یحیی ابن ہرثمہ کہتا ہے: بہارکے موسم میں ایک دن آسمان صاف تھا اور سورج چمک رہا تھا۔ امام بارش والا لباس پہنے ہوئے اپنے گھر کے دروازہ سے نمودار ہوئے۔ مجھے اور سارے کارندوں کو اس وقت تعجب ہوا جب صحرا کے بیچ میں اچانک بارش ہو گئی۔ اس بارش اور اس کی مصیبت سے امام کے علاوہ کوئی بچ نہیں پایا!
امام نے میری طرف رخ کیا اور کہا:مجھے پتا ہے تمہیں بارش کا علم نہ تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیں جیسے تم نے گمان کیا اس طرح نہیں(یعنی یہ علم امامت کی بنیاد پر نہیں)بلکہ میں نے صحرا میں زندگی گذاری ہے اور صحرا کی ہوا کے انداز کو جانتا ہوں۔ میں نے اس خوشبو سے بارش کا اندازہ لگا لیا اور اس بارش کیلئے پہلےسے آمادہ ہو گیا!
ان علمی واقعات اورحکیمانہ فکر کے سبب لوگوں کو حضرت کے بے پایاں علم کا اندازہ ہوا!
امام علی نقی علیہ السلام کی ہمیشہ سے یہ سوچ تھی کہ اس طرح عباسی خلفاء کے دور سے مثبت فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالی کے خالص دین کی دعوت دیں تاکہ فائدہ اٹھانے والے فائدہ اٹھا سکیں!اور یہ کام بہت بڑی تدبیر اور حکیمانہ دانش اور راہ خدا میں استقامت سے ممکن اور میسر ہوا۔
رحمدلی اور کریمانہ سلوک
ابو عبد اللہ محمد ابن قاسم بطحائی خاندان ابو طالب میں سے تھا، لیکن بنی عباس کا پیروکار تھا۔ ایک دن اس نے خلیفہ متوکل کے سامنے چغلی کھائی۔ اور کہا: امام کے گھر میں بہت سار سازو سامان اور اسلحہ ہے۔ خلیفہ متوکل نے سعید حاجب کو حکم دیا: رات میں امام کے گھر پر چھاپا مارو، اور سارے مال اور اسباب پرقنضہ کر کے دربار میں لاو!
ابراہیم ابن محمد اس واقعہ کو سعید حاجب سے نقل کرتے ہوئے اسطرح بیان کرتا ہے:میں رات کو امام کے گھر پہنچا۔ میرے پاس سیڑھی تھی، جس کے ذریعہ میں امام کے گھر کی چھت پر پہنچا۔ بہت اندھیرا تھا مجھے پتانہیں چلا کہ میں کسےا صحن تک پہنچا۔ ناگہاں میں نے سنا امام نے اندر سے مجھے آواز دی: يا سعيد مکانک حتى ياتوک بشمعة; اے سعید! وہیں ٹھرو! تاکہ تمہارے لئے شمعدان لائیں!
کچھ دیر نہ گذری تھی کہ شمعدان کے ساتھ آتے دکھائی دیے۔اور میری، گھر کے صحن کی طرف رہنمائی کی۔امام نے عبا اوڑھ رکھی تھی اور کمرے میں ایک مصلی بچھا ہوا تھا جس پر امام قبلہ رخ بیٹھے تھے۔اور امام نے مجھ سے کہا: یہ کمرے ہیں جاو دیکھو!میں نے سارے کمرے چھان مارے لیکن مجھے کوئی مشکوک چیز نظر نہیں آئی۔صرف ایک پیلا بستہ نظر آیا جس پر خلیفہ متوکل کی ماں کی مہر لگی ہوئی تھی۔ کچھ اور بستے بھی نظر آئے جس پر ایسی ہی مہر تھی۔امام نے کہا : یہ ہے میرا مصلی! میں نے مصلی کو اٹھایا تو ایک تلوار تھی جس پر غلاف نہ تھا۔ میں اس تلوار اور ان بستوں کے ساتھ امام کو لےکر خلیفہ متوکل کی دربار میں آیا۔خلیفہ متوکل نے جب اپنی ماں کی مہر کو دیکھا تواپنی ماں کو بلایا۔اس کی ماں آئی تو اس نے اس مہر کے بارے میں اس سے سوال کیا؟ تو اس کی ماں نے جواب میں کہا:میں نے تیری بیماری دیکھ کہ نذر کی تھی کہ اگر تو صحتیاب ہو گیا تومیں ۱۰ ہزار دینار امام کی خدمت میں پیش کروں گی۔یہ وہ دینار ہیں اور تم دیکھ رہے ہو کہ امام نے اس مہر کو نہیں توڑا اور بستہ نہیں کھولا!
خلیفہ متوکل نے آخری بستہ کھولا تو اس میں ایک ہزار چار سودینارموجود تھے۔ اس وقت خلیفہ متوکل نے حکم دیا کہ ان تمام دیناروں کو بستوں میں بند کرو اور ان تمام بستوں کو امام کی تلوار کےساتھ امام کے حوالہ کرو!
میں نے وہ بستے اور تلوار، امام کو لوٹا دیے۔ مجھے امام کے سامنے جاتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔ اس وجہ سے میں نے امام سے عرض کی:مولا مجھے معاف کریں میں آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر میں داخل ہوا لیکن میں کیا کرتا میں سپاہی تھا اور مجھے حکم دیا گیا تھا۔ امام نے فرمایا: «و سيعلم الذين ظلموا اى منقلب ينقلبون »;
اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔
امام علی نقی علیہ السلام کے ساتھ،خلیفہ متوکل کی رفتار ، ظاہر میں محترمانہ تھی لیکن وہ مسلسل ، امام کو اپنی نظروں میں رکھے ہوئے تھا۔ اور امام کے جاہ و حشم اور عزت کو برداشت نہ کر پا رہا تھا!
وہ کبھی امام کی قیدکا تو کبھی امام کے گھر کی تلاشی کا فرمان دیتا تھا۔ اور جھوٹے بہانے اور تہمتیں لگا کر لوگوں کے سامنے امام کی عزت کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔جیسے خلیفہ متوکل نے امام کی مرضی کے بغیر اسے سامرا بلوایا۔ پہلے تو اس کا ارادہ یہ تھا لوگوں کے سامنے امام کی عزت کو کم کیا جائے! اس وجہ سے امام کو یہ بتائے بغیر کہ اسے کس نے بلوایا ہے ایک جگہ پر ٹہرایا گیا جس کا نام «خان الصعاليک » تھا اور وہان صرف فقیر اور بھیک مانگنے والے لوگ جمع ہوتے تھے۔امام کا ایک چاہنے والا جس کا نام صالح ابن سعید تھا ۔اس نے امام کو ایسی جگہ پایا تو اس نے امام سے عرض کی:مولا میں آپ پر قربان! وہ لوگوں کے سامنے آپ کی عزت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ کو ایسی ناپسند جگہ رکھا ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام نے مسکرا کےسعید ابن صالح کو ایک طرف متوجہ کیا۔ جب صالح ابن سعید نے وہاں دیکھا تواعجاز امامت کے ساتھ اس نے جنت کے باغوں اور محلوں کا مشاہدہ کیا۔ اور اس وقت امام نے فرمایا: حيث کنا فهذا لنا يا ابن سعيد لسنا فى خان الصعاليک; (7) اے ابن سعید!ہم جہاں بھی رہیں یہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہم ان میں رہتے ہیں خان الصعاليک میں نہیں!
اس طرح امام، ایک کے بعد ایک خلیفہ متوکل کی تمام سازشوں کو ناکام بناتے گئے۔اور امام علی نقی علیہ السلام کی زندگی کا جو دن گذرتا تھا وہ لوگوں کی نظر میں امام کے جاہ و جلال اور عزت میں اضافہ کا سبب بنتا تھا۔اور امام کے ملکوتی اور معنوی مقامات لوگوں کے سامنے آتے تھے۔اس نورانی تجلی کی وجہ سے عام لوگ تو اپنی جگہ حکومت کے کارندے بھی امام کو محبوب رکھنے لگے اور اس محبوبیت میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ خلیفہ متوکل امام کے مبارک وجود کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے امام کے قتل کا ارادہ کیا۔
۲۔ علمی سوالات کے جواب
امام علی نقی علیہ السلام کا اسلامی معاشرہ کی رہبری کا ایک اور طریقہ، علمی اور شرعی سوالات کے جوابات تھا۔ ہم ان میں سے دو مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف) خلیفہ متوکل کے دور حکومت میں،
ایک مسیحی نے مسلمان عورت سے زنا کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی کلمہ شہادتین کو اپنی زبان پر جاری کیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسے قید کر کے خلیفہ متوکل عباسی کے سامنے لایا گیا۔ اس دور کے دانشمندوں میں سے مشہور دانشمند، جس کا نام یحیی ابن اکثم تھا۔ اس نے اس معاملہ میں قضاوت کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ اس کے اسلام نے اس کے گناہ کو ختم کر دیا ہے اور اب اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ کچھ قاضیوں کا کہنا تھا اس پر تین بار حد جاری کی جائے۔ اور کچھ اور قاضیوں نے کسی اور حکم کا اظہار کیا۔
بہرحال خلیفہ متوکل اس مسئلہ میں بہت حیران اور پریشان ہو گیا۔ اس نے مجبورا حقیقی حکم کو جاننے کیلئے امام علی نقی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ امام نے پورا واقعہ جاننے کے بعد فرمایا: يضرب حتى يموت; اسے اتنا مارا جائے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے!
یحیی ابن اکثم اور دوسرے قاضییوں نے اس حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: اے امیر! ایسا کوئی حکم قرآن اور حدیث میں وجود نہیں رکھتا۔ امام سے اس حکم کی دلیل طلب کریں۔ جب خلیفہ متوکل نے امام سے اس حکم کی سند طلب کی تو امام نے سورہ غافر کی چند آیایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «بسم الله الرحمن الرحيم، «فلما راوا باسنا قالوا آمنا بالله وحده و کفرنا بما کنا به مشرکين فلم يک ينفعهم ايمانهم لما راو باسنا سنت الله التى قد خلت فى عباده و خسر هنالک الکافرون »;
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں۔
تو عذاب کے دیکھنے کے بعد کوئی ایمان کام آنے والا نہیں تھا کہ یہ اللہ کا مستقل طریقہ ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں گِزر چکا اَہے اور اسی وقت کافر خسارہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
خلیفہ متوکل کو امام کا جواب پسند آیااور اس نے حکم دیا کہ اس مسیحی، فاسق مرد کو اس قدر کوڑے مارو کہ مر جائے۔