روزگار کے لیے اپنے گھر اور ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جاکر محنت مزدوری کرنے والے دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو امید ہوتی ہے کہ وہ پیسے کما کر ایک دن ضرور گھر لوٹیں گے اور دنیا میں کورونا وائرس پھیلنے سے قبل ایسا ہی ہو رہا تھا۔
مگر کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد اپنے اہل خانہ اور وطن کو چھوڑ کر دیار غیر میں روزگار کے لیے جانے والے لاکھوں افراد کی خواہشات دم توڑنے لگی ہیں اور ان میں سے درجنوں افراد ایسے ہیں جو کورونا کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بدقسمتی یہ کہ ایسے لوگوں کی لاشیں تک گھر واپس نہیں بھجوائی جا رہیں۔
جی ہاں، دوسرے ممالک میں روزگار کے لیے جانے والے ایسے افراد جو کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئے، ان کی لاشیں ان کے اصل وطن اور گھر نہیں بھجوائی جا رہیں بلکہ انہیں دیار غیر میں ہی دفن کیا یا جلایا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خلیجی ممالک و سعودی عرب میں کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرجانے والے غیر ملکی افراد کو ان کے آبائی وطن بھجوانے کے بجائے ان کی آخری رسومات ادا کرکے انہیں دفنایا یا پھر جلایا جا رہا ہے۔
خلیجی ممالک پاکستان، بھارت، فلپائن، سری لنکا اور دیگر ایشیائی ممالک کے لاکھوں افراد روزگار کے لیے موجود ہیں جو کئی دہائیوں سے خلیجی ممالک کی بینکوں، ہسپتالوں، دفاتر، گھروں اور تعمیراتی شعبے میں خدمات سر انجام دیتے آ رہے ہیں۔
یقیناً ایسے افراد کی بدولت ہی خلیجی ممالک کی معیشت بہتر ہوئی ہے اور بدلے میں خلیجی ممالک ایسے افراد کو اچھی مراعات بھی فراہم کرتے ہیں مگر کورونا وائرس میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار جانے والے ان غیر ملکی افراد کی مجبوری کے تحت خلیجی ممالک میں ہی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہیں۔
کورونا کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جانے والے گھر اور اہل خانہ سے دور ایسے افراد میں دبئی میں ہلاک ہونے والا بھارت کا 50 سالہ شخص بھی شامل تھا، جسے وہاں کے سرکاری اہلکاروں نے سخت حفاظتی انتظامات کے تحت شمشان گھاٹ پہنچایا۔
آخری رسومات کے لیے مرجانے والے مذکورہ شخص کی لاش کو آدھے گھنٹے تک حکام نے رکھا اور اس انتظار میں رہے کہ ان کا کوئی قریبی دوست آخری لمحات میں آئے مگر پھر حکام نے مایوس ہوکر مرنے والے شخص کی لاش کو بڑے احتیاط سے جلانے کے بعد ان کی ‘استھیوں’ (باقیات) کو ایک چاندی کے ڈبے میں ڈال کر سفارتخانے کے حوالے کردیا۔
مذکورہ واقعہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہونے والا واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے ہی کئی غیر ملکی افراد کو تن تنہا آخری رسومات ادا کرنے کے بعد جلایا یا دفنایا جا چکا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں کورونا وائرس سے 168 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہلاک ہونے والے افراد میں بھارت اور فلپائن سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے ایسے افراد بھی شامل ہیں جو روزگار کے سلسلے میں وہاں کئی دہائیوں سے رکے ہوئے تھے۔
روزگار کے سلسلے میں اپنا ملک اور گھر چھوڑ کر کورونا وائرس میں مبتلا ہوکر دیار غیر میں ہلاک ہونے والے ایسے افراد کے اہل خانہ نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ روزگار کے سلسلے میں جانے والے وہ اپنے ان پیاروں کی لاش کو بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
کورونا کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جانے والے افراد میں صرف متحدہ عرب امارات میں روزگار کے سلسلے مین آنے والے افراد ہی شامل نہیں بلکہ سعودی عرب میں رہنے والے بھی متعدد غیر ملکی شامل ہیں۔
سعودی عرب میں بھی روزگار کے سلسلے میں مقیم ان افراد کو جو کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار رہے ہیں، انہیں بھی یو اے ای کی طرح آخری رسومات ادا کرنے کے بعد وہیں سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔
تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مرنے والے ایسے تمام افراد میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ انہیں مرنے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرکے ان کے اہل خانہ یا پھر ان کے ممالک کے سفارتخانوں کو ضرورت مطلع کیا جا رہا ہے۔