سیاست میں شیعوں کا گرتا معیار

0
326
9415018288

سیاست میں شیعہ کل بھی تھے اور آج بھی ہیں آج اگر سیاست میں کوئی مسلمان آرتی اُتارتا مل جائے، ہنومان چالیسا پڑھتا مل جائے، گائے کے اردگرد منڈلاتا مل جائے، بھگوان رام اس کے خواب میں آنے لگے تو آپ بغیر دماغ پر زور ڈالے سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ضرور شیعہ مسلمان ہے، لیکن کیا کل بھی ایسے ہی شیعہ مسلمان سیاست میں تھے؟
کہتے ہیں کہ اکبر دی گریٹ کے نورتنوں میں سے 5 شیعہ تھے۔ جنگ آزادی میں پہلے شہید ہونے والے صحافی مولوی باقر بھی شیعہ تھے۔ آزادی کے بعد مرکز میں اور تمام صوبوں کے وزیرتعلیم شیعہ رہے، جواہر لعل نہرو کے پرسنل سکریٹری سجاد ظہیر بھی شیعہ تھے۔ پروفیسر نورالحسن مرکز میں وزیر تعلیم رہے وہ بھی شیعہ تھے، بہار میں بہت دن وزیر تعلیم رہے زوار حسین کی خوبی یہ تھی کہ جب وہ وزیر نہیں رہتے تھے تو انہیں یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جاتا تھا، اپنے صوبے اترپردیش میں علی ظہیر صاحب کے پاس بھی ایک وقت میں کئی اہم محکمے رہے جب سبط رضوی وزیر بنے تو انہیں بھی ایجوکیشن منسٹر ہی بنایا گیا۔ مختار انیس بھی جب وزیر بنے تو انہیں ہیلتھ جیسا اہم محکمہ دیا گیا، مہاراشٹر میں بھی ڈاکٹر سید احمد خراب سے خراب حالات میں بھی الیکشن جیت کر وزیر بنے اور پھر گورنر۔ اس کے علاوہ چودھری سبط محمد اور اکبر حسین بابر جیسا اب شاید ہی کوئی سیاست میں آئے۔ یہ سب کے سب مسلمانوں کے رہنما تھے نہ کہ کسی ایک قوم اور فرقے کے اور ان کی علمی صلاحیت پر ہر پارٹی کو ان کی ضرورت تھی۔ آج بھی سبط رضی صاحب جب کسی محفل میں تقریر کرتے ہیں تو دانشور حضرات محظوظ ہوتے ہیں۔ اگر آج اس کا جیتا جاگتا ثبوت دیکھنا ہو تو ہمارے درمیان ڈاکٹر عمار رضوی صاحب موجود ہیں جنہیں اپنی پارٹی اس لئے کنارے کئے ہوئے ہے کہ پارٹی کے تمام افراد نہیں چاہتے کہ کوئی باصلاحیت شخص قیادت کے قریب پہونچے کیونکہ ان کے پہونچنے سے چاپلوسوں کی چھٹی ہوجائے گی، دوسری طرف ہر پارٹی چاہتی ہے کہ ڈاکٹر عمار رضوی جیسی شخصیت اس کی پارٹی میں اس کی حکومت کا حصہ ہو جس سے ان کی علمی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ڈاکٹر عمار رضوی جتنے اپنے دورِ اقتدار میں مقبول تھے آج بھی اس سے کم نہیں، وہ نہ صرف تین بار کارگذار وزیراعلیٰ رہے بلکہ تین بار وزیر تعلیم بھی رہے اور شاید وزیر پارلیمانی امور جتنے سال وہ رہے اتنے سال کوئی اور نہ رہا ہو۔ یہ پورٹ فولیو وہ ہیں جو کسی بھی ایرے غیرے کو نہیں دیئے جاتے بلکہ اس کے لئے ہر پارٹی کو باصلاحیت شخص کی تلاش ہوتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی جب حج کے سرکاری ڈیلی گیشن کیلئے ایک ایسے لیڈر کی تلاش ہوئی جو نہ اپنے ملک سے پوری طرف واقف ہو بلکہ غیرملکی سیاست سے بھی پوری طرح آشنا ہو اور اس کے دوسرے ملکوں کے حکمرانوں سے بھی مراسم ہوں اور وہ اپنے ملک کی نمائندگی پروقار طریقے سے کرسکے، تو اس کے لئے ان کی پہلی نظر میں جو نام آیا وہ ڈاکٹر عمار رضوی کا تھا۔ اس کا سبب ان کی علمی صلاحیت کے سوا کچھ نہیں، وہ ایک بڑے کالج کے پرنسپل تھے، ظاہر ہے انہوں نے کالج میں پڑھایا بھی ہوگا، وہ انگریزی کے استاد تھے لیکن جب اردو کی محفل میں بولتے ہیں تو لگتا ہے اردو ان سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا جب فارسی بولتے ہیں تو لگتا ہے یہ فارسی کے استاد رہے ہیں، جب پی ڈبلیو ڈی منسٹر رہے تو نہ صرف انہوں نے بریج کارپوریشن اور راجکیہ نرمان نگم جیسے ڈپارٹمنٹ کی بنیاد ڈالی جس سے نہ صرف ریاست میں، ملک میں بلکہ بیرون ملک میں بھی اسی بریج کارپوریشن کے تحت کئی بریج بنائے گئے، اردو اکادمی کی بلڈنگ کی سنگ بنیاد پر آج بھی ان کا ہی نام درج ہے، لکھنؤ سے محمود آباد کی روڈ اُن ہی کی دین ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کسی کو کوئی چھوٹا سا بھی رُتبہ مل جاتا ہے تو وہ اپنوں کو بھی نہیں پہچانتا اور زمین پر دیکھنا گوارہ نہیں کرتا لیکن جب ڈاکٹر عمار رضوی کی طوطی بولتی تھی تب انہوں نے ایک اجنبی شخص سے بھی ویسا ہی برتائو کیا جیسے کوئی اپنے خاص سے کرتا ہے جس وقت وہ اپنے اقتدار کے عروج پر تھے اس وقت ملائم سنگھ اور راج ناتھ سنگھ کا وہ رُتبہ نہیں تھا جو آج ہے اُس وقت شاید وہ ایک معمولی ممبر اسمبلی تھے لیکن ان کے حسن اخلاق نے سب کو اپنا بنالیا تھا شاید اسی لئے آج وہ سب ڈاکٹر عمار رضوی کو بیحد عزت دیتے تھے۔
اس کے برعکس آج جو شیعہ مسلمان سیاست میں ہیں وہ صرف اس لئے کہ ایک خاص محکمہ کیلئے ایک مسلمان وزیر کی ضرورت پڑتی ہی ہے جس کے لئے کسی علمی صلاحیت کی کوئی ضرورت نہیں بس آپ کو اپنے آقا کو خوش کرنے کی اداکاری آنی چاہئے۔ اس لئے آج ضرورت ہے کہ بی جے پی میں بھی ڈاکٹر عمار رضوی جیسے باصلاحیت، نڈر لوگ جائیں جو نہ صرف اپنی قوم کا وقار بڑھائے بلکہ قوم کے کچھ کام بھی آئیں اور بے خوفی سے حق بات کہنے کی جرأت کرسکیں، ہمیں یاد ہے کہ عزتمآب گورنر رام نائک جی کی کتاب کا اجراء تھا اور ڈائس پر اس وقت کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو، مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، عزتمآب گورنر رام نائک جی اور مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی اور ڈاکٹر عمار رضوی خود موجود تھے اسی اسٹیج سے جب ڈاکٹر عمار رضوی خطاب کررہے تھے تو ان سب کی موجودگی میں مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کے اس واقعے کو بیان کرنے سے نہیں چوکے جب کیسری ناتھ ترپاٹھی نے اسمبلی اسپیکر رہتے ایک متنازعہ فیصلہ دیا تھا یا ابھی جب آفتاب شریعت کے شریعت کدے پر راج ناتھ سنگھ کے ساتھ موجود تھے اور جناب گول مول طریقے سے کہہ رہے تھے کہ ہم ہر اچھے آدمی کے ساتھ ہیں تب ڈاکٹر عمار رضوی نے تیز آواز میں کہا کہ میں کوئی لگی لپٹی باتیں نہیں کرتا اقلیتی فورم نے راج ناتھ سنگھ جی کا کھلے عام سپورٹ کا اعلان کردیا ہے اور ہم ان ہی کے ساتھ ہیں اور ان ہی کو جتانے کیلئے کوشاں بھی۔ آج کے دَور میں ایسا صاف گو ہونا بہت مشکل ہے یہ کچھ پرانے لوگ ہیں جو گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ اگر ایسے لوگ سیاست میں آئیں تو وہ کسی بھی پارٹی میں رہیں، قوم کے لئے فائدے مند ہوں نہ ہوں لیکن قوم کی بدنامی اور رسوائی کا سبب تو ہرگز نہیں بنیں گے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here