لمحۂ فکریہ- Moment of reflection

0
204

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ آخرایسا کیا ہوا کہ سو سالوں میں آر ایس ایس دنیا کی سب سے عظیم الشان تنظیم بن گئی اور اس نے ہندوستان میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اوردوسری طرف ایسا کیا ہوا کہ مسلمانوں کی تنظیم سمٹ کر رہ گئی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ سو سالوں میں آر ایس ایس نے اتنا بڑا انقلاب کیسے پیدا کر دیا؟اور آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہماری تنظیمیں سکڑ کر رہ گئیں یا وہ محدود ہو کر رہ گئیں۔مگر آپ کو یہ جان کر شاید تعجب نہ ہوکہ آر ایس ایس نے وہی فارمولا استعمال کیا جو اسلام آپ کو سکھاتا ہے۔یعنی تعلیم۔آج سے چودہ سو سال پہلے قران پاک مکہ کے اندر نازل ہوا تھا۔اس کی پہلی آیت تھی ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘ مسلمانوں نے جس پر عمل کیا اور تعلیم کوترجیح دی، دینی اورعصری، یہ دین کی تعلیم ہے اور یہ دنیا کی ۔ دنیا کی آدھی آبادی پر مسلمانوں کی حکومت قائم تھی، دنیا کی آدھی آبادی پر مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔یہی طریقہ آر ایس ایس نے اپنایا۔ان کاایک ادارہ” ودیا بھارتی” سارے ہندوستان میں سکولوں کا جال پھیلانے کے لیے آر ایس ایس کا کام کرتا ہے۔چنانچہ ۱۹۹۰ میں پانچ ہزار سکول، ۲۰۰۳ میں ۱۴ ہزار سکول، جس کے اندر دس لاکھ سے اوپر بچے پڑھتے تھے۔اور یہ بڑھ کر ۲۰۱۸ میں 24,396 سکول ہو گئے جن میں ساڑھے چار کڑوڑ بچے پڑھتے تھے۔ اور ۰۰۰،۹۳ استاد کام کرتے تھے۔آپ مان لیں کہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں، شاید دو کڑوڑ پڑھتے ہوں گے۔اگر دو بھی نہیں، ایک کڑوڑ تو پڑھتے ہیں؟ یہ بچے آر ایس ایس کے سکولوں سے پڑھ کر کہاں جاتے ہیں؟ کوئی آئی اے ایس بنتا ہے، کوئی آفیسر بنتا ہے، کوئی منسٹر اور چیف منسٹر بنتا ہے۔کوئی وکیل بنتا ہے ، کوئی جج بنتا ہے۔گزشتہ پچاس سالوں میں آر یس ایس کے سکولوں کے پڑھے ہوئے بچے ہندوستان بھر میں حکومت کے تمام شعبوں کے اندر موجود ہیں جو آر ایس ایس کے نظریات کے نہ صرف حامی ہیںبلکہ انہیں آر ایس ایس سے محبت ہے۔اور آر ایس ایس سے محبت کیوں نہ ہو ۔جب کوئی آدمی کسی اچھے سکول سے پڑھ کر باہر آتا ہے تو اسے اس سے محبت ہونا لازمی ہے۔چنانچہ آر ایس ایس نے سو سالوںمیں اپنے تمام اداروں کے ذریعہ اور اپنے تمام اداروں اور سکولوں کے ذریعہ کیا کیا پیدا کیا؟ منسٹر، ہوم منسٹر، پرائم منسٹر، آئی ایس آفیسرز، الیکشن کمیشن کے عہدے دار، اور فوج کے افسر۔یعنی ہندستان میں کوئی شعبہ نہیں جس میں آر ایس ایس کے اداروں اور سکولوں کے طالب علم موجود نہ ہوں۔
دوسری طرف جمعیت علماء ہند کی کار کردگی کو دیکھتے ہیں۔ ان کے مدرسوں نے مدرسوں کے اساتذہ پیدا کیے، امام، موزن، جنازہ پڑھانے والے، سودا فروخت کرنے والے، فیکٹریوں کے مزدور۔ دہاڑی دار مزدور، وغیرہ پیدا کئے۔اب مقابلہ کر کے دیکھیں کہ ہمارے مدرسوں کے پڑھے کیا کرتے ہیں اور انکے سکولوں کے پڑھے کیا کرتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ویژن اور مشن میں ان کے ویژن اور مشن میں کتنا زیادہ فرق ہے۔یہ وہی فرق ہے جو شروع اسلام میںکفار اور مسلمانوں میںتھا۔آج سے چودہ سو سال پہلے دنیا کی قومیں فوکس کرتی تھی پیوند کاری پر اور ہم نے فوکس کیا تعلیم پر۔اور آج وہ قومیں فوکس کرتی ہیں تعلیم پر اور ہم فوکس کرتے ہیںامدادپر۔اگر ہم ان دونوں تنظیموں کے انتظامی ڈھانچہ پر بھی نظر ڈال لیں تو آپ کو چند مفید معلومات حاصل ہو نگی۔ مسلمانوں کی تنظیم اپنے خاندان کی ترقی اورکامیابی کے لیے کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور جب وہ ایسا کرنا شروع کرے گی تو اس کی ویژن اور مشن اس بات پر مذکور ہو گی کہ کس طرح اس کے پریذیڈنٹ یا پوزیشن ہولڈر کو دنیا میں نام و نمود اور شہرت ملے ۔ ہمارے قائدین ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے حکومت کی بڑی بڑی تنظیموں اور اداروں کا استعمال کرتے ہیں۔آپ اور ہم ان کو اپنا قائد مانتے ہیں، انہیں شناخت دیتے ہیں، انکو صدقہ، ذکات اور خیرات دیتے ہیں، اور انکو پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں کہ آپ ہمارے قائد ہیں۔جب انہیں ہماری سپورٹ ملتی ہے تو وہ اسے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں غلطی ہماری ہے ۔ عوام کی ہے۔ہماری اور آپ کی ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل آسان بھی ہے اس لیے کہ آج بھی آپ اپنی مالی طاقت استعمال کر سکتے ہیں۔مگر اس سے آپکے ذاتی مفادات پر اثر پڑے گا۔یہ مشکل اس لیے ہے کہ اس سے آپ کے نظریات پر اثر پڑے گاجن کو ان علماء نے اور پچھلی صدیوں میں آپ کے دماغ میں بٹھا دیا گیا ہے۔ آیئے انقلاب برپا کرتے ہیں، پچاس سال میں آپکے حالات بدل جائیں گے۔ہندوستان میں جتنی مساجد ہیں ان کو مدرسوں میں تبدیل کر دیجئے۔اور اس میں سکول اور مدرسے کا فرق مت کیجئیے۔اس کے اندر کوچنگ سینٹر کھولیے۔اس کے اندر سرکاری نصاب کے مطابق سکول چلائیے۔نرسری سکول چلائیے۔اس کے علاوہ میٹریکولیشن سکول چلائیے۔آپ کمپیوٹر کے سینٹر مسجدوں میں کھول دیں۔یعنی کہ مساجد کا جو اتنا بڑا نظام ہمارے پاس ہے اگر ان ساری مساجد کو تعلیمی مرکز کے طور پر کام شروع کر دیں تو تھوڑی سی مالی امدد اور زیادہ خرچ کیے بغیر سارے ہندوستان میں ایک انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔جتنے مدارس آپ کے پاس ہیں ان کے نصاب میں تبدیلی پیدا کی جائے۔ جو لوگ تعلیم کے میدان میں کام نہیں کرتے، انکے پاس اپنی ویژن اور مشن نہیںاور صرف ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، ان کو اٹھا کر نیچے پھینکیئے۔ہمیں دیش کے لیے اور قوم کے لیے کام کرنا ہے۔ جب ان کو آپ چندہ اور ذکات دینا بند کریں گے تو جلد ہی تبدیلی آنی شروع ہو جائے گی۔ سوچئے، اور سوچتے رہئے۔یقیناًایک دن ایسا آئے گا کہ سوچنے کا وقت نہ ہمارے پاس ہو گا اور نہ آپ کے پاس۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here