لذت عشق علی ؑ

0
258
  • تحریر : مولانا محمد رضی مھدوی مقیم حال کربلاعراق
    WHATSAPP +919648176007
    [email protected]
    عشق ایک آفاقی اور قرآنی موضوع ہے (والذین آمنوا اشد حبا للہ۔ایمان والوں کی تمام تر محبت اللہ سے ہوتی ہے۔سورہ بقرہ ۱۶۵) عشق انسانی خمیر میں رچی بسی شی کا نام ہے جسے کوئی جدا نہیں کرسکتا ، جسطرح انسان سانس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتااسی طرح عشق کے بغیر زندگی پر سکون نہیں ہو سکتی کیونکہ انسان کی فطرت میں محبت اور عشق کا تصور بیادی حیثیت کا حامل ہے۔
    وہ عشق ہی تھا جو زلیخا کی جوانی پلٹی ،وہ عشق ہی تھا جو حضرت نوحؑ پتھر کھانے کے بعد بھی تبلیغ کرتے رہے اور شدید طوفان میں بھی حق و صداقت کا پرچم بلند کرکے حیات جاویدانی کی علامت بن گئے،وہ عشق ہی تھا جوآتش نمرود میں کود گیا اور حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کو گلزار بنا دیا ،وہ عشق ہی تھا جو اسمٰعیل کیلئے چاہ زمزم کو خلق کیا،وہ عشق ہی تھا جوایک ماں صفا ء و مروہ کے درمیان سعی کرتی رہی اور تا قیامت وہی عمل فروع دین کا جز و لاینفک قرار پایا ،وہ عشق ہی تھا جو کنویں کی گہرائی سے لیکر مصر کی بادشاہت تک مطمئن رہا ، وہ عشق ہی تھا جو حضرت بلال جیسے سیاہ فارم کو نور محمدی سے منور کرگیا اور وہ ثقیل پتھر اور دھوپ کی شدت برداشت کرتے رہے اسکے بعد ایسی بلندی ملی کہ خانۂ خدا کی چھت سے اذان دینے کا حق پیدا کرلیا ،وہ عشق ہی تھا جو حبش کی شہزادی اپنا راج پاٹ چھوڑ کر شہزادیٔ جنت کی خادمہ بننے کا اپنا شرف جانا ، وہ عشق ہی تھا جس نے سلمان فارسی کو سلمان محمدی بنادیا ، وہ عشق ہی تھا جو بے زر کو ابوذر کرگیا، وہ عشق تھا جو دار پر چڑھ کر بھی علی ؑعلی ؑ صدائیں دیکرمسکراتا رہا ، وہ عشق ہی تھا جو تپتے صحرا میں اپنے مقدس ہاتھوں پر بیٹے کی لاش لیکر شکرا للہ کا نعرہ بلند کرتا رہا ۔
    شاید یہی وجہ ہے کہ کسی عاشق نے آواز دی (العشق نار اللہ المؤقدۃ غروبھا وطلوعھا علی ٰ الافئدۃ ) عشق اللہ کی بھڑکائی ہوئی وہ آگ ہے جسکا طلوع اور غروب دلوں پر ہوتا ہے ۔
    یہ ایک عالمگیر جذبہ ہےاسکے مختلف مدارج ہیں ۔غیر ذی روح مادی ذرات میں اسے کشش کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور ذوی الارواح میں اس کشش کا نام محبت ہوجاتا ہے اور جب ارفع و اعلیٰ ہستیوں میں محبت بھی اپنی اعلیٰ و ارفع قدروں کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے تو اسے عشق کہتے ہیں ۔
    یہ کہنا ہی عبث ہے کہ کلمۂ عشق صرف مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے ہر دور میں کلمۂ عشق حقیقی اور پاکیزہ محبت کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے کیونکہ عشق کی منزل معرفت کے بعد ہے وہ عشق ہی بے لذت ہے جسمیں معرفت کا دخل نہ ہو ۔بغیر معرفت عشق کا دعویٰ جھوٹ اور کذب پر مبنی دماغی خلل سے زیادہ کچھ نہیں ہے ورنہ عاشق اپنے معشوق کو میدان میں تنہا چھوڑکر پہاڑوں میں پناہ نہ لیتا ، با معرفت عشق گھر بار قربان کرکے برستی تیروں میں سجدہ کرتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔
    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کس سے عشق و محبت معشوق حقیقی کی بارگاہ تک رسائی کا ذریعہ ہے ؟
    آئیے قرآن سے پوچھتے ہیں !
    قرآن کریم میں سورہ ٔ آل عمران آیت ۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے ( قل ان کنتم تحبون اللہ ) اے پیغمبر !کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو (فاتبعونی ) پس میری اتباع کرو (یحببکم اللہ ) خدا بھی تم سے محبت کرے گا (ویغفرلکم ذنوبکم) اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا
    اس آیت عاشق و معشوق حقیقی کا علم ہوتا ہے وہ ہے ذات الٰہی ۔ اس سے بلند و بالا کوئی ذات نہیں ہے
    اس تک رسائی کیلئے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰؐ کی اتباع کرنی ضروری ہے ،جسکے نتیجے میں معشوق حقیقی بھی دوست رکھے گا ،محبت کرے گا اور گناہوں کو معاف کرے گا
    ایک دوسری جگہ قرآن کریم نے ڈائریکٹ اعلان کیا ہے کہ کسکی محبت رسول اسلامؐ کی اطاعت و پیروی کرنا ہے
    سورۂ شوریٰ آیت ۲۴ میں ارشاد خدا وندی ہے !
    (قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ ) اے پیغمبر ؐ ! آپ کہہ دیجئے میں تم سے اپنی رسالت کا کسی اجر کا سوال ہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔
    یعنی اجر رسالت پیغمبر اسلام کے قرابتداروں سے محبت کرنا ہے
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے قرابتدار ہیں کون؟
    امام احمد ابن حنبل روایت رماتے ہیں کہ ابن عباس (رح) سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا (یارسول اللہ من قرابتک ھٰؤلاء الذین وجبت مؤدتھم قال علی و فاطمۃ و ابناھما ) یا رسول اللہ ؐ ! آپکے قرابتدار کون ہیں جنکی محبت ہم پر واجب ہے آپؐ نے فرمایا علی و فاطمہ اوران دونوں کے بیٹے ( امام حسن وامام حسین)
    احمد بن حنبل فضائل الصحابہ ۲؍۶۶۹ ؍رقم ۱۱۴۱
    یعنی اللہ سے محبت کا تقاضا ہے پیغمبر اسلام ؐ کی پیروی کرنا ،اطاعت پیغمبر اسلامؐ کا تقاضا ہے اہل بیت نبی ؐ سے محبت و مودت اور وہ ہیں امام علی اور سیدہ فاطمہ ؑ اور انکے بیٹے
    یہاں تک کہ بہت سے محدثین جن میں امام ابن حجرمکی (الصواعق المحرقہ) اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں:
    يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اﷲِ حُبُّکُمْ
    فَرَضٌ مِنَ اﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ
    کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
    مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَه
    ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، 1/ 67
    اے اہلِ بیتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا اﷲ کی طرف سے فرض ہے، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی۔
    ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر ظرف میں اس محبت کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اسکے لئے ظرف کا طیب و طاہر ہونا ضروری ہے اور زمانے کے آفات و بلیات پر صبر کی طاقت کا ہونا بھی ضروری ہے
    کیونکہ ہر زمانےمیں امام علی ؑ کے محبوں پر مصیبت کے پہاڑ توڑے گئےہیں وہ چاہے بنی امیہ کا دور رہا ہو یا بنی عباس کا آج کے ظالم بھی شیعیان حیدر کرار پر وہی ظلم ستم کررہے ہیں جو انکے آباء و اجداد نے کیا تھا مقصد کیا ہے لوگ مولا علیؑ سے دور ہوجائیں انکے زبان اقدس سے علی ولی اللہ کی آواز نہ نکلے اسلئے انھیں ڈرانا دھمکا نا انکا سر قلم کرنا انکی مجالس عزا میں خود کش دھماکے کرنا یہ آج کےظالمین کا کام ہے
    مگر انھیں نہیں پتہ ہم ہمیشہ سر پر کفن باندھے رہتے ہیں کیونکہ خود مولائے متقیان حضرت علی ابن ابیطالب نے ارشاد فرمایا ہے: (من أحبّنا أهل البيت فليستعدّ للفقر جلبابا) جو ہم اہل بیت ؑ سے محبت کرے اسے جامۂ فقر پہننے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے نہج البلاغہ حکمت ۱۱۲
    من أحبنا أهل البيت فليستعد عدة للبلاء
    جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے متعدد آفات و بلیات کیلئے تیار ہوجانا چاہیئے ۔ اہل البیت فی الکتاب والسنۃ محمدی ریشھری ص ۴۱۶
    من تولانا فليلبس للمحن إهابا
    جو کوئی ہم سے محبت رکھتا ہے پس وہ رنج و محن کا لباس پہن لے ۔ غرر الحکم ح ۹۰۳۸
    ہمیں پہلے ہی یہ خبر دے دی گئی تھی کہ تم پر مصیبتوں کے آسمان سایہ فگن رہیں گے تم گھبرانا نہیں مسکرا کر امام علی ؑ کے نام پر مصیبتوں کا گلے لگانا حوض کوثر کا جام لیکر ہم تمہارا استقبال کریں گے
    تاریخ گواہ ہے حضرت میثم تمار کو تمام مصیبتوں کا علم تھا جس درخت پر سولی دی جانے والی تھی اسی درخت کوپانی دیتے تھے جس شخص کے ہاتھوں سولی پر چڑھائے جانے والے تھے اسے مخاطب کرکے کہتے تھے تمہاری ہمسائیگی اختیار کروں تو اذیت نہ دینا ۔
    انھیں پتہ تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد ان سے کہے گا علی ؑ سے بیزاری اختیار کرو
    حضرت رشید ہجری حضرت کمیل نخعی انکے علاوہ متعدد افرا جو شمع علیؑ کے پروانے تھے انھیں اپنی شھادت کی خبر تھی ،کربلا کے تمام شھداء انھیں اپنی شھادت کا علم تھا انھیں تمام مصیبتوں کا علم تھا پھر بھی وقت کے امام کی حفاظت اور اسلام کی بقا کیلئےاپنی جان کو قربان کردیا ۔
    آج بھی ہمارے سامنے مختلف قسم کی مصیبتیں ہوتی ہیں پھر بھی ہم عشق علی ؑ سے باز نہیں آتے علی ولی اللہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ ہم لذت عشق علی ؑ سے آشنا ہیں بس اتنا ہی کہوں گا اس عشق میں اتنی شیرینی ہے کہ زمانے کے تمام تلخ حوادث کو شیرین بنا دیتا ہے ۔حوالہ جات
    ۱۔ قرآن کریم
    ۲۔ نہج البلاغہ
    ۳۔شیخ عبد الواحد بن محمد التمیمی الآمدی۔غرر الحکم و دررالکلم
    ۴۔محمدی ری شھری ۔اہل البیت فی الکتاب والسنۃ
    ۵۔ ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح
    ۶۔ احمد بن حنبل فضائل الصحابہ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here