اسلامی نشاۃ ثانیہ ،کیوں اور کیسے

0
1126

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولو (قرآن ۔سورہ قصص؛۷۷)۔’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ سنن ا بن ماجۃ
مسلمان کوجب تک یہ احکام یاد رہے وہ ساری دنیا پر غالب تھا اوراس کے غلبہ کو دیکھ کر دنیا کی غیر مسلم قومیں یہ محسوس کرتی رہیں کہ دین اسلام یقینا ایک ایسامذہب ہے جو علم کو فریضہ کا درجہ دیتا ہے اور ہر مومن سے کائنات پر غلبہ پانے کی کوششوں کا حساب چاہتا ہے مسلمانوں کا رجحان علم وآگہی ایک ہزار سال تک جاری وساری رہا چنانچہ اس دور میں اس نے ترقی کی بڑی منزلیں طے کیں اور دوسری قوموں کی نظر میں معزز بنا رہالیکن جب اس نے ان ارشادات کی نئی تاویلات پیش کرتے ہوے احکامات ربانی و نبوی کوبھلا دیا ۔دنیا کو بے ثبات کہہ کر اس سے ناطہ توڑ لیا تو قعر مذلت میں جاگرا ۔مسلمانوں کے اس رویہ پر یورپ کے غیر مسلم دانشوروں نے خوب مذاق اڑایا اور طنز یہ تبصرے کئے جب کہ مسلم دانشور خون کے آنسوئوں سے رونے پرمجبور ہوئے ا۔ن مسلم دانشوروں میں ایک نام اقبال کا ہے جنہوں اپنی شعری تخلیقات میں اپنے کرب وتڑپ کا اظہار کیا اورمسلمانوں کے اس رویہ کو ابلیس کی کامیابی سے تعبیر کیا۔( ارمغان حجاز) اقبال مسلمانوںکے زوال کا سبب ان کے غیر عقلی رجحان کوسمجھتے ہیں ان کے نزدیک مسلمان دنیا کوبے ثبات سمجھ کر اس میںکوئی دلچسپی لینانہیں چاہتا ہے۔ مسلکی اختلافات میں مبتلا ہوکر وہ دینی مسائل کی نئی نئی تاویلات پیش کرتا ہے اور اس طرح اختلافات کوجنم دیتاہے۔ انکے خیال میں مسلمان جن غیر ضروری کاموںمیں الجھاہوا ہے ان کووہ دینی کام سمجھتاہے اور دنیاوی کاموں سے بیزار نظر آتا ہے اس میںنہ دنیاوی کاموںمیں حصہ لینے کی خواہش ہے اور نہ جذبہ ۔دین کی نئی تاویلات ڈھونڈنے کو بڑا کارنامہ تصور کرتا ہے .

اقبال سے کافی قبل ہی یورپ کے غیر مسلم دانشوروں نے مسلمانوں کی پستی اور زوال پر بڑے ذلت آمیز تبصرے کئے تھے۔ ایسا ہی ایک تبصرہ پروفیسر آرمین ویمبری نے ایک مضمون لکھ کر کیا تھا جو Budapest Herald نامی مشہور روزنامے میں1891کی ایک اشاعت میں شائع ہواتھا اور جس نے مولانا ابوالکلام آزاد کو انتہائی ذہنی تکلیف پہنچائی تھی ۔پروفیسر ویمبری ہنگری کارہنے والا تھا وہ کافی عرصہ ترکوں کابہی خواہ رہا ۔اس نے مسلمانوں کے ساتھ زندگی کابڑا حصہ گزارا لیکن آخرمیں وہ زوال پذیر مسلمانوں کے رویہ سے سخت مایوس ہوا چنانچہ وہ اپنے ایک مضمون میں اس طرح رقم طراز ہے :

’’مسلمان کی حمایت سے اب کوئی فائدہ نہیں ۔ ۔ تمام انسانی حس وشعور ان سے سلب ہوچکے ہیں ۔ نہ ان کا کوئی مسلک اور نہ کائنات میں کوی مقصد ـ ـ ۔ (خطبات آزاد)۔ پچھلےدو سو سال کے واقعات سے ایسامعلوم پڑتا ہے کہ مغربی اقوام کاایجنڈا ویمبری کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے ورنہ یہ کیوں کر ہوتا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کے بہانے پوری امت مسلمہ کوذلیل کیا جاتا رہا

یہ بھی پڑھیں

شہناز شورو کا افسانوی استفہامیہ

مسلمانوں کے زوال کا دور یوںتو تیر ہویں صدی ہی میں شروع ہوگیاتھا لیکن یہ زوال انیسویں صدی تک مکمل ہوچلا تھا ۔ڈر لگتاہے کہ اگر اس زوال کا سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی چلتا رہا اورمسلمان حق اللہ اور حق العباد کو ساتھ لے کر نہ چل سکے ۔علم دین اور علم دنیا کواپنے لئے ضروری نہ سمجھ سکے ۔د دنیا کو بے ثبات کہہ کر ٹھکراتے رہے۔ مختلف کے ناموں سے اپنی صفوں کوعلاحدہ علاحدہ جماتے رہے۔ فروعی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر کفر کافتویٰ عائد کرتے رہے ۔سید احمد،جمال الدین افغا نی، محمد عبدہ ۔ اقبال ۔مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا کلب صادق جیسے دانشوروں کے خیالات اور احساسات سے دوری اختیار کرتے رہے ۔ جدید علوم سے دوری کو بھی برقرار رکھتے رہے تو اکیسویں صدی میں اسلامی معاشرہ اپنی روحانی قدروںاورعقلی وفکری صلاحیتوں کے باوجود قعر مذلت سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو پائگا۔ ایک مسلم مفکر نے ان حالات کو اس طرح بیان کیا ہے ’’مسلمان نے جس حد تک اپنے آپ کو علم سے دور کر لیا ہے(بیسویں صدی میں ) اگر یہ دوری اکیسویں صدی میں باقی رہی تواس کا مستقبل پچھلی تین صدیوں سے بھی زیادہ عبرت انگیز ہو گا ‘‘۔(اردو سا ئنتیفک سوسا ئیٹی ۔1996).

۔۔اللہ نے انسان کو اس زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیاہے (قرآن: ۲؛۳۰) اور اس فریضہ یعنی Mandate کو انسان اس وقت تک پورا نہیں کر سکتا جب تک وہ اس زمین کو پوری طور پر دریافت نہ کر لے ۔

بیسویں صدی میںیوں تو بڑے انقلابات آئے جنگیں ہوئیں حکومتیں بنیںاور اجڑیں نئی دریافتوںکاسلسلہ شروع ہوا فرسودہ رسموں کوچھوڑا گیا کچھ نئی قدروں کواپنایا گیا نفرتوں اور عداوتوں کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے لیکن دنیا کے ان علاقوں میں جہاں مسلم اکثریت تھی نئی دریافتوں کا فقدان رہا ۔ معاشی حالات میں نما یاں تبدیلی ممکن نہ ہو پایی ۔ عوامی حکومتیں ناکام ہوئیں۔۔ قوم مسلم کاوقار گھٹتا گیا ۔یہ امت مغرب کی جانب دیکھنے لگی اور اپنی بقاء کا دارو مدار صرف مغرب کی خوشنودی کوسمجھنے لگی۔

اکیسویں صدی کی شروعات مسلمانوں کی تذلیل سے شروع ہوچکی ہے طاقت ور مغربی ممالک دہشت گردی کے تدارک کے بہانے مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں معاشی اعتبار سے ان کو Colonize کرنے کا پروگرام بڑے پیمانے پر چل رہا ہے ۔اس ذلت آمیز دور سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی دنیا میں ایک ایسا عقلی اورعلمی انقلاب بپا کیا جائے جس کو اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نام دیا جا سکے۔نشاۃ ثانیہ کی تعریف کسی معاشرے یا قوم کی تجدید، بحالی، یا احیا کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ تیرہویں صدی کے بعدیوروپ نشاۃ ثانیہ کی بنا پر ہی اپنےتاریک دور سے باہر آسکا ۔ یہ نشاۃ ثانیہ دراصل سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک انقلاب تھا۔جس نے دنیاوی معاملات میں کلیسیا کی بالادستی کو ختم کیا۔ اور عیسائیت نے عقلیت پسندی، معاشی خوشحالی، سائنسی مزاج اور آزادی اظہار کی راہ اختیار کی۔

اسلامی نشاۃ ثانیہ کے خدو خال ویسے ہی ہونے ضروری ہیں جیسا کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے تھے جس نے یورپ کو تاریک دور سے نجات دلائی، ۔ چرچ کی بالا دستی کو ختم کیا جاسکا،علم کی اہمیت کو محسوس کیا گیا ۔ سائنسی تخلیقات کے عمل کو تیز کرتے ہوئے ہر اس دینی نظریے کو مسترد کیا گیا جو یورپ کی سائنسی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی ۔

آج کے مسلم سماج میں یورپ کے طرز کے نشاۃ ثانیہ کی شدید ضرورت ہے جہاں دین کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے عصری علوم کواہم مقام دیا جاسکے۔ اقبال ،سرسید، محمد عبدہ کے فکری نظریات کو عام کیا جاسکے۔ سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقی کو لازمی قرار دیا جائے عوامی خواہشات کی قدر کی جائے۔ دنیا کو بے ثبات کہنے کے نظریے کو ترک کیا جائے، عبادات کو تسخیر نفس کا ذریعہ سمجھا جائے نہ کہ تسخیر دنیا کا ذریعہ ۔سماج میں عالموں کی قدر ہواور عالموں کے معنی جدیدعلوم پر قدرت رکھنے والوں کے ہوں نہ کہ صرف دینی علوم کے جاننے والے۔ اس ضمن میں جناب سید حامد کے اس مضمون پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے حالات حاضرہ پر بڑی سچائی سے تبصرہ کیا ہے وہ رقم طراز ہیں : ’۔’’۔۔ مسلمان سے وقت کابے درد نقیب پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میرا ساتھ دو نہیں تو مٹ جائو گے لیکن مسلمانوں کی بے سدھ کروٹیں جواب دے رہی ہیں کہ دنیا میں رکھاہی کیا ہے کہ کوئی اس کے لئے سر کھپائے۔ (تہذیب الاخلاق مئی ۱۹۸۶ء۔) مسلمان فی زمانہ سائنس سے دور ہیں عام بے حسی کا زمانہ ہے۔ (سائنس نومبر ۲۰۰۲ء۔)

واضح رہے کہ جس صورت حال کو سید حامد صاحب نے ہندوستان(یا عالم اسلام) کے تناظرمیں بیان کیا ہے ویسا ہی حال یورپ کا نشاط ثانیہ سے قبل تھا۔اسوقت بھی۔ اسکے خیال میں بھی عوامی ذلت وخواری،غریبی و مفلسی کی وجہ خدا سے دوری تھی جسے صرف اور صرف پادری کی قربت سے ختم کیا جا سکتا تھا۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے مثبت اثرات کے ظاہر ہونے میں کافی عرصہ لگ گیا تھا لیکن آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا عمل ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوناناگزیر ہے ۔اس کام کے لئے سائنسی ترقیوں کی خاطر قومی آمدنی کا کم سےتین فیصد حصہ خرچ کیا جانا ہوگا۔ درسگاہوں میں دینی اور عصری علوم کو دوخانوں میں بانٹنے کا رواج ختم کرنا ہوگا۔ سائنس کی بنیادی تعلیم کو لازمی قرار دیا جانا ہو گا۔ ہر مسلمان مرد وعورت پر علم کو فرض کیا جانا ہو گا۔ اوہام پرستی ، فرسودہ رسم و رواج کو ترک کر کے نئے سائنسی رجحانات کو اپنانا ہو گا جیسا کہ عہد وسطیٰ میں مسلمانوں کاطریقہ تھا اسلامی نشاۃ ثانیہ کا مقصد مسلمانوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں مصروف رہنا ہونا چاہئے۔اس بات کا علم ساری امت کو ہونا ہے کہ مادی دنیا میں غلامی اور تذلیل کی وجہ دین سے دوری نہیں ہے جس کا ذکر اکثرکچھ رہنماکرتے ہیں اور مسلمانوں کو احساس گناہ وشکست (Depression) میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ اقتصادی بدحالی ہے جسے صرف اور صرف عمل پیہم سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ یعنی سائنسی کامرانیوںکا عمل۔
خوش قسمتی سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلم دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں خواندگی قابل قدر فروغ ملا۔ نتیجہ یہ ہے کہ

20 سے زیادہ ممالک میں شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ تاہم، تحقیق اور ترقی کے میدان میںمغرب کے مقابل بڑی خلیج باقی ہےاسلامی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (IESCO) نے حال ہی میں تمام مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں تحقیق اور ترقی کے لیے اپنی مجموعی ملکی پیداوار کاکم سے کم دہ فیصد مختص کریں۔

یہ بات سب کے علم میں ہونی چاہئے کہ باوجود تیل کی دولت کے تقریباً باون ممالک پر مشتمل ( آبادی ۔ایک سو اسی کروڑ )ساری مسلم دنیا کی قومی آمدنی (Gross Domestic Product) 9.4 ٹریلین ڈالر ہے ۔ جبکہ امریکا U.S) ) کی جی۔ڈی۔پی (آبادی ۔ 33 کروڑ 24.3 ( ٹریلین ڈالر ہے۔ (Wrld Bank 2023) اسطرح غور کیا جائے تو ساری دنیا کی جو جی۔ڈی۔پی Trillion 95 (ٹریلین ) ہے ا اسکا کم و بیش دس فیصدمسلمانوں کے پاس ہے جبکہ دنیا (کل آبادی آٹھ بلین) میں مسلمان 25% بستے ہیں۔ بر خلاف اسکے عیسائی 31% ہیں لیکن انکے پاس دنیا کی جی۔ڈی،پی کا 50% سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق د سویں صدی میں مسلم اسپین کی قومی آمدنی باقی سارے یورپ کی آمدنی کے برابر سمجھی جاتی تھی۔۔ یہاں ایک اور ضروری مقابلہ قابل ذکر ہے کہ امریکہ سائنسی تحقیات (Research & Development) کے لئے ہر سال 660 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جو اسکی قومی آمدنی کا کم و بیش تین فیصد یے جبکہ پوری مسلم دنیا اس ضروری ریسرچ کے لئے کل 72 بلین ڈالر ۔ (World Bank)، اس صورت حال کو تیزی سے نہ بدلا گیا تو مسلمانوں کا مغرب کے ہاتھوں استحصال ہونے کاسلسلہ جاری رہے گا ۔

اسلامی نشاۃ ثانیہ میں سرسید احمدکی فکر کواپنانا ہوگا اور علی گڑھ تحریک کو ساری دنیا میں عام کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایسی طاقتوں کو مسلم سماج میں اہمیت نہ دی جائے جو حصول جدید علوم کو گمراہی کا راستہ بتائیں ۔امت مسلمہ کو حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کے اس اعلان پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جس میں فرمایاگیا ہے :

’’مغرب نے اپنی اصل طاقت وقت کے تقاضہ کا لحاظ کرنے اور ترویج علم اوراس میںفروغ حاصل کرنے سے بنائی ہے انہوں نے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی وقوت کی نئی راہیں تلاش کیں اور اقتصادی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔۔ آج اہل دین (مسلمان)قدیم اختیار کردہ ذرائع کو مقاصد کا درجہ دینے لگے ہیں اور بہتری کی جو صورتیں پیدا ہورہی ہیں ان کو اختیار کرنے سے گریزکرنے لگے ہیں‘‘۔( تعمیر حیات1994) مولانا رابع کا یہ بیان مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم کے اس بیان کی عکاسی کرتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا :

’’اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید وبامقصد طریقہ پر سائنس وصنعت کو فروغ دیں اور علمی وسائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اوران سے استفادہ کرکے تحقیق وجستجو اور تجربہ ومشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘۔(مسلمان سائنسداں۔1985)

ملیشیا کے وزیر اعظم ماثرمحمد نے کم وبیش انہیںخیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’مسلمان صنعتی انقلاب میں مسیحی ملکوں سے بچھڑتے چلے جارہے ہیں اور لباس وزبان جیسے جزئیات میں الجھے رہتے ہیںــ۔۔

۔ دسمبر۲۰۰۲ء انہیں حالات کے پیش نظر اسلامی دنیا کی تنظیم O.I.C نے ایک قرار داد منظور کی تھی جو اس طرح ہے۔

For the resurgence of islam, Scientific renaissance constitutes an essential element -there is a need to acquire scientific knowledge to rekindle the flame of inquiry innovation (اجتہاد)in the muslim ummah

ترجمہ ۔۔اسلام کے احیاء کے لیے سائنسی نشاۃ ثانیہ ایک لازمی عنصر ہے – امت مسلمہ میں تحقیقاتی جدت (اجتہاد) کے شعلے کو دوبارہ جلانے کے لیے سائنسی علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم سے بہت قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی سائنسی سرگرمیوں کو اسلام کا لازمی جزو قرار دیا تھا اور تحقیق وجستجو کو اہمیت دی تھی لیکن حیف کہ فکری زوال کے بناء پر مسلمان اجتہادی صلاحتیں کھو بیٹھا اور تقلید کو ہی مقصد حیات سمجھنے لگا

مسلمان ماضی کی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں، اگر وہ نشاۃ ثانیہ کو علمی جہاد کا نام دیں۔ حقیقی اسلامی اقدار کو فروغ دینا ہوگا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کے فرمودات مسلمانوں کے لیے دینی اور دنیوی ضرورتوں پر عمل کرنے کا بہترین اور مثالی نمونہ ہیں۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

جو اصل میں ترجمہ ہے سورہ رعد کی اس آیت (۱۱) کا جس میں فرمایا گیا ہے :

ترجمہ : واقعی اللہ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتاجب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے۔

اور یہی بنیاد ہے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی۔قوم مسلم میں تغیر لانے کے لئے اور اسلامی عظمت پانے کے لئے ایک سائنسئی نشاۃ ثانیہ کی اشد ضرورت ہے۔
ڈھونڈنے والوں کو ہم دنیا بھی نئی دیتے ہیں (اقبال)

٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here