال اسکول میں داخل ہورہے ہیں لیکن اس داخلے کی رفتار میں ہماری سست روی دکھائی دیتی ہے اور ڈراپ آئوٹ کے معاملے میں ہم تیز گام نظر آتے ہیں ۔ آخر کیوں؟اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ ہم تعلیم کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود کو مستحکم نہیں کر سکتے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی انقلاب نہیں آسکتا ۔ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے کہ جمہوری نظامِ حکومت میں سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لئے سرکاری اسکیموں کی آگاہی لازمی ہے اور ان اسکیموں کی آگاہی کے لئے تعلیم لازم ہے ۔ظاہر ہے کہ ہم جب تعلیمی شعبے میں دنوں دن پسماندگی کے شکار ہیں تو پھر ہماری سماجی ، اقتصادی ، سیاسی زندگی بھی پسماندگی کی شکار ہو جائے گی ۔سرکاری رپورٹیں آتی رہتی ہیں ۔ رضا کا رتنظیموں کی رپورٹیں بھی آتی رہتی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ میں خوب خوب لکھا جاتاہے کہ اس ملک میں مسلم طبقہ دلت سے بھی بد تر ہے اس پر جذباتی سیاست بھی خوب ہوتی ہے لیکن زمینی سطح پر جس طرح کی جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے وہ نہیں ہو رہی ہے ۔ حال ہی میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر میری نگاہ سے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، پٹنہ کا ایک اشتہار گذرا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بہار میں سرکاری امداد یافتہ ملحقہ مدارس کی تعداد1942ہے ۔ وسطانیہ یعنی آٹھویں درجہ تک کی پڑھائی کے لئے 1732، فوقانیہ (میٹرک) درجہ تک کے لئے 199، مولوی (انٹر) تک کے پانچ، عالم درجہ (گریجویٹ) تک کے 21اور فاضل ( ایم اے ) تک کی تعلیم فراہم کرنے والے مدارس کی تعداد 13ہے اور ان مدارس میں 12674اساتذہ تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر منظور شدہ مدارس بھی ہیں جہاں تعلیم کا نظم ونسق ہے ۔باوجود اس کے بہار میں اقلیت طبقے کی شرح تعلیم میں کوئی انقلاب برپا نہیں ہو رہا ہے ۔جب کہ بہار میں آبادی کے لحاظ سے 16.9فی صد مسلم آبادی ہے ۔ اس میںبھی سیمانچل کے اضلاع کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ ، ارریہ ، اور سہرسہ میں 45سے60فی صد کی آبادی ہے مگر افسوسنا ک صورت یہ ہے کہ ان مسلم اکثریت علاقے میں بھی تعلیمی شرح میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہو پائی ۔ مرد زمرے کی تعلیمی شرح میں کچھ اضافہ بھی ہوا ہے لیکن عورتو کی تعلیمی شرح میں مایوس کن نتیجہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس طبقے کی نصف آبادی زیور ِتعلیم سے آراستہ نہیں ہوگی اس وقت کی تک ہمارے معاشرے کی تصویر اور تقدیر کیسے بدل سکتی ہے ۔واضح ہو کہ تقسیمِ وطن کے وقت مسلم طبقے کی تعلیمی شرح 12فی صد تھی جب کہ مجموعی شرح تعلیم 8فی صد تھی ۔ نتیجہ تھا کہ اس وقت سرکاری ملازمتوں میں مسلم طبقے کی حصہ داری 5فی صد اور بعض محکمے میں تو 7فی صد تک تھی۔ حساس سے حسّاس محکمے میں بھی مسلم طبقے کی حصہ داری 2.5فی صد تھی ۔ لیکن آزادی کے73 سالوں بعد بھی سرکاری محکموں میں ہمارا تناسب ایک سے ڈیڑھ فی صد ہے ۔ہم اکثر یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے ۔ لیکن ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہماری تعلیمی شرح کیا ہے اورپھر معیاری تعلیم کے معاملے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ محض خواندگی کی بنیار پر سرکاری محکمو ں میں ہمارے لئے جگہ نہیں بن سکتی۔بالخصوص آج کے مسابقاتی اور مقابلہ جاتی دور میں جب ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے تو پھر ہمارے لئے ایک ساتھ دو چیلنجز ہیں ۔ اول تو یہ کہ ہم مسلم معاشرے میں خواندگی کے تئیں سنجیدگی پیدا کریں اور دوئم یہ کہ عصری تقاضوں کے تحت تعلیمی معیار کو ملحوظ خاطر رکھیں ۔سچائی یہ ہے کہ تعلیمی معاملے میں بھی ہم اشتہاری بیان بازی اور کاغذی فرض شناسی کا دعویٰ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس کی ایک مثال میں اپنے ذاتی مشاہدے کے طورپر دینا چاہتا ہوں ۔ حال ہی میں ایک تنظیم کا اشتہار اخبار میں شائع ہوا تھا کہ وہ تعلیمی بیداری کے لئے قومی سطح کی تحریر چلا رہی ہے اور وہ بہار کے دورے پر ہے ۔ اس تنظیم کے ایک رکن مجھے بھی مدعو کرنے آئے تھے کہ فلاں دن اس شہر میں اس تنظیم کے ذریعہ جلسہ منعقد ہو رہاہے جس میں شامل ہوں ۔ میں نے ان سے یہ جاننا چاہا کہ آپ کے محلے میں مکمل خواندگی ہو گئی ہے ؟ ان کا جواب نفی میں تھا ۔ میں نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اپنے محلے کے ناخواندہ افراد کو خواندہ کیجئے ۔میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں تعلیم بھی سیاسی ایجنڈہ بن کر رہ گیا ہے جب کہ اس پر عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں ان یہودیوں سے سبق لینا چاہئے جنہوں نے ’’Each one Teach one‘‘کے فارمولے کو اپنا کر پوری دنیا میں اپنی شناخت مستحکم کی ہے ۔آج دنیا کے سائنس او رٹکنالوجی سے لے کر اقتصادیات کے شعبے پر بھی وہ قابض ہے۔اس لئے کسی حکومت کے تئیں طرح طرح کے الزامات عائد کرنے سے زیادہ ہم خود اپنا محاسبہ کریں کہ خود احتسابی ہی کسی بھی قوم کی فلاح وبہبود کا ضامن ہے ۔
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular