مسلم مجاہد آزادی ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی- Muslim Mujahid Azadi Dr. Maghfoor Ahmad Ejazi

0
138

Muslim Mujahid Azadi Dr. Maghfoor Ahmad Ejazi

ڈاکٹر جی۔ ایم۔ پٹیل
ڈاکٹر محغفور احمد اعجازی بہار کے سیاسی کارکن ۔ حب ا لوطنی کا جذبہ انقلابی وشعلہ انگیز تھا ۔اپنے وطن کی آزادی کے لئے آپ بے چین و مضطرب اسقدر کہ ہمیشہ اسی جدو جہدمیں سونے کی چڑیا ہندوستان کو ان سفید ،مکّارر فرنگیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ابتدائی تعلیم امدادیہ مدرسہ دربھنگ سے حاصل کی اور جب نارتھ بروک ضلع ثانی اسکول میں اپنی طالب علمی کے ہی زمانے میں رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی تو آپ کو اسکول سے بے دخل کر کیاگیا۔پوسا بائی اسکول سے میٹرک کی کامیابی کے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لئے بہار نیشنل کالیج پٹنہ میں داخلہ لے لیا۔فرنگیوں کی غلامی انکے ظلم و تشدد کے خلاف تحریک کا عزم کرلیا ۔ آخر اپنی اعلیٰ تعلیم کو منقطع کرتے ہوئے اور ۱۹۲۱ء میں عدم ِ تعاون تحریک میں شامل ہوئے ۔انگریزی لباس کو آگ کے حوالے کیا ،نمک قانون کی خلاف ورزی ،انفرادی ستیہ گرہ ، اسطرح تحریک ِ آزادی میں اپنے آپ کوجھونک دیا ر۔’سر جان سائمن‘ کی سر براہی مین ہندوستانی قانونی کمیشن ’آئین ‘اصلاحات کے لئے منعقدہ اس کمیشن اور بھارت چھوڑو تحریک میں شامل رہے۔قانونِ نجات، رامائن منڈلی، چرخہ سمیتی ،عوامی رضاکار کارپس وغیرہ کا اہتمام کیا اور انگریزوں کے خلاف ایک منظم عوام کو متحرک رکھا اور ایک اہم ’’ مُٹھیہ ‘‘ مہیم کے ذریعہ تحریکِ آ زادی کی جدود جہد کے لئے فنڈس اکٹّھا کئے۔مٹھیہ کا طریقۂ کار یوں تھا کہ کھانے بنانے سے پہلے ایک مُٹھی اناج بطور ِ تحریکِ آزادی عطیہ کے لئے محفوظ کیا جائے
ڈاکٹر اعجاز ی شمالی بہار کے ذمہ دار تھے اور اپنے اُصولوں کے پابند تھے۔اس تناظر میںآپکی چچیری بہن کا قصہ کافی مشہو ہے۔دور دراز علاقے گاؤں جب آپ انکے مہمان رہے تب آپ کی بہن سے مُتھیہ کی دریافت کا جواب منفی ملا تو اپنی بہن سے کافی ناراض رہے یہاں تک کہ اصرار کو باوجود آنے کھانے سے انکار کیا ۔لیکن جب بہن مان گئی اور جب انہوں نے واجبات کا عطیہ ادا کیا تب آپ نے کھانا کھایا۔تحریکِ آزاددی کی اعلیٰ وقار جنگِ آزادی کی مجاہد خاتون ’’بی اماں‘‘ نے آپ کو بلقان جنگ کے لئے عطیہ کے لئے طلب کیا تو آپ فوراََ حاضر ہوئے عطیہ کے لئے بیحد جدو جہد کی اور بی اماں کو اپنی خدمات سے بیحد متاثر کیا۔ خاتون مجاہدِ جنگِ آزادی اور معروف شاعرہ سروجنی نائیڈو کی منعقدہ
’ خدمت دَل‘ ایک محاذتنظیم کا اہتمام کیا اور بخوبی اس تنظیم کو اپنی سر براہی میں آزادی کی جدو جہد کے لئے نوجوانوں کی تشہیر اور تربیت کے خود آپ نے ’’ اعجازی ٹروپ‘‘ کی فوجی دستے کی تشکیل کی اور انگریزوں کے خلاف اپنی آزادی کی شدید جدو جہد جاری رکھی۔ ۱۹۲۱ء میں احمد آباد منعقدہ نیشنل کا نگریس کمیٹی کی اجلاس میں شرکت کی اور میں حسرت موہانی کی زیرِ عقیدہ منعقدہ ’’ مکمل آزادی‘‘ اس تحریک کی حمایت کی جس مہاتما گاندھی نے مخالفت کی تھی اور وہ ہار گئے تھے۔آپ نے پہلی مرتبہ سابر متی آشرم میں گاندھی جی سے ملاقات کی۔آپ تحریکِ خلافت میں شامل ہوئے اور علی برا دران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر سے رابطہ بڑھا اور ان کے قریبی ساتھی بن گئے۔نہروپورٹس سے متعلق تمام سیاسی جماعتوں اور خصوصی طور سے تمام مسلم سیاسی جماعتی پارٹیوں کی اجلاس میں مرکزی خلافت کمیٹی کی نمائند گی کی۔ آپ کے ہمراہ مولانا شوکت علی ،بیگم محمد علی،عبدالماجد دریا آبادی ، مولانا آزاد صبحانی ،مولانا ابوالمحسین، محمد سجاد اور دیگر مجاہدین آزدی بھی شامل رہے۔ محمد علی جوہر کی ہدایت پر آپ نے خلافت کمیٹی کلکتہ کی ذمہّ داری سنبھال لی۔کلکتہ میں آپ کی ملاقات نیتاجی سبھاش چندر بوس سے ہوئی۔ سبھاش چندر بوس کی سربراہی میں ایک ا حتجاجی مارچ میں آپ کو گرفتار کیا گیا اور کسی دور انجان علاقے میں ان کی رہائی کی گئی۔آپ نے کلکتہ ہومیو پیتھی کا لیج سے ہومیو پیتھی کی سند حاصل کر لی۔ طبی دُنیا میں اپنے قدم جما لئے اور طبی ماہرِ ہومیو پیتھ کے خدمتِ خلق میں مصروف رہے۔ پروفیسر عبد الباری کے ضمنی انتخابات کے دوران پورانیہ ضلع میں آپ کو گرفتاری کرلیا گیااور آپ پر ’’دیہولی سازش ‘‘ کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا او رآپ کے آفیس کی تلاشی لی گئی۔۱۹۳۴ء کے تماہ کن زلزلے کے بعد ڈاکٹر راجندر پرساد کے ساتھ زلزلہ سے تباہ عوام کی خدما ت میں اس قدر مصروف کہ خود کی طبیعت، اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جہاں جگہ ملی وہاں پناہ لی ، جہاں کچھ آسرا ملا رات بتادی بس دن رات خدمتِ خلق خود کو غرق رکھا۔
محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ تقسیمِ آزاد ہند اور پاکستان کی تشکیل کی سخت مخالفت کی۔ آپ نے محمد علی جناح کے آل انڈیا مسلم لیگ کے مقابل ’’ آل انڈیا جمہوری مسلم لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی اور آپ خود بطور جنرل سیکریٹری کے خدمات انجام دئے۔تقسیمَ ہند اور اور علیحدہ پاکستان کی تشکیل کی مخالفت کے بعد جناح نواز کارکنوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا ۔ فسادی جتھے کی صورت آپ کی رہائئش گاہ پر حملے کئے اور جب اعجازی راستوں سے گذرتے تو ان خلاف نفرت انگیز نعرے، اور کچھ کاکنوں کی بدتمیزیاں اس قدر نچلی سطح پر پہنچتی کہ کچھ گندے ذہن شدت پسند عناصر ان پر تھوک دیتے ۔ آپ ا ان تمام کی ، بد سلیقہ ،بد اسلوب اور غیر مہذب بے ہودگیوں کی پروا ہ کئے بغیر آپ اپنے عزم پر بضد رہے ۔
انجمنِ پیشہ وراں ( تریڈ یونین ) تحر یک سے بھی سر گرم عمل رہے۔ شمالی بہار کے مختلف اہم مزدور یو نین کے بانی و صدر رہے ۔ ہندوستان کی جنگِ آزادی کے جنگجو سپاہی تقریباََ بچپن سے آزادی تک مختلف تحریکوں کو اور انگریزوں کی خلاف جنگِ آزادی کو قائم رکھا لیکن آزادی کے بعد آپ سیاست میں پیچھے رہ گئے۔۱۹۵۷ء میں نیشنل کانگریس پارٹی پہلی دفعہ عام انتخابات میں پاٹ پورا اسمبلی حلقہ ضلع مظفر پور سے سرکاری امیدوار کے طور پر اپنے انتخابی پرچہ فائیل کر دئے لیکن جیسے ہی پتہ چلا کہ آپ کے بڑے بھائی منظور احسن اعجازی جن کا آپ کے دل میں آپ کے والد کا سا احترام تھا اور آپ کے بھائی نے حال میں شوشلسٹ پارٹی سے استعفیٰ دینے کے بعد کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔الغرض آپ نے اپنی امیدواری واپس لے لی اور اپنے بھائی کو انتخاب میں ترجیح دی اور آپ خود بھی بھائی کی جیت کے لئے جان توڑ محنت کی اور بے انتہا کوشش جاری رکھی ۔
مغفور احمد ۳ ؍ مارچ ۱۹۰۰ء میں بہار کے ضلع مظفرپور کے بلاک اشکراا گاؤں دیہولی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد مولوی حفیظ ا لدین حسین فیاض ،سخی اور مقبول زمیندار تھے اور والدہ محفوظ ا لنسا ء تھیں۔مغفور احمد نے آپ کے ماموں مولوی ابوا لقاسم کی دُختر عزیز الفاطمہ سے نکاح ہوا۔آپ کی شادی کی کی خصوصی بات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ دولہا دولہن دونوں کے عقد کے رسومات میں ہاتھ سے بُنے ہوئے کھادی میں ملبوس مکمل کر لئے۔بعد نکاح اسی تقریب آزادی کی جدوجہد کے لئے ایک عام جلسہ میں تبدیل ہوئی جس میںمولانا شفیع داؤدی ،بندا بابو (جو بعد میں بہار اسمبلی کے اسپیکر رہے) اور دیپ بابو ( بعد بہار کابینہ کے وزیر رہے)سیاسی کارکن اور تمام باراتی نے بھی اس جلسہ میں شرکت کی۔
آپ حضرت فاضل رحمان گنج مرادآبادی کے خلیفہ حضرت اعجاز حسین بدایونی کے شاگرد ہوئے اور آپ نے ـ’’ اعجازی ‘‘ لقب اختیار کیا ۔اعجازی حب ا لوطنی کا پہلا سبق اپنے والد مولانا حفیظ الدین حسین سے سیکھا جو انگریزوں کے سخت مخالفت اور ہندوستان کی آزادی کے متوالے تھے اور اکثرفرنگیوں کے ظلم و تشدد کے خلاف انقلابی مضامین شائع کرتے،انگریز افسر نیل مولانا کو سبق سکھانے اور صہیب کو اپنے مضامین کے لئے قہر کا سامنا کرنا پڑا اور شہر سے بے دخل کی نوبت بھی آئی۔ لیکن مولانا کی مقبولیت دیکھ کر نیل صاحب نہ صرف ان سے معافی مانگی بلکہ ساش کار کا ایک پلنگ سے باندھ کر اسے بُری طرح اسے پیٹا۔ لیکن مولانا نے اس سازشی شخص کو اپنا مینجر مقرر کیا۔
آپ کی والدہ کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا اور آپ کے والد بھی شدت کی علالت سے بہ صحت نہیں پائے اور وہ بھی رحلت کر گئے۔
ڈاکٹر اعجازی کی ادبی زندگی اور آپ کے اردو زبان کے خدمات کے لئے آپ کا نام تاریخ میں رقم ہے۔آپ معروف شاعر اور اعلیٰ ادیب تھے ۔آپ کے دستاویز ، تحریر کردہ مضامین، ڈائریاں ، خطوط اور فائیلیں’’ نئی دہلی میں نہرو میموریل میوزیم ‘‘ اور پٹنہ میں ’’ خدا بخش اورینٹل پبلک لائیبریری‘‘ میں قومی محافظ خانہ ( نیشنل آر کائیوز) محفوط رکھا گیا ہے۔ آزادی کی جدود جہد کے ساتھ ساتھ ااُردو زبان کی خدمات اور اردو ترقی کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔آپ اُردو تحریک کے سرخیل، سرغنہ ہیں۔آپ ۱۹۳۶ ء میں ’’ انمنِ ترقی ٔ اُردو‘‘ بہار کے نائب صدر مقرر ہوئے۔۶؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی زیرِ صدارت انجمنِ اسلامیہ پٹنہ میں نیشنل اُردو کانفرنس کا انعقاد کیا ۔۱۹۶۰ء میں قریب ۱۵ سال بعد اُردو کی اس تاریخی اُردو کانفرنس میں کے آپ چئیرمن تھے۔ اس عظیم و شان اہم موقعہ پر آپ نے بہار حکومت سے اُردو زبان کو ’’سرکاری دوسری زبان کادرجہ‘‘ دینے کا مطالبہ کیا اور پہلی دفعہ’ اُردو کو بہار سرکاری دوسری زبان‘ کی اس قرا ر داد کومنظو رکیا گیا۔ڈاکٹر اعجازی نے شاعری کو بظور اپنے تحریک آزاد ی میں اپنے انقلابی جذبات کی عکاّسی کے لئے استعمال کیا ۔آپ نے اعجازی ‘‘و ’’ احمدی‘‘بطور تخلص کا استعما کیا ۔
محب وطن، جمہوری سوچ ، رفاقت، ہندو مسلم اتحاد کی بے مثال شناخت ، ادب، نیشنل کھیل کے کارکن‘ ، سیاست، معاشرے کی فلاحو اصلاح کے معمار‘ کی صورت دُنیائے فانی میں اپنے کرشمائی وجود کو لافانی کردیا اور ایک اننجمن ، بہ سلیقہ مہذب تنظیم کی صورت سار ی مخلوق کے لئے اپنی ایک منفرد شناخت کے نقوش تا قیامت ساری کائینات پر نقش کر گئے۔
۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۶ء کی صبح مظفر پور میں رحلت کر گئے۔ آپ کے انتقال کے بعد اچاریہ ’جے پی کرپلانی نے کہا ــ ’’ ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی ایک عظیم محبِ وطن ، انسانیت کے عقیدت مند خدمتگار تھے۔انکی موت معاشرے کے لئے ایک لئے بہت بڑانقصان ہے۔ افسانہ نگار اور صحافی کلام حیدر صحافی معین شاہد نے آپ کو ‘‘ بہار کے بابائے اُردو‘ ‘ کہا،آپ نے سر سیّد ایجیوکیشن سوسائیٹی کی طرز ’’ انممنِ خدام ملت‘‘ تعلیمی ادارہ اور ایک مسافر خانے کا قیام بھی کیا۔ آپ کو مجاہدِ ُاردو کا لقب بھی عطا ہے۔
٭٭٭
۔پونے۔رابطہ :9822031031

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here