تحریک آزادی اوراُردو

0
512

[email protected]

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

DR ARMAN

ڈاکٹرمحمدارمان

جب ہندوستان پرانگریزوں کاتسلط ہوا اوردھیرے دھیرے اس کے جبرو ظلم کی آگ بڑھنے لگی توہندوستانیوں کے سینے میںبھی اس کے خلاف شرارے پھوٹنے لگے۔آخرکار ایک وقت ایسا آیاکہ انگریزی حکومت کے خلاف مکمل طورسے جنگ چھڑگئی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میںتحریک آزادی کی پہلی جنگ۱۷۵۷ء میںلڑی گئی جسے’’غدر‘‘سے موسوم کرتے ہیں۔اس جنگ میں ہندوستانیوںکوکامیابی حاصل نہیںہوئی مگران کے دلوںمیںلگن اورجذبہ جوان ہوتارہا۔
جنگ لڑنے کی کئی نوعتیں ہواکرتی ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ بہ نفس نفیس جنگ میں شامل ہواور موقع آنے پرشہیدبھی ہو ،دوسرے یہ کہ روپے پیسے خرچ کرنے کے مواقع ہوں ہوںتووہاں سرمایہ داراپنی پونجی خرچ کرے۔مگران سب سے الگ ایک ایسی جماعت ہے جس کے پاس صرف قلم کی دولت ہے جس کے ذریعہ عوام کے سامنے صحیح صورتحال پیش کی جاتی ہے۔ یہ ایسی جماعت ہے جوچاہے تو پورے دیش کامزاج ہی بدل دے اوراس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجودہیں۔یہ جماعت اردوادب کی ہے۔اردوادب میں شہر آشوبوں کاذکربہت ملتاہے جب بھی ملک پر کوئی طوفان ٹوٹا یاانقلاب آیا، شاعروں اورادیبوں نے اپنے قلم اوردل ودماغ کوسنبھال لیا ۔ میرؔ کایہ شعردیکھئے جواپنے دورکاعکاس ہے ؎
دلی میںآج بھیک بھی ملتی نہیںانہیں
تھاکل تلک دماغ جنہیں تخت و تاج کا
اس کے پیچھے ایک احساس اورایک گہراادراک موجزن ہے۔ اسی طرح جب انگریزوں کے خلاف غم و غصہ کی آگ بھڑک رہی تھی مصحفیؔ یہ کہہ رہے تھے ؎
ہندوستاں کی دولت وحشمت جوکچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی
حالیؔ کے بارے میں یہ بالکل صحیح ہے کہ وہ ملک کی سیاسیات سے بہت متاثر ہوئے اوراس ضمن میںکئی نظمیں لکھ ڈالیں جن میں سماجی انقلاب کی بھی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ایک نظم کے تین اشعار دیکھئے ؎
کہتے ہیںمغرب سے ہوگا جب برآمد آفتاب
عرصۂ آفاق میںہوگی قیامت جلوہ گر
وہ ترقی جوچلی آتی ہے موجیں مارتی
اگلے وقتوں کے نشاں کرتی ہوئی زیروزبر
ہوشیاروں کوکرشمے اپنے دکھلاتی ہوئی
غافلوں کوموت کا پیغام پہنچاتی ہوئی
حقیقت ہے کہ جس زبان نے فرنگیوں کی اسکیم اوراس کے نظام حکومت میںزلزلہ پیداکردیااوروہ یہی اردوتھی۔آزادی کی لہر کوتیزی اورسرعت بخشنے میںاس کابھی بڑاہاتھ ہے ۔ایک شاعرکہتاہے ؎
اپنے محبوب سے جب پیار کیا تھا میں نے
کاسۂ سرمیںلہو بھر کے دیاتھامیںنے
یہ اردو ہی تھی کہ جب رومیؔ ٹھاکر، بنکےؔ بابو،لوک مان تلک جیسے قدرآورمجاہدین آزادی نے کرانتی امررہے سمجھاناچاہاتوعوام کویہ بات پوری طرح سمجھ میںنہ آسکی۔اورجب سرداربھگت سنگھ اوروینکشوردت نے اسمبلی ہال میںار دوکے دولفظ ’’انقلاب زندہ باد‘‘کانعرہ لگایاتوہندوستانیوں کوانقلاب کامطلب سمجھ میںآگیا۔
حالیؔ اورشبلیؔ کی طرح ظفرعلی ؔخاںاورحسرتؔموہانی بھی نظم و نثر میں اپناخون جگربہارہے تھے اور عوام میںان کی تحریروں سے بے قراری اوربے چینی کے ساتھ ساتھ جوش بھی پیداہورہاتھا۔ظفر علی خاں اپناپیغام اس طرح دے رہے تھے ؎
زندگی ان کی ہے دیں ان کاہے دنیاان کی ہے
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباںہوگئیں
حسرتؔ کویہ امیدتھی کہ ؎
زمانہ وہ جلد آنے والاہے جس میں
کسی کانہ محنت پہ دعویٰ رہے گا
اکبرؔ کوتوبرٹش حکومت سے سخت چڑ تھی اوران کی پوری شاعری کے پس منظرمیں ہے ۔ایک شعر دیکھئے ؎
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیںمیری باقی ان کا
اقبال توبھلاغلامی کے باغی ہی تھے۔انگریزوںکے ہمیشہ مخالف رہے ؎
جس کھیت سے دہقاں کومیسر نہیںروزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کوجلادو
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوںمیں
جب دوسری جنگ عظیم میں ۱۹۳۹ء میںہندوستان کی بھی شرکت کااعلان کیاگیاتو ہندوستانیوں میںغم وغصے کی لہراورتیزہوگئی ۔ بیزاری اورنفرت توپہلے سے ہی تھی ۔جوشؔ نے للکارااورایسٹ انڈیاکمپنی کے نام لکھا ؎
کس زباں سے کہہ رہے ہوآج تم سوداگرو
دہرمیںانسانیت کے نام کواونچاکرو
جب یہاںآئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے تم واقف نہ تھے
اس طرح جوشؔ نے انگریزوں کوجھنجھوڑاجس کابہت بڑااثرپڑا۔ان کے علاوہ دوسرے شعراء بھی تھے جومجاہدین آزادی کی حیثیت سے اپنے قلم سے لڑرہے تھے۔
ان کے علاوہ اردوادب کادوسراحصہ صحافت بھی ہے گرچہ اسے خالص ادب نہیںکہاجاتا مگراردوصحافت کاجورول اس تحریک آزادی میںرہاوہ اہم ہے لہٰذااس پرروشنی ڈالنابھی ضروری ہے۔
۱۹۰۳ء میںمولاناحسرت موہانی نے علی گڑھ سے اردوئے معلی نکالا توانگریزوں کی نیندیں حرام ہوگئیںاورنتیجتاً پریس ضبط ہوا اورخودبھی حوالات میںگئے۔۱۹۰۷ء میںشانتی نرائن بھٹناگر نے الہ آبادسے ہفتہ وار ’’سوراجیہ‘‘نکالا جس کی وجہ سے اس کے سارے ایڈیٹروں کوجیل کی صعوبتیں جھیلناپڑیں۔اس کے بعد مولانامحمدعلی نے۱۹۱۲ء میں’’ہمدرد‘‘شروع کیااورانگریزی میں Comrage پہلے سے نکل رہاتھا ۔انہوںنے پیغام دیا…’’ایسی خدافروش حکومت جوخلافت اسلامیہ سے برسرپیکار ہواس سے اوراس سے ملحق اداروں اورمحکموںسے کسی طرح کاتعلق جائزنہیں۔‘‘
اسی زمانے میںمولاناآزادنے’’الہلال‘‘۱۹۱۲ء؁ ہفتہ وار شروع کیاوہ مسلمانوں میںسیاسی اور مذہبی بیداری لاناچاہتے تھے۔لکھتے ہیں:
’’میںنے ۱۹۱۲ء میںاردوجرنل’’الہلال‘‘جاری کیا۔یہ امرواقعہ ہے کہ ’’الہلال‘‘نے مسلمانوں کوتعدادکے بجائے ایمان پراعتماد کرنے کی تلقین کی اوربے خوف ہوکرہندوؤںکے ساتھ مل جانے کی دعوت دی۔ اس سے پہلے وہ تبدیلیاںرونماہوئیںجن کا نتیجہ آج متحدہ خلافت اور سوراج میں ہے۔‘‘
ٹھیک اسی طرح مولانا ظفرعلی خاںنے’’ زمیندار‘‘ میں جرأت اوربیباکی سے انگریزوںکے خلاف لکھااس وقت ان کا یہ شعر مقبول عام ہوا۔
جب امرتسرمیں ہم پرگولیاں آئیںتوہم سمجھے
کہ بوندیں ہیں یہ اہل ہندکے خون تمنا کی
ان کے علاوہ اخبار’’پرتاپ‘‘،’’بندے ماترم‘‘، ’’اخبارعام‘‘ ،پیسہ، زمزم، تیج،الجمیعۃ، جمہوریت، انقلاب، اجالا وغیرہ اخبارا ت نکلتے رہے اورہندوستانیوںکے خون کو گرماتے رہے۔
اس وقت ناولوں اورافسانوں میںبھی اس تحریک آزادی کے نقوش ملتے ہیں۔پریم چند ،بیدی،خدیجہ مستور اوربعدمیںاس تحریک سے متاثر ہونے والے ادیبوں اورشاعروںنے اپنے اپنے احساسات کااظہار کیااس طرح تحریک آزادی میںاردوکا جوحصہ رہا وہ گراں قدرہے۔
٭٭٭
Mob: 9931441623

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here