خورشید رضا فتحپوری
محسن اسلام پدر مولائے کائنات جناب ابوطالبؑ کی عظمت و بزرگی رفعت و بلندی، عزّت و وقا راور ایمان و یقین پر گفتگو کرنے سے قبل اُن کی خاندانی عظمت و شان جاہ و جلال ہیبت و کمال عزّت اور وقار کے پس منظر پر بھی اجمالی نظر ڈالنا ضرور ی ہے۔
جناب ابوطالبؑ نے اُس عمیق الایمان اور راسخ العقیدہ گھرانے میں آنکھیں کھولیں جس کی زندگی دوسرے زندگیوں سے مختلف تھی۔ طرز معاشرت اُس دور کے جاہل معاشرے اور تاریک سماج سے بالکل علیحدہ تھا۔ وہ دور وہ تھا جس میں حیاتِ انسانی انتہائی پستی میں تھی۔ ہر گھر کا صنم الگ، ہر قبیلہ کا معبود جدا تھا۔ سیکڑوں، ہنرازوں خداؤںکی پرستش ہو رہی تھی۔ لوگوں کے شعور مردہ۔ احساس مفقود اور آنکھیں بند تھیں۔ دین ابراہیمیؑ تبدیل ہو چکا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے خداؤں کی پرستش ہو رہی تھی۔ جہالت و ضلات کی بدلیاں چھائی ہوئی تھیں۔ ایسے ماحول میں ایک ایسا شخص بھی تھا۔ جس کی آنکھیں دور رس۔ جسکا دل کشادہ ، جس کی فکر نکتہ سنج، جونور کو دیکھ کر شعاعیں حاصل کر سکتا تھا۔ جو اپنے راستوں کو روشن بنا سکتا تھا۔ جو آسمانی کتابوں کا مطالعہ کر کے دل کو مطمئن اور ضمیر کو راحت پہنچا سکتا تھا۔ جو زندگی کے سخت ترین مراحل برداشت کرکے اطمینان حاصل کر سکتا تھا۔ جو کتب سماوی اور عالم طبیعت کے کیفیات میں ایک رسول کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اُس کے آثار کا مطالعہ بھی کر رہا تھا جو ارض مکہ کو مرکز انوار سمجھ کر خوشی و مسرت میں غرق تھا۔ اس بندۂ مومن کا نام تھا عبدالمطلبؑ جن کا گھر تنگ و تاریک ماحول میںخلیلی شعائیں پیش کر رہا تھا اُس کی روشنی دائم اور ثبات قائم تھا۔ اس کا بیان اتنا مستحکم تھا کہ ملت ابراہیمؑ توحید الٰہی کے بارے میں شک کو اپنے دل میں جگہ نہ دے سکے۔ جناب عبدالمطلبؑ قوم و قبیلہ میں محترم تھے۔ اُن کا حکم نافذ تھا۔ سخاوت و کرم شہرۂ آفاق تھا۔ وہ مسافروں کو اُن کی سواریوں پر کھانا دیتے تھے وحش و طیور کو اُن کے مسکنوں و آشیانوں تک غذائیں پہنچاتے تھے اسی لئے اُن کے القاب فیاض اور مطعم طیر السماء (اڑتی چڑیوں کو کھانا کھلانے والے) ہیں۔ اُن کی دعائیں مستجاب ہیں۔ وہ آسمان کے محبوب اور زمین کے ہر دل عزیز ہیں۔ اسی لیے اُن کا ایک لقب ’’شبۃ الحمد‘‘ بھی ہے۔ عبدالمطلبؑ کے احکامات اُن کے پاکباز اور بلندنفس ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہ اپنے طور طریقوں سے ملّت ابراہیمی کے اصول باقی رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی نظر میں شراب خوری اور محرم عورتوں سے نکاح حرام تھا۔ وہ طواف کعبہ سات بار ضروری سمجھتے تھے۔ ننگے ہو کر طواب کعبہ کو ناجائز سمجھتے تھے، چوروں کے ہاتھ کاٹنا ضروری سمجھتے تھے۔ زنا کاری، لڑکیوں کا دفن کرنا، قمار بازی، جوابازی حرام سمجھے تھے۔ نذر مان کر پورا کرنا واجب ہے۔ یہ احکام اتنے مقدس و پاکیزہ تھے کہ اسلام نے سب کو قائم و دائم رکھا۔ جناب عبدالمطلبؑ کا خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان تھا اور اُسی کی عبادت کرتے تھے۔ غار حرا میں عبادت کی بنیادیں آپ ہی نے قائم کی تھیں۔ ماہ رمضان میں آپ پہاڑ پر چلے جاتے تھے اور وہاں کچھ دنوں تک عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ آپ ہی خانۂ کعبہ کے متولی بھی تھے اور جب خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے ایک بادشاہ ’’ابرہہ‘‘ ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کی فوج لیکر آیا اور مکہ کے باہر خیمہ زن ہوا۔ اُس نے جناب عبدالمطلبؑ کے اونٹوں کو پکڑ لیا تو جناب عبدالمطلبؑ اُس کے پاس گئے اور اپنے اونٹ چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا کہ ’’تم کو اپنے اونٹوں کی فکر ہے اور اُس گھر (کعبہ) کی نہیں جو تمہاری نظروں میں انتہائی مقدس ترین ہے۔ آپؑ نے اپنے اطمینانِ قلب اور ایمان محکم کا ثبوت دیتے ہوئے کہا اونٹ میرے ہیں مجھے اُنکی فکر ہے اور گھر کا مالک خدا ہے وہ خود ہی اپنے گھر کی حفاظت کرے گا ۔ ابرہہ نے اونٹ چھوڑ دیئے اور جناب عبدالمطلبؑ خانۂ کعبہ کے پاس آئے اور زنجیر پکڑ کر خدا سے مناجات کرنے لگے۔ اس ایمان افروز اور توحید آمیز مناجات کے بعد قریش سے خطاب کرکے فرمایا ’’یاد رکھو یہ لوگ اس گھر تک نہیں پہنچ سکتے اس لیے کہ اس کا محافظ موجود ہے۔ ابرہہ کو روکنے کے لیے بقصد جہاد کعبے کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہو گئے او ردعا میں مصروف ہو گئے۔ اُدھر آسمان پر ابابیلوں کا لشکر اپنے پنجوں میں کنکریاں لیکر نمودار ہوا خدا نے ان کنکریوں میں اتنی طاقت و توانائی بھر دی کہ ہر کنکری نے ایٹم بم کا کام کیا ان کنکریوں سے ابرہہ اور اسکا لشکر مع ہاتھیوں کے ہلاک ہو گیا اور ایسا ہلاک ہوا جیسا چبا یا ہوا بھوسا۔ اس واقعہ کا خدا وند عالم نے قرآن کریم میں( الم تر کیف) کا سورہ بھیج کر قیامت تک یادگار بنا دیا ۔وہی عبدالمطلبؑ اپنے فرزند عبداﷲؑ کے یہاں ایک ایسے مولود کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے نور سے سارا عالم منور ہو جاتا ہے۔ جس کی شعاؤں سے دنیا میں روشنی پھیل جاتی ہے۔ جناب عبدالمطلبؑ کے کیف و سرور کا یہ عالم ہے کہ ادھر محمدؐ نے عالم ہستی میں قدم رکھا اُدھر یہ ماں کے پاس پہنچ گئے تاکہ اُن آثار کا علم حاصل کریں جو محمدؐ عربی کی ولادت کے وقت دنیا میں رونما ہوئے ہوں آپ نے بچے کو گود میں لیا اور خانۂ کعبہ میں تشریف لائے اور ان الفاظ میں خدا کا شکر ادا کیا۔ ’’شکر ہے اُس معبود کاجس نے مجھے یہ طیب و طاہر بچہ عنایت کیا ہے۔ اللہ اسے بچائے۔ یہ بچہ تو گہوارہ ہی سے آثار سعادت رکھتا ہے۔ اللہ اسے ہر افتراق پرداز سے محفوظ رکھے اور اسے کامیاب بنائے خدا اسے حاصدوں کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے‘‘۔
جنا ب عبدالمطلبؑ نے اپنی ساری زندگی یہاں تک کہ آخری وقت آگیا۔ اولاد اقارب جمع ہو گئے۔ اس وقت بھی اگر کوئی فکر تھی تو کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو ’’محمدؐ بن عبداﷲؑ‘‘ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ آخر میں جناب ابوطالبؑ پر نظریں جم گئیں اور طئے کیا کہ یہ بارگراں اسی دوش پر اُٹھ سکے گا۔ اسلیئے کہ میرا یہ فرزند اس جہاد میں برابر کا شریک رہا ہے۔جناب عبدالمطلبؑ نے اپنی اولاد و اقارب کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اے عبدمنافؑ! تمہیں ایک یتیم و بیکس کے بارے میں وصی بنائے جاتا ہوں‘‘ یہ کہکر اشعار پڑھے جن کا ترجمہ ہے ’’میں نے ابوطالبؑ جیسے تجربہ کار آدمی کو وصی بنایا ہے اُس کے بیٹے کو جو مجھے عزیز و محبوب تھا اور اب جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے‘‘ اس وصیت نے ابوطالبؑ کے دل میں گھر کر لیا۔ عبدالمطلبؑ نے پھر ابوطالبؑ سے کہا ’’دیکھو اس کی (محمدؐ) حفاظت کرنا اِس نے باپ کا لطف دیکھا ہے نہ ماں کی مامتا۔ یہ تمہارے جگر کے مانند ہے۔ میں نے اپنی تمام اولاد میں تمہھارا انتخاب کیا ہے اس لیے کہ تم اس کے باپ کے حقیقی بھائی ہو یاد رکھو اگر ممکن ہو تو اس کا اتباع کرنا۔ زبان و ہاتھ اور مال سے اس کی نصرت کرنا یہ عنقریب سردار بنے گا۔ اسے وہ کچھ ملے گا جو ہمارے آبا و اجداد میں کسی کو نہیں ملا تھا۔‘‘ جناب ابوطالبؑ نے وصیت کو بسرو چشم قبول کیا۔ جناب عبدالمطلبؑ مطمئن ہو گئے اور محبت سے اپنے فرزند کو گلے سے لگا لیا۔ بوسے دیئے شفقت و محبت کا اظہار کیا ور فرمایا کہ میری اولاد میں تم سے زیادہ باوقار پاکیزہ اور باوجاہت کوئی دوسرا نہیں ہے۔‘‘
حقیقت میں جناب ابوطالبؑ اپنے خاندان کی وہ نورانی بارونق و عظمت اور باہیبت و جلالت کی تصویر تھے۔ جس میں اُن کے والد ماجد جناب عبدالمطلبؑ سے لیکر مورث اعلیٰ تک کے کمالات نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ آپ انسانیت و بشریت کی تصویر کامل اور مثالی نمونہ تھے۔ انھیں کی نگرانی میں رسول اکرمؐ نے جوانی کے وہ لمحات گزارے جو انسانی زندگی کا سخت ترین دور مانے جاتے ہیں۔ جس دور میں احساسات و تاثرات اور فعالیت کے جذبات پورے شباب پر ہوتے ہیں۔ ابوطالبؑ کی ذات عظمت و حفاظت کے لحاظ سے کفیل رسولؐ بھی تھے اور ناصر رسولؐ بھی۔ مومن کامل بھی۔ وہ ’’شیخ بطحا ‘‘ بھی تھے اور ’’بیضۃ البلد‘‘ بھی۔ حضرت ابوطالبؑ کی شخصیت میں عظمت و حفاظت کا ایسا حسین امتزاج تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ جناب ابوطالبؑ نے وراثت میں اپنے باپ کے تمام خصوصیات و کمالات پائے تھے۔ مال دنیا کے لحاظ سے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ مگر جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ ابر بہار بھی شرمندہ ہو جائے۔ سخاوت و عطا ایسی جسے دیکھ کر بادلوں کو پسینہ آجائے۔لہٰذا زیربار ہونا فطری بات تھی چنانچہ حضرت ابوطالبؑ نے اسے بھی بردشت کیا لیکن خاندانی روایت و خصوصیات کو قائم رکھا۔
والد ماجد جناب عبدالمطلبؑ کی وفات کے بعد حاجیوں کی سقائیت کا انتظام سنبھالا۔ تاریخ میں ہے کہ چاہِ ’’زم زم‘‘ میں خرمہ و کشمش ڈال دیا کرتے تھے تاکہ پانی میٹھا ہو جائے۔ اور صحرا کی تپش سے جھُلسے ہوئے حاجیوں کے چہرو پر تازگی و شادابی آجائے۔ اس کام میں ایسا وقت بھی آگیا جب اُنھیں اپنے بھائی جناب عباسؑ سے قرض بھی لینا پڑا۔ سقائیت کے علاوہ بھی جناب ابوطالبؑ منبع خیر اور آسمان و زمین کے التصالات کا مرکز تھے۔ ان کے خصوصیات و کمالات اتنے زیادہ تھے جن کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ کا وقار اور ہیبت اس قدر تھی کہ آپ کے زیر سایہ رہنے والے ہر طرح کی بلا سے محفوظ رہتے تھے۔ زمانے کی آندھیاں اور حوادثات اُنھیں خوف زدہ نہیں کر سکتے تھے۔ آپ کے صفات و کمالات ہر انصاف پسند شخص کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بلا شک و شبہ اس بات پر ایمان لے آئے کہ آپ ملّت ابراہیم کے پابند اور توحید الٰہی پر یقین رکھتے تھے۔ حضرت عبدالمطلبؑ کی وفات کے بعد ابوطالبؑ کا وجود ایک تاریخی ضرورت کے ساتھ ساتھ ایک الٰہی ضرورت بھی تھی۔ کیونکہ آپ کی پاک و پاکیزہ سیرت اُس رسولؐ آخر زمان اور اُس کی رسالت کے لیے ایک مقدمہ تھی جس کے انوار پھیلنے والے تھے اور کرنیں پھوٹنے والی تھیں۔ قدرت چاہتی تھی وہ نورِ کامل یکبارگی سامنے نہ آجائے کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں لہٰذا اس سے قبل کسی ایسے فرد کو بھیجنا ضروری تھا جو اپنے صفات و کمالات اور نورانی سیرت و کردار سے بشریت کو اس لائق بنا دے کہ وہ اُس نور ک امل سے اکتساب فیض کر سکے۔ ایک ایسے چراغ کی ضرورت تھی جس کی لو شعاع اکمل کا پیش خیمہ ہو۔ ایک ایسے ستارے کی حاجت تھی جس سے روشنی حاصل کی جا سکے۔ یعنی اتمام حجت کے لیے جس عظمت و جلال کے حامل شخصیت کی ضرورت تھی وہ جناب ابوطالبؑ کی ذات گرامی ہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خیر کا سرچشمہ، حوادث و آفت کی جائے پناہ، مصیبت زدہ کا ملجا و ماویٰ، نادار کے لیے ابر کرم حیات کیلے شادابی، بارش کے لیے ذریعۂ توسُل، صلہ رحم کے پابند، مشکلات کے معالج،نیک سیرت، رحم دل، بے منّت کے محسن، بے طلب کے سخی، ارادے کے قوی،فصاحت و بلاغت، منطق و گفتار کے مالک ،دل کے مضبوط، قلب کے مطمئن، چہرے کے حسین و جمیل، ہیبت کے حامل، تعظیم و احترام کے قابل تھے۔ احکام شریعت میں آپ کی معرفت کامل اور آپ کا علم بڑا عمیق تھا۔
تاریخی واقعہ ہے کہ ایک بار مکہ میں زبردات قحط پڑا دورِ جاہلیت کے کفرو شرک کے اندھیرے میں رہنے والے لوگ اپنے مصنوعی خداؤں ’’لات‘‘ و ’’منات‘‘ و ’’عزّیٰ‘‘ سے دعائیں مانگ کر تھک گئے تھے۔ ایک بزرگ نے کہا کدھر بہک رہے ہو ابھی تو وارث خلیل و ذبیح باقی ہے۔ ابوطالبؑ کے پاس چلو ۔پریشان حال لوگ در ابوطالبؑ پر پہنچے۔ آپ باہر تشریف لائے لوگوں نے گزارش کی اے ابوطالبؑ قحط سالی سے نجات کیلے بارش کا انتظام کر دیجئے۔
آپ ایک بچے (محمدؐ) کو لیکر نکلے ایسا لگتا تھا جیسے آفتاب ابھی بجلیوں سے نکلا ہے۔ خانۂ کعبہ کے قریب پہنچے محمد مصطفیٰؐ کی پشت کو دیوار کعبہ سے ملایا۔ نبی کریمؐ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ ابر گھرنے لگے اور بارش ہونے لگی۔ وادیاں چھلک اُٹھیں سبزہ نمودار ہوا۔ شادابی پھیل گئی۔ یہی وہ صفات و کمالات تھے جن کی بنا پر ہر دل میں ابوطالبؑ کی محبت تھی، ہر قلب میں عظمت تھی۔ ہر نظر میں احترام و اکرام تھا۔ مگر خود ابوطالبؑ کی نگاہ میں رسول اکرمؐ کی محبت کے ساتھ ساتھ انکا احترام و شرف تھا۔ آپ بھی اپنے پدر گزرگوار کی طر مسند پر بیٹھتے تھے اور جب رسول اکرمؐ تشریف لاتے تھے اور آکر مسند پر بیٹھ جاتے تھے تو فرماتے تھے ’’یہ میرا بھتیجا ایک بڑے شرف کا احساس لیکر آتا ہے۔‘‘
حضرت ابوطالبؑ کے ایمان کے لیے فقط یہی دلیل کافی ہے۔ رسول اسلامؐ نے اُن کی گود میں پرورش پائی۔ انھیں کی حفاظت میں پیغام اسلام دیا۔ تبلیغ کی منازل طے کیں اور رسول اکرمؐ کا نکاح بھی حضرت ابوطالبؑ نے ہی پڑھا تھا۔ اُن کے ایمان پر دلائل کی اتنی کثرت ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ کو بخوبی علم تھا کہ آپ کا بھتیجا وہی رسولؐ برحق ہے جس کے بارے میں بابا عبدالمطلبؑ نے آسمانی کتابوں میں پڑھا تھا اور جس کی بشارت تمام رسولوں نے دی تھی۔ آپ اپنے بھتیجے میں اُن صفات و کمالات کو بھی دیکھ رہے تھے جو ایک عام انسان میں نہیں ہو سکتے۔ کسی مخصوص و محبوب خدا میں ہی ممکن ہیں۔ یہاں چند دلائل بطور نمونہ پیش کرنا مقصود ہے۔
تبلیغ اسلام میں تائید ابوطالبؑ:اللہ پر یقین و بھروسہ اور جناب ابوطالبؑ کی کمک و وعدہ نصرت کے بھروسے رسول اکرمؐ نے کھُل کر تبلیغ اسلام شروع کر دی۔ جس میںاصنام پرستی کی زبردست مخالفت بھی شامل تھی جسے بت پرستی کے عادی و حامی قطعی برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ لہٰذا وہ رسول اکرمؐ کو قتل کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اور رسول اکرمؐ کی حفاظت میں ابوطالبؑ کو جہاد مسلسل کرنا پڑا۔ کفار قریش بار بار آتے اور ابوطالبؑ سے مطالبہ کرتے کہ محمدؐ کو ہمارے حوالے کر دو۔ جناب ابوطالبؑ بار بار انھیں کسی نہ کسی طرح اپنے ارادے سے بعض آنے پر مجبور کر دیتے۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ رسول اکرمؐ کے ہر پیغام کی ابوطالبؑ تائید فرماتے اور کفار و مشرکین کو دعورت اسلام دیتے رہے۔ جس کے لیے انھوں نے کثرت سے اشعار کہے۔
شان رسولؐ میں نعتیں کہیں جس کے بیان کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔ رسول اکرمؐ کی زورِ تبلیغ کے ساتھ ساتھ اُن کی مخالفت بھی شدید ہوتی گئی۔ ایک بار پھر کفارِ قریش نے ابوطالبؑ کے پاس آکر محمدؐ کو تبلیغ اسلام سے بعض آنے کا مطالبہ کیا۔ا بوطالبؑ نے اتمام حجت کیلئے اور دنیا پر رسول اسلامؐ کے ارادے کی پختگی ظاہر کرنے کی غرض سے کفار قریش کا پیغام محمدؐ عربی کو سنایا اور رسول اکرمؐ نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ ہمارے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو میں تبلیغ اسلام کو ترک نہیں کر سکتا۔ ابوطالبؑ نے کفّار کو واپس کر دیا اور رسول اکرمؐ سے کہا بھتیجے تم اپنا پیغام پہنچا ؤ جب تک میں زندہ ہوں تم پر آنچ نہیں آسکتی۔ چنانچہ ایک باررسول اکرمؐ جناب ابوطالبؑ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ تلاش کے بعد نہ ملنے پروہ مضطرف ہو اٹھے کہ کہیں قریش میرے بھتیجے کو قتل نہ کر دیں۔ آپؑ نے جوانان بنی ہاشمؑ کو بلا کر کہا۔ کہ اپنے اپنے کپڑوں میں تلواریں چھپا کر ایک ایک سردار قریش کے پاس کھڑے ہو جائیں۔ اگر محمدؐ نہ ملے تو انتقام لیا جائیگا۔ سب آمادہ ہو گئے۔مگر دیکھا کہ ایک مقام پر محمدؐ صحیح و سالم موجود ہیں۔ محمدؐ کو ساتھ لیکر جوانوں سے تلواریں باہر نکالنے کا حکم دیا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے دیکھا کہ محمدؐ کی حمائت میں کتنی تلواریں موجود ہیں۔ کفّار ڈر گئے۔ ابوجہل حیران رہ گیا۔
ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ رسول اکرمؐ نماز میں مشغول تھے کہ قریش کے آمادہ کرنے پر ابن زبعریٰ ملعون نے حالت سجدہ میں رسول اکرمؐ کی پشت مبارک پر غلاظت ڈال دی۔ آپ کے قلب پر زبردست صدمہ ہوا جناب ابوطالبؑ کے پاس تشریف لائے۔ اور رنجیدہ انداز میں شکایت کی۔
حضرت ابوطالبؑ غیض و غضب کے عالم میں کاندھے پر تلوار رکھ کر نکلے۔ کافر بھاگنے لگے۔آپؑ نے چیخ کر کہا کہ اگر قدم آگے بڑھے تو جسم پر سر نہیں ہوگا۔لوگوں کے اکھڑے ہوئے قدم ٹھہر گئے۔ آپ بھتیجے (رسول اکرمؐ) کو لیے ہوئے قریب پہنچے اور زبعریٰ کی ناک کو زخمی کیا پھر غلاست منگا کر تمام ملاعین کے چہروں پر مل دی۔ اور رسو ل اکرمؐ سے فرمایا ’’کیوں بیٹے اب تم خوش ہو؟ تم عبداﷲؑ کے لال شریف النسب ہو، عظیم المرتبت ہو‘‘ اسکے بعد شان محمدؐ اور اُن کے نسب کی تعریف میں اشعار پڑھے۔ حضرت ابوطالبؑ کی نصرت کا تعلق رشتہ کی بنیاد پر محمدؐ کی ذات سے نہیں تھا بلکہ آپ ابتداء سے ہی رسالتؐ کی امداد و حمایت کرتے رہے اور ہر اُس شخص کی امداد کی جس نے رسالت کا اعتراف کیا۔ آپ اسلام کے ایک عظیم مبلغ اور پیغمبری مشن کے ایک بڑے رکن تھے۔ آپ نے نجاشی بادشاہ کو بھی جناب جعفرؑ کی حمایت میں خط لکھا تھا جو ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے۔ اور دعوت اسلام دی تھی۔ نجاشی بادشاہ نے جناب جعفرؑ اور اُن کے ساتھیوں کا بڑا احترام کیا۔
اب اسکے بعد بھی اگر جناب ابوطالبؑ کے ایمان پر شک کیا جائے تو یہ کتنا بڑا ظلم ہے بلکہ حماقت و گمراہی ہے۔
شعب ابوطالبؑ:جب ساری کوششیں اور تدبیریں کرکے سارے حربے استعمال کرکے بھی کفار قریش رسول اکرمؐ کو تبلیغ اسلام سے نہ روک سکے ادھر تمام مصائب و آلام برداشت کرنے باوجود مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ کفار کے ہاتھ سے انکی قدیم قیادت و ریاست بھی نکلتی جا رہی تھی۔ خود ساختہ خداؤں کی مخالفت کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا تھا لہٰذا ابلیس کے مشورے سے طئے کیا گیا کہ مسلمانوں کو اقتصادی مار ماری جائے۔ اُن کا دانہ پانی بند کر دیا جائے۔ بنی ہاشمؑ و بنی مطلب کے مقابل سب متحد رہیں اُن سے صلح نہ کریں، شادی بیاہ نہ کریں۔ خرید و فروخت نہ کریں۔کسی قسم کی رحم دلی اور سہولت کا اظہار نہ کریں، جب تک کہ محمدؐ کو اُن کے حوالے نہ کر دیا جائے۔ چنانچہ شرط نانامہ تیار ہوا۔ مہر ثبت کی گئی اسکی ایک کاپی خانہ کعبہ میں ٹانگ دی گئی۔
اسکے بعد جناب ابوطالبؑ نے بنی ہاشمؑ و مطلب کو طلب کرکے ’’شعب عبدالمطلبؑ میں پناہ لینے کا مشورہ دیا سب شعب ابوطالبؑ میں پناہ گزیں ہو گئے سوائے ابولہب کے، جس نے قریش کا ساتھ دیا۔ دن گزرتے رہے۔ شدائد و مصائب بھوک پیاس کی سعوبتیں برداشت کرتے ہوئے نوبت یہ ہوئی کہ درختوں کے پتوں پر گزارہ ہونے لگا۔ حضرت ابوطالبؑ عبادت و ریاضت میں مشگول ہیں۔ رات بھر شب بیداری کرتے ہیں کہ کہیں رات میں دھوکے سے کوئی محمدؐ کو قتل نہ کر دے۔ رات بھر محمدؐ کا بستر تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اور اُن کے بستر پر اپنے بیٹوں کو لٹا دیتے ہیں تاکہ اگر قتل ہو تو اُن کا بیٹا بھلے قتل ہو جائے مگر محمدؐ کی جان محفوظ رہے۔ انکا ایک مشغلہ شعر گوئی اور نعت خوانی بھی تھا۔
تین سال گزر گئے۔ ایک دن جبرئیل امینؑ نے آکر رسول اکرمؐ کو خوشخبری سنائی کہ قریش کے عہدنامہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور سوائے اللہ کے نام کے کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ رسول خداؐ نے یہ خبر جناب ابوطالبؑ کو سناتے ہیں۔ ابوطالبؑ رسول اکرمؐ کی دی ہوئی خبر پر مکمل یقین کرتے ہوئے ہاشمی جوانوں کے ساتھ شعب سے باہر تشریف لاتے ہیں۔ مسجد حرام کے باہر پہنچ کر آواز دیتے ہیں کہ اے اہل قریش اب تو عہدنامہ سے بھی زیادہ باتیں ہونے لگی ہیں۔ عہدنامہ لے آؤ شائد کوئی صلح کی صورت نکل آئے۔ قریش عہدنامہ لے آئے۔ ابوطالبؑ نے کہا میر ے بھتیجے محمدؐ نے خبر دی ہے کہ اللہ نے تمہارے دستاویز پردیمک کو مسلط کر دیا ہے اُس میں صرف اﷲکا نام ہی بچا ہے۔ میرا بھتیجا صادق ہے اب ہوش میں آجاؤ۔ جب تک ایک بھی ہاشمی باقی ہے ہم محمدؐ کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتے۔ عہدنامہ کھولا گیا تو محمدؐ کی دی ہوئی خبر صحیح نکلی۔ عدو نے کہا کہ یہ تمہارے بھتیجے کا جادو ہے۔ ابوطالبؑ بگڑ گئے۔ آخر ہم کس لئے محصور ہیں؟ اس کے بعد خانہ کعبہ کاپردہ پکڑ کر کفار پر غلبہ حاصل کرنے کی دغا کی۔ کفار کی ایک جماعت دستاویز کی حمایت پر آمادہ ہو گئی۔ حصار ختم ہوا۔ زندگی پلٹی اور مصائب و آلام کا دور ختم ہو گیا۔
جناب ابوطالبؑ کا آخری وقت:
نصرت اسلام اور نصرت رسالت میں جہد مسلسل کرتے ہوئے جناب ابوطالبؑ کا آخری وقت آپہنچا ہے۔ آپ اپنے اہل خاندان کو بھی جمع کرتے ہیں اور تمام قریش کو بھی اور ایک تفصیلی وصیت کرتے ہیں جسکا ایک جز یہ ہے ’’دیکھو تمہیں محمدؐکے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ قریش میں امین اور عرب میں صدیق ہیں۔ ان کا پیغام ایسا ہے جسے دل نے قبول کر لیا ہے۔ خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ عرب کے فقرا و مساکین و ضعفا و بیچارگان اسکے دین کو قبول کرکے اسکی عظمت بڑھا رہے ہیں۔ اسکے نتیجہ میں قریش کے روساء و زعماپست ہو رہے ہیں۔ انکے بزرگ محتاج نظر آرہے ہیں۔ عرب اس محمدؐ کے دوست ہوئے جا رہے ہیں اور اسکی قیادت تسلیم کر رہے ہیں۔ اے قریش یہ تمھارے خاندان کا فرد ہے۔ اس کا ساتھ دو اسکی حمایت کرو۔ خدا کی قسم اس کا متبع ابتدا اور اس کا تابع نیک بخت ہے۔
اس کے بعد آپؑ نے بنی ہاشمؑ و بنی عبدالمطلبؑ کو مخصوص طریقے سے اتباع رسولؐ کی دعورت دی ’’اے بنی ہاشمؑ محمدؐ کی اطاعت اور ان کی تصدیق کرو اس میں فلاح بھی ہے عقل مندی بھی۔ میں پیغمبرؐ ِخیرو برکت کی حمایت کے لیے اپنے بیٹے علیؑ، حمزہؑ اور جعفرؑ کو وصیت کرتا ہوں کہ انکا فرض ہے کہ دفاع کریں میرے شیروں میں تم پر قربان تم محمدؐ کیلئے سپر بن جاؤ۔ وصیت کا ایک ایک لفظ ابوطالبؑ کے مکمل ایمان کی دلیل ہے۔
ضضضض
ایمان و ایثار حضرت ابوطالبؑ- Faith and self-sacrifice of Hazrat Abu Talib
Also read