9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
فہیم انور اعظمی ولید پوری
مذہب اسلام امن کا حامی صداقت کا ضامن انسانی تحفظ و بقاء کا داعی اس روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا حامل ہے جو اپنی بہت ساری منفرد خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے عالمی سطح پر اپنی حق و صداقت کے نایاب گوہر اور شمع حق کی بنیاد پر دیگر اقوام کے لئے راحت سازی اور قلبی سکون کا موثر ذریعہ بنا ہوا جس کا دائرہ دن بدن وسیع وعریض ہو کر گمراہیت کے میکدے میں اپنی نورانیت کے جلوے کو بکھیر رہا ہے جس کے سبب فسطائی طاقتیں استعماریت کی منظم بنیاد پر مذہب اسلام کے خلاف زہر افشانی کر تہزیبی ثقافتی لسانی امور کو سلب کر نے کی بنیاد پر حملہ آور ہوکر عالمی عوام کو انگشت بدنداں اور لرزہ براندام کرتی رہتی ہیں اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی فراق میں ہیں کہ اسلام نعوذ باللہ شدت پسندی افراط و تفریق اور بد امنی ظلم و جبر کا مذہب ہے دور حاضر میں فرقہ پر ست عناصر اور دشمنان اسلام کے لئے مذہب اسلام کے بڑھتے ہوئے رسوخ اور اس کی مقبولیت اور اس کی تعلیمات ان کی دریذہ ذہنیت پر نمک پاشی کے فرائض کو انجام دے رہے ہیں جس کے سبب مذہب اسلام کے عقیدت مندوں پر یومیہ انگشت نمائی کر نت نئے فتنہ کو فروغ دیا جارہا ہے اور جدید الزام تراشی کر مسلمانوں کے صبرو تحمل اور ان کی حمیت ایمانی اور ان کے جذبہ استقلال کا امتحان لیا جارہا ہے آج وقت اور حالات کی نوعیت سے اس مذہب پر عمل پیرا عوام کو ملک مخالف سر گر میوں سے منسلک کر مذہب اسلام کی روحانیت اور اس کے اثرورسوخ کو مجروح کر نے کی کو ششیں طشت ازبام ہیں اظہار رائے کی آزادی اور عوام کی دریدہ ذہنیت کہ عکاسی فرانس کی سرزمین پر اس وقت میں رونماں ہوئی جب وہاں کے ایک ٹیچر نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاکہ تیار کر کارٹون کی شکل میں پیش کیا وہاں پر موجود ایک عاشق( رسول صلی اللہ علیہ وسلم) طالب علم نے استاد کی جانب سے اٹھائے گئے منفی اقدام کا تحمل نہ کر اس معلم کی گردن کو وہی پر سر سے جدا کردیا اس کے بعد سے فرانس کی حکو مت نے اس دریدہ ذہنیت کے حامل معلم کے حق میں اس کی زمینی پذیرائی کرتے ہوئے مذہب اسلام کو بحرانیت کا ذمہ دار ٹھرایا جس کے بعد سے اس تنازع نے طول پکڑ کرنا شروع کیا ترکی کے صدر طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کو اپنے دماغ کا علاج کر نے کا مشورہ دیا اور فرانس سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا جس کے بعد سے فرانس نے اسلام دشمنی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے تعصب اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر بہت ساری مساجد اور دینی مدارس کو قفل زدہ کر دیا اور خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کر دی فرانسیسی صدر ایما نویل میخواں کے اس اقدام کی عالمی سطح پر سمع خراشی بھی ہوئی مسلم ممالک نے فرانس کی تیار شدہ اشیاء کا بائیکاٹ شروع کر دیا اور عالمی سطح پر احتجاج بھی بلند ہوئے فرانسیسی صدر کے جو جملے مذہب اسلام کے متعلق تھے عالم اسلام کے حکمرانوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا جس کے بعد فرانسیسی صدر نے اپنی صفائی پیش کی۔ بہر کیف یقینا اسلام امن پسند امن و آگہی سلامتی اورخیرسگالی دیانتداری صداقت پسندی کی علمبرداری کا نام ہے جس کی ابتداء ہی امن و سلامتی اور حفظ و امان اور صداقت کے گوہر اور اعتدال کے میزان پر ہوتی ہے جہاں سے اس روئے زمین پر جنم لینے والی انسانی نشونما کی رہنمائی حق و صداقت کی گویائی اور خشیت الہی کی تعلیم دی جاتی ہے جس نے معاشرے اور سوسائٹی میں امن و اخوت بھائی چارگی اعتدال پسندی اور مساوات کی تعلیم کو اولین ترجیح دی ہے جس نے ناحق طور پر ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل تصور کیا اور انسانی عظمت و معیار کو خانہ کعبہ کی عظمت سے زیادہ عزت بخشی ہو آج افسوس کی اسی مذاہب پر اشتعال انگیزی اور شر انگیزی کی تہمت لگا کر مسلمانوں کو خوف وہراس کے دلدل میں ڈھکیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور دنیا کے سب سے معتبر اور مقدس دین کے پیروکاروں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاریا ہے مذہب اسلام کی یہ خصوصیت ہیکہ اس مذہب نے نسلی امتیاز افراط و تفریق تعصب کے نظریہ کو خارج کر سے تمام انسانیت کو مساوات کا درجہ دیا ہے ۔ جس کے نزدیک کالے اور گورے عربی اور عجمی میں کو ئی تفریق نہیں جس نے انسانیت کے درمیان تمام افراط و تفریق کو مٹاکر انسانیت کو امن و اخوت اور بھائی چارگی کی عظمت کو تقویت دی افسوس کہ آج دنیا کے دریذہ دہنیت حکمران اسلامی تعلیمات سے لاعلمی کی بنیاد پر مذہب اسلام کے پیرو کارو کو ظلم و جبر کا نشانہ بناکر اپنے اپنے مذاہب کو سر بلندی اور سر خروئی کو تقویت دینے پر گامزن ہیں مذہب اسلام نے تمام مذاہب کا احترام کیا ہے مذہب اسلام کی ابتداء سے ہی یہ تعلیم رہی ہے کہ کسی بھی مذاہب کو برا نہ تسلیم کیا جائے اور نہ ہی ان کے عقیدت مندوں کو برا کہا جائے مگر آج نظریہ بلکل اس کے بر عکس ہے آج مسلمانوں کے چہرے پر ڈاڑھی جو مسلمانوں کے نزدیک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس مبارک سنت کو چہرے پر سجانے کی پاداش میں چند فرقہ پرست عناصر کو اس مسلمان کی زندگی کو دھشت گرد تنظیم سے منسلک کر دیتے ہیں اورڈاڑھی رکھنے کی پاداش میں اس انسان کی زندگی کو طعن و تشنیع کر اجیرن بنا دیا جاتا ہے ابھی حال کے دنوں میں بنگلہ دیش کی متنازع مصنفہ تسلیمہ نسرین نے انگلینڈ کے مشہور کر کٹر معین علی کی زندگی کے متعلق ٹویٹ کر ان کی ذاتی زندگی پر حملہ کیا انہوں نے لکھا کہ اگر معین علی کرکٹ کی دنیا سے منسلک نہ ہوتے تو دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہوتے ہے تسلیمہ نسرین کے ٹویٹ کے بعد انگلینڈ کے کر کٹروں نے اس ٹویٹ پر ناراضگی جتائی اور دنیائے کرکٹ نے اس مصنفہ کے ٹویٹ کو بزدلانہ قرار دیا جس کے بعد سے اس مصنفہ کو اپنے ٹویٹ کو حذف کر نے پر مجبور ہونا پڑا آج کچھ اسی طرح کے حالات روزمرہ مسلم قوم و ملت کا امتحان لے رہے ہیں جس کو یورپی ممالک نے اسلامو فوبیا کے نام سے ہوا دی ہے جس کی ابتداء 1976 میں یورپ سے ہوئی اسلامو فوبیا یعنی اسلام کا خوف مذہب اسلام کی اصل تعلیم سے منحرف ہوکر عوام کے قلب پر اسلامی خوف کو لاحق کر نے کی غرض سے اس طرح کے بزدلانہ فعل کی دنیا کے اندر تشہیر کی جاتی ہے جس فعل میں ہمارے ملک کا الکڑانیک میڈیا کا کلیدی کردار بھی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے جو مسلمانوں کے اہم مسائل پر انگشت نمائی کر ملک کے اکثریتی طبقہ کے قلب پر شب خون چسپاں کر نے کے راستے پر آمدہ ہے اور ملک کے اندر نفرت و منا فرت اور تعصب کے المیہ نے جو جنم لیا ہے اس میں الکڑانیک میڈیا کا اہم رول رہا ہے۔جس کے سبب ملک کے اندرونی حالات تنزلی کے راستہ پر گامزن ہے اور ملک کی جی ڈی پی کی شرح زر احساس کمتری کا شکار ہے آج ملک میں کرونا کی مہلک وباء نے ملک عزیز کی عوام کے روزی روٹی کے اہم مسائل کو پیدا کر عوام کے سامنے بھوک مری جیسے حالات پیدا کر دئیے ہیں ایک طرف جہاں کرونا کی مہلک وباء اپنے خوف سے عوام کے عزم کو کچل کر ان کے دیرینہ خواب کو دھومل کر دیا ہے وہی پر ملک کے کچھ حصوں میں ہمارے لیڈران انتخاب کو جیتنے کی کوشش میں کرونا گائیڈ کے اصول و ضوابط کو نظر انداز کر انسانی زند گیوں کے ساتھ کھیلواڑ کر رہے ہیں اور کھلے عام کرونا گائیڈ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ان ریا ستوں کے متعلق الکڑانیک میڈیا بھی کچھ بو لنے سے اجتناب کے راستے کو اختیار کررہی ہے اور دوسری جانب کنبھ کے میلے میں لاکھوں کی بھیڑ گنگا کے اندر اسنان کررہی ہے جس میں سیکڑوں لو گ پازیٹیوں بھی پائے گئے مگر ان کے خلاف ہماری ملک کی میڈیاں انگشت نمانئ نہ کر خود ہو یہ ثابت کررہی ہیکہ وہ موجودہ وقت میں حکومت کا غلام بن چکی ہے جبکہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے جس نے موجودہ وقت میں اپنے وقار کو مجروح کر اس بات کو ثابت کردیا کہ یقینا جمہوریت خطرے کے سایہ میں سسکیاں لے رہی ہیں۔اور ملک عزیز کے اندر ایک مذاہب کو ٹارگیٹ کر ستم ظریفی کی نظیر پیش کی جارہی ہے آج ضرورت اس بات کی ہے ملک کی خو شحالی اور ترقی کے لئے مذہبی امور کے ڈھانچے سے نکل کر ملکی مفاذ میں اتحادو اتفاق کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا جس سے کہ بعد ہی ملک کی تعمیرچو ترقی ممکن ہو سکتی ہے ۔