Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاردو تنقید: اکیسویں صدی میں

اردو تنقید: اکیسویں صدی میں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر مجاہدالاسلام

جہاںتک میں سمجھتا ہوں شاعری افسانہ اور ناول کو تو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے مگر تنقید ذرا ’چیزے دیگر ‘ہے اس کا ہر کسی سے واسطہ نہیں پڑتا ہے اس لئے اس مقالے کے شروع میں نے مختصراً یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ تنقید کیا ہے ؟ایک صنف کی حیثیت سے اس کی ابتدااردو میں کیسے ہوئی ؟پھر اس کے بعد میں نے اپنے موضوع خاص پر توجہ مرکوز کی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیںکہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میںجیسے انگریزی عربی وپرتگالی روسی چینی جاپانی وغیرہ میں تنقید کی ایک مضبوط و مستحکم روایت ہے وہیں خود ہندوستان کی مقامی زبانیں مثلاًبنگالی،پنجابی اڑیا اور تامل بھی اس معاملے میں کسی بھی طرح سے پیچھے نہیں ہیں۔اردو جس کو کم و بیش وجود میں آئے ہوئے 13 سوسا ل کا ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ،اس میں بھی ادب وشعر کا وافرذخیرہ موجود ہے۔آج اس زبان کو اس کی تنوع اور گونا گونی کی وجہ سے انگریزی کی طرح انٹرنیشل زبان بنانے کی بھی بات چل رہی ہے ۔
حالی کی مقدمہ شعر و شاعری ہی تنقید کی پہلی کتاب مان لی جائے تب بھی اردو زبان میںتنقید کی ابتدا کو 124 سال کا ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اس میں کلیم الدین احمد،آل احمد سرور،سید احتشام حسین وزیر آغا،محمد حسن عسکری وہاب اشرفی ، اور دور حاضر میںگوپی چند نارنگ ، شمس الرحمان فاروقی ، شمیم حنفی،ابوالکلام قاسمی، کرامت علی کرامت ، جیسی قد آورشخصیتیں اپنی موجودگی درج کرا رہی ہیں۔
اس کے باوجود بھی ادباء و شعراء کے بعض حلقوں سے وقتاً فوقتاً اس طرح کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں کہ’’تنقید کی اردو ادب کو ضرورت نہیں ہے تنقید اردو ادب کا بد گوشت ہے۔یا تنقید اردو ادب کا فیل پا ہے۔‘‘
رسالہ’ تزئین ادب‘ کے اپریل تا جون 2017کے شمارے میں پدم شری پروفیسرقاضی عبدالستا ر کا ایک انٹرویو چھپا ہے جس میں ان کا سارا نزلہ اردو تنقید پر گراہے ۔وہ فرماتے ہیں:
’’اردو کی سب سے کمزور صنف کا نام تنقید ہے۔میں تنقید کو ادب کے دوڑتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی ہوئی مکھی سمجھتا ہوں ۔تنقید اردو ادب کا بد گوشت ہے ،تنقید اردو ادب کا فیل پا ہے تنقید کی اردو ادب کو ضرورت ہی نہیں ہے ۔ثبوت یہ کہ تمام عالمی ادب میں عظیم ادب پیدا ہوچکا تھا اس کے بعد تنقید وجود میں آئی اور جب سے تنقید وجود آئی ہے عظیم ادب پیدا ہونا بند ہو گیا ہے‘‘۔
آپ جاننا چاہیں گے کہ آخر ادباء کے حلقوں سے وقتاً فوقتاً اس طرح کی آوازیں کیوںبلند ہوتی رہتی ہیں۔ بر موقع اردو کے نامور ادبی مورخ اور ناقد ڈاکٹرجمیل جالبی کا یہ اقتباس خالی از منفعت نہ ہوگا :
’ مجھ سے ایک نامی ادیب نے جو شگفتہ اور مزاحیہ تحریر کی اچھی مشق رکھتے ہیںایک بار یہ کہا کہ ’’صاحب ہم تو نقادوں کے قلم سے صرف اپنی بے محابا تعریف سننا چاہتے ہیں،گویا وہ خود کو مسند ریاست پر فائز کرکے نقاد کو محض قصیدہ گو کا درجہ دینا چاہتے ہیںاور یہی وہ کام ہے جو نقاد کو نہیں کرنا چاہیے۔‘‘( ص۔ 14 ۔ نئی تنقید:ڈاکٹرجمیل جالبی۔مرتبہ۔خاور جمیل۔ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی بہت ممکن ہے کہ قاضی عبدالستار کو بھی کہیں کسی اردو کے ناقد سے اسی طرح کا کانٹا لگا ہو۔
تنقید کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر نورالحسن نقوی لکھتے ہیں:
’’ تنقید فن پارے اور اس کے پڑھنے والے کے درمیان مستحکم رشتہ قائم کرتی ہے،یہ فن پارے کو جانچتی اور پرکھتی ہے کبھی صراحت کرتی ہے کبھی تشریح و ترجمانی اور کبھی تحلیل و تجزیے سے کام لیتی ہے اور پھریہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس کارنامے کو ادب و فن کی دنیا میںکیا رتبہ حاصل ہے۔‘‘(ص ۔ 9۔فن تنقید اور اردو تنقید نگاری۔نور الحسن نقوی۔ایجوکیشنل بک ہائوس ،علی گڑھ۔سن اشاعت 2013)
یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کی مشکل پسندی پر جب مختلف حلقوں سے تنقیدہوئی تو انہوں نے اپنی شاعری کی لفظیات کو یکسربدل ڈالااور کوئی پروا کئے بغیرپہلے سے کہے ہوئے کلام کے ایک وافر حصے کو القط کر ڈالا۔خود غالبؔ کو عالمی لٹریچر میںمتعارف کرانے میں جو حصہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی تصنیف یاد گارغالبؔ کا ہے وہ بھی اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آپ شاید اس سے بھی بے خبر نہیں ہونگے کہ ایک مدت مدید تک مرثیہ خوانی کی محافل میں جو کلام پڑھے جاتے تھے وہ میر ببر علی انیسؔ کے کم اورمرزا سلامت علی دبیرؔ کے زیادہ ہوتے تھے ۔ پھر انیس کو دبیرؔ پر اچانک فوقیت کیسے حاصل ہوگئی؟ آپ بخوبی واقف ہیں۔ یہ علامہ شبلی نعمانی کی تنقیدی تصنیف’’ موازنہ انیس و دبیر ‘‘کے بدولت ہی ممکن ہو سکا ۔ذوقؔ دہلوی چاہے استاد شہ ہی کیوں نہ رہے ہوں؟ مگر وہ آج بھی اگر زندہ و تابندہ ہیں تومحمد حسین آزاد اور تنویر علوی کے بدولت ۔
بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی مشہور امریکی شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ جس نے بعد میں انگلستان کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اس کو 1948میں ادب کا نوبل پرائز اور1948 میں ہی انگلستان کا سب سے بڑا اعزاز آرڈر آف دی میرٹ( Order of the merit )ملا تھا۔اس کی شہرت میں اس کی نظم ’دی ویسٹ لینڈ‘ کوکلیدی حیثیت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے اس نظم کا مسودہ بڑا طویل تھا ۔ امریکی شاعر اور تنقید نگار ایذرا پائونڈ نے کاٹ چھانٹ کر نہ صرف اس کو آدھاکردیابلکہ اس کی ہیئت بھی تبدیل کردی ۔
پھر تنقید فیل پا یا بد گوشت کیسے ہوگئی ۔حقیقت میں ادب میں تنقید کی کار فرمائی اسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے جب کوئی مضمون ،تخلیق نگار کے ذہن میں منعکس ہوکرصفحہ قرطاس پر بکھر جاتا ہے ،مشاعروں کی داد ہو یا نکتہ چینی۔ شاعروں کی اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح ہو یا ’تذکروں‘ کی صورت میں ان کا تذکرہ ۔یہ سب بھی تنقید کے ذیل میں ہی آتی ہیں۔
اردو تنقید کے ابتدائی نقوش کے سلسلے میںسرسید احمد خان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔سرسید نے 1870میں تہذیب الاخلاق میںاردو ادب و انشاء کی خرابیوں پر قلم اٹھایا ۔ یہ مضامین اردو میںتنقید کو فروغ دینے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ چونکہ سر سید احمد کی شخصیت ہمہ جہت قسم کی تھی وہ ادب و تنقید کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکتے تھے لہذا یہ کام انہوں نے اپنے رفیق کار حالی ، شبلی، اورمولانا محمد حسین آزاد و کے حوالے کر دیا ۔
اردو تنقید کو سند و اعتبار بخشنے والی پہلی کتاب مولانا الطاف حسین کی’ مقدمہ شعر وشاعری‘ ہے ۔ مقدمہ شعر وشاعری میں ادب کے بارے میںپہلی بار کچھ سوالیہ نشانات قائم کئے گئے۔ مثلاً ادب کیا ہے ؟ شاعر سوسائٹی کو متاثر کرتا ہے یا سوسائٹی شاعر کو؟تخیل،مطالعہ کائنات اور تفحص الفاظ ایک شاعر کے لئے کیوں ضروری ہے؟ اسی طرح شاعری میں سادگی اصلیت اور جوش سے کیا مراد ہے؟۔حالی نے اپنے اس مقدمے میں مبالغہ آرائی ،روایت پرستی ، کوری تقلید، نری عشق بازی اور ذاتی تجربے و مشاہدے کے بغیر کچھ بھی لکھنے کی شدت سے مخالفت کی ۔اس لئے اردو کی اس وقت کی متداول صنف چاہے وہ غزل ہو یاقصیدہ،مثنوی ہو یا مرثیہ ان کے اعتراض سے نہ بچ سکی۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح رہے کہ حالی کا مقصد اصناف شاعری پر اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے مذاق شعری کو درست کرنا تھا ۔جسے تصنع، تکلف و بے جاخیال آرائی ، اورسستی عشق بازی اور قافیہ پیمانی نے بگاڑ دیا تھا ۔حالی جید دماغ کے مالک تھے جنہوں نے ادب کو اس وقت کے عصری تقاضوں سے آہنگ کرنے پر زور دیا ۔مقدمہ شعر و شاعری کو بجا طور پر مولوی عبد الحق نے اردو تنقید کا پہلا نمونہ اور پروفیسر آل احمد سرور نے اردو شاعری کا پہلا منشورقرار دیا ہے۔
اسی طرح مولانا شبلی نعمانی کی موازنہ انیس و دبیر، شعر العجم ، اورمولانا محمد حسین آزاد کی آب حیات ،سخن دان فارس نے اردو تنقید کے لئے راہیں ہموار کیں ۔ان ناقدین فن نے فن پارے کے سلسلے میںتجزیہ تخطیہ اور تعبیر و تشریح کا موقف اختیار کیا۔یہ تھی اردو میں صحیح معنی میں تنقید کی ابتدااور اور اس ذیل میںسر سید،حالی،شبلی اور محمد حسین آزاد کی خدمات۔
اس کے بعد آتا ہے اردو تنقید کا دبستانی دور۔اگر ہم اپنے قدیم ادباء و فلاسفہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص بہ یک وقت شاعر بھی ہے ،ادیب بھی ، طبیب بھی ہے ،فلاسفر بھی مفسر بھی ہے فقیہ بھی ۔مگر اس کے بعد کا زمانہ وہ نہیں رہا ۔ لوگوں کے پاس وقت کی قلت ہوگئی اور دور شروع ہوا اسپیشلائزیشن کا،تخصیصات کا ۔ اس سے جہاں کام میں تیزی آئی وہیں مہارت بھی۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح شعر ادب بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں رہے۔ تخلیق کی طرح تنقید بھی مارکسی ،جمالیاتی تاثراتی،نفسیاتی دبستان کے خانوں میں بٹ گئی۔مشہور پاکستانی نقادڈاکٹر سلیم اختر رقمطراز ہیں:
’’چونکہ دبستان کے راہنما اصول کی روشنی میں نقاد کو اپنی منزل کا بخوبی علم ہوجاتا ہے اس لئے اس کی تنقید میں واضح سمت کا سراغ ملتا ہے ۔پھر وہ اس مخصوص دبستان کی خصوصیات سے اپنی تنقیدی بصیرت کا وہ چراغ روشن کرتا ہے جو اس دبستان سے غیر متعلق افراد کے لئے چراغ جیسی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ایسی صورت میں دبستانی نقاد کا طریقہ کار تاریک کمرہ میں صرف ایک شے پر لائٹ مرکوز کر دینے کے عمل سے مشابہ ہے ۔‘‘(ص 51 تنقیدی دبستان۔ڈاکٹر سلیم اختر۔بک کارپوریشن،دہلی۔سن اشاعت 2013)
اس طرح سے جہاں ڈاکٹر سید عبداللہ، وقارعظیم، ڈاکٹرعبارت بریلوی،عابدعلی عابد،ڈاکٹرابواللیث صدیقی کا تشریحی تنقید کے دبستان سے رشتہ جوڑا جاتا ہے وہیںمحمد حسن عسکری ،شبیہ الحسن ،سلیم احمد اور ریاض احمد بالعموم اپنے تنقیدی فیصلوں کے لئے علم نفسیات پر انحصار کرتے ہیں۔احتشام حسین ،مجنوں گورکھپوری اور ممتاز حسین مارکسی تنقیدی دبستان سے متعلق ہیں ۔نیاز فتح پوری اور فراق ؔگورکھپوری نے ادب فہمی اور ادبی پرکھ کے ساتھ ساتھ جمالیاتی قدروں کی تلاش بھی ضروری سمجھی ۔
آل احمد سرور نے خود کو کسی مخصوص نظریہ یا انداز نظر سے بچائے رکھا وہ معتدل مزاج کے نقاد ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنے خاص موضوع کی طرف دور حاضر میں پاکستان میں ڈاکٹر جمیل جالبی،وزیر آغا جن کا حال ہی میں انتقال ہو گیا ہے۔اور ہندوستان میں گوپی چند نارنگ،شمس الرحمان فاروقی اور شمیم حنفی ایسے تنقید نگار ہیں جن کو جہاں بیسویں صدی کے آخری ربع میں لکھنے کا موقع ملا وہیں ان کا قلم آج بھی نہیں تھکا ہے ۔
اس سب میں سب سے پہلے ہم ڈاکٹر جمیل جالبی کو لیتے ہیں۔ جمیل جالبی درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میںتاریخ ادب اردو ان کا عظیم کارنامہ ہے اس کے علاوہ ان کے کئی تنقیدی مجموعے بھی شائع ہوئے ہیںجس میں ’نئی تنقید‘تنقید اور تجربہ ‘معاصر ادب ‘ خاص اہمیت کے حا مل ہیں۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ان کی تالیف ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ ان کی ایک اہم کاوش ہے۔ جس کو پڑھ کر اردو داں طبقے کو پتہ چلتا ہے کہ عالمی ادب کیا ہے؟ ۔مذکورہ کتاب میں ارسطو، لونجائنس، دانتے، سر فلپ سڈنی، گوئٹے، کولرج، سانت بیو،میتھیو آرنلڈ، ٹالسٹائی، ہینری جیمز ،کروچے ،رچرڈس وغیرہ کی تحریروں کا تخلیقی انداز میں ترجمہ پیش کیا گیا ہے یہ ایک ایساانتخاب ہے جو وسیع تر علم کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔
اس کے بعد نام آتا ہے ڈاکٹر وزیر آغا کاتنقید کے مشرقی و مغربی ،جدید و قدیم شعبے میں ڈاکٹر موصوف کا ایک اہم نام ہے۔ان کی متعدد کتابیں قبول عام کی سند حاصل کر چکی ہیں ۔ان میں ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے’ نظم جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، معانی اور تناظر، تنقید اور مجلسی تنقید، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید، ساختیات اور سائنس خاص شہرت رکھتی ہیں۔
ان کے تنقیدی شعور میں سمندر کی سی وسعت وگہرائی ہے۔ انھوں نے نہ صرف مشرقی تنقیدی روایت کا گہرا مطالعہ کیا بلکہ انہوں نے مغربی ادب اور تنقید کا مطالعہ بھی اسی دقت نظری اور لگن کے ساتھ کیا۔ انہوں نے مغرب میں پروان چڑھنے والی ادبی تحریکوں اور نظریات چاہے وہ ساختیات ہو یا پس سا ختیات۔بین المتونیت ہو یا معنیات ان سب سے اردو تنقید کے قاری باخبر رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی۔
ہندوستانی ناقدین میںپروفیسر شمیم حنفی اپنے سلجھے انداز اور مطالعے کی سنجیدگی کے لئے جانے جاتے ہیں ان کی تحریر میں ایک ٹھہرائواور استدلال ہے ۔ شمیم حنفی تنقیدمیں کسی نظریے کی پابندی کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تنقید کا کام صرف فن پارے کی تعبیر و تشریح ہی نہیں بلکہ ذوق ادب کی آبیاری کرنا بھی ہے۔ پروفیسر حنفی معاصر اردو تنقید میںنظریات کی بھرمار اور ان کے اظہار میں مشکل زبان کے استعمال کو بھی غیر مستحسن قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ تنقید نگار وں کے اس رویے کے سبب قاری اور تنقید کے درمیان رابطہ روز بہ روزکمزور ہو تا جا رہا ہے۔ تنقید کی زبان و اسلوب کوقاری کے تجربے و روز مرہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہونا چاہیے،ادب میں تو تھوڑے بہت Suspenseکی گنجائش ہے مگر تنقید میں بالکل نہیں اس میں زبان کو صاف اور اسلوب کو واضح ہونا چاہیے،تب ہی قاری ادب کے قریب آسکے گا اور نقا د اپنے مقصد میں صحیح معنوں میں کامیاب ہو سکے گا۔ ان کے ایک مضمون ’’تنقید کی زبان‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ اچھی تنقید قاری کے حواس پر کبھی بوجھ نہیں بنتی۔ایک خودکار اور خاموش طریقے سے قاری کے باطن کا نور بن جاتی ہے ،اور یہ اسی صورت میںہو سکتا ہے ،جب تنقید کا محاورہ اسلوب اور اس کی لفظیات قاری کے تجربے سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جائیں۔پہیلیاں بجھوانے کی تھوڑی بہت شرط ادیب یا ادب پارے کی طرف سے عائد ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ،لیکن نقاد کو یہ حق نہیںپہنچتا۔‘‘ (ص262 ،ارمغان(تحقیق وتنقید)مرتبہ :شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی 2012)
رہے شمس الرحمان فاروقی تو ان کا شمار اردو کے ان جدید تنقید نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے اردو ادیبوں اور شاعروں کی نئی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے انہوں نے اردو میں جدیدت کے رجحان کو فروغ دیا ۔ و ہ اپنی تنقید میں متن اور ہئیت کے مطالعے کو خاص طور سے اہمیت دیتے ہیں۔
اگرچہ ان کے تنقیدی دائر کار میں ادب کی مختلف اصناف شامل ہیں لیکن شاعری کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ تنقید کا کام محض شعر و ادب کی معنوی قدریں متعین کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ با ذوق قارئین کی کھیپ تیارکرنا بھی ہوتا ہے۔ اور با ذوق قارئین کی پیدائش اسی وقت ممکن ہے جب نقاد اپنی علمیت اور استدلال سے ایک مباحثی دنیا خلق کرے جس فن میں فاروقی جیسا کے میں نے اوپر عرض کیا پورے طور سے کامیاب بھی ہیں۔اگر چہ ان کے اس طریقہ اظہار کو کلیم الدین احمد نے اپنی مشہور زمانہ کتاب’ اردو تنقید پر ایک نظر ‘میں نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فاروقی اپنی تنقید میںسیدھی سادی زبان استعمال کرنے کے بجائے اغلاق سے بھر پور زبان کا استعمال کرتے ہیں اور معمولی سے معمولی بات کوبھی کہنے کے لئے پہلے شواہد و دلائل کا انبار اکٹھا کرلیتے ہیں پھرکل ملا کر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصل بات راکھ کے ڈھیر میں آگ کی چنگاری کی طرح دب کر رہ جاتی ہے۔ لا محالہ ادب کا ایک سیدھا سادا قاری منزل مقصود تک پہنچنے کے بجائے راستے کے ہی پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ کلیم الدین احمد کے ہی لفظوں میں:۔
’’ وہ (شمس الرحمان فاروقی )قصداً Inductive طریقے کا استعمال کرتے ہیں ،اور یہ دلچسپ بھی ہے ،لیکن وہ ضرورت سے زیادہArguments میں الجھ جاتے ہیں اس لیے اکثر سلجھی صاف مختصر تنقید کے بدلے وہ لمبا مباحثہ پیش کرتے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے خیالات پر غور کرتے ہیں ،ان کے Pros and Cons پر تفصیلی اور مدلل بحث کرتے ہیں ۔یا پھر کسی فرضی مخالف کو قائل کرنا چاہتے ہیں یا واقعی اپنے دوستوں (نیر مسعود کا ایک جگہ ذکر آیا ہے ) سے تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔اس لیے کہ ان کے اپنے خیالات واضح اور Convincing ہوجائیں۔وجہ جو بھی ہو اس Argumentative Methodکا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ان کے مقالے ضرورت سے زیادہ طویل ہوجاتے ہیںاوران کے خیالاتArgumentکے دبیز دھندلکے میں کھو جاتے ہیں۔( ص458،اردو تنقید پر ایک نظر : کلیم الدین احمد، ،پٹنہ 1983)
شارب ردولوی نے بھی جب عرصہ دراز بعد اپنی کتاب ’جدیداردو تنقید۔اصول و نظریات‘تصنیف کی تو انہوں نے بھی فاروقی کے سلسلے میںکلیم الدین احمد کی متذکرہ باتوں سے اتفاق کیا اوریہی کچھ لکھا:
’’شمس الرحمان فاروقی کی طول بیانی اور سوال در سوال پیداکرنے کا انداز اکثر کسی نتیجے پرپہنچنے میں مانع ہوتا ہے ،مضمون لکھتے وقت انہیں خود اس کا احساس ہوتا ہے کہ طوالت اور سوالات کی بہتات نے بات کو الجھا دیا ہے ،اور اس صورت میں قاری کی مدد کے لیے وہ تمام مباحث کو اختصار کے ساتھ نمبر دے کر دوبارہ قلم بند کرتے ہیں ،لیکن آگے جب بات شروع ہوتی ہے تو پھر وہ اسی طرح تفصیل اور سوالات کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘ (ص502،جدیداردو تنقید اصول نظریات :پروفیسر شارب ردولوی،لکھنؤ 2002)
کلیم الدین احمدہوںیا پھرشارب ردولوی عرصہ دراز قبل انہوں نے جو کچھ بھی شمس الرحمان فاروقی کی تنقید کے بارے میں کہا تھا آج بھی وہی کچھ ان کی تنقید پرحرف بہ حرف صادق آرہا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فاروقی کی تنقیدات کی تشریحات لکھی جا رہی ہیں۔
جہاں تک رہی بات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تو وہ اردو میں ساختیاتی تنقید کے سب سے بڑے نقاد ہیں انہوں نے اسلوبیاتی رجحانان پر بہت تفصیل سے لکھاہے ۔ڈاکٹر یوسف سرمست اپنے ایک مضمون میںگوپی چند نارنگ کا نام لئے بغیر لکھتے ہیں:
’’ اردو میں ہمارے ایک نقاد نے ساختیات کے بارے میں کافی لکھا ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ ان کا ایک پروجیکٹ ہے جس کا بوجھ ہمارے جدید نقاد مجموعی طور پر ڈھو رہے ہیںاور ان نقادوں کی علمیت کے بوجھوں تلے اردو تنقید دبی جارہی ہے بہر حال انہوں نے نہ بہت کچھ لکھا ہے بلکہ مختلف مقامات پراس موضوع پر لکچر بھی دیے ہیںلیکن ان کی تشریحات اور وضاحتیں شاید ہی کسی پلے پڑی ہوں(ص ۔73جدیدیت اور عصری تنقیدی بحران (مضمون):یوسف سر مست ۔معاصر اردو تنقید۔مرتب :شارب ردولوی۔اردو اکیڈمی دہلی۔سن اشاعت 1994)
ظاہر ہے یوسف سرمست کے اس خیال سے ناقدین فن کا اتفاق کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے ۔حقیقت یہ کہ گوپی چند نارنگ نے ان رجحانات کی صرف نظریاتی ہی تشریح و تعبیر نہیںکی بلکہ اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری اور فکشن کا ان رجحانات کی روشنی میں تجزیہ بھی پیش کیا۔
موجودہ صورت حال میںاردو کی نظریاتی اور عملی تنقید کا جائزہ لینا تو آسان ہے ، جیسا کہ میں نے کیا بھی ہے لیکن ان امکانات کی طرف اشارہ کرنا بڑی دقت نظری کا تقاضہ کرتا ہے کہ آگے کن نقادوں سے مزید تنقیدی کاوشوں کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوپرجن نقادوں کا ذکر کیا گیا ہے انہوں نے گزشتہ 20 سال سے 40 سال کے عرصے میں بڑی اہم تنقیدی خدمات انجام دیںمگر ان میں بیشتر ایسے ہیں جو اپنا کام پورا کر چکے ہیں،لیکن اہم بات یہ کہ آج کے ان نقادوں کو کس مضمون کے حوالے سے دیکھا جائے جن سے اگلے دس بیس برسوں میںبھی مزید توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں ان تنقید نگاروں میں ابوالکلام قاسمی ،کرامت علی کرامت،سلیم شہزاد،قدوس جاوید،عتیق اللہ ، ناصر عباس نیر،خالد قادری، اورشمیم طارق کے نام خصوصیت کے ساتھ لئے جا سکتے ہیں۔
ابوکلام قاسمی نے نظریاتی تنقید پر بھی تفصیل سے لکھا ہے اور تنقید کی عملی صورتوں کو بھی بہت گہرائی سے پرکھنے کی کوشش کی ہے’معاصر تنقیدی رویے‘کے نام سے موسوم ان کی کتاب اس دعوے کے لئے مناسب ترین دلیل فراہم کرتی ہے۔اس کے علاوہ مرزا غالبؔ،علامہ اقبال ؔ،ن م راشدؔ ،میراجیؔ اور احمد مشتاقؔ وغیرہ پر ان کے جو مضامین ہیںاس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی تنقید کے آگے بھی بہت سے پہلو منور ہوکرسامنے آئیں گے اور ان کی تنقیدی دیانت داری انہیں آج سے بھی بہترمقام دلوائے گی۔
پروفیسر کرامت علی کرامت میتھمیٹکسکے پروفیسر ہیں،وہ شاعر بھی ہیں اور نقاد بھی اردو تنقید کے نظریاتی مسائل سے خاص سروکار رکھتے ہیں۔ 1977 میں اضافی تنقید کے نام سے ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ طباعت کے زیور سے مزین ہوا۔ جس میں خاص طور سے ان کے یہ مضامین ،شعری تنقید میں اضافیات ،جدید شاعری اور اس کا پس منظر ۔ترسیل کی نا کامی کا مسئلہ ،ادب اور فکری شعو ر لوگوں کی توجہ کا مرکزہیں۔ اسی طرح’’ تنقیدی مسائل اور امکانات ‘‘کے نام سے ان کادوسرا تنقیدی مجموعہ 2009 میں شائع ہوا جس میں نئی صدی نئے ادبی مسائل نئے امکانات ،ساختیات بحیثیت تنقیدی عمل ،روایتی اور تجریدی افسانوں کی ماہیت ،کچھ اسلوبیات کے بارے میں ، جیسے مضامین خاص اہمیت کے حامل تھے ۔ پروفیسرکرامت پر ’کرامت علی کرامت ایک مطالعہ ‘کے عنوان سے 2014 میں شاعر کا ایک خصوصی گوشہ اور دیگر مضامین افتخار امام صدیقی کی ادارت میں شائع ہوا تھا جس میں خاص طور سے’’ اضافی تنقید ایک تجزیہ ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر گیان چند کا مضمون او ر’’ اضافی تنقید ‘‘کے عنوان سے یوسف جمال کا مضمون پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گئے۔اس کے علاوہ اس گوشے میں ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید،اسلم حنیف اور محمد شاہد پٹھان وغیرہ کے مضامین بھی شامل تھے پروفیسر کرامت علی کرامت ا بھی تھکے نہیں ہیں۔اردو کے مرکزی علاقوں سے دور ہونے کے باوجود آج بھی ان کی تنقیدی کاوشیں بڑی سنجیدگی سے دیکھی جاتی ہیں۔
ان کے علاوہ عتیق اللہ نے مغربی تنقید کے نظریات کو متعارف کرانے کے معاملے میں خصوصیت سے زیادہ سنجیدہ کام کیا ہے۔نئے نظریات سے ان کو خاص شغف ہے اس لئے نو آبادیات ،تانیثت اور بین المتونیت وغیرہ جیسے نئے مسائل پران کی تنقیدی تحریروں کا سلسلہ ہنوزرواں دواں ہے ۔

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل
اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular