9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
’ای وی ایم ‘ کا پورا نام (Electronic Voting Machine) تھا لیکن آسام میں اس کے نئے اوتار کا جنم ہوگیا ہے۔ کل یگ کے اس اوتار کا مخفف تو اب بھی ای وی ایم ہے مگر پورا نام (Every Vote for me) یعنی سارے ووٹ میرے لیے ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ہندو سماج میں جب کوئی لڑکی شادی کے بعد سسرال میں آتی ہے اس کو نیا نام یعنی جدید تشخص سے نوازہ جاتا ہے۔ اس لیے کئی خواتین اپنا تعارف اس طرح کراتی ہیں کہ شادی سے قبل میرا نام شانتی تھا مگر اب کرانتی ہے۔ یہ صرف نام کی نہیں کام کی بھی تبدیلی ہے۔ آسام میں چونکہ بی جے پی کی سرکار کے تحت یہ پہلا انتخاب ہے اس لیے یہ نئی نویلی دلہن فی الحال ای وی ایم مشین پر قہر برسا رہی ہے۔ بہو کی چھوٹی موٹی غلطی کو تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ فاش غلطی کرنے لگے تب تو سسرال کے ساتھ ساتھ میکے والے بھی پریشان ہوجاتے ہیں مثلاً اگر کسی گھر میں پانچ افراد ہوں اور بہو دس اہل خانہ کو کھانا کھلا دے تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس کی مشین پاس پڑوس کے لوگوں کو بھی اپنے خاندان کے افراد میں شمار تو نہیں کرنے لگی؟
آسام میں فی الحال ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ۔ ایک زمانے میں معتبر ترین قومی جریدے کے نیوز چینل و پورٹل ’آج تک ‘ کا شمار بھی اب گودی میڈیا میں ہونے لگا ہے۔ اس میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق آسام میں دیما ہساؤ ضلع کے اندر ایک پولنگ بوتھ پر کل ُ 90 رائے دہندگان ووٹ دینے کے مستحق تھے۔ اس لیے اگر وہاں صرف 9 لوگ اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کرتے تو یہ نتیجہ نکالا جاتا کہ 10 فیصد ووٹنگ ہوئی ۔ اس کے بعد میدانی نامہ نگار عوام سے مل کر انتخابی عمل میں ان کی عدم دلچسپی کا پتہ لگاتے اور ماہرین اس کا تجزیہ کرکے مزید تفصیل سے بتاتے کہ ایسا کیوں ہوا؟ حیرت یا بے یقینی کا اظہار کوئی نہیں کرتا لیکن یہاں تو الٹا ہو گیا ۔ اس خوش قسمت پولنگ بوتھ پر زیادہ سے زیادہ 90 کے بجائے 171 ووٹ پڑگئے ۔ اگر کوئی طالب علم ۹۰ نمبر کے پرچے میں ۱۷۱ نمبر حاصل کرلیتا تو مودی جی اس کو نوبل ایوارڈ کے مقابلے ٹیگور ایوارڈ سے نواز دیتے لیکن یہ کارنامہ انجام دینے والے بے چارے الیکشن کمیشن پر آفت آگئی ۔ پانچ پولنگ افسران کو معطل کرنے کے بعد اس پولنگ بوتھ پر دوبارہ ووٹنگ کرانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
دیما ہساؤ کے ضلع الیکشن افسر پال بروا نے یہ اقدام اس لیے کیا کیونکہ کمیشن کے مطابق اس مرکز پر صرف ۷۴ فیصد ووٹنگ ہوئی ۔ یعنی ۱۰۰ میں ۷۴ تو جملہ 90 ووٹرس میں ۶۶ ووٹ پڑنے چاہیے تھے لیکن مشین بتا رہی ہے کہ اس کے پیٹ میں 171 ووٹ ہیں ۔ عام طور پر جب مرغی انڈے سینکتی ہے تو دوچار خراب نکل جاتے ہیں یعنی ۹ میں چار پانچ چوزے نکل پاتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف وجوہات سے کئی ووٹ کالعدم قرارپاتے ہیں ۔ اس پر تنازع بھی ہوتا ہے اور دوبارہ گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ دیما ہساؤ کے اس معاملے میں اب اعلیٰ سطحی جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ بعید نہیں دوچار سال کی تفتیش کے بعد یہ انکشاف ہوکہ مرغی کے چند انڈوں سے جڑوان چوزے اور کچھ کے اندر تین چار نکل آئے اس لیے ان کی تعدا د ۶۶ سے بڑھ کر ۱۷۱ ہوگئی۔ یا یہ پتہ چلے کہ ووٹنگ ۷۴ فیصد نہیں بلکہ ۱۹۰ فیصد ہوئی تھی مگر ٹائپنگ کے سبب ۷۴ فیصد لکھ دی گئی ۔ یہ سوال اگر صفر کے موجد اور معروف ریاضی داں آریہ بھٹ سے بھی پوچھا جائے کہ ۹۰ کا ۱۹۰ فیصد کتنا ہوتا ہے تو وہ جواب دیں گے ۱۷۱ ہوتا ہے ۔ اس طرح یہ عدد درست ہوجائے گا ۔
مودی یگ میں اگر کوئی سوال کرے کہ صد فیصد سے زیادہ ووٹرس کیسے ممکن ہیں تو اس کا جواب ہے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ ۔ نپولین کی مانند لفظ ناممکن وزیر اعظم کی لغت سے بھی اسی طرح فرار ہوگیا ہے جیسے وہ خود شادی کے بعد گھر سے بھاگ گئے تھے ۔ بی جے پی اگردوبارہ آسام کے اندر اقتدار میں آجائے تو تحقیق و تفتیش کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے لیکن فی الحال یہ انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ گاؤں کا پردھان الیکشن کمیشن کی ووٹر لسٹ کو نہیں مانتا ۔ اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ اس ملک میں کئی لوگ آئین تک کو نہیں مانتے اور ان کی بہت بڑی تعداد اقتدار پر قابض ہے ۔ وہ لوگ یاتو دستور کی من مانی توجیہہ کرتے ہیں یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ با غی گاوں پردھان کے پاس اس کی اپنی فہرست ہے ۔ اس کو اس بات سے غرض نہیں ہے کہ جن لوگوں کانام اس کی فہرست میں موجود ہے وہ سرکاری ووٹر لسٹ میں شامل ہیں یا نہیں ۔ اس سے بھی اسے کوئی مطلب نہیں ہوگا کہ بدنامِ زمانہ این آر سی میں ان کا اندراج ہوا ہے یا نہیں ؟ وہ تو بزور قوت اپنی لسٹ میں شامل ۱۷۱ لوگوں کا ووٹ ڈلوا کر فارغ ہوگیا۔
الیکشن کمیشن کے تحت اب یہ جانچ کی جائے گی کہ پردھان کو اپنی من مانی کرنے سے کیوں روکا نہیں گیا؟ اور اس وقت پولنگ مرکز پر تعینات سیکورٹی کا عملہ کیا کررہا تھا ؟ ان سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں ہے؟ گاوں میں پردھان کی من مانی اسی طرح چلتی ہے جیسے ملک میں پردھان سیوک کے من کی بات چلتی ہے۔ وہ ایک رات میں ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکر اعلان فرما دیتے ہیں کہ رات بارہ بجے کے بعد سے 500 کے نوٹ بند ہوجائیں گے ؟ تو وہ بند ہوجاتے ہیں ۔ ان سے یہ سوال پوچھنے والاکہ ایسا کیوں کیا گیا؟ دیش دروہی یعنی غدارِ وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔ نوٹ بندی تو دور کورونا کو ہرانے کے لیے وہ تالہ بندی کا اعلان بھی اپنی مرضی سے اسی طرح فرما دیتے ہیں ۔ ان سے یہ پوچھنے کی جرأت کوئی نہیں کرتا کہ اچانک انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اور کیا اس سے کورونا رگیا ؟ پردھان جی اگر اتنے بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں تو کیا گاوں کا پردھان ان لوگوں کے ووٹ بھی نہیں ڈلوا سکتا جن کا نام ووٹنگ لسٹ میں نہیں ہیں ۔ اس پردھان کے ہاتھ میں بھی اگر کمل کا پھول ہو توبھلا ا س کا بال کون بیکا کرسکتا ہے؟
ملک میں آئین کی بالا دستی کے لیے کوشاں لوگوں کو نہیں معلوم کہ کمل کے راج میں ای وی ایم کا نیا اوتار اپنے نت نئے چمتکار دکھا رہا ہے ۔ ویسے فی الحال ہر ووٹ کو اپنے نام کرنے کے لیے اسے بہت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ مثلاً آسام کے ضلع کریم گنج میں ووٹنگ مشین کو مضبوط صندوق میں لے جاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی گاڑی اچانک اگر خراب ہوجائے تو اسے راہگیر کی مدد سے اجنبی گاڑی میں منزل مقصود تک پہنچا یا جاتا ہے ۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ تو فطری بات ہے اس سے سارے ووٹ اپنی جھولی میں کیسے آجائیں گے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ای وی ایم مشین والی گاڑی جب اتفاق سے خراب ہوجائے تو وہاںچمتکار سے بی جے پی امیدوار اور رکن اسمبلی کرشی نیندو پال کی گاڑی نمودار ہوجاتی ہے ۔ وہ بصد شوق اپنی خدمات پیش فرما دیتے ہیں۔ اس احسانمندی کے عوض رائے دہندگان شور شرابہ اور احتجاج کرنے لے پ ہیں تو انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے۔
اس بابت میڈیا چمتکار بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کا استعفیٰ طلب کرنا تو دور ان سے استفسار تک کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا ۔ وزیر داخلہ اس بابت عدم معلومات کا اعتراف کرکے الیکشن کمیشن کو سخت کارروائی کا حکم دے دیتے ہیں لیکن اپنے وزیر اعلیٰ اور رکن اسمبلی پر کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ الیکشن کمیشن کا پریسائڈنگ افسر دوبارہ رائے دہندگی کے احکامات جاری کرکے تین اہلکاروں کو برطرف کرنے کے بعد اپنی جان کی امان پانے کے لیے کہہ دیاے ہے کہ غیر کی گاڑی میں مجبوراً سواری کرنے والی ای وی ایم ستی ساوتری کی مانند پاک صاف ہے ۔ اس صفائی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آگے چل کر تفتیش کے دوران جب اہلکاروں سے پوچھا جائے گا تو وہ کہی دیں گے انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ پیچھا کرنے والی گاڑی کس مرسبان کی تھی۔ ہمیں جس نے بھی کہا’آجا میری گاڑی میں بیٹھ جا‘ تو ہم اس میں سوار ہوگئے اور ان کے اس بیان کو مان لیا جائے گا۔
ای وی ایم کو لفٹ دینے والے رکن اسمبلی سےجب سوال کیا جائے گا کہ آپ نے اس کو اپنی گاڑی میں پناہ کیوں دی؟ تو وہ بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیں گے کسی مجبور کی مدد کرنا گناہ ہے کیا؟ موصوف یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ کہ ان لوگوں کے بکسے میں کیا ہے؟ اور انہوں نے یہ بتایا بھی نہیں اس لیے سارا قصور ان کا ہے؟ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ الیکشن افسر ہے۔ وہ آگے بڑھ کر تفتیشی افسر کو ڈانٹ کر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ مشین اور افسران کو بخیر و عافیت مرکز تک نہیں پہنچا تےاور ڈاکو یا حزب اختلاف کے لوگ وہاں پہنچ کر اسے لوٹ لیتے۔ ایسے میں کون ذمہ دار ہوتا؟ آج کی تاریخ میں جبکہ عدالت عظمیٰ تک کمل دھاری وکیل کی بے دلیل باتوں کے خلاف جانے کی جرأت نہیں کرتی تو اس قدر مضبوط دلائل کو بھلا کون جھٹلا سکتا ہے ؟ خیر ای وی ایم کے اس سہانے سفر میں مشین کے سارے ووٹ اپنے حق میں کرلینا نہایت سہل کام ہے اور جو اس موقع کا فائدہ نہ اٹھائے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ۔ وہی لوگ اس طرح کے واقعات سے حیران و پریشان ہوتے ہیں جو ای وی ایم کے نئے اوتار اور اس کے نت نئے چمتکار سے واقف نہیں ہیں۔ اہل دانش جانتے ہیں کہ جلد یا بہ دیر ’یہ تو ہونا ہی تھا‘۔ ٭