اسرائیل اور فلٓطین کے معاملات پر نظر ڈالنے کے بعد ایک عام آدمی بھی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ کوئی دو ملکوں اور دو ریاستوں کے درمیان جنگ یا کسی قسم کی جھڑپیں نہیں ہو رہی ہیں، بلکہ یہ صرف ایک ملکاپنی جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور دوسرے سماج کے لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس دلا رہا ہے۔ اسرائیل ایسا اس لئے کر رہا ہے تاکہ وہ پوری دنیا کو اور خاص طور سے عرب دنیا کو اپنی طاقت کا احساس دلاسکے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے فضائی حملوں میں اب تک 126 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے اور تقریباً ایک ہزار لوگوں کو زخمی ہو گئے ہیں۔جس طرح اسرائیل اور فلسطین کی فوجی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ویسے ہی وہاں کے لوگوں کی زندگی او معاشرت میں بھی زبردست فرق ہے۔ غزہ میں جہاں غریبی چیخ چیخ کر بولتی نظر آتی ہے ویسے ہی اسرائیل کے ہر شہر میں لوگ وہ زندگی بسر کرتے ہیں جس کا تصور مشرق کے کئی بڑے ممالک تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہاں کےعوام پر نہ صرف فوجی تربیت لازمی ہے بلکہ وہاں پر کسی غیر یہودی کے جانے پر کتنی طرح کی سیکورٹی پابندیاں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ڈرے سہمے رہنا وہاں کے عوام کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔
ہٹلر نے کہا تھا کہ میں نے کچھ یہودیوں کو اس لئے زندہ چھوڑ دیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں میرے بارے مین جان سکیں۔سو سال پہلے برطانیہ ایک طاقت ور ملک تھا اور اس نے اپنی طاقت اور اثر کا استعمال کرتے ہوئےاقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کے دو ٹکڑے کر کے ایک حصہ یہودیوں کو دے کر دنیا کی بچی کھچی اور بے گھر یہودی آبادی پر احسان کر دیا تھا۔ یہودیوں کو یہ ایک بڑا تحفہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب وہ جرمنی میں ہولوکاسٹ سے گزر چکے تھے۔ یہودیوں کو جیسے ہی اقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کا ایک حصہ ملا ویسے ہی انہوں نے اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کر دیا۔ عرب جو فلسطین میں اکثریت میں تھے، انہوں نے اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا اور سفارتی سطح سے لے کر زمینی سطح پر مخالفت شروع کر دی، لیکن یہودیوں نے جس خطے پر اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کیا تھا اس کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی اس لئےعربوں کو(اپنی آپسی چپقلش اور باہمی اختلافات کی بنا پر) ہر سطح پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسرائیل کو جب اس بات کا احساس ہو گیا کہ عرب کمزور ہوگئے ہیں اور وہ خود فوجی اعتبار سے مضبوط ہو گیا ہے۔ مستزاد یہ کہ اسے امریکہ جیسے ملک کی حمایت حاصل تھی۔ 1967 میں چھ دن کی جنگ میں عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے اس یروشیلم پر پورا قبضہ کر لیا جس کو اقوام متحدہ نے ایک بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا تھا اور اس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا کیونکہ یہ شہر دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگوں کے لئے یعنی یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مذہبی اعتبار سے بہت اہم تھا۔
اسرائیل نے یروشیلم پر قبضہ تو کر لیا لیکن اس کو یہ احساس ہے کہ یہاں پر یعنی بیت المقدس میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس لئے اس کو پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا جا سکتا، دوسرا اس کو یہ احساس ہے کہ یروشیلم عیسائی مذہب کے لئے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ حضرت عیسی کی پیدائش یہیں ہوئی تھی، تیسرا اسرائیل کے چاروں طرف مسلم عرب آبادی ہے اور وہ کب تک ان کو آپس میں لڑ وا کر خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اس لئے وہ ان کے ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ ہے، خود یہودیوں کی اسرائیل اور پوری دنیا میں آبادی بہت کم ہے اس لئے وہ اسرائیل میں آبادی کے تناسب کو بھی ذہن میں رکھتا ہے، اس کو یہ بھی احساس ہے کہ یہودیوں میں افزائش نسل میں زبردست گراوٹ ہے۔
اس لئے اب اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ کےساتھ وہ عرب ممالک کی معیشت کو بھی اپنا غلام بنا لے اس کے لئے اس نے ٹرمپ کے دور میں عرب حکومتوں سے اپنی شرطوں پر دوستی شروع کی اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے شروع کیے۔ اس کا مقصد عرب ممالک پر اقتصادی غلامی کے راستے سے قبضہ کرنا ہے۔ اس سارے عمل میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا اسرائیل پورا استعمال کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان کی تقلید باقی عرب ممالک بھی کر رہے ہیں۔فلسطین پر اسرائیل کے باقاعدہ ہوائی حملوں کے باوجود مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی بدستور جاری ہے۔ایک سوائے ایران کے سب کے منھ پر تالے لگے ہیں۔پوری مسلم دنیا امید کی نگاہوں سے ایران اور ترکی کی طرف دیکھ رہی ہے۔