موسی رضا
انسان میں پائی جانے والی صفات دو طرح کی ہوتی ہیں کچھ وہ جو اسے معاشرے میں عزت بخشتی ہیں، سماج میں شہرت عطا کرتی ہیں اورہر فرد کی زبان اس کے حسن صفات میں تر رہتی ہے۔ دوسری وہ جو اسے انسانی نظروں میں ناگوار بنادیتی ہیں، لوگ دیکھ کے راہ بدلتے ہیں اور ہر شخص فقط واجبی رسم و روابط رکھنا پسند کرتا ہے۔صفت کے یہ دونوں اقسا م کسی بھی انسان میں پائے جائیں عوامی سطح پرانکا رد عمل یکساں نظر آتا ہے لیکن ان اقسام کے علاوہ صفت کی ایک نوعیت اوربھی ہے جو ایک انسان کے لئے توزینت کا سبب بنتی ہے لیکن دوسرے انسان کے لئے باعث ذلت ورسوائی قرار پاتی ہے اور ایسا اس لئے ہے کہ صفت کی اس نوعیت کے کچھ تقاضے ہیں جن کے بغیر انسان کا اس سے متصف ہونا عوام کو پھونٹی آنکھ بھی نہیں بھاتا۔اس گفتگو کی وضاحت کے لئے انیس کا یہ شعر نہایت موزوں ترین محسوس ہوتا ہے کہ ؎
ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لئے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لئے
’انانیت‘ (جس کے لغوی معنی ’خودی‘، ’غرور‘،خود ستائی وغیرہ کے ہیں)بھی اسی نوعیت کی ایک صفت ہے جو ہر شخص کو زیب نہیں دیتی اس کے لئے انسان میں غیر معمولی صلاحیت او ر کمال کا موجود ہونا ضروری ہے، کمتر درجہ کی صلاحیت اور کمال رکھنے والا شخص بھی باطن میں انانیت کی گونج محسوس کرتا ہے مگر عدم اعتماد کی بنا پر اس کے اظہار کی جرأت نہیں کرپاتاجب انسان جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے بعد خود میں ایسا ملکہ پیدا کر لے کہ اسکا کہا ہوا مستند اور بیان کیا ہوا گنجینہ معنی سے پُر نظر آنے لگے ،اس وقت اس کے منھ سے نکلنے والے لفظِ ’میں‘ کو عوام سراہتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ تعلّی کے اشعار انھیں شعرا کو زیب دیتے ہیں جن کو زمانہ نابغہ روزگار گردانتا ہے۔انانیت سے بھرپور انیسؔ کا یہ شعر
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
انکے لئے باعث حسن اس لئے بن جاتا ہے کیونکہ انکی فکر کی انفرادیت نے شاعری کی دنیا کو وہ مضامین بخشے جو انوکھے بھی ہیں اور اعلی بھی۔یا اسی طرح میر ؔ کا شعر
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اور غالب کا شعر ؎
گنجینہ معنی کا طلسم اسکو سمجھئے
وہ لفظ جو غالب ترے اشعار میں آوے
بھی انانیت کو ظاہر کرتے ہیں مگر یہ انانیت عوام کو اس لئے پسند ہے کیونکہ ان کا فن کمال و جمال دونوں سے لبریز ہے۔ خاندانی علویت بھی انسان میں انانیت کی صفت پیدا کر تی ہے ۔ ایک بچہ کے سامنے اس کے آباو اجداد کی بے پناہ تعظیم و تکریم کی جائے تو از خوداس میں یہ چاہت پنپنے لگے گی کہ اسے دوسروں سے اعلیٰ و ارفع تصور کیا جائے اور جس قدر اس کی عمر بڑھے گی اس چاہت میں بھی شدت پیدا ہوگی۔مگر اس چاہت کی تکمیل و استقلال کیلئے اسے اپنے بزرگوں کی خوبیوں کا حامل ہونا پڑے گا۔اس تمام گفتگو کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان ریاضت و ذہانت کے ذریعہ آسمان جلالت کا نیر اعظم بن جائے یا تعظیم و تکریم اسے وراثت میں مل جائے تو اس میں ’انانیت‘ کا عکس قابل دید ہوتا ہے وگرنہ یہی’ انانیت‘ سامان ذلالت بھی فراہم کر دیتی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت صرف ماہر فن کی حیثیت سے نہیں بلکہ ’ماہر فنون‘ کی حیثیت سے جاناجاتا ہے نیز ان کا نانہال و دادہیال دونوں ہی پیر و مرشد اور عالم و زاہد کے عنوان سے اپنی ایک تاریخ رکھتاہے۔ ایسے میں مولانا کی شخصیت میں ’انانیت‘کے چشمہ کا جوش مارنا فطری تھا۔اگر یہ کہاجائے کہ مولانا میں انانیت اوروں کے مقابلہ زیادہ تھی تو غلط نہ ہوگا۔
مولانا انانیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’یہ انانیت در اصل اس کے سوا کچھ نہیںہے کہ اس کی فکری انفرادیت کا قدرتی سرجوش ہے جسے وہ(انسان) دبا نہیں سکتا اگر دبانا چاہتا ہے تو اور زیادہ ابھرنے لگتی ہے اور اپنی ہستی کا اثبات کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انسان کی تمام معنوی محسوسات کی طرح اس کی انفرادیت کی نمود بھی مختلف طرح کی نوعیت رکھتی ہے۔ کبھی وہ سوتی رہتی ہے کبھی جاگ اٹھتی ہے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے، اور پھر کبھی زور شور سے اچھلنے لگتی ہے۔ ۔۔۔۔جس طرح ہر انسان کا ذہن و ادراک یکساں درجہ کا نہیں ہوتا، اسی طرح انفرادیت کا جوش بھی ہر دیگ میں ایک ہی طرح نہیں ابلتا۔‘‘( غبار خاطر خط 17)
چونکہ دوسروں کی بہ نسبت مولانا آزاد حساس طبیعت، زود فہم دماغ اور اعلیٰ فکری انفرادیت رکھتے تھے لہٰذا ان کے ’انانیتی چشمہ‘کاابال اوروں سے زیادہ ہونا لازمی تھا۔ یہ انانیت کا ہی زور تھا جس نے مولانا کی تحریر میں بھی ان کی شخصیت کو بے پردہ نہ ہونے دیا، حتی کہ خطوط جن میں کاتب مکتوب الیہ سے بے تکلف گفتگو کرتا ہے جیسا کہ غالب نے اپنے خطوط میں کی ہے، ان میں بھی مولانا آزاد نے بے حجابانہ طرز تحریر سے کلی طور پرہیز کرتے ہوئے اپنی انانیت کو محفوظ رکھا ہے اور جب فضل الدین احمد کی فرمائش پر ’تذکرہ‘ تصنیف کی جس میں اپنے خاندانی حالات قلمبند کئے ہیں تو بھی خود کو پس پردہ ہی رکھا۔ کوئی بھی انسان جب طفلی سے نوخیزی اور نوخیزی سے عمر کی پختگی کا سفر طے کرتا ہے تو کامیابیوں کی جرعہ کشی کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کاغمخوار بھی ہوتا ہے اس سفر میں وہ کامرانیوں سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور اپنی لغزشوں کے باعث شرمندی بھی اٹھاتا ہے اور جب اسی سفر کو ضابطہ تحریر میں لاتا ہے تو تمام باتیں من و عن بیان کر دیتااس سے بے نیاز ہوکر کے پڑھنے والا خوبی کے ساتھ ساتھ خامی سے بھی واقف ہوجائیگا لیکن جب ہم مولانا آزاد کے تحریر کردہ واقعات پر نظر ڈالتے ہیںتو ان میں ہر پہلوPerfectنظرآتا ہے ان باتوں کاذکر نہ کے برابرہے جن سے مولانا کی ذات کا کوئی کمزوریا قابل تنقید پہلونمایاں ہوتا ہواس کی ایک مثال ہمیں قلعہ احمد نگر کی جیل سے لکھے21 ویں خط میں ملتی ہے جس میں مولانانے اپنی زوجہ کی رحلت کا ذکر تو کیا ہے مگر اس میں بھی غم کا سیلاب بڑی احتیاط کے ساتھ قلم کی سیاہی کے ذریعہ قرطاس کے صحرا میں بہتا ہوا نظر آتاہے ۔ رحلت کی خبر سننے کے بعد جلوت میں نہ سہی مگر خلوت میں بے اختیار مولانا کی آنکھ سے ایک دو آنسو ضرور نکل پڑے ہوںگے مگر پورے خط میں مولانا نے کہیں ایسا کوئی بھی ذکر نہیں کیا جو ان کی عاجزی کو ظاہر کرتا ہو اور انانیت کو ضرب لگاتاہو۔مولانا نے اگر کہیں اپنی عاجزی کا اظہار کیا بھی ہے تو وہ بھی ان کی علویت کا پیش خیمہ بن کرسامنے آیا ہے غبار خاطر کے آخری اور 24ویں خط میں مولانا فن موسیقی پر گفتگو کرتے ہوئے مسٹرڈینسن کاذکر کرتے ہیں جنہوں نے مولانا کے ہاتھ میں فن موسیقی کی کتاب دیکھ کر کہاتھا
’’ہندوستان کا فن موسیقی بہت مشکل فن ہے، کیا تم اس کتاب کے مطالب سمجھ سکتے ہو‘‘ مولانا نے جواب دیا ’’جو کتاب بھی لکھی جاتی ہے ، اسی لئے لکھی جاتی ہے کہ لوگ پڑھیں اور سمجھیںمیں بھی اسے پڑھونگا تو سمجھ لونگا‘‘ اس پر مسٹر ڈینسن ہنس کر کہا کہ ’’تم اسے نہیں سمجھ سکتے اگر سمجھ سکتے ہو تو مجھے اس صفحہ کا مطلب سمجھائو‘‘ مولانا تحریر کرتے ہیں کہ ’’ میں نے الفاظ تو پڑھ لئے مگر مطلب کچھ سمجھ میں نہیں آیا شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا، اور بالآخر کہنا پڑا اس وقت اس کا مطلب بیان نہیں کرسکتا۔‘‘ اس اعتراف عجز کے بعد مولانا نے اپنے تحصیل فن موسیقی کاذکرتفصیل سے کیا ۔ ظاہرہے اگرہم اتنے ہی ذکر پر اکتفا کرلیں تو یہ انانیت مولانا کے حسن کے بجائے قبح میں بدل جائے گی کیونکہ کسی بھی سنجیدہ شخص کا بلاوجہ یا غیرضروری طور پر اپنی بڑائی کرنا ایک غیر مستحسن عمل سمجھاجاتا ہے چونکہ علم موسیقی کے حصول کا واقعہ خود ستائی کو زیادہ نمایا کر رہا ہے اس لئے اسی خط کے ایک ٹکڑے سے یہ قبح ، حسن تبدیل ہوجاتاہے جس میں مولانا تحریر کرتے ہیں
’’میری عمر سترہ برس سے زیادہ نہ ہوگی ، لیکن اس وقت بھی طبیعت کی افتاد یہی تھی کہ جس میدان میں قدم اٹھائیے، پوری طرح اٹھائے اور جہاں تک راہ ملے بڑھتے ہی جائیے۔ کوئی کام بھی ہو لیکن طبیعت اس پر کبھی راضی نہیں ہوئی کہ ادھورا کر کے چھوڑ دیا جائے۔ ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کوچہ میں بھی قدم رکھا تو جہاں تک راہ ملی قدم بڑھائے جانے میں کوتاہی نہیں کی۔‘‘
نامکمل یا برائے نام فن سے آشنائی حاصل کرکے اس پر فخر کرنا تکبر بے جا کی علامت ہے اور باقاعدہ ہنر سیکھنے کے بعد اس کا ذکر فاخرہ انانیت کی نشانی ہے۔
یہ انانیت صرف تحریرتک محدود نہیں تھی بلکہ مولانا کی زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی انانیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔متذکرہ بالا 21واںخط اس کی واضح دلیل ہے جس میںمولانا بتاتے ہیں کہ زوجہ کی شدیدعلالت کے مد نظر حکومت نے انھیں زوجہ سے ملاقات کرنے کا موقع دیاتھا لیکن مولانا نے اسے قبول نہیں کیا اور اس سنگین خبر(زوجہ کی شدید علالت) معلوم ہوجانے کے بعد بھی اپنے روزہ مرہ کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں کی نہ دوستوں کے ساتھ نشست و برخاست پر کوئی اثر پڑا اورنہ چائے نوشی میں کمی آئی، بالآخر مولانا نے اس ظاہر داریوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا
’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ تمام ظاہرداریاں دکھاوے کا ایک پارٹ تھیں، جسے دماغ کا مغرورانہ احساس کھیلتا رہتا تھا، اور اس لئے کھیلتا تھا کہ کہیں اس کے دامن صبر و قرار پر بے حالی اور پریشان خاطری کا کوئی دھبہ نہ لگ جائے‘‘(غبار خاطر 21واں خط)
مولانا نے اس انانیت کو قائم رکھنے میں بڑی مصیبتوں کا سامنا کیا ہے۔ایک وقت وہ بھی تھا جب مولانا اقتصادی طور پر کافی کمزور تھے مگر ہرایسے عمل سے پرہیز کرتے جو ان کے لئے کسر شان کا باعث بنے۔ عبدا الرزاق ملیح آبادی اپنے ایک مضمون ’مولانا آزاد فقرو فاقہ میں! کچھ تاثرات‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ
’’فقرو فاقہ کے اس زمانے میں مولانا گھر سے باہر نہیںجاتے تھے۔ مجبوراََ جانا ہی پڑتا تو کلکتے میں ٹیکسی پر اور کلکتے کے باہر ریل کے فرسٹ یا سیکنڈ کلاس میں۔ یہ سب کچھ بھی قرض سے ہی ہوا کرتا تھا۔‘‘ (مولانا ابوالکلام آزاد ایک مطالعہ ، مرتب عبدالستار دلوی، صفحہ 32،مطبوعہ این سی پی یو ایل 2015) اسی مقالہ میں عبدالرزاق ملیح آبادی نے مولانا کے ایک سفر کا ذکر کیا ہے جس میں مجبوراََ انھیں ٹریم گاڑی میں بیٹھنا پڑا تھااس دوران مولانا کی حالت کا تذکرہ کرتے ہیں
’’مولانا ٹریم کی بنچ کے بالکل کنارے اس طرح بیٹھے تھے گویا جست لگانے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ بیٹھے نہیں بس یو سمجھئے کہ بنچ پر ٹکے ہوئے تھے اور گھبرا کر ہر طرف دیکھتے جاتے تھے کہ کسی کی نگاہیں تو نہیں پڑ رہی ہیں۔ بالکل گم سم تھے ۔ ایک اسٹینڈ آیا اور ٹریم ٹھہر گوئی ایک دو مسافر داخل ہوئے۔ ٹریم ابھی حرکت میں نہیں آئی تھی کہ ایک مسافر نے زور سے نعرہ مارا ’’السلام علیکم مولانا!‘‘ ساتھ ہی ہاتھ پکڑ کے چومنا شروع کردیا۔ اب حالت ایسی ہوگئی جیسے تپ دق کا کوئی بیمار آخری مرحلے میں ہو۔‘‘(ایضاََ صفحہ 34)
مولانا کے مزاج کی تمکنت، اسلوب کی انفرادیت، تقریر کی جاذبیت ،خاندان کی عظمت اور عوام کی مقبولیت کے پیش نظر ان میں انانیت کا وجود بجا قابل تحسین بھی۔بلکہ یہ انانیت مولانا کی شخصیت اور ان کے رتبہ کی مناسبت سے ضروری بھی تھی کیونکہ مولانا کا یوں ’لئے دئے رہنے‘ والا انداز ان کے رعب و جلالت کا ضامن تھا، جس کے آگے بڑے بڑے سیاستداں اور اعلیٰ افسر مرعوب نظر آتے تھے۔
ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی لکھنؤ کیمپس