دہلی یونیورسٹی کی مقبول ترین استاد : پروفیسر شمیم نکہت

0
606

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: پروفیسر شہزاد انجم

استاذی پروفیسر شمیم نکہت کی بے پناہ انسانی خوبیوں ، شرافتِ نفسی ، علمی فتوحات اوراوصاف حمیدہ کا بیان میں آج اپنے اس کالم میں اس لیے کرنا چاہتاہوں کہ ان کی علم دوستی، شرافت و نیکی اور طالب علموں سے بے پناہ محبت و لگائو کا اندازہ نئی نسل کو ہوسکے ۔وہ ممتاز نقاد پروفیسر شارب ردولوی کی رفیقۂ حیات تھیں۔ انھوںنے ان کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ پوری زندگی علم و ادب کی خدمت کی اور لکھنؤ میں شعا ع فاطمہ گرلس انٹر کالج قائم کرکے ایک ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر شاذو نادر ہی ملتی ہے۔ دراصل یہ کالج انھوں نے اپنی لخت جگر جواں مرگ اکلوتی صاحبزادی شعاع فاطمہ کی یاد میں قائم کیا جو ان کے لیے اور ان کے پورے خاندان کے لیے ثوابِ جاریہ ہے ۔

ایک واقعے کا ذکر کرتا چلوں، یہ میرے لیے بڑی سعادت تھی اور مسرت کی بھی بات تھی کہ انھوںنے اپنی نورِ نظر، عزیزازجان صاحبزادی شعا ع فاطمہ کی شادی میں مجھے بڑی ذمہ داری سونپی تھی ۔میں کئی دنوں تک ہر پل ان لوگوں کے ساتھ رہا تھا۔شادی کی تقریب نہایت تزک و احتشام سے انجام پائی۔شادی کے کچھ عرصے بعد وہ جگر فگار لمحہ آیا جب شعاع فاطمہ مختصر علالت کے بعد اس جہان فانی سے اچانک چل بسیں ۔پروفیسر شارب ردولوی اور میڈم شمیم نکہت صاحبہ کا غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ میں فوراً دہلی سے لکھنؤ پہنچااور میں شعاع کی تدفین میں شامل ہوا۔اس غمناک اور درد بھرے لمحے کومیں آج بھی بھلا نہیں پایا ہوں۔

بہر حال، بات شمیم نکہت صاحبہ کی ہورہی تھی۔ تعلیمی اداروںمیں چند اساتذہ ہمیشہ ایسے ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے طالب علموں کو سنوارنے اور نکھارنے میںاپنی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں۔ انھیں نام و نمود اور شہرت کی کوئی فکر نہیں رہتی۔ انھیں اساتذہ میں ایک شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کی استاد معروف ادیبہ ، فکشن نگار پروفیسر شمیم نکہت بھی تھیں۔ جنھوںنے اپنی پوری زندگی طالب علموں کواردو زبان و ادب پڑھانے اور ان کے مستقبل کو تابناک بنانے میں گزاردی۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ کے طلبا کے علاوہ غیر اردو داں سینئر افراد کو اردو پڑھاتی تھیں۔ پروفیسرشمیم نکہت نے سینکڑوں افراد کو اردو داں بنایا، اردو پڑھنااور لکھنا سکھایا ۔ ایک زمانے میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کو یہ اعزازو وقار حاصل تھا کہ ملک کے ممتازادیب یہاں کے اساتذہ میں شامل تھے۔ جن میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، پروفیسر شارب ردولوی ، پروفیسر عبدالحق ، پروفیسر خلیق انجم، ڈاکٹر شریف احمد،ڈاکٹر مغیث الدین فریدی،پروفیسر فضل الحق، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر صادق ، پروفیسر ابنِ کنول اور پروفیسر شمیم نکہت کے نام خصوصی طورپر قابل ذکر ہیں۔ تخلیق و تنقیدسے ان اساتذہ کا گہرا رشتہ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

میںنے جب دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ایم فل میں داخلے کے لیے قدم رکھا تو وہاں موجود چند ریسرچ اسکالرز سے گفتگو ہوئی مجھے اندازہ ہوا کہ تمام اساتذہ کے درمیان پروفیسر شمیم نکہت کا ایک خاص مرتبہ ہے اور وہ شعبہ کی مقبول ترین استاد ہیں۔ میں نے ان سے ملاقات کی وہ بے حد محبت سے ملیں لکھنوی، ادب و تہذیب سے آراستہ وپیراستہ ان کی نہایت ہی خلوص و محبت سے بھری ہوئی شیریں گفتگو سے میں خاصا متاثر ہوا۔ ان کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی ۔ان کی آواز سحر انگیز تھی ۔ مجھے معلوم ہواکہ پروفیسر شمیم نکہت صاحبہ نے لکھنؤیونیورسٹی سے معروف ناقدودانشور پروفیسر سید احتشام حسین کی نگرانی میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار‘‘1962ء میں لکھا تھا مگر بعض گھریلومصروفیات کی وجہ سے یہ مقالہ فوری طورپر شائع نہ ہوسکا اور 1975ء میں یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ جس کا پیش لفظ خواجہ احمد فاروقی نے لکھا تھا۔

پروفیسر شمیم نکہت صاحبہ کی پیدائش ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو لکھنؤ کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی۔ان کی پرورش اردو زبان و تہذیب کے سائے میں ہوئی ۔لکھنؤ کی محاوراتی اور عام بول چال کی زبان ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اس زبان اور اس کے ادب سے ان کا فطری لگائو تھا ۔انھوں نے گریجویٹ سطح تک کی تعلیم کرامت حسین گرلز کالج لکھنؤ سے حاصل کی ۔اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔پروفیسر شمیم نکہت 1963ء میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر وابستہ ہوئیں اور 2000ء میں وہ شعبۂ اردو سے پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ اس دوران انھوں نے اس تاریخی شعبہ کی صدارت ذمہ داری بھی نبھائی اور علم و ادب سے اپنا گہرا رشتہ قائم رکھا۔

پروفیسر شمیم نکہت کی پہلی کتاب’’ پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار ‘‘1975ء میںشائع ہوئی ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دو آدھے ‘‘ 1989ء میں اور ان کے مضامین و خاکوں کا مجموعہ ’’تاثرات‘‘1995ء میں شائع ہوا۔شمیم نکہت نے اردو کی ابتدائی اور مادری زبان کے طلبا کے لیے بھی کئی کتابیں لکھیں۔ ان کا انتقال 28ستمبر 2016ء کو ان کے آبائی وطن لکھنؤ میں ہوا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

پروفیسر شمیم نکہت کے انتقال کے بعد ڈاکٹر ریشماں پروین نے ان کے افسانوں ،خاکوں، ریڈیو نشریات، مضامین اور نظموں کو مرتب کرکے ’’دھندمیں چہرے ‘‘ 2017ء میں شائع کیا۔ یہ تمام کتابیں پروفیسر شمیم نکہت کے علمی استعداد کی دلالت کرتی ہیں۔

شمیم نکہت بنیاد طورپر تخلیقی فنکار تھیں۔ ان کے افسانے زندگی کی سچائیوں کو بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اطراف کے ماحول اور مختلف کرداروں کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ شمیم نکہت ہمیشہ تحریکِ نسواں کی علمبرداررہیں۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی گہری وابستگی رہی۔ انھوںنے افسانوں کے فن اور مسائل پر یقینا مختلف کتابوں اور مضامین کا مطالعہ کیا ہوگا لیکن جب وہ افسانے لکھتی ہیں تو وہ تمام پابندیوںسے آزاد ہوکر لکھتی ہیں وہ کسی افسانے بنے بنائے اصول کے حصار میں قید نہیں رہتیں بلکہ جو کچھ بھی انھیں محسوس ہوا، وہ اسے لکھتی رہیں ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھوںنے عورتوں کے مسائل اور کرب کو اپنے افسانوں کا زیادہ موضوع بنایا جن میں ان عورتوں کی اور مردوں کی نفسیاتی کشمکش اور الجھی ہوئی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی۔ ان کا افسانہ ممتا کا کرب، دو آدھے ، ثروت آپا ، گھروندے،گلشن بوا، رشتوں کے بندھن،فیصلہ، بی مغلانی ، سہاگ اور رشتے، فاصلے ،اور گلاب کا پودا، اسی قسم کے افسانے ہیں ۔ شمیم نکہت افسانوں کے بارے میں خود لکھتی ہیں ’’کہانی کے بارے میں ناقدین نے بہت کچھ بھاری بھرکم قسم کے اصول بنائے اور ان کے عناصرِ ترکیبی بھی مقرر کیے اور پھر پرانی کہانی قسم کے لیبل بھی لگادیے۔ لیکن میری یہ کہانیاں ان اصولوں پر کتنی اترتی ہیں مجھے نہیں معلوم، مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ دل کی چوٹ جب جب پک کر آنسوبنی ، تو کہانی کے روپ میں ٹپک پڑی ، یہ کہانیاں میرے اطراف بکھری ہوئی مختلف دور کی سچائیاں ہیں جو کبھی پسِ دیوار جھانکتی ملیں ، کبھی گائوں کے کھیتوں میں اُگی دکھائی دیںاور کبھی شہروں کی گہما گہمی کے گردمنڈلاتی ہوئی ذہن پر چھاگئیں اور کبھی تو اپنے گھر میں سانس لیتی محسوس ہوئیں اور جی اٹھیں ۔ ‘‘

پروفیسر شمیم نکہت نے ظہیر احمد صدیقی ، رضیہ سجاد ظہیراور قمر رئیس پر غضب کے خاکے لکھے ہیں۔ ان کا مخصوص اسلوب ،دردمند اور محاوراتی زبان میں لکھے گئے یہ خاکے اردو کے بہترین خاکے ہیں ۔شمیم نکہت نے نظمیں بھی لکھیں جن کے موضوعات وسیع ہیں۔

جن شخصیات کے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ان میں پروفیسر شارب ردولوی اور پروفیسر شمیم نکہت بھی ہیں۔ میں نے ایم فل کا مقالہ استاذی پروفیسر شارب ردولوی کی نگرانی میں مکمل کیا اورمیری پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی بطورِ نگراں پروفیسر شارب ردولوی مقرر کیے گئے ۔پی ایچ ڈی کا مقالہ میں نے لکھنا شروع کیا تو اسی دوران شارب ردولوی صاحب کا انتخاب جواہر لعل یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر ہوگیا۔ وہ جے این یو چلے گئے تو شعبہ کی جانب سے پروفیسر شمیم نکہت میری نگراں مقرر ہوئیں اور میں نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ پروفیسر شمیم نکہت کی نگرانی میں جمع کیا ۔

اپنے طالب علموں سے پروفیسر شمیم نکہت صاحبہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب میں نے انھیں اپنی شادی اپنے وطن گیا(بہار) جانے کی دعوت دی تو وہ فوراً تیار ہوگئیں اوراستاد گرامی شارب ردولوی صاحب کے ساتھ وہ میرے وطن تشریف لائیں اور کئی دنوں تک قیام بھی کیا ۔شہر گیا کے ادباو شعرا نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ دعوتیں ہوئیں، مجلسیں سجیں، سیر سپاٹے ہوئے۔ میرے خاندان کے تمام افراد بے حد خوش تھے۔ ان کی آمد سے ہم لوگوں کی عزت میں اضافہ ہوا۔ اس محبت و شفقت کو بھلا کون بھول سکتا ہے ۔

تمہاری نیکیاں زندہ تمہاری خوبیاں باقی
٭٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here