کورونا وائرس نے دنیا کو معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پیو ریسرچ کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک کے قرضوں میں اس وبا کی وجہ سے اضافہ ہونے والا ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کا کوئی علاج نہیں ہے، ماہرین اس کے علاج کے لیے سماجی فاصلے کو ہی سب سے بہتر علاج قرار دے رہے ہیں۔
اس سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا یا شہریوں کا اس پر عمل کروانا ویسے تو ممکن دکھائی نہیں دیتا، تاہم اس کے لیے حکومتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے اعلانات کے بعد معاشی پہیہ رک گیا ہے، جس سے تمام ہی شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوچکے ہیں، تاہم جدید دنیا کے کچھ شعبہ جات لاک ڈاؤن کے باوجود مستحکم سطح پر موجود ہیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) دنیا کو پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ دنیا بھر میں معیشت 3 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔
کاروبارِ زندگی متاثر ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں زبردست کمی واقع ہوگئی جس کا اندازہ امریکی منڈی میں تاریخ میں پہلی مرتبہ تیل کی فی بیرل قیمت کا منفی میں چلے جانا ہے۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کورونا وائرس نے سب سے پہلے تیل کی صنعت کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کی طلب اور رسد صفر کے قریب پہنچ چکی ہے۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک او پیک اور روس کے درمیان قیمتوں کے تناؤ کے ساتھ وبا نے بھی اس صنعت کو مزید دھچکا پہنچایا۔اسی طرح برینٹ آئل کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی اور وہ گزشتہ 18 سالوں کے دوران پہلی مرتبہ 20 ڈالر فی بیرلر سے کم کی سطح پر آگیا۔
کورونا وائرس نے ٹریول انڈسٹری کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے، اس صنعت کو جنگوں میں بھی اتنا نقصان نہ ہوا تھا، لیکن پہلی مرتبہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے اپنے طیارے گراؤنڈ کر دیے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا کو عالمی وبا قرار دینے کے بعد دنیا بھر میں مقامی اور بین الاقوامی پروازوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
اس حوالے سے شائع چارٹ کے مطابق گزشتہ اپریل کے مہینے میں بین الاقوامی فلائٹس کی تعداد 2 لاکھ یومیہ تھی۔اگر اس کا موازنہ اس سال سے کیا جائے تو یہ کم ہو کر 50 سے 60 ہزار فلائٹس یومیہ پر آچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے 100 سے زائد ممالک نے کورونا وبا کے باعث سفری پابندیاں بھی عائد کردی ہیں جبکہ کچھ ممالک اپنے شہریوں کو لے کر اپنے وطن روانہ ہورہے ہیں۔
کورونا وائرس کا شکار ہونے والی صنعتوں میں ہوٹل انڈسٹری بھی شامل ہے، اس کا موازنہ اگر امریکا سے ہی کیا جائے تو دنیا کے دیگر ممالک کی صورتحال بھی واضح ہوجائے گی۔
امریکا میں ہوٹل انڈسٹری میں تقریباً 16 لاکھ افراد کام کرتے ہیں، جو اِسے امریکا میں ہی 9واں سب سے بڑا سیکٹر بنا دیتے ہیں۔
چونکہ اب لوگ گھروں میں ہی مقیم ہیں جس کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری کی ڈیمانڈ میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔یو ایس اے ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے پہلے ہفتے میں یومیہ فی کمرہ آمدنی میں 11.6 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
امریکی شہروں نیو یارک سٹی، سیٹل، نوکس ویل، ٹینیز سمیت کئی شہروں میں ہوٹل مالکان نے اپنے درجنوں ملازموں کو کام سے روک کر انہیں گھر بھیج دیا ہے۔
ہوٹل چین ’میریٹ‘ نے دنیا بھر میں اپنے ہزاروں ملازمین کو نکالنے کے منصوبے سے انہیں آگاہ کردیا ہے۔ امریکا میں اس انڈسٹری نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وبا کے دوران انڈسٹری کو سہارا دینے کے لیے ایک سپلیمنٹ پیکیج پاس کیا جائے۔
کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نے سینیما کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً تمام ہی سنیما بند ہیں، اس کی وجہ سے انڈسٹری کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے۔
کورونا لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً کئی فلموں کی ریلیز روک دی گئی ہے، اور ان کی ریلیز کی تاریخوں کو آگے بڑھا دیا گیا ہے۔
صرف مارچ کے حوالے سے ہی امریکی باکس آفس سے متعلق یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اسے عالمگیر وبا کی وجہ سے 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔کورونا وائرس پھوٹنے کے بعد صرف چین میں ہی ستر ہزار سنیما بند ہوگئے تھے جس کے باعث سال 2020 کے ابتدائی 2 ماہ میں چینی باکس آفس کو 39 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
اگر چینی باکس آفس کی آمدن کا مقابلہ گزشتہ برس کے اسی عرصے سے کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ اسے گزشتہ برس ان ہی ماہ میں 2 ارب 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا منافع ہوا تھا۔
یہ وہ انڈسٹری ہے جس کے نقصان کا اندازہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی منسوخی کے ساتھ ہی لگایا جاسکتا ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کھیلوں کی سرگرمیاں محدود ہونے لگی تھیں، تماشائیوں پر عائد پابندی کی وجہ سے پہلے یہ سرگرمیاں انڈور کی گئیں جبکہ بعد میں کھلاڑیوں اور اسٹاف کی صحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں مکمل طور پر ہی بند کردیا گیا۔
عالمی ایونٹس پر نظر دوڑائی جائے تو اس سال دنیائے کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ اولمپکس 2020 جاپان میں شیڈول تھا، تاہم جاپانی حکام نے بدستور بڑھتے کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے اسے آئندہ سال کے لیے ملتوی کردیا۔
فوربس کے مطابق جاپان کے آڈٹ بورڈ نے تخمینہ لگایا ہے کہ اولمپکس کی منسوخی کی وجہ سے جاپان کو اس کی تیاری میں لگائے گئے 22 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوگا۔
اسی طرح فٹبال کے ایک ایونٹ یورو کپ کو پہلے ملتوی کیا گیا جبکہ پھر کچھ دنوں بعد اس کی بھی منسوخی کا اعلان کردیا گیا۔
غیر ملکی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اس کے ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد منتظمین کو 300 یوروز کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ منسوخی کے اعلان کے بعد یہ نقصان 400 یوروز تک پہنچ گیا۔
ظاہری طور پر گھروں میں محصور لوگوں کے لیے یہ سوچنا آسان ہوگا کہ گھروں میں رہتے ہوئے اور موبائل فون استعمال کرتے ہوئے تسلسل کے ساتھ گیمز کی ڈاؤن لوڈنگ کی جارہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شعبہ بھی کورونا وائرس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگیا۔
عالمی وبا چین میں سب سے پہلے سامنے آئی، یہاں لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے گیمز کی سپلائی چین اور مینوچیکرنگ اور ڈیولپمنٹ مکمل طور پر بند ہوگئی۔
اسی طرح عالمی وبا کے باعث بڑے اوینٹس جیسے ای تھری 2020 بھی منسوخ ہوگیا۔
دنیا بھر میں کمپنیاں اپنے ملازموں کو گھروں سے کام کروانے پر مجبور ہیں، اس کے لیے انہیں ہر طرح کی سہولیات جیسے کہ انٹرنیٹ، سافٹ ویئرز اور گیجیٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔تمام ملازموں سے براہ راست بات چیت کرنے کے لیے زوم جیسے سافٹ ویئر کارآمد ثابت ہوئے، متعدد لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے مشکل کاموں کو آسان بنایا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق زوم کے شیئرز کی قیمت میں 131.1 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے، جبکہ ایک لمحے اس کے شیئرز کی قیمت 140 فیصد سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔
اس سے ظاہر ہے کہ انٹرنیٹ کی مدد سے آن لائن کاروبار کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ لوگوں کے گھروں میں رہنے اور ہر طرح کی اسٹورز کی بندش کی وجہ سے اب لوگ اپنی اشیائے ضروریہ کو گھروں میں بیٹھ کر ہی منگوانے پر مجبور ہیں۔
اسی وجہ سے دنیا کی بڑی ای کامرس ویب سائٹس ایمازون کے شیئرز میں 26.9 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد وہ مارکیٹ میں اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران 14 اپریل تک دنیا کے سب سے امیر شخص اور ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی دولت میں 24 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوچکا ہے۔