چراغ راہ: شرح دعائے افتتاح

0
973
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

از: علامہ عقیل الغروی زید مجدہٗ

تعارف وپیشکش: دُرّالحسن رضوی اخترؔ اعظمی

مومنین کرام مشہور دعائے افتتاح سے ضرور واقف ہوں گے۔ ماہ مبارک رمضان میں روزانہ ہر شب میں اس دعائے مبارکہ کے پڑھنے کی بڑی تاکید ہے اور اس کا بیحد اجر و ثواب بھی ہے۔ اسی بناء پر حجۃ الاسلام علامہ عقیل الغروی صاحب نے اس دعائے جلیل القدر کی شرح تحریر فرمائی ہے جو دعا کے ترجمہ کے ساتھ ’’چراغِ راہ: شرحِ دعائے افتتاح‘‘ کے عنوان سے 2003 ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے اور مومنین تک پہونچ چکی ہوگی، اس شرح تک ناچیز کی رسائی ابھی حال میں ہوسکی۔ علامہ موصوف اس سے قبل ایک اور اہم دعا ’’دعائے سمات‘‘ کی شرح بھی ’تجلیات‘ کے نام سے تحریر فرما چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اس دعائے افتتاح کی شرح لکھنے کا بیڑہ اُٹھایا۔مومنین کرام مشہور دعائے افتتاح سے ضرور واقف ہوں گے۔ ماہ مبارک رمضان میں روزانہ ہر شب میں اس دعائے مبارکہ کے پڑھنے کی بڑی تاکید ہے اور اس کا بیحد اجر و ثواب بھی ہے۔ اسی بناء پر حجۃ الاسلام علامہ عقیل الغروی صاحب نے اس دعائے جلیل القدر کی شرح تحریر فرمائی ہے جو دعا کے ترجمہ کے ساتھ ’’چراغِ راہ: شرحِ دعائے افتتاح‘‘ کے عنوان سے 2003 ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے اور مومنین تک پہونچ چکی ہوگی، اس شرح تک ناچیز کی رسائی ابھی حال میں ہوسکی۔ علامہ موصوف اس سے قبل ایک اور اہم دعا ’’دعائے سمات‘‘ کی شرح بھی ’تجلیات‘ کے نام سے تحریر فرما چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اس دعائے افتتاح کی شرح لکھنے کا بیڑہ اُٹھایا۔اس شرح کی فضیلت اور اہمیت پر استاذ الاساتذہ جناب مولانا سید محمد شاکر صاحب نقوی امروہوی اعلیٰ اللہ مقامہٗ سابق استاد جامعہ ناظمیہ، لکھنؤ کا یہ تبصرہ کافی ہے کہ ’’میرا دعویٰ ہے کہ اگر کتاب سے جناب مصنف علام کا اسم گرامی حذف کرکے کتاب کسی باذوق اور قدرداں کو تھمادی جائے تو وہ جب تک مصنف علام کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا چین سے بیٹھ نہیں سکتا۔‘‘ پھر اپنے اختتامی کلمات میں تحریر فرماتے ہیں ’’حقیقتاً حضرت علامہ کا یہ کارنامہ معمولی نہیں ہے کیونکہ دعا کے موجیں مارتے ہوئے سمندر کی غواصی کے تقاضے اور ہیں اور نامانوس ذہنوں کو دعا سے مانوس کرلینے کے تقاضے اور ہیں۔ بیک وقت دونوں کا حق ادا کرنا بہت بڑی بات ہے……‘‘چراغِ راہ کے مندرجۂ بالا تعارف کے بعد حقیر کا اس پر قلم اُٹھانا محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کہ میں خود اس دعا اور اس کی شرح پر کسی تنقید و تبصرہ کا اہل بھی نہیں ہوں۔ مگر اس شرح کے سرسری مطالعہ کے بعد میرا جو انشراحِ قلب ہوا، اور دعا کے معنوی اور روحانی پہلوئوں کا انکشاف ہوا تو میں نے چاہا کہ اخبار اودھ نامہ کے ذریعہ اس شرح کا تعارف قارئین اودھ نامہ سے بھی کرادوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں۔بے محل نہ ہوگا اگر اس دعا کی شرح کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے لفظ ’’دعا‘‘ کے معنی و مفہوم پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔ دعا کے لفظی معنی ہیں کسی کو پکارنا یا بلانا مگر اصطلاح میں ’’دعا‘‘ کے معنی اور مراد بہت وسیع اور بلیغ ہیں اور عام افراد کے لئے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔دنیا میں الٰہی منصب داران علیہم السلام کے علاوہ کوئی انسان خواہ وہ کتنا ہی عبادت گذار اور طاقتور ہو ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر لحاظ سے کامل (Perfect man)  اور بالکل ہی بے نیاز (self content)  ہو اور اسے کسی ’’نایاب‘‘ یا ’’نامیسر‘‘ چیز کی خواہش نہ ہو، اور وہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے سرگرم و سرگرداں نہ ہو اور اسی ’’نایاب‘‘ یا ’’نامیسر‘‘ کے حصول کی کوشش نہ کرتا ہو۔ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس نامیسر شئے کو اس شخص یا اس ذات سے مانگے جو اس کا مالک ہے۔ مذہبی اصطلاح میں اسی ’’مانگنے‘‘ کو دعا کہتے ہیں۔ کبھی کبھی اس چیز کو حاصل کرنے کیلئے سفارش کی ضرورت بھی ہوتی ہے، اس سفارش کو ’’وسیلہ‘‘ کہتے ہیں۔ایک بندئہ مومن کے نزدیک ہر شئے کا مالک و مختار خداوند عالم ہے لہٰذا ہر مومن اپنی ضرورت کے لئے خداوند عالم کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرتا ہے۔ یہی اصل دعا ہے۔ چونکہ خطاکار یا گنہگار ہونے کی وجہ سے ہر مومن کی خدا وند عالم تک رسائی ممکن نہیں ہے اور اسی وجہ سے دعا کا قبول ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا بارگاہِ الٰہی میں دعا پیش کرنے اور دعا کے قبول ہونے کے لئے ان ذواتِ مقدسہ کا وسیلہ بھی درکار ہوتا ہے جن کو بارگاہِ احدیت میں اپنی طاعت و عبادت، زہد و تقویٰ اور عصمت و طہارت کی وجہ سے تقرب حاصل ہے۔ مگر ان مقربانِ الٰہی کی حمایت اسی وقت حاصل ہوگی جب دعا کرنے والے کو ان ذواتِ مقدسہ کی عظمت و جلالت کا بھی عرفان ہو۔ ان معصومین ؑ اور مقربانِ الٰہی کا ہم پر عظیم احسان اور فیضان ہے کہ انہوں نے ہمیں معرفت الٰہی اور خضوع و خشوع سے بھرپور دعائیں تعلیم فرمائیں تاکہ ہماری دعائیں قبول ہوسکیں۔یہ صحیح ہے کہ ہماری ہر دعا قبول نہیں ہوتی، لیکن اس کی وجہ یا تو خداوند کریم کی کوئی مصلحت ہوتی ہے جو حقیقتاً ہمارے لئے مفید ہوتی ہے یا ہمارا عمل اور کردار ایسا ہوتا ہے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتا ہے، جیسا کہ دعائے کمیل میں ہے کہ ’’اللہم اغفرلی الذنوبَ التی تحبسُ الدعاء‘‘ (اے پروردگار میرے اُن گناہو ںکو بخش دے جو دعا کو قبول نہیں ہونے دیتے) لیکن ایک مرد مومن کو دعائیں قبول نہ ہونے کی صورت میں بھی منصوص دعائیں پڑھتے رہنا چاہئے اس لئے کہ ان کے پڑھنے کا بیحد اجر و ثواب ہے۔حضرت امام زین العابدین ؑ کی ایک انتہائی مؤثر، جاں گداز اور عجز و ندامت سے بھرپور دعا کا انداز اور سلیقہ ملاحظہ ہو: (دعائے ابوحمزئہ ثمالی جسے ماہِ رمضان میں روزانہ بوقت سحر پڑھنے کی تاکید ہے، اس میں امام ؑ فرماتے ہیں) الٰہی اِن ادخلتنی النارففی ذالک سرور عدوک وان ادخلتنی النجۃ ففی ذالک سرور نبیّکَ وانا واللہ اعلمُ اَن سرورُ نبیّکَ احبُ الیک من سرور عدوک۔ (یعنی اے میرے اللہ! اگر تو مجھے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا تو اس سے تیرے دشمن خوش ہوں گے اور اگر تو مجھے جنت میں داخل کردے گا تو تیرے نبیؐ کو خوشی ہوگی۔ اور خدا کی قسم مجھے یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ تجھے اپنے نبیؐ کی خوشی کہیں زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ تیرا دشمن خوش ہو)اسی طرح دشمن سے حفاظت کی دعا تعلیم فرماتے ہوئے کہتے ہیں:یاسیّدی… خذعنیُ بِاسماعِ وابصارِ اعدآئی و حُسّادی والباغینَ علیَّ وانصرنی علیہم (بِحقّ کٓہٰیٰعٓصٓ و ربِّ صلِ علیٰ محمدٍ واٰلِ محمد)اے سیدو آقا! میرے دشمنوں کی نگاہوں کو، ان کی سماعت کو، ان کے حسد کو اور ان کے بغاوت کے جذبہ کو مجھ سے دور کردے اور ان پر میری نصرت فرما بحق کٓہٰیٰعٓصٓ اور اے ربّ پاک! محمدؐ اور آلِ محمد ؐ پر اپنی خصوصی رحمت (درود) نازل فرما۔دعا کا اثر: مندرجہ بالا دعا کے ذیل میں قارئین کے استفادہ کے لئے، اصل مضمون سے ہٹ کر، ایک واقعہ پیش ہے جو الجوادؔ ظفر الملۃ نمبر (1983 ء) میں شائع ہوا۔ سید ظہیر الحسن عزمؔ ہلوری مرحوم (سابق صدر قانون گو) تحریر فرماتے ہیں: ’’… بحیثیت قانون گو میرا تبادلہ بنارس میں ہوگیا۔ اردلی بازار میں مومنین کرام کے درمیان کرایہ کا ایک کمرہ لے کر قیام کیا۔ ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک جن سنگھی (آر ایس ایس کا ممبر) افسر آگیا۔ اُسے شاید میرے چہرے پر داڑھی پسند نہ آئی۔ چارج لینے کے کچھ ہی دن بعد میرے اوپر کچھ فرضی جرم لگاتے ہوئے بلاوجہ معطل کردیا۔ میں حیران و پریشان مولانا ظفرالحسن صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ میں نے براہِ راست سوال کیا کہ آپ نائب امام زمانہ عج ہیں یا نہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ آپ کے اس سوال کا مقصد کیا ہے، مقصد بیان کیجئے۔ میں نے اپنی روداد سنائی اور کہا کہ اگر امام ؑ پردئہ غیب میں نہ ہوتے تو میں انصاف کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، مگر ان کی غیبت میں نائب امام کو بھی وہی طاقت حاصل ہونی چاہئے جو امام ؑ کو حاصل ہے۔ انصاف لینے کے لئے نائب امام کی تلاش ہے…… مولانا جو سر جھکائے ہوئے میری گفتگو سن رہے تھے ایک مرتبہ سر اُٹھاکر بولے آپ چاہتے کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ تین دن کے اندر اپنی ملازمت کی بحالی اور اس ظالم افسر کو سزا۔ … مولانا (مرحوم) نے ایک چھوٹی سی (مندرجہ بالا) دعا لکھ کر دی اور کہا کہ ’’جایئے نماز فجر اور مغرب کے بعد ایک تسبیح اس دعا کو پڑھئے۔ انشاء اللہ وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں۔‘‘ دعا کے پرچے کو ہاتھ میں لے کر میں پھر سوچ میں پڑگیا کہ اگر میری زبان میں اتنا ہی اثر ہوتا تو مجھے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی، میں تو روزانہ بہت سی دعائیں پڑھتا رہتا ہوں…… میں ابھی ان شیطانی وسوسوں میں گرفتار تھا کہ مولانا نے پھر سر اٹھایا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ جایئے آپ بھی پڑھئے، میں بھی پڑھوں گا اور انشاء اللہ وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں۔‘‘ مولانا کا وہ چہرہ آج بھی جب تصور میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے تو کانپ جاتا ہوں… تیسرے دن دس بجے کے قریب اردلی بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا میر صاحب مبارک ہو… آپ بحال ہوگئے۔ بڑے صاحب کا (سزا کے طور پر) تبادلہ پتھوڑا گڑھ (‘C’ class city hill town)   میں ہوگیا اور ان کے پچھلے ایک ہفتہ کے کل آرڈر کالعدم قرار دے دیئے گئے…‘‘ یہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ فوراً سجدئہ شکر بجا لایا۔‘‘یہ ہیں معصومین علیہم السلام سے منصوص دعائوں کے اثرات بشرطیکہ انہیں سمجھ کر اور خضوع و خشوع سے پڑھا جائے۔اب آیئے شرح دعائے افتتاح کی طرف رجوع کریں جو 2003 ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی جیسا کہ ڈاکٹر سید مسعودؔ حسن رضوی نے قطعہ تاریخ میں نظم کیا ہے  ؎سال شمسی میں لکھی مسعودؔ نے تاریخ طبع’’گوہر ِ اصل ِ کرامت ہے دعائے افتتاح‘‘2003ماہِ مبارک رمضان کو روایات کے مطابق خداوند کریم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور اس مہینے میں ’صوم‘ یعنی روزے کی عبادت و ریاضت کی جزا میں رحمت و مغفرت، صحت و سلامتی، وسعت رزق و خیرو برکت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ دعائے افتتاح جو ماہِ مبارک رمضان میں پڑھی جاتی ہے اس میں  ایک روزہ دار بارگاہِ ایزدی میں اپنی گناہوں کے لئے مغفرت کا طلبگار ہوتا ہے، التجا اور استغاثہ کرتا ہے اور دعا کی قبولیت کے لئے خداوند عالم کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جناب رسالت مآبؐ اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب کا ذکر کرتے ہوئے انہیں وسیلہ قرار دیتا ہے۔علامہ غرویؔ نے اپنی کتاب میں تقریباً ان تمام ذات و صفات و القاب کی بڑی شرح و بسط کے ساتھ توضیح و تشریح فرمائی ہے۔ مجھ ہیچمداں کے لئے ممکن نہیں کہ میں اس مختصر گفتگو میں ان کا احاطہ و احصا کرسکوں۔ البتہ کچھ اہم اور ضروری نکات کا ذکر کررہا ہوں۔پہلا اہم مسئلہ اس دعائے جلیل القدر کے اسناد کا ہے۔ کچھ لوگوں نے ابہام پیدا کیا کہ یہ دعا حضرت ولی العصر ؑ کے لب اقدس سے نکلی ہوئی دعا ہے یا ابوجعفرؔ محمد بن عثمان عمری یا محمدؔ بن ابی قرہ، جو اس دعا کے ناقل ہیں، ان کی اپنی ذاتی دعا ہے۔ اس مسئلہ میں علامہ غرویؔ نے سید ابنؔ طاؤس علیہ الرحمہ کی عظمت و جلالت و صداقت کا ذکر کرنے کے بعد ان کے حوالہ سے نیز علامہ مجلسیؔؒ اور حسن امین عاملیؔ علیہما الرحمہ کے مکتوبات سے استفادہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ’دعائے افتتاح‘ لب ہائے مبارک اقدس حضرت صاحب الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نکلے ہوئے الفاظ قدسیہ ہیں یعنی یہ دعائے جلیل القدر امام عصر عجل اللہ تعالیٰ کا ہی کلام ہے۔علامہ نے دعا کی سندیں پیش کرنے کے بعد دعا کے ہر لفظ کی شرح اس طرح کی ہے کہ انہیں پڑھ کر طبیعیت وجد کرنے لگتی ہے۔ اس دعائے مبارکہ کا پہلا لفظ اللّٰہُمَّ ہے اس کی شرح میرے علم میں ایک پرُکیف اضافہ ہے۔ شعور کے بعد سے ہمیشہ مجھے یہ تجسس رہا کہ تقریباً ہر دعا میں ’یااللہ‘ کے بجائے لفظ ’اللہ‘ میں ’میم مشدد‘ (مّ) کے اضافہ کے ساتھ اللّٰہُمَّ = اللہ+ مّ‘ کیوں ہے؟ علامہ موصوف نے بہت خوب وضاحت فرمائی کہ ’’میم کی تشدید میں راز یہ ہے کہ نام محمدؐ میں دو میم ہیں۔ ایک میم ملک ہے اور دوسری میم ملکوت: معبود برحق نے یہ دونوں میم اپنے حبیب کے نام میں ودیعت فرمائے ہیں، اس اشارے کے طور پر کہ ملک اور ملکوت دونوں عالموں کا راز انہیں (ص) کے پاس ہے۔‘‘ میم مشدد کی مزید توضیح فرمائی کہ وجودِ الٰہی ازل سے ہے اور وجودِ محبوبِ الٰہی اوّلیں نورِ الٰہی ہے اس اراتباط سے پہلی ’میم‘ جناب ’محمدؐ‘ کی ہے اور دوسری یعنی آخری ’میم‘ بنی نوعِ انسان کی پہلی فرد حضرت آدم ؑ کے نام کی ہے۔ سبحان اللہ۔ شاید اسی مخفی ارتباط کی وجہ سے بارگاہِ قاضی الحاجات میں استغاثہ کرنے والے کی جو کیفیت اللّٰہُمَّ کہنے میں ہوتی ہے وہ یااللہ کہنے میں نہیں ہوتی۔لفظ ’’اِنّی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’یہ حرف اثبات و ثبات ہے مقام ابتہال میں! یہ بندے کا حضور معبود میں عاجزانہ قیام ہے۔ یہ ’’اِنّی‘‘ انانیت کا متکبرانہ اظہار نہیں ہے بلکہ معبود برحق کے حضور میں اپنی فقیرانہ حیثیت کا اعتراف ہے جس میں حسن التفات اور حسن عنایت کی طلب بھی مضمر ہے۔‘‘لفظ ’’الثناء‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ثنآء‘‘ عربی میں الف ممدودہ اور ہمزہ کے ساتھ ہے۔ اُردو میں آکر یہی لفظ ’’ثنا‘‘ بن گیا اور لفظ ’’حمد‘‘ کا ردیف مستقل یا تابع موزوں، تابع احسن و اجمل۔ اکثر ’’حمدوثنا‘‘ یا ’’مدح و ثنا‘‘ کے الفاظ ساتھ ساتھ ہی آتے ہیں۔ انیسؔ کی مشہور بیت ہے ۔آخر ہے رات حمدو ثنائے خدا کرو۔ اٹھو! فریضۂ سحری کو ادا کرو۔ اردو میں ثنا کے معنی صرف ’’ مدح تعریف یا توصیف کے ہیں۔ لیکن عربی میں اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اگر چہ وہاں بھی زیادہ تراسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔۔۔“ لفظ ثنا کی تشریح و توصیف کے بعد ”بحمدک “کی بڑی پیاری شرح لکھی ہے۔ لکھتے ہیں ”بحمدک“میں جو ”ب“ ہے یہ وہی ہے جو بسم اللہ کے شروع میں ہے۔ حروف جارّہ میں حرف با (ب) چودہ معانی ، کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بائے بسم اللہ کی قسم ! مجھے اس حسنِ اتفاق پر ایمان افروز حیرت و مسرت ہے کہ ایک ہی حرف باء سے چودہ ابواب معنیٰ کھلتے ہوئے نظر اآتے ہیں۔ حضرت نبی کریم ‍ﷺ سے دو حدیثیں ایک ہی انداز پر وارد ہوئی ہیں۔ یہاں ”بحمدک“ میں ان ارشاد ات کی بھی تعمیل ہو رہی ہے۔ یعنی (1)ہر قابل لحاظ امر جو بسم اللہ ، سے شروع نہ ہو گا وہ بے ثمررہ جائیگا۔ (2) ہر امر جو معبود بر حق کی حمد سے شروع نہ ہوگا وہ بے نتیجہ رہیگا۔“یہ افتتاحی مثالیں تھیں۔ علامہ غروی نے مختلف عنوانات کے تحت اس دعا کی شرح میں پچاس سے زیادہ ابواب قائم کئے ہیں۔ ہر باب کا عنوان بذات خود بڑی جامعیت کا حامل ہے۔ ان پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس باب میں کس موضوع پر گفتگو ہے۔حقیر کے الفاظ میں ؎  بابِ شرح متن وا ہوتا ہے عنوان دیکھ کر مثلاً جس استتاد یا صحت سند کے عنوان سے واضح ہے کہ اِس باب میں ”دعائے افتتاح“ کےاسناد کے بارے میں گفتگو ہے۔ ”مطلعِ دعا“ میں عنوان بول رہا ہے کہ دعا کے ابتدائی کلمات کی شرح اس باب میں ہے۔ ”اذن دعا یا باب قبول“ سے ظاہر ہے کہ یہ باب عظمت دعا ، اہمیت دعا اور اسے پڑھنے کے لئے اجازت طلب کرنے سے متعلق ہے۔ تمام دعاوں کا مرکز اور محور ، مخاطب حقیقی یعنی ذاتِ اقدسِ احدیت ، پروردگار عالم کی توحید کی تشریح میں پانچ ابواب قائم کئے ہیں۔ (1) نمود توحید، (2)جمال توحید، (3،4)جلال توحید (6باب((5)”کمال توحید“ اسی طرح ”لطف ربو بیت یا فیضان ہدایت “باب کی ابتدا ہی قرآن سے ہو رہی ہے۔ تمام تعریفیں اس معبود برحق کی ہیں جس نے (اس باب راہ نجات و فردوس تک) ہماری رہنمائی فرمائی اگر وہ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم ہدایت پانے والے نہ تھے۔ (اعراف 43) یہ لطفِ پروردگار ہی تو ہے کہ اس نے ہمیں راہِ ہدایت پر لگا دیا ورنہ یہ راستہ ہم پا ہی نہیں سکتے تھے اگر اللہ اپنے فیضان ِ ہدایت کے تحت ہماری رہنمائی نہ کرتا۔“ یہی وہ حقائق ہیں جو خالق کائنات نے قرآن مجید کے سورہ & اعلیٰ کی ابتدائی تین اآیات میں ارشاد فرمائے ہیں۔ ”تسبیح و تقدیس کرو  اس اکبر و اعلیٰ پروردگار کی جس نے (بنی نوع انسان کو )پیدا کیا پھر اسے (عقل و شعور و صلاحیتوں سے مزین کرکے)درست کیا ، اختیار بھی دیا مگر ساتھ ہی ہدایت کا سامان بھی فراہم کیا۔ (اعلیٰ اتا 3) اسی طرح ”درود بے پایاں “اور ”سلام فروزاں“ کے ابواب میں درود و سلام کی عظمت و برکات کا تفصیلی تذکرہ ہے جو باب کے عنوان ہی سے عیاں ہے۔ دعائے افتتاح کے اختتامی ابواب میں دعا کی تکمیل اور قبولیت کے لئے جناب رسالتماب ؐ اور اہلبیت ؑ کا تفصیلی بیان ہے۔ علامہ غروی نے فضائل و مناقب کے سمندر کو بڑے سلیقہ سے سمیٹ کر ایک پاک و پاکیزہ حوض کوثر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ جس سے تشنگان معرفت سیراب ہو سکیں۔سب سے پہلے افضل المرسلین پیغمبر ؐ کی ولادت با سعادت کا ذکر ہے۔ اس کے بارے میں آپ لکھتے ہیں”آپ ؐ کی تاریخ تخلیق کا مصرع تو لوحِ عرش کی زینت ہے، نہ اسے کوئی پڑھ سکتا ہے اور نہ بتا سکتا ہے کہ آپ کا نور مبارک کب خلق ہوا؟۔”ہمیں تو آپ ہی کی زبانی معلوم ہوا۔” اول ماخلق اللہ نوری“ یعنی معبود نے جو سب سے پہلے خلق کیا وہ میرا نور تھا۔ اسی مناسبت سے علامہ غروی ؔ نے اپنے لغتیہ قصیدہ کے حاشیہ پر ایک بیت لکھی ہے ؎ظلمتِ تاریخ کے فرزند کیا پائیں سراغ۔ اسکی تاریخ بجلی عرش پر تحریر ہے۔ اسی طرح کوئی نہیں بتا سکتا کہ آپ کی نبوت کا سلسلہ کب شروع ہوا۔۔۔۔۔۔“اب اس کے بعد آپ ؐ کے القاب کا ذکر ہے۔ دعا میں سرکار دو عالم ؐ کے لئے ”عبدک و رسولک“ کے القاب استعمال کئے گئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں بھی آپ ؐ کو ’عبد‘ کہا گیا ہے۔ نماز کے تشہد میں بھی آپ کےلئے ’عبدہ ورسولہ‘ کے الفاظ ہیں۔ جہانتک لفظ رسول کا تعلق ہے تو یہ آپ ؐ کا منصب جلیلتہ القدر تھا ہی، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ پہلے ”عبد“ کا لفظ ہے۔ عبد کا ترجمہ اردو میں غلام کے طور پر کیا گیا ہے۔ حالانکہ غلام کا لفظ پورے طور پر عربی کے عبد کا مفہوم ادا نہیں کرتا ۔ پھر بھی اردو کا ہی مفہوم لیجئے تو غلام اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ہر فعل میں اپنے آقا (مالک ) کا تابع ہو تا ہے۔ آنحضرت ؐ کے لئے’ ماینطق عن الہوٰی‘ کی آیت آپ ؐ کے ’عبد خاص‘ ہونے کی سند ہے۔یہی لفظ ’عبدک‘ حضرت علی ؑ کے لئے بھی دعا میں استعمال ہوا ہے۔ جس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ غرویؔ لکھتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ واآلہٖ ـسلم پر درود و صلوات کے ضمن میںلفظ’ عبدک‘ آیا ہے اوریہاں وصی نبی علیہما الصلٰوۃ والسلام پر درود وصلوٰۃ کے فقرے میں بھی یہ لفظ موجود ہے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اور کیسے بندے ہیں اس کا اندازہ اس مشہور واقعے سے کیا جا سکتا ہے کہ جنگ احد میں آپ کے بدن مبارک میںتیر پیوست ہو گیا جس میں اس قدر تکلیف تھی کہ اس کا نکالنا دشوار ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال جب آنحضرت ؐ سے بیان کی گئی تو آپؐ نے فرمایا جب علی نماز میں مشغول ہوں تو تیران کے بدن سے نکال لینا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ حالت نماز میں آپ ؐ کے بدن مبارک سے تیرنکال لیا گیا۔ اور آپ کو ذرا بھی احساس نہ ہوا۔“اسی طرح حدیث غدیر کی تشریح کے ضمن میں شاہ حسنؔ جائسی کا یہ شعر بر محل نقل فرمایا ہے۔عبث درمعنی من کنت مولیٰ می روی ہر سو‘ علی ؑ مولیٰ بہ ایں معنیٰ کہ پیغمبر ؐ بود مولیٰ”سلام فروزاں“ کے باب میں مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ الصلوٰۃ واتسلیم کے فضائل و مناقب درج ہیں۔ اس باب میں جناب امیر ؑ کے مختلف القاب و اوصاف کا بیان ہے اور علامہ نے اس پر بہت پرُمغز اور تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی مولانا نے ذات اقدس کے بیان میں مختلف شعراء کے تاثرات اور اشعار بھی نقل فرمائے۔ یہاں مشہور زمانہ فارسی شاعر شیخ سعدیؔ کے شعر کا ذکر کافی ہوگا   ؎کسے را میسر نہ شد این سعادتبہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادتدعا میں جناب امیر ؑ کے مشہور القاب کے علاوہ دو بہت ہی اہم القاب بھی بیان کئے گئے ہیں۔ ’’آیتک الکبریٰ‘‘ اور ’’النباء العظیم‘‘۔ جہاں تک آپ کے آیت الکبریٰ یا اللہ کی عظیم نشانی ہونے کا تعلق ہے تو واضح ہے کہ آپ کی ذات متضاد صفتوں اور اعجازی شان کی حامل تھی، اسی لئے نصیریوں نے گھبراکر خدا مان لیا، لیکن دعا میں النباء العظیم (یعنی ایک عظیم خبریا ایک عظیم پیغام) کہا گیا ہے۔ ان الفاظ کا ظاہری مطلب تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس انتہائی فصیح و بلیغ لفظ ’النباء العظیم‘ کی تشریح بھی ہوگئی ہوتی تو بہتر تھا۔علامہ اقبالؔ کی مثنوی ’اسرار خودی‘ سے مولانا نے مدح مولیٰ میں ایک مشہور و معروف نظم نقل کی ہے، جس کا پہلا شعر ہے   ؎مسلم اوّل شہہ مرداں علی ؑ عشق را سرمایۂ ایماں علی ؑاسی نظم کے دو تین شعر اور نقل کئے جارہے ہیں جو معرفت علی ؑ کا خزانہ ہیں   ؎ہر کہ دانائے رموز زندگیستسِرِّ اسمائے علی ؑ داند کہ چیستہر کہ در آفاق گرددبو تراب باز گرداند ز مغرب آفتاباز خود آگاہی ید اللّٰہی کنداز ید اللّٰہی شہنشاہی کندمناقب مرتضویؑ کے بعد معصومۂ کونین سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کے سمندر میں بھی علامہ غرویؔ نے خوب غوطہ زنی کی ہے۔ حاصل شدہ جواہر پاروں سے اپنی اس کتاب ’چراغِ راہ‘ پر خوب نورانی بارش کی ہے تبرکاً صرف ایک جملہ پیش کردینا کافی ہے جسے علامہ آیت اللہ سید محمد کاظم قزوینیؒ نے اپنی کتاب ”فاطمۃ من المہدالی اللحد‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔’’فاطمۃوما ادراک فاطمہ؟ (فاطمہؐ! اور تم کیا سمجھو کہ فاطمہؐ کون ہیں؟‘‘ اور خود بی بیؐ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبہ میں فرمایا ’’اعلموا انّی فاطمہ! (آگاہ ہوجائو کہ میں فاطمہ ہوں!)‘‘اس کے بعد علامہ نے ’’سبطین رحمت‘‘ کا باب قائم کیا ہے۔ یہ ذرا تفصیلی باب ہے۔ اس کے تحت سبط اکبر ؑ اور سبط اصغر ؑ نام سے دو باب اور رقم ہوئے ہیں۔ دعا کا فقرہ ؏”وصل علیٰ سبطی الرحمۃ… “(درود و سلام ہو سبطین ؑ رحمت پر) ’’سبطین رحمت‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’’سبطی الرحمۃ (سبطین رحمت) کس قدر فکر انگیز ترکیب ہے۔ سبط کے معنی نواسے کے ہوتے ہیں۔ بیشک حسنین علیہما السلام آنحضرؐت کے نواسے تھے لیکن یہاں پر آنحضرؐت کے نام نامی کے بجائے صرف لفظ رحمت ہے، گویا اسی فقرے میں حضوؐر کی نعت ِ مبارک کا بحر بیکراں بھی موجزن ہے کہ آپ کو عین رحمت کہا گیا ہے۔ آپ کے رحمت کے جتنے بھی قصیدے کہے گئے ہیں  وہ اس فقرے پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔‘‘ سبطین رحمت کی مدح میں علامہ نے ایک جدید دل پذیر نظم کسی شاعر کی تحریر کی ہے جو بار بار پڑھنے کو دعوت دیتی ہے۔اسی طرح ’’دعائے افتتاح‘‘ کے کلمات کی روشنی میں تمام ائمۂ معصومین علیہم السلام کے فضائل و مناقب کے دریا بہائے ہیں۔ امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم عجل اللہ تعالیٰ فرجہٗ الشریف کی ولادت، غیبت، ظہور، قیام سلطنت، عدالت اور ہدایت وغیرہ پر کافی و وافی روشنی ڈالی ہے۔ فریقین کے مستند اور مسلم حوالوں سے اپنے دعوئوں پر دلیل پیش کی ہے۔ اسی ذیل میں ’’عدلِ منتظر‘‘ کا باب بھی قائم کیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔آخر کلام میں علامہ غروی نے دعائے افتتاح کے آخری دعائیہ فقروں کی شرح پر کتاب مکمل کی ہے اور انہیں دعائوں کے ترجمے پر یہ مضمون بھی پایۂ تکمیل کو پہونچ رہا ہے۔ ’’گرقبول افتد زہے عزوشرف‘‘ ’’اے معبود! ہمیں تجھ سے اپنے نبیؐ کی جدائی کا گلہ ہے اور اپنے ولی (اپنے سرپرست، اپنے امام) کی غیبت کا اور اپنے دشمنوں کی زیادتی کا اور اپنے افراد کی کمی کا اور اپنی آزمائشوں کی سختی کا اور زمانے بھر کے ستم کا بھی گلہ ہے۔ پس رحمت فرما محمدؐ اور ان کی آل پر، اور ہماری مدد فرما اپنی طرف سے جلد کامیابی دے کر، نقصان سے بچاکر، نصرت کا اعزاز دے کر، حق کے اقتدار کو قائم کرکے، ہمیں اپنی رحمتوں کے سایے میں لے کر، ہمیں اپنی جانب سے لباسِ عافیت پہناکر تجھے قسم ہے تری رحمت کی۔ اے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے!!“اپنے کوتاہیٔ قلم کے اعتراف کے ساتھ اب ہم علامہ عقیل الغروی زاد برکاتہٗ الشریف کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں از دیاد توفیق ِ علم و عمل اور جذبۂ تبلیغ و اشاعت ِ حق کے ساتھ طول عمر عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here