داستان – ڈرامہ سے میرارشتہ

0
733

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


عارف نقوی(برلن)

(ساز کی جھنکار)
گیت:
میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول
جیون ہے کشکول
پھیلی پھیلی دھرتی پر میں پھرتا ہوں آوارہ
نہ میں کسی کا پریمی ہوں نہ کوئی میرا پیارا
دیکھتا ہوں جب زخمی آہیں یا نینوں کی دھارا
یا نینوں کی دھارا
سونے گانے گاتا ہے من ہو کر ڈانواں ڈول
ہو کر ڈانواں ڈول
دنیا والو ان کی خاطر پریت کے مندر کھول
پریت کے مندر کھول
میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول
منی: (بھکاری کی بیٹی)
بی بی کچھ کھانے کو دوگی صبح سے بھوکی ہوں

یہ بھی پڑھیں

مکتبہ جامعہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے

بی بی( سرائے کی نوکرانی): پرے ہٹ مردار کیوں اندر گھسی چلی آتی ہے۔۔۔جا کسی مسٹنڈے کی بغل میں بیٹھ اور چین سے رہ! آگ لگے تیری جوانی کو۔
منی: بی بی ، کیوں ناحق گالیا ں دیتی ہو۔۔۔
نوکرانی: گالی۔ اری دو ٹکے کی بھکارن، تجھے بھی گالی لگتی ہے۔۔۔اے ہے میری شرم کی ماری لاجونتی۔دن بھر دیدے مٹکاتی پھرتی ہے اور سرائے کے مسافروں کو تاکتی پھرتی ہے اور اب رات کے وقت بڑی معصوم، بڑی شریف، بڑی وہ ، اونہہ چڑیل۔ ۔۔
منی:بی بی۔۔۔
بی بی : بی بی کی بچّی۔۔۔اری اگر میں گالی دیتی ہوں تو اس کے بدلے تجھے کھانا بھی تو دیتی ہوں۔۔۔تجھے اور تیرے بوڑھے باپ کو اور تیری چڑیل کٹنی کو۔۔۔دو گالیوں میں کیا یہ سودا مہنگا ہے۔۔۔
(وقفہ)
اندھا بھکاری:کچھ ملا؟ لا جلدی سے دے ، بٹیا بہت بھوک لگی ہے۔
منی: تو مجھے کھالو اباّ۔ بھوک لگی ہے ، بھوک لگی ہے۔۔۔جب سنو بھوک لگی ہے۔۔۔جانے یہ پیٹ ہے کیا، کبھی بھرتا ہی نہیں۔۔۔
(پس منظر سے گیت)
میری طرح یہ گیت ہیں میرے ، ننگے بھوک کے مارے
میری طرح یہ گیت ہیں میرے ، آوارہ بے چارے
دن کو پھرتے ہیں یہ دردر، رات کو گنتے تارے ، رات کو گنتے تارے
دنیا والو ان کی خاطر پریت کا مندر کھول
پریت کے مندر کھول
میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول
جیون ہے کشکول
عارف نقوی: یہ کرشن چندر کے ڈرامے سرائے کے باہر کا ایک منظر ہے،جس میں ہمارے سماج کی ایک حقیقت اور انسانیت کا درد پنہاں ہے۔اس ڈرامے میں میں نے آل انڈیا ریڈیولکھنؤکے پروڈکشن میں بھی اداکاری کی،لکھنؤ یونیورسٹی کے کل ہند ایکانکی ناٹک مقابلے میں بھی اسے کھیلا، جہاں پہلا انعام ملا۔ اپٹا کی طرف سے یوپی کے مختلف مقامات پر بھی اوردہلی میں اشوکا ہوٹل کے ڈائس پر بھی اور جرمنی میں سرکاری ریڈیو اسٹیشن ’’برلن ریڈیو‘‘ کے لئے اس کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔ جہا سامعین کی فرمائش پر اسے بار بار براڈ کاسٹ کیا گیا۔
(گیت)
میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول، جیون ہے کشکول
دنیا والو ان کی خاطر پریت کا مندر کھول، پریت کا مندر کھول
راوی: خواتین و حضرات! ہم راوی ، من گڑھت داستانیں سنانے کے لئے بدنام ہیں۔ لیکن آج ہم جو داستان سنانے جا رہے ہیں وہ نہ نانی ، دادی سے سنی کہانی ہے نہ عبدالحلیم شرر کے خیال کی پرواز ہے۔ بلکہ آنکھوں دیکھی اور آنکھوں سے کتابوں میں پڑھی داستان ہے۔ صدیوں پرانا قصّہ ہے۔ ہندوستان میں ڈرامے کی قدیم اور شاندارروایت ہے۔
(پس منظر میںستار کی جھنکار)
راوی: جرمنی کے سب سے مشہور شاعر اور مصنف وولف گانگ فان گوئتھے (گیٹے) نے کالی داس کے سنسکرت ناٹک کی تعریف میں لکھا تھا:

Willst Du die Blüte des Frühens,
chte des späteren Jahres,ٖFrü
Willst du was reizt und entzückt,
Willst Du was sättigt und nährt,
Willst Du den Himmel, die Erde mit einem Namen begreifen.
Nenn ich “Shkuntala” dich, und so ist alles gesagt.

(غنچہ و گل کہوں تجھکو کہ ثمر
فرحتِ قلب و جگر، حسنِ آفاق
شکنتلا)

ان الفاظ سے گوئتھے نے دوہزار سال پرانے ویدک ناٹک کو سراہا تھا۔ جو قدیم ہندوستان کے سب سے بڑے ناٹک کار کالیداس کا شاہکارتھا۔ اور آج دنیا کے تین سب سے بڑے ڈاراموں میں شمار کیا جاتا ہے: شیکسپئیر کا ہیملٹ، گوئتھے (گیٹے) کا فائوسٹ اور کالیداس کا شکنتلا۔ کہا جاتا ہے کہ کالیداس نے یہ ڈرامہ بکرما جیت کے عہد میں لکھا تھا اور اسے اجین کے شاہی محل میں کھیلا گیا تھا۔ دو سو سالہ برطانوی غلامی کی وجہ سے ہندوستانی ڈرامہ پر پردا پڑا رہا ۔ ہمارے دانشورصرف یوروپین ڈرامے پر باتیںکرتے رہے اور اگر اس کے بارے میں مغربی لٹریچر سے انھیں کچھ مل گیا تو شان بگھارتے رہے۔ جبکہ ہندوستانی ادب اور اس کی اصناف پر پردہ ڈال کر ہندوستان کو جاہلوں اور غیر مہذب لوگوں کے ملک کی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا۔
(سنگیت)
دوسرا راوی: ہندوستان میں ڈرامے کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ جس طرح یورپ میں مختلف زبانوں کے ڈراموں کی جڑ قدیم یونانی ڈرامہ مانا جاتا ہے اسی طرح ہندوستان میں مختلف ڈراموں کی ابتداء سنسکرت میں نظر آتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں سنسکرت ناٹک کی بنیاد ۱۲۰۰ قبل مسیح سے پڑی ہے۔اور سنسکرت ڈرامے کے زوال کے بعد یہ فن ۱۷؍ ویں صدی تک مفلوج رہا، جبکہ دیگر فنون جیسے سنگیت، رقص، سنگ تراشی، مصوری اور ادب زندہ رہے اور ہندوستانی فنون کے چمن میں نئی کلیاں کھلیں۔ ملک کی مختلف زبانوں میں بے شمار ادبی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔
ناٹک کے عوامی روپ بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں پنپتے رہے جیسے بھانڈوں کے تماشے، سوانگ، نوٹنکی، راس لیلا، بھوائی، تماشہ کرشناتم، تھیم، کودیاتم، یکشاگنا،تھیروکونتھو اور بعد میں نکڑ ناٹک۔جن کی اہمیت کو ملک کی آزادی کے بعد سے سمجھا جا رہا ہے۔
اردو میں امانت کی اندر سبھا کو پہلا مستند منظوم ڈرامہ (اوپیرا) مانا جاتا ہے۔ عشرت رحمانی کی رائے میں یہ نوٹنکی کی ترقی یافتہ شکل تھی۔جو سید آغا حسن امانت نے واجد علی شاہ کی فرمائش پر نہیں بلکہ حاجی مرزا عبادت علی کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اودھ میں اس وقت اردو تھئیٹر مختلف شکلوں میں بھانڈوں کی محفلیں، نقالی، لیلائیں، نوٹنکی اور سوانگ وغیرہ کے روپ میں چل رہا تھا۔ شکنتلا کا اردو ترجمہ شاہ فرخ سیر کے زمانے میں درباری شاعر نواز نے برج بھاشا میں کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۸۰۱ میں فورٹ ولیم کالج کے گلکرسٹ کی فرمائش پر مرزا کاظم علی جوان نے کیا تھا۔
(سنگیت)
جدید ہندوستانی ڈرامہ
پہلا راوی: جدید ناٹک کی بنیاد ہمیں گوآ اور بمبئی میں بھی نظر آتی ہے۔ ۱۷ ویں صدی میں ہندوستانی ناٹک کی ایک نئی سمت سامنے آئی۔ بنگال میں چھوٹے چھوٹے گروپ عوامی ناٹک( یاترا )کے نام سے منظر عام پر آئے۔ کلکتہ ہندوستان میں انگریزوں کا مرکز تھا۔ ۱۷۵۶ میں انگریزوں نے وہاں پہلا انگریزی ناٹک قائم کیا۔ کچھ عرصے بعد ۱۷۹۵ میں ایک روسی ہیراسین لیبے دیو نے کلکتے میں ایک ناٹک قائم کیا، جس کا کردار یوروپین تھا لیکن اس میں بنگالی اورہندوستانی زبانوں میں ترجمے بھی کھیلے گئے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی ناٹک کو پھر سے زندہ کرنے کا سہرا اس لیبے دیو کے سر جاتا ہے۔ لیبے دیو نے بنگال کا پہلا ڈرامہ ۲۷؍ فروری ۱۷۹۶ء کو اسٹیج کیا تھا۔اور بنگال میں ڈراموں کی لہر کھول دی تھی۔ بنگالی کے علاوہ ہندی اور اردو کے ناٹک بھی ۱۸ ویں صدی میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت ہندوستان میںثقافت کا سب سے بڑا مرکز اودھ تھا۔وہاں بھانت بھانت کے عوامی ناٹک کھیلے جاتے تھے۔ جیسے نوٹنکی، بھانڈوں کے تماشے اور اوپیرا ٹائپ کے تماشے۔
دوسرا راوی: اودھ کا تاجدار واجد علی شاہ جس نے خود بھی ڈرامے لکھے ا ور شاعر بھی تھا اس نے عوامی ناٹک کو کلاسیکی رنگ دیا اور پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۸۴۴ء میںلکھنؤ میں ایک بہت بڑا تھئیٹر قائم کیا گیا تھا جس میں لاکھوں روپئے صرف ہوئے تھے۔ لیکن جب انگریزی سامراج نے ہندوستان کو پوری طرح سے غلام بنا لیا تو یہاں کی ثقافت کو بھی مٹا دیا گیا اور تجارتی ناٹک کو فروغ دیا گیا جسے انگریزوں سے مدد ملی۔ ۱۸ ویں صدی میں بمبئی میں انگریزی ناٹکوں کا عروج ہوا اور اس کے بعد مراٹھی، پارسی اور اردو ناٹکوں کا۔ جن میں آغا حشر کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ تجارتی تھئیٹر کی بنیاد ۱۸۴۲ء میں بمبئی میں پڑی جو ایک طرح سے لندن کے تھئیٹر کی کاپی تھی۔ ۱۸۴۹ء میں وہاں ’’بمبئی تھئیٹر‘‘ قائم ہوا۔اس میں صرف انگریزی ڈرامے کھیلے جاتے تھے۔اس تھئیٹرسے آمدنی اتنی اچھی ہوئی کہ بہت سے سرمایہ داروںنے اداکاری کو منافع خوری کا دھندا بنا لیا۔ ایک سرمایہ دارناٹک کمپنی ’’ہندو ڈرامہ کوائر‘‘ کے نام سے قائم کی گئی۔ اور اس طرح ایک کے بعد ایک لاتعداد تھیٹر کمپنیان قائم ہو گئیں۔ ۱۸۵۷ء میں ایک کلب میں ایک ڈرامہ کمپنی نے ایک ڈرامہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان ٹکراائو پر پیش کیا اور پھر دو برس بعد ’وکٹوریہ کلب‘] نے ایک ناٹک ’’نانا صاحب‘‘ پیش کیا۔جس میں ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک اہم رہنما نانا صاحب کو غدار، جاہل اور خراب انسان کے روپ میں پیش کیا گیا۔ اس زمانے کے ڈرامہ گروپ سارے ہندوستان میں اپنی پیش کشوں کے لئے پھرے۔ڈرامہ کی پیش کشوں میں تجارتی دوڑ کے باوجود رفتہ رفتہ ایسے فنکار بھی ابھر کر آنے لگے جنہوں نے ڈرامے کو صرف فن کے روپ میں پیش کیا اور سماج میں اس کے رول کو نظر انداز کیا۔ حالانکہ جب ہم یوروپین ڈرامے پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا سماج میں بہت اہم رول رہا ہے اور اس میں مقصدیت بھی پائی جاتی ہے۔
عارف نقوی: ماڈرن ہندوستانی ڈرامے کے ارتقاء میں پرتھوی تھئیٹر نے بھی بہت اہم رول ادا کیا ہے۔جس کے روحِ رواں پرتھوی راج کپور تھے، جو اردو اور فارسی پر بھی اچھی مہارت رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں جرمنی آنے کے بعد جب اس زمانے کے چیکو سلوواکیہ کے خوبصورت شہر کارلووی واری (کارلس باد) کے فلم فیسٹیول میں شرکت کے لئے گیا تھا، تو وہاں پرتھوی راج کپور سے اچھی جان پہچان ہو گئی تھی ، جو خواجہ احمد عباس کے ساتھ اپنی فلم آسمان محل کو لیکر آئے تھے۔ جس میں ان کا خاص رول تھا۔ پرتھوی راج روز تیسرے پہر کو فلم دیکھنے کے بجائے ،جو غیر مانوس زبان میں ہونے کی وجہ سے ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور ترجمہ کا سہارا لینا پڑتاتھا، میرے ساتھ وہاں کی ایک جھیل کے سامنے سیر کے لئے جاتے تھے اور گھنٹوں اردو اور فارسی کے اشعار سنایا کرتے تھے۔پرتھوی تھئیٹر اور پارسی تھئیٹر بھی کمرشل تھے۔
راوی: ہندی اور اردو ڈرامے کے ساتھ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی ڈرامے نے قابل ذکر رول ادا کیا۔ خاص طور سے مراٹھی میں اس کا بہت اہم رول رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اکیلے اردو میں اس وقت تک چار ہزار سے زیادہ ڈرامے لکھے جا چکے تھے۔بدقسمتی سے وہی سرمایہ دار جو ڈرامے سے اپنی جیبیں بھر رہے تھے ان کا دھیان اب فلموں کی طرف ہو گیا، جس میں منافعے بہت زیادہ تھے۔ خود بڑے بڑے اداکار جیسے پرتھوی راج کپور، جن کا پرتھوی تھئیٹرشہرت کے آسمان پر تھا، اب فلموں میں زیادہ وقت دینے لگے۔ حلانکہ ملک میں آزادی کی تحریک اور ترقی پسندادیبوں اور فنکاروں کے شعور کی بیداری سے عوامی تھئیٹر بھی ابھر کر سامنے آرہے تھے جن کی ایک نمایاں مثال انڈین پیوپلس تھئیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) ہے، جس سے بعد میں خود عارف نقوی کا بھی تعلق رہاہے۔
(سنگیت)
انڈین پیوپلس تھئیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا)
راوی: تیسری دہائی میں نوجوان فنکاروں نے گیتوں، ڈراموں اور ڈانسوں سے عوام کی زندگی اور جدو جہد کی عکاسی کی۔ مئی ۱۹۴۳ء میں بمبئی میں ایک فیسٹیول ہوا جس میں ملک کی مختلف ٹولیوں نے شرکت کی اور آئی پی ٹی اے کی بنیاد ڈالی۔ اور اس کی شاخیں مختلف مقامات پر کھولیں۔ خاص طور سے ۱۹۴۳ء میں بنگال کے قحط کے موقع پر اس نے بہت سرگرم رول ادا کیا۔ بلراج ساہنی،سلیل چودھری وغیرہ اس میں شامل تھے۔ آئی پی ٹی اے کی مرکزی ٹولی میں شانتی بردھن، روی شنکر، ابانی داس گپتا، بنے رائے، دسرت لال، ریبا رائے، اپونی، نیمی جین، ریکھا جین، اور گل بردھن کے نام قابل ذکر ہیں۔ جبکہ دہلی میں نرنجن سین اور سرلا شرما نے دہلی میں نمایاں رول ادا کیا تھا۔ نرنجن سین تو بعد میں آئی پی ٹی اے کے جنرل سکریٹری بھی ہو گئے تھے۔ دہلی کی اپٹا شاخ میں ہمیں وشواناتھ مکھرجی، اندو ک گھوش، نرنجن سین، تاپاس سین، اور سرلا گپتا کے خاص رول ملتے ہیں ۔ان دنوں وہاں پر شیڈو (چھایا) ڈرامے بھی کافی پیش کئے گئے۔دہلی میں دہلی کلاتھ مل اور برلا مل کے مزدوروں میں اپٹا کی سرگرمیوں کا خاص خیرمقدم کیا گیا۔ ۱۹۴۳ ء میں اپٹا نے خواجہ احمد عباس کا ڈرامہ زبیدہ اسٹیج کیا جس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھیں۔ یہ ڈرامہ بار بار کھیلا گیا۔۱۹۴۶ء میں دہلی میں شیلا بھاٹیہ، سنیہا لتا سانیال، بلونت گارگی، پروفیسر فرانک ٹھاکرداس، سدیش کمار جوہری، وید ویاس، جواہر چودھری وغیرہ کے نام بھی ملتے ہیں۔ فساد ات کے خلاف ڈرامہ ’’میں کون ہوں‘‘ اور دیگر ڈرامے کھیلے گئے اور ۱۹۴۶ء میں پنجابی میں اوپیرا بھی کھیلا گیا۔ اسی سال دسمبر میں اپٹا کی کانفرنس کے موقع پر دہلی شاخ کی طرف سے شیلا بھاٹیہ کا اوپیرا اور بلونت گارگی کا ایک ناٹک پیش کیا گیا۔ اس کے بعد چند برس اپٹا کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ۱۹۵۰ء میں اس میں پھر سے جان آئی اور شیلا بھاٹیہ اور بلونت گارگی نے ڈرامے پیش کئے۔جو مقبول ہوئے۔ خاص طور سے بنگال میں اپٹا کی سرگرمیاں کافی بڑھیں۔ڈراموں کے ساتھ، سنگیت ، شیڈو ڈرامے اور یاترا کے نام سے عوامی پروگراموں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
راوی: ابتداء میں آئی پی ٹی اے کے فنکاروں کی ہمت بڑھانے والوں میں جواہر لعل نہرو اور لکشمی پنڈت کے نام بھی ملتے ہیں۔ لاتعداد فنکارجو اس سے منسلک تھے جو بعد میں فلم کے آسمان پر بھی چمکے۔خاص طور سے بنگال میں انقلابی فنکار اتپل دت اور ان کی اہلیہ شووا سین کے ’’لٹل تھئیٹر‘‘ نے بھی بہت اہم رول ادا کئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے ڈرامے کے فن سے محبت کرنے والے فنکاروں نے ٖفلموں میں شرکت کے باوجود اپنے فن کو نہیں بیچا اور فلموں میں بھی اپنے معیار کو قائم رکھا جس کی مثالیں خواجہ احمد عباس، ستیہ جیت رائے، بمل رائے، محبوب خان، بلراج ساہنی، شیام بینیگل، شبانہ اعظمی وغیرہ اور لاتعداد ترقی پسند شاعر اور مصنف ہیں۔
اپنی نوجوانی اور تعلیمی زمانے میں ڈرامے کی چہل پہل کا ذکر پروفیسر شارب ردولوی نے بھی خوبصورت الفاظ میں کیا ہے: ۲۰۰۵ء میں انہوں نے عارف نقوی کی کتاب ’’یادوں کے چراغ‘‘ میں اپنے پیش لفظ میں لکھا تھا:
شارب ردولوی: ’’ایک بار ہم لوگوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام یوم میرؔ منانے کا پروگرام بنایا۔ میرؔ پر یہ پہلا پروگرام تھا جولکھنؤ میں ہونے جا رہا تھا، ترقی پسند مصنفین کی طرف سے ! شہر میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں ہو رہی تھیں۔ عارف نے تجویز رکھی کہ میر پر ایک ڈرامہ بھی کیا جائے۔ سوال یہ تھا کہ ڈرامہ لکھے کون؟ ڈاکٹر محمد حسن جو ہم لوگوں کے سینئیر تھے اور دوست ہونے کی شہ بھی انہوں نے دے رکھی تھی ان سے کہا گیا کہ وہ میر پر ڈرامہ لکھیں۔ انہوں نے بہت جی لگا کر میر کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور ہم لوگوں نے تیاری شروع کر دی۔ آغا سہیل (پروفیسر آغا سہیل پنجاب یونیورسٹی لاہور) اس کے ڈاائریکٹر بنے۔۔۔عارف نقوی اس کے ہیرو تھے یعنی میر کا اصل رول عارف نقوی کا تھا۔ اب تلاش ہوئی ہیروئن کی۔ میر کی محبوبہ کون بنے؟ پھر ایسی ہو جو چاند سے اترے تو چاند والی لگے۔جاننے والی لڑکیوں کی خوشامد شروع ہوئی۔ بھلالکھنؤ کی کوئی مسلمان لڑکی ڈرامے میں کس طرح کام کر سکتی تھی۔اس لئے ہر جگہ سے مایوسی ہوئی۔پھر عارف ہی کی تگ و دو سے ایک لڑکی متھلیش تیار ہو گئی۔ اب مسئلہ تھا شین قاف کا۔ ڈرامے میں ہیروئن جہاں کہیں بھی میر کو مخاطب کرتی تھی تو ’’تقی‘‘ کہہ کر بلاتی تھی۔ لیکن ہیروئن ’’تکی‘‘ کہے یہ ممکن نہیں تھا۔ سارے ڈرامے پر ہی پانی پھر جاتا۔ پہلے کوشش کی گئی متھلیش کو ’تقی‘ کہنے کی مشق کرائی جائے۔ لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو میں نے اسکرپٹ میں ہر جگہ تقی کو میر کر دیا۔ جسے دیکھنے والوں نے محسوس بھی نہیں کیا اور مشکل بھی حل ہو گئی۔
راوی: شارب ردولوی نے اس ڈرامے میں درویش امان اللہ کا رول ادا کیا تھا۔ ۔۔وہ بیان کرتے ہیں:
شارب ردولوی: ’’یہ ڈرامہ اس وقت تک شہر کی تاریخ کا سب سے اچھا اُردو ڈرامہ تھا۔ شاعر، ادیب، دانشور سیاستداں، صحافی شاید ہی کوئی اہم فرد ایسا رہا ہو جو اس ڈرامے کو دیکھنے نہ آیا ہو۔‘‘
ؑعارف نقوی: ’’لکھنؤمیں ڈرامے کے میدان میں میں نے آل انڈیا ریڈیولکھنؤ میں گل محمد شاہ اورامرت لال ناگر جیسے پروڈیوسروں اور مختار، رادھے بہاری، دعا اور للن جیسے ماہر اداکاروں کی سنگت میں اور انڈین پیوپلس تھئیٹر ایسوسی ایشن IPTA کے دوستوں سے بہت کچھ سیکھا، جس کی بہترین جھلک کرشن چندر کے لکھے ڈرامے ’’سرائے کے باہر‘ میںمیری اداکاری اور ہدایت کاری میں نظر آئی۔
راوی: آج ہندوستان کی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ کے بعد دنیا میں دوسرے مقام پر ہے۔ جس میں ایک طرف خالص بازارو فلمیں سامنے آتی ہیں اور دوسری طرف فنی اور مقصدی فلمیں۔ان کا کہنا ہے:
(سنگیت)
عارف نقوی: جہاں تک میرا اپنا ذاتی تعلق ہےلکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشن سے براڈکاسٹ کئے جانے والے ڈراموں میں میں نے ۵۴۔۱۹۵۵ء سے حصّہ لینا شروع کیا۔ وہاں پر تقسیم سے پہلے بھی ریڈیو ناٹکوں کا زور رہا تھا۔جس کے لئے آل انڈیا ریڈیولکھنؤ کے پرانے ملازمین اور بعض فنکار عشرت رحمانی وغیر چند لوگوں کے نام فخر سے لیتے تھے، جو پاکستان چلے گئے تھے۔لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر ان دنوںپروگرام ایکزیکیٹیو گل محمد شاہ، اور ڈرامہ پروڈیوسر ہندی ادیب امرت لال ناگر ڈرامے کے لئے بہت کام کر رہے تھے۔ وہیں مجھے گلوکار بیگم اختر کے سا تھ بھی جی۔ایم۔ شاہ کی پیش کش ’زہر عشق ‘ اور کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، اوپندر ناتھ اشک، پرکاش پنڈت،راجندر سنگھ بیدی، محمد حسن ، اقبال مجید ، وغیرہ کے ڈراموں میں مختار، رادھے بہاری، للن اور مزاحیہ اداکار دُوا وغیرہ بہترین اداسکاروںکے ساتھ کام کرنے کے موقعے ملے ۔ جی ایم شاہ نے تو جرمن شاعر وولف گانگ فان گوئتھے(گیٹے) کے ڈرامے ’’فائوسٹ‘‘ کا اردو اڈاپٹیشن تیار کرکے براڈکاسٹ کیا تھا، جس کے لئے ہم لوگوں کو ایک ہفتہ ریہرسل کرنا پڑی تھی۔ حالانکہ میرا اس میں رول صرف چند جملوں کا تھا۔
میرا رشتہ انڈین پیوپلز تھئیٹر ایسوسی ایشن (IPTA) سے طالبعلمی کے زمانے میںلکھنؤ میں قائم ہوا تھا۔ اور ہم لوگ کارنر میٹنگوں میں گیت اور ڈائلاگ پیش کیا کرتے تھے۔پھر میں نے ۱۹۵۴ء سے آل انڈیا ریڈیو کے ہندی اور اردو ڈراموں میں اداکاری شروع کی اور۱۹۵۶ء میں ایک اسٹیج ڈرامے میںحصّہ لیا تھا لیکن وہ ڈرامہ اتنا کمزور تھا کہ اب اس کی تفصیل یاد نہیں۔ البتّہ ۲۱؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو جب ڈاکٹر محمد حسن نے انجمن ترقی پسند مصنفینلکھنؤ کے لئے ایک فُل لینتھ ڈرامہ میر تقی میر لکھا اور وہ گنگا پرساد میموریل ہال کے اسٹیج پر کھیلا گیا تو اس میں میر تقی میر کا خاص رول میں نے ادا کیا اور میر کے لڑکپن کا رول حسن کمال نے کیا۔ اس ڈرامے کا ذکر پروفیسر ڈاکٹر شارب ردولوی نے ۲۰۰۵ء میں اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا تھا

شارب ردولوی: ’’ ایک بار ہم لوگوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام یوم میرؔ منانے کا پروگرام بنایا۔ میرؔ پر یہ پہلا بڑا پروگرام تھا جولکھنؤ میں ہونے جا رہا تھا، ترقی پسند مصنفین کی طرف سے۔ شہر میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں ہو رہی تھیں۔ عارف نے تجویز رکھی کہ میرؔ پر ایک ڈرامہ بھی کیا جائے۔ سوال یہ تھا کہ ڈرامہ لکھے کون؟ ڈاکٹر محمد حسن جو ہم لوگوں کے سینئر تھے اور دوست ہونے کی شہ بھی انھوں نے دے رکھی تھی، ان سے کہا گیا کہ وہ میر پر ڈرامہ لکھیں۔ انھوں نے بہت جی لگا کر میر کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور ہم لوگوں نے تیاری شروع کر دی۔ آغا سہیل (پروفیسر آغاسہیل پنجاب یو نیورسٹی، لاہور) اس کے ڈائریکٹر بنے۔۔۔عارف نقوی اس کے ہیرو تھے یعنی میرؔ کا اصل رول عارف نقوی کا تھا۔اب تلاش ہوئی ہیروئن کی ۔ میرؔ کی محبوبہ کون بنے؟ پھر وہ ایسی ہو جو چاند سے اترے تو چاند والی لگے۔ جاننے والی لڑکیوں کی خوشامد شروع ہوئی۔ بھلالکھنؤ کی کوئی مسلمان لڑکی ڈرامے میں کام کس طرح کر سکتی تھی اس لئے ہر جگہ سے مایوسی ہوئی۔ پھر عارف ہی کی تگ ودو سے ایک لڑکی متھلیش تیار ہو گئی۔ اب مسئلہ تھا ’شین قاف‘ کا ۔ ڈرامے میں ہیروئن جہاں کہیں میر کو مخاطب کرتی تھی تو ’تقی‘ کہہ کر بلاتی تھی۔ لیکن ہیروئن ’تکی‘ کہے یہ ممکن نہیں تھا۔ سارے ڈرامے پر ہی پانی پھر جاتا۔ پہلے کوشش کی گئی کہ متھلیش کو تقی کہنے کی مشق کرائی جائے۔ لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو میں نے اسکرپٹ میں ہر جگہ تقی کو میر کر دیا۔ جسے دیکھنے والوں نے محسو س بھی نہیں کیا اور مشکل بھی حل ہو گئی۔ میرا کام تمام انتظامات کی دیکھ بھال تھا اور یوں بھی میں ڈرامے میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن ڈرامے سے چند روز پہلے یہ محسوس ہوا کہ امان اللہ (درویش) کا کردار کوئی نہیں کر پا رہا ہے اس لئے کہ ان کے مکالمے مشکل اور طویل ہیں۔ عارف نے مجبور کیا کہ وہ رول میں کروں۔ ان کا خیال تھا کہ ڈرامے کا یہ پہلا سین ہے اور پہلے سین کی کامیابی پر ڈرامے کی کامیابی منحصر ہوتی ہے۔مجبوراً مجھے ان کی بات ماننی پڑی۔ یہ ڈرامہ اس وقت تک ، شہر کی تاریخ کا سب سے اچھا اردو ڈرامہ تھا۔ شاعر، ادیب، دانشور، سیاست داں، صحافی، شہر کا شایدہی کوئی اہم فرد ایسا رہا ہو گا جو اس ڈرامے کو دیکھنے نہ آیا ہو۔‘‘
عارف نقوی: ۱۹۵۸ء میںلکھنؤ یونیورسٹی کے کیمپس میںایک بڑا کل ہند ایکانکی ناٹک کمپٹیشن کیا گیا۔ جس میں ملک کے دور دراز شہروں سے ڈرامہ کی ٹیمیں شرکت کے لئے آئیں۔ یہ اس قسم کا میرے خیال میں انوکھا پہلا مقابلہ تھا۔میں نےلکھنؤ کی طرف سے کرشن چندر کا لکھا ہوا ریڈیو ڈرامہ سراے کے باہر ایکانکی اسٹیج ڈرامے کے روپ میں پیش کیا۔جو بہت کامیاب ہوا۔ ہمارے ڈرامے کو ٹرافی مجھے سب سے اچھی اداکاری اور سب سے اچھی ہدایت کاری کے لئے انعامات ملے۔ آغا سہیل، آفتاب اختر اور دوسرے اداکاروں کی بھی کافی تعریف کی گئی۔ یہ ڈرامہ بھکاریوں کے بارے میں تھا ۔ جس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز میرے خیال میں کرشن چندر کے بہترین مکالمے اور کردار نگاری تھی۔
سرائے کے باہر میں میری اداکاری پرپروفیسر شارب ردولوی نے اپنے چشم دید تاثرات لکھتے ہوئے ۲۰۰۵ء میں کہا تھا:
شارب ردولوی: ’’ سرائے کے باہر میں ان کا کام بہتوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتا تھا۔‘‘
عارف نقوی: سرائے کے باہر شہر میں اتنا مقبول ہوا کہ اسے میں نےلکھنؤ اپٹا کی طرف سے شہر کے مختلف اسٹیجوں پر اور پھر اپٹا کی یوپی کانفرنس کے موقع پر پیش کیا جہاں آگرہ کے رگھو ونشی جی کا گروپ بھی تھا۔ وہ ان دنوں یوپی میں اپٹا کا پرچم لئے ہوئے تھے۔ اور بہت سر گرم تھے۔ ہر جگہ کامیابی ہوئی۔ ۱۹۵۹ء میں میں ترقی پسند ادیبوں کی تحریک کے بانی سجاد ظہیر کا ہفتہ وار عوامی دور کے ایڈیٹوریل میں ان کے نائب کی حیثیت سے ہاتھ بٹانے کے لئے دہلی آگیا۔ اس موقع پر میں آل انڈیا ریڈیو دہلی کے ہندی اردو ڈراموں میں اداکاری کرتا رہا اور آئی پی ٹی اے کے ہندی گروپ کو مضبوط بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ جس کے لئے دہلی آئی پی ٹی اے کی آرگنائزیشن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا۔کہ میری وجہ سے اپٹا کے ہندی گروپ کی زندگی میں جان آگئی ہے۔
’سرائے کے باہر‘ نئی دہلی میں ہم نے فائیواسٹار’اشوکا ہوٹل ‘ کے شاندار اسٹیج پر بھی پیش کیا ۔
راوی: جس پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا کے’ دہلی ٹائمس‘ نے ۱۱؍ ستمبر ۱۹۶۰ء کو تصویر شائع کرتے ہوئے سرخی ’’عارف سرائے کے باہر میں چمکا‘‘ کے ساتھ لکھا:
’’کرشن چندر کیء مقبول ڈرامے سرائے کے باہر جس کو آئی پی ٹی اے نے گزشتہ اتوار کو ہوٹل کے ملازمین کی سالانہ تقریب میں پیش کیا ایک موثرتجربہ تھا۔ ڈرامہ ایک بوڑھے اندھے بھکاری کے ارد گرد گھومتا ہے ، جو اپنی کمسن بیٹی کے ساتھ ایک سرائے کے باہر بیٹھا ہے۔وہ مادر زمین کے سچے بیٹے کی طرح ہمیشہ اپنے گائوں میں لوٹنے اور وہاں سنہرے کھیتوں کے درمیان عزت سے زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔لیکن اسے مایوسی ہوتی ہے۔ اس کے سارے خوب چور ہوجاتے ہیں جب ایک دن اس کی بیٹی کو ورغلا کر سرائے میں لے جایا جاتا ہے اور اس کی عصمت لوٹ کر اسے سرائے کے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی بدقسمتی میں اس کے دو ساتھی شریک ہیں ۔ ایک شاعر ہے اور دوسرا لنگڑابھکاری ہے۔ مصنف شاعر کی زبان میں بولتا ہے، جو سب کے لئے ایک اچھی دنیا چاہتا ہے۔
لنگڑا جانی پیشہ ور بھکاری ہے۔ ڈرامہ اس پیغام کے ساتھ ختم ہوتا ہے کہ ایک ایسا دن آئے گا جب ساری مصیبتوں کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
’’ ڈائریکٹر اور اداکار عارف نقوی نے محدود ذرائع کے باوجود ڈرامے کو پیش کرنے میں بہترین کام کیا ہے۔ اس نے خود بھی اندھے بھکاری کے رول میں بہترین اداکاری کی ہے۔ اندر شرما نے شاعر اور طارق صدیقی نے بھی لنگڑے بھکاری کے رول کو اچھی طرح ادا کیا ہے۔ بھکاری کی بیٹی تولو چودھری ڈرامے کے موڈ سے پوری طرح میل نہیں کھا سکی۔‘‘
عارف نقوی: ان دنوں دہلی میں اردو ہندی ڈراموں کا کافی زور ہو گیا تھا۔ جس میںDelhi School of Darama بہت مثبت رول ادا کر رہا تھا۔ جس کا بڑا سہرا ال قاضی اور بعد میں بیگم زیدی کو جاتا ہے ۔ان کے علاوہ ستیو، حبیب تنویر، شمع زیدی وغیرہ نے اس میں کافی اہم رول ادا کئے تھے۔ حبیب تنویر تو آگرہ بازار کے نام سے ایک ڈرامہ بھی کھیلنا چاہتے تھے۔ جبکہ ہمارے اچھے ملاقاتی شاعرنیاز حیدر نے بیگم زیدی کی فرمائش پر ایک سنسکرت ناٹک کو اردو میں منظوم صورت میں تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ حبیب تنویر جب دہلی اسکول آف ڈرامہ سے الگ ہوگئے تو انہوں نے ایک تجاری کمپنی پلے ہائوس کے ساتھ ایک کمرشل ڈرامے کی ریہرسل شروع کر دی اور جیسا کہ انہوں نے خود مجھے بتایا تھا، ان کا پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ اس کمپنی نے دو برس کی ریہرسل کے بعد بھی پیشکش کی تاریخ نہیں طے کی تھی اور اداکاروں کو معاوضے دینا بند کر دیا تھا۔ اس سے قبل بیگم زیدی کی ٹیم کے ادکاروں کو بھی اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور شاعر نیاز حیدر نے تو بیگم زیدی کے گھر کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک شام جب بیگم زیدی نے بننے بھائی (سجاد ظہیر ) کو اپنے گھر پر کھانے پر مدعو کیا تھا، جس میں میں بھی بننے بھائی کے ساتھ شریک تھا، تو وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’بننے بھائی نیاز حیدر کو سمجھائیے۔ وہ کمبخت پبلک میں تو مجھے گالیاں نہ دیا کرے۔‘‘
راوی: ۷؍ جنوری ۱۹۶۱ء کو آئی پی ٹی اے دہلی کی طرف سے ایک بلگارین ناٹک کا بنگالی ترجمہ ’’ابارتا‘‘ کے نام سے اور دوسرے دن ۸؍ جنوری کو عارف نقوی کا لکھا فُل لینتھ ڈرامہ ’’سوانگ‘‘ All India Faine Arts & Crafts Society Hall میں پیش کئے گئے۔ سوانگ کا ڈائریکشن اور اداکاری بھی عارف نقوی نے ہی ادا کی۔ دونون ہی ڈرامے کامیاب ہوئے۔ سوانگ میں عارف کی اداکاری کو دیکھ کر جی ڈی آر مشن کے لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ جرمنی جا کر وہاں کے ڈرامے کو دیکھیں اور ریسرچ کریں۔ اور پھر چند مہینوں کے بعد انہیں برلن سے اسکالر شب کی پیش کش کے ساتھ دعوت نامہ مل گیا۔ چنانچہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۶۱ء کو وہ جرمن ڈرامے پر ریسرچ کے لئے برلن روانہ ہوگئے۔
عارف نقوی: جرمنی آنے کے بعد میں نے برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی کے ’’تھئیٹر سائنس‘‘ انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹر منظر کی نگرانی میں کام شروع کیا جو بعد میں کیوبا چلے گئے اور اب میرا سابقہ پروفیسر شو ماخر سے تھا۔ میں نے برٹولٹ بریشت کے تھئیٹر برلنر انسامبل میں جاکر ریہرسلیں بھی دیکھیں، ڈائچے تھئیٹر، کامر شپیلے وغیرہ سے تعلقات قائم کئے۔ ان دنوں مشرقی برلن میں برلنر انسمبل، ڈائچے تھئیٹر، کامر اشپیلے، میکسم گورکی تھئیٹر، فوکس بیونے، ڈائچے اوپیرا، کو میشے اوپیرا، میٹروپول تھئیٹر، ڈیسٹل وغیرہ بہت سے معیاری ناٹک گھر تھے، جن کے پریمیروں کے مجھے مفت ٹکت ملتے تھے اور بہت کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع بھی حاصل ہوتے تھے۔انھیں دنوں مجھے ہمبولٹ یونیورسٹی کی طرف سے لکچرر کی ملازمت بھی مل گئی میری اس شرط پر کہ میرے تحقیقی کاموں اور صحافتی کاموں پر کوئی قید نہیں لگائی جائے گی اور یونیورسٹی ہر دوسرے سال مجھے ہندوستان جانے کے لئے آمد و رفت کاہوائی ٹکٹ اوردو مہینے کی تنخواہ ہارڈ کرنسی میں دے گی۔یہ سلسلہ بعد میں جب میں ریڈیو برلن انٹر نیشنل میں ہندوستانی پروگراموں کے لئے بحیثیت اڈیٹر کام کرنے لگا تو اس وقت بھی جاری رہا۔ اس بیچ میں بنگال کے بہترین ڈرمہ نگار ، اداکار اور ڈائریکٹر اتپل دت اور ان کی اہلیہ شووا سین برلن آئے اور کچھ دنوں کے لئے ہم لوگ بنگالی ڈرامہ کے ماحول میں کھو گئے۔ اتپل دت اور شوو دی میرے گھر پر بھی آئے اور ہمیں بہت کچھ تبدلہء خیال کے موقعے ملے۔ بعد میں۲۵؍ مئی ۶۶ء کے اپنے ایک طویل خط میں اتپل دت نے مجھے لکھا کہ وہ ۱۴؍ مارچ کو جیل سے چھوٹے ہیں اور اب ایک تھئیٹر ماہنامہ کے مدیر ہو گئے ہیں۔ میں اس کے لئے جرمنی سے مستقل لکھا کروں۔ ’’ دیکھو عارف تمہیں میری مدد کرنا ہے۔ میں ایک ماہنامہ تھئیٹر جرنل کا ایڈیٹر ہوگیا ہوں (بنگالی میں) Proscenium کہتے ہیں۔۔۔۔‘‘ (اتپل دت)
میں نے برلن ریڈیو کے لئے کرشن چندر کے دو ڈرامے ’’کتے کی موت‘‘ اور ’’سرائے کے باہر‘‘ کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور وہ جرمنی کے اس وقت کے بہترین اداکاروں کی آواز میں نشر کئے گئے اور مقبول ہوئے۔دونوں ڈرامے جرمن زبان میں تھے ، لیکن ’کتے کی موت‘ میں جیوتشی کے اردو مکالمے مجھے ادا کرنا پڑے ۔ اور ’سرائے کے باہر‘ میں وشوا متر عادل کا لکھا گیت’’ میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول۔۔۔‘‘ میری آواز میںبراڈکاسٹ کیا گیا۔
(گیت)
عارف نقوی: میرے اپنے لکھے ہوئے بھی کئی ڈرامے برلن میں اسٹیج پر کھیلے گئے اور مقبول ہوئے۔ جن میں سے دو ڈرامے کیرم کے بارے میں تھے جولیوٹن ، برطانیہ میں انگریزی زبان میں کھیلے گئے۔جبکہ برلن میں انھیں جرمن زبان میں کھیلا گیاِ اسی طرح میرا یک ڈرامہ بلکہ تمثیل ’’ساری‘‘ ہندوستانی سفارت خانے کے آڈی ٹوریم کے اسٹیج پر کھیلاا گیا۔ جس میں ساری کی مدد سے پورے ملک کی تہذیب کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ ایک دوسرا ڈرامہ ’’غلاموں کی ملکہ۔ رضیہ سلطانہ‘‘ کے مکالموں کو پروفیسر اسلم سید، محترمہ کشور مصطفی اور میں نے برلن میں اسٹیج پر پیش کیا۔ سب سے زیادہ کامیابی مجھے برلن میں اپنے ڈرامے ’’دور کے ڈھول‘‘ میں ہوئی۔ یہ فُل لینتھ ڈرامہ جرمنی میں غیر ملکیوں کے مسائل سے متعلق ہے اور اردو سے جرمن زبان میں کئی بار کامیاابی سے اسٹیج کیا جا چکا ہے۔ یہ ڈرامہ میں نے ۲۰۰۳ء میںہندوستانی سفارت خانے کی فرمائش پر لکھ تھا ، جسے برلن ایشیا پیسیفک فیسٹیول کے موقعے پر ایک بڑے کھلے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور بعد میں ۲۲؍ فروری ۲۰۰۴ء کو تین سو سے زیادہ جرمن ایک بڑے ثقافتی ہال میں ٹکٹ لے کر اسے دیکھنے آئے اور بہت پسند کیا۔ ۵ ؍ جون ۲۰۰۴ء کو اسے ہندوستانی سفارت خانے کے ٹیگور آڈی ٹوریم میں بھی کامیابی سے پیش کیا گیا۔ ڈرامے کا سب سے مشکل رول پہلی بار مسز سوشیال شرما حق نے ادا کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ہر بار ایک جرمن ڈاکٹرنی مسز سام نے ایک ہندوستانی ماں کے روپ میں نہایت خوبی سے اداکیا تھا۔ جنہوں نے بعد میںاپنے تاثرات جرمن زبان میںاس طرح لکھے ہیں:
مسز ڈاکٹر سام: ’’ اردو زبان کی خوبصورتی، مٹھاس اور چاشنی کے بہت سے لوگ قائل ہیں۔ اس زبان کو نہ جاننے والے بھی جب لوگوں کو اردو اشعار پڑھتے ہوئے اور اردو گیت گاتے ہوئے سنتے ہیں تو ایک خوبصورت دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ مگر اردو نثر اور مکالمے جرمن زبان میں ترجمہ پانے کے باوجود بھی اتنے خوبصورت ، دلچسپ اور جاندار ہو سکتے ہیں، اس کا تجربہ عارف نقوی کے لکھے ہوئے ڈرامے دور کے ڈھول کو دیکھ کر ہوتا ہے۔‘‘
’’۲۲؍ فروری کی شام ہمارے لئے ایک دلچسپ اور فرحت آمیز شام تھی۔ برلن کے ایک ثقافتی مرکز میں عارف نقوی کا لکھا ہوا ڈرامہ دور کے ڈھول اسٹیج پر کھیلا جا رہا تھا۔ جس کا بندوبست اردو انجمن اور ہندوستانی خواتین کی انجمن نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ ٹکٹ کے باوجود ہال میں ڈھائی تین سو لوگ موجود تھے اور تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ تالیوں کی گونج سے لوگ اداکاروں
کو داد دے رہے تھے۔‘‘
راوی: ڈاکٹر مسز گوڈرون سام جرمن زبان میں آگے لکھتی ہیں:
مسز ڈاکٹر سام: ’’ڈرامے میں کام کرنے والے اداکار پیشہ ور اداکار نہیں تھے۔ لیکن جس لگن، جوش اور پختگی سے وہ اپنے رول ادا کر رہے تھے اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ منجھے ہوئے تجربہ کار اداکار نہیں ہیں۔ ڈرامہ میں ایک ہندوستانی طالبعلم مرلی منوہر کی زندگی پیش کی گئی ہے، جو بڑی امیدوں کے ساتھ جرمنی میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتا ہے۔ اس کی ماں اور بہن سمجھتی ہیں کہ وہ جرمنی میں عیش کر رہا ہے اور اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب وہ ایک بڑا ڈاکٹر بن کر یورپ سے لوٹے گا اور خاندان کا نام روشن کرے گا۔ پڑوسنیں اس خوش فہمی میں ہیں کہ اپنی بیٹی کا اس سے رشتہ طے کر سکیں گی۔ لیکن اسے اور اس کے ساتھیوں کو جرمنی میں کتنے پیچیدہ مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پڑھائی اور اخراجات پورے کرنے کے لئے جان توڑ محنت کرنا پڑتی ہے اس کا اندازہ انھیں نہیں ہے۔‘‘
’’مصنف عارف نقوی نے، جنہوں نے ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دئے ہیں جرمنی میں رہنے والے غیر ملکی طلباء کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور تمام مناظر کو اتنی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ لوگ اش اش کرتے ہیں اور دلچسپ مکالموں پر ہنسی سے لوٹ جاتے ہیں اور مسلسل تالیوں کی گونج سے داد دیتے ہیں۔‘‘
راوی: ’’ڈرامے کے مکالمے تو انتہائی جاندار اور دلچسپ ہیں ہی خوبصورت گیتوں اور رقصوں نے اس میں اور بھی چار چاند لگادئے ہیں۔ ڈرامے کے اختتام پر لوگوں کی تالیاں اور Bravoمرحبا کی آوازیں رکنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ خصوصاً مرلی کے رول میں ہہیمانشو شرما، ماں کے رول میں ڈاکٹر گوڈرون سام، بہن کے رول میں کرسٹینا فرانک، ڈاکٹر شاکر کے رول میں ڈاکٹر اجمل عمر اور نوکر کے رول میں عارف نقوی نے سب سے زیادہ داد حاصل کی۔ جبکہ دھیرج رائے نے اپنی خوبصورت آواز میں عارف نقوی کے لکھے ہوئے گیت درد کی سوغات کو جس کی دھن بھی عارف نقوی نے بنائی تھی خوبصورت آواز سے گا کر لوگوں کی بے پناہ داد حاصل کی۔ ڈرامے کا اختتام دو خوبصورت ڈانسوں سے ہوا ، جنہیں کرسٹینا فرانک، سنگیتھا شیکھرن اور وینا سنگم نے جدید اور کلاسیکی رقص کی خوبصورت آمیزش کے ساتھ پیش کیا۔‘‘
’’ڈرامے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ پہلی بار جرمنی میں رہنے والے کسی اردو مصنف نے یہاں اتنا بڑا ڈرامہ لکھا ہے جسے جرمن زبان میں جرمنی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا ہے اور مصنف خود اس کا ہدایت کار بھی ہے۔اور مختلف قومیتوں کے اداکاروں نے مل کر اسے پیش کیا ہے۔ ۵؍ جون کو یہ ڈرامہ ہندوستانی سفارت خانے کے ٹیگور سنٹر کے اسٹیج پر بھی کامیابی سے کھیلا گیا۔‘‘

عارف نقوی: جرمن اسٹیج پر اپنے بعض ڈراموں کی کامیابیوں سے میں اس نتیجے پر پہنچا ، کہ اگر دل لگا کر ایمانداری سے جرمن ناظرین، سامعین اور قارئین کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اور کسی جرمن دوست کا تعاون حاصل کرکے ایسی اردو کہانیوں، ڈراموں ، مضامین اور نظموں کے براہ راست ترجمے کئے جائیں(انگریزی سے نہیں) جن میں محبت، رفاقت، اخلاق، امن و انسانیت کا پیغام ہو اور برصغیر کے سماج کی عکاسی اور عوام کے مسائل ہوں اور نسلی امتیاز، فرقہ واریت، جنگ پرستی او ر منافع خوری کے خلاف جذبات مضمر ہوں ، تو انھیںیہاں کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ حالانکہ اس میں بھی شک نہیں ہے کہ اب یہاں کے ادب اور ثقافتی زندگی پر کمرشل ازم کا بہت اثر پڑ رہا ہے۔ ساٹھویں دہائی میں جہاں بہت سے خالص ادبی اور ثقافتی رسالے نظر آتے تھے اور برلن میں برلنر انسامبل، ڈائچے تھئیٹر ، میکسم گورکی تھئیٹر ، فولکس بیوہنے اور ڈسٹل وغیرہ میں نسلی امتیاز اور جنگ، زرگری اور فسطایت کے خلاف ڈرامے پیش کئے جاتے تھے ، جیسے میکسم گورکی کا مدر، برٹولٹ بریشت کا آرٹورواوئی، چاک سرکل، مدر وغیرہ جن میں خاص طور سے جنگی ذہنیت کی مذمت اور امن و انسانیت کا پیغام تھا، وہیںاب ان میں کمرشل ازم کے عناصر کی بھرما رہوتی ہے۔ اور یہ سب عالمی پیمانے پر اس وقت ثقافت اور ادب کی جو حالت ہے اس کا نتیجہ ہے۔ معیاری اور عوامی ڈراموں کو ان کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
خیر میں تو یہ کہوں گا :
دورِ خزاں ہے اور چہکتا ہے عندلیب
فصلِ بہار آئے گی یہ انتظار ہے
(عارف)
اس جگہ پرمیں یہ بھی یاددلا دوں کہ روسی ادیب میکسم گورکی کے ناٹک ’’ماں ‘‘ کی طرح جرمن ڈرامہ نگار برٹولٹ بریشت (بریخت) کے ناٹک بھی ہندوستان میں بہت مقبول ہوئے اور کھیلے گئے۔ہندوستان سے سے کئی نوجوان ڈرامہ نگار برلن آئے اور برلنر انسامبل نیز وائمر میں جاکر ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جیسے حبیب تنویر وغیرہ ۔ انھیں میں میرے یہاں آنے کے بعد بننے بھائی کی چھوٹی بیٹی نادرہ ظہیر (نادرہ راج ببر) بھی تھی، جس نے برلنر انسامبل میں ٹرینگ کے ساتھ وائمر میں ڈرامہ نگار فرتس بیبے وتس سے بہت کچھ سیکھا اور اب ممبئی میں ڈرامے کا پرچم بلند کئے ہوئے ہے۔
(سنگیت)
جہاں تک میرے اپنے ڈراموں کا تعلق ہے ، یہ ڈرامے اسٹیج اور اس کے تقاضوں اور مشکلات کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔اس لئے انہیں پڑھتے وقت آپ یہ ضرور سوچئے گا کہ اگر آپ خود انہیں اسٹیج پر کھیل رہے ہیں تو کس طرح سے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو کچھ نہ کچھ لطف ضرور آئے گا۔
ان ڈرموں میں سے ایک ’’زندگی‘‘ تو میں نے اپنے تعلیمی دور میں ۵۷۔۱۹۵۸ء میںلکھنؤ میںکانپور روڈ پر لٹریسی ہائوس (ساکھشارتا نکیتن) کے سیمینار کے اختتام پر لکھا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اَن پڑھ لوگوں تک ادب کو کیسے پہنچایا جائے۔ یہ میرے خیال میں اس وقت تک فیملی پلاننگ پراردو کا پہلا ڈرامہ تھا۔ اس کے مکالمے دانشوروں کی زبان میں نہیں بلکہ اَن پڑھ نام نہاد جاہلوں کی زبان میں ہیں۔ اور یہ کام آسان نہیں ہے۔
ڈرامہ’’ سوانگ‘‘ میں نے یونیورسٹی میں اپنی پڑھائی کے زمانے میں ریڈیو پلے کی حیثیت سے لکھا تھا جسے ۱۹۵۷ء میں آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کر کے کل ہند ریڈیو پلے کے مقابلے میں بھیجا گیا تھا اور اسے اردو کیٹیگری میں انعام ملا تھا۔ ۱۹۶۱ء میں اسے دہلی کے اپٹا کی طرف سے اسٹیج پر کھیلا گیا ۔ اس میں نفسیاتی مسائل کو لیا گیا ہے۔
ڈرامہ ’’سودا‘‘ بھی اسٹوڈنٹس تحریک کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ جبلکھنؤ میں ایک بار پولیس نے طلباء پر گولی چلائی تھی اور میڈیکل کالج کا ایک طالب علم ہلاک ہوا تھا۔
’’روپ‘‘ میں میں نے سماج کی ایک دکھتی رگ کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے۔
’’دور کے ڈھول‘‘ میں بھی ایک اہم مسئلہ کو لیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وطن سے دور جانے والے گل چھرّے اڑا رہے ہیں ۔ جبکہ ان ملکوں کے لوگ غیر ملکیوں کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ اس ڈرامے میں کوشش کی گئی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے مسائل اور مجبوریوں سے واقف ہوں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔
ڈرامہ’’ کیرم امپائر‘‘ میں نے پہلے عالمی کیرم کپ کے لئے انگریزی میںلکھا تھا جو ۲۰۰۱ء میں لیوٹن، برطانیہ میں ہوا تھا اور میں ان دنوں انٹرنیشنل کیرم فیڈریشن کا نائب صدر تھا۔ وہ لیوٹن کے اسٹیج پر کھیلا گیا اور انگریز تماش بینوں نے جن میں لیوٹن کے مئیر اور برٹش پارلیمنٹ کے چند اراکین بھی تھے کافی پسند کیا تھا۔ بعد میں یہ ڈرامہ برلن میں جرمن زبان میں کھیلا گیا۔ اس ڈرامے کا پس منظر پہلی عالمی چیمپین شپ ہے جو ۱۹۹۱ء میں نئی دہلی کے اندراگاندھی انڈور اسٹیڈیم میں ہوئی تھی۔ اس میں امپائروں کی مشکلات اور قلابازیوں کو دکھایا گیا ہے۔
ڈرامہ’’ غلاموں کی ملکہ۔ رضیہ سلطانہ‘ ‘ میں خاص طور سے التمش اور رضیہ سلطانہ کے جمہوری، سیکولر کردارکو اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں غلام سلطنت کا قیام دنیا میں اپنی قسم کی پہلی مثال ہے اور وہ اسلام کی دین ہے۔ اسی طرح یہ بھی اسلام ہی کی دین تھی کہ ایک کمسن عورت رضیہ نے آج سے نو سو برس قبل اتنے بڑے ملک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی تھی۔ ظاہر ہے کہ غلام خاندان کی سلطنت، التمش اور رضیہ وغیرہ کے بارے میں اتنا تاریخی مواد موجود ہے اور داستانیں اور فلمیں وغیرہ موجود ہیں کہ میرے لئے نئے پہلو نکالنا بہت مشکل تھا۔ لیکن میں ان کرداروں کو اس طرح نہیں پیش کرنا چاہتا تھا جیسے ڈاکٹر ذکریا نے اپنی داستان میں یا کمال امروہوی نے اپنی فلم میں پیش کئے ہیں۔ میں تو ان کی انسانی عظمت کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ قارئین اس میں عشقیہ مناظر ڈھونڈھنے کی جگہ انسانیت، جمہوریت، سیکولرازم ، پارسائی اور دانشوری کے پہلوئوں میں دلچسپی لیں گے۔ اسی لئے یہ ڈرامہ وہیں ختم ہو جاتا ہے جہاں شہزادی رضیہ ، جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لئے سازشیں رچی گئی تھیں، اپنے مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنا کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے او التمش کی وصیت پوری ہوجاتی ہے۔
اس ڈرامہ کا اختتام اس وقت ہوتا ہے، جب سلطان التمش کی شبیہ بادلوں کو چیرتی ہوئی پس منظر سے نمودار ہوتی ہے اور اپنی بیٹی
شہزادی رضیہ سلطانہ سے کہتی ہے:
التمش کی شبیہ:
وقت بدلتا ہے۔ زمانہ بدلتا ہے۔ خدا کی بارگاہ میں سب برابر ہیں۔ نہ مرد عورت کو دبا کرکمتر رکھ سکتا ہے، نہ حاکم غلام کو۔ کمتر وہ ہے جو بھول جائے کہ وہ اللہ تعلی کی ادنیٰ مخلوق ہے، جوخود کو بہتر سمجھے اور یہ نہ سمجھے کہ مرنے کے بعد قبر میں جب کیڑے لاش کو چاٹتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ عورت کی لاش ہے یا مرد کی، غلام کی یا آقا کی، غریب کی یا امیر کی۔ عورت
کو نازک اندام اور محبوبہ سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت ماں بھی ہوتی ہے اور بہن بھی۔عورت اپنے خون سے
اولاد کی پرورش کرتی ہے۔ اسکے بازوئوں میں قوت پیدا کرتی ہے۔اسکو انسانیت کا چلن سکھاتی ہے۔انسان بناتی ہے۔
بیٹی، اس بات کو مت بھولنا، کہ تو میری بیٹی اور شہزادی ہی نہیں ، بلکہ ایک مسلمان ہے ۔ مسلمان اپنے لباس سے نہیں پہچانا جاتا ہے، بلکہ اپنے کردار سے۔ مسلمان وہی ہوتا ہے جو سچاانسان ہو ، جس کے دل میں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے انسان کا احترام ہو اور محبت ہو، سب کے لئے دردمندی ہو۔یہی ہمارے بزرگوں نے سکھایا ہے۔ یہی قرآن مجید کی تعلیم ہے۔ یہی پیغمبر اسلام کی زندگی کی مثال ہے ۔اسلام ہی دنیا کا وہ مذہب ہے جس کے ماننے والوں میں پہلی بار غلام کو اتنا اونچا درجہ دیا گیا ہے کہ اتنے بڑے ملک میںیہ سلطنت غلاموں کے کندھوںپر قائم ہوئی ہے۔
تمھارا باپ شمس الدین التمش غلام تھا۔ تمہارا نانا سلطان قطب الدین ایبک بھی غلام تھا، جسے بازار میںبیچا گیا تھا۔
ہم سب اللہ کے غلام ہیں۔ جنہیں اللہ نے سرخرو کیا ہے۔ ہمیں اللہ کے احکام کی پابندی کرناچاہئیے۔ ہر انسان ۔۔۔ہر مذہب ،
ہر برادری کے لوگوںکو برابر سمجھنا اور ان کے ساتھ سچا انصاف کرنا چاہئے۔ ۔۔ امن اور آشتی ، خلوص و محبت کادامن تھامنا چاہئے۔ ہم سب ان ذرّوں کی مانند ہیں، جو چمکتے بھی ہیں اور روندے بھی جاتے ہیں۔
(اچانک پس منظر میں تاریکی بڑھتی ہے اور ایک خوشنما ساز کی آواز کے ساتھ
آسمان پر دو ستارے ابھرتے ہیں اور التمش اور رضیہ کی شبیہ میں بدل جاتے ہیں۔)

naqviarif(at)yahoo.com

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here