[email protected]
9807694588(موسی رضا)
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عارف نقوی
دس ؍ اپریل ۱۹۳۶ء کا خوبصورت دن تھا۔ ترقی پسند تحریک کا اجلاس لکھنؤ کے رفاہ عام ہال میں ہو رہا تھا۔ اردو اور ہندی کے مشہور مصنف منشی پریم چند صدارتی خطبہ پیش کر رہے تھے۔ ہال کھچاکھچ بھرا تھا۔ان کی زبان سے الفاظ نکلنے بھی نہیں پاتے تھے کہ پہلے سے تالیوں اور واہ واہ سے ہال گونج جاتا تھا۔ سجاد ظہیر اور ان کے دوستوں نے اجلاس کو کامیاب بنانے کے لئے بڑی محنت کی تھی۔ ہفتوں پہلے سے لندن میں اس کی ریہرسل کی تھی۔
حاضرین کی آخری صف میں مرزا غالب کی روح بیٹھی غور سے سن رہی تھی۔ کسی نے اسے نہیں پہچانا تھا۔نہ ان کو کچھ سنانے کی دعوت دی تھی۔ وہ کچھ بڑ بڑا رہے تھے۔ چند لوگوںنے ٹوکا : ’’ چپ رہو! اتنا بڑا ترقی پسند ادیب بول رہا ہے۔ سنو کیا کہہ رہا ہے۔‘‘
’’ خاک سنوں۔ غالب کی باتوں کو دوہرا رہا ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
بغل میں ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے : ’’میاں نوشہ کبھی میر تقی میر کو سنا ہے:
کل پائوں ایک کاسہء سرپر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھی کسو کا سر پرغرور تھا
’’ارے میر صاحب ، آپ اس ترقی پسندی کے چکر میں کیسے پڑ گئے۔ آپ تو بس کہتے رہئے:
’’نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
’’اسی گلاب کی خوبصورتی میں تو ترقی پسندی ہے میاں صاحبزادے۔‘‘ وہ بزرگ اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔
ایک نو جوان نے مخاطب کیا : ’’ قبلہ، اقبال کو پڑھئے۔ کہاں پرانی باتوں میں پڑے ہیں:
اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفس سوختہء شام و سحر تازہ کریں
ایک نقادنے لقمہ دیا :
’’چھوڑئے جناب آپ بھی کیا پرانی باتوں میں الجھنے لگے اب تو جدیدیت، اورمابعد جدیدیت کا زمانہ ہے۔
کم سے کم ادیب کو روزگار تو ملنے لگا ہے جیل نہیں جانا پڑتا۔خیالات بھی سیدھے سیدھے سپاٹ نہیں ہوتے۔گہرائی ہوتی ہے۔‘‘
قریب ہی ایک دوسرے صاحب بیٹھے ہوئے تھے: ’’ چھوڑئے ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیت کے جھگڑے کو۔ اب تو نئی ترقی پسندی کی باتیں کیجئے۔
پریم چند کی آواز ڈائس پر گونج رہی تھی:
’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت اور حرکت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبہء حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لئے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لئے بیکار ہے۔‘‘
ایک بوڑھی عورت جو اپنی پھٹی پرانی ساری میں ملبوس ان لوگوں کی گفتگو سن رہی تھی برداشت نہ کر سکی۔ اس نے کہا:
’’نہ آدمی بال بڑھانے، بیڑی چھوڑ کر سگریٹ کے کش لگانے ، شراب نوشی کرنے اور جیل جانے سے ترقی پسند ہوتا ہے ، نہ مرغ کی ٹانگ نوچنے اور لمبی لمبی ، بہکی بہکی باتیں کرنے سے مولوی بنتا ہے ۔ میرا بیٹا کسان ہے پچاس گراڈ کی تپبتی ہوئی گرمی میں ہل چلاتا ہے ۔اناج پیدا کرتا ہے۔ لوگوںکا پیٹ پالتاہے۔ اصلی ترقی پسندتو وہ ہے۔ محنت برائے زندگی کا خالق۔
ایک دُبلا پتلالاغر شاعر کرتہ پائجامہ پہنے وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ ہاتھ میں ایک گلاس لئے ، نشے میں دھُت۔ اس نے جھومتے ہوئے کہا: ’’مائی اسی لئے تو تم سے کہا تھا:
’’تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تُو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا ‘‘
برلن