عبید اللہ ناصر
ملک میں اس وقت انتخابات کی بہار آی ہوئی ہے -ابھی پنجاب اور منی پور کے لوکل باڈیز کے الیکشن ہوے جس میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کی سب سے بڑی بات پنجاب اور منی پور دونوں جگہ بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی وہیں گجرات میں ہوے لوکل باڈی کے الیکشن میں بی جے پی شاندار کامیابی درج کی اور کانگریس کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا – یہاں عام آدمی پارٹی کی کاکرکردگی کانگریس سے بہتر رہی -سب سے دلچسپ معاملہ دہلی میونسپل کارپوریشن کا ہے جہاں برسہا برس سے بی جے پی کا قبضہ ہے لیکن پانچ حلقوں میں ہوے ضمنی ایلیکشن میں چار پر عام آدمی پارٹی اور ایک پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی – واضح ہے کہ بی جے پی کا گراف تیزی سے رو بہ زؤال ہے اور وہ جن جذباتی فرقہ وارانہ موضوعات پر الیکشن لڑنے اور کامیابی حاصل کرنے میں ماہر ہے وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے ہیں اور عوام اب پھر اپنے اصل مسائل گرانی بیروزگاری معاشی بدحالی اور خاص کر کسانوں کے احتجاج سے پیدا ہوے حالات سے خد کو وابستہ کر ر ہے ہیں۔گودی میڈیا کے ذریعہ پرچار یہ کیا جا رہا ہے کہ گجرات میں عام آدمی پارٹی کو کانگریس سے بھی زیادہ ووٹ ملے ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے ٨٥ لاکھ ووٹوں کے مقابلہ میں کانگریس کو ٦٢ لاکھ ووٹ ملے ہیں یعنی وہ دوسرے نمبر پر ہے۔
لیکن اصل لڑائی ہوگی ان پانچ ریاستوں تمل ناڈو پڈو چیری کیرالہ بنگال اور آسام میں جہاں اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں بی جے پی اپنی حکمت اور کام کرنے کے طریقہ کے مطابق ان پانچوں ریاستوں میں کامیابی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے – الیکشن لڑنے اور کامیابی حاصل کرنے کے بی جے پی قیادت کے جنون کی نہ صرف تعریف کی جانی چاہیے بلکہ اس محنت لگن اور جدو جہد کی نقل بھی کی جانی چاہئے ہاں جو ناجائز غیر قانونی اور غیر اینی اور سب سے بڑھ کر جو غیر اخلاقی طریقہ بی جے پی اختیار کرتی ہے اس پر ضرور لعنت بھیجی جانی چاہئے -ان ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بی جے پی سال بھر سے زیادہ وقفہ سے محنت کر ر ہی ہے خاص کر بنگال پر اس کی خصوصی توجہ رہی ہے -دلال ٹی وی چینلوں انکی یکطرفہ رپورٹنگ اور انکے دلالی والے جایزوں کو اگر نذر انداز کر دیا جائے تو گراؤنڈ رپورٹ یہ ہے کہ ان میں کسی بھی ریاست میں بی جے پی کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے -بنگال میں اب تک ممتا بنرجی کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے مانا جا رہا تھا لیکن بائیں محاز اور کانگریس کے اتحاد کے بعد بنگال کی سب سے بڑی اور مسلم عوام میں بیحد مقبول اور اچھی سیاسی گرفت رکھنے والی فرفرہ شریف درگاہ کے سجادہ نشین پیرزادہ عبّاس صدیقی کی نو تشکیل شدہ سیاسی پارٹی انڈین سیکولر فرنٹ کے اتحاد نے زمینی حقیقت بدل دی ہے۔
اس اتحاد نے کولکتہ کے بریگیڈ میدان میں ایک اندازہ کے مطابق ١٥ لاکھ لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنی طاقت کا اظہار کر دیا ہے -سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آج تک کوئی پارٹی برگیڈ میدان کو بھر نہیں پائی ہے مگر اس اتحاد نے یہ کر کے دکھا دیا اور کل تک جو سیاسی پنڈت اس اتحاد کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے وہ بھی اب کہہ رہے ہیں کہ اب اصل مقابلہ ممتا بنرجی اور لیفٹ کانگریس اور انڈین سیکولر فرنٹ اتحاد کے درمیان ہوگا اور بی جے پی جو کل تک دوسرے نمبر پر تھی پھسل کر تیسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے -حالانکہ بی جے پی کے ترکش میں ابھی بہت تیر ہیں جن مینن سب سے موثر فرقہ وارانہ کارڈ ہے اور اسی لئے اس نے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا ہے جو اپبی پہلی ہیں ریلی میں اپنی اصلیت دکھا آئے لو جہاد گو کشی جیسے مدے ہوا میں اچھال آئے ہیں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بنگالی ووٹروں اپر ان باتوں کا اثر نہیں پڑیگا لیکن وہاں رہنے والے مشرقی اتر پردیش اور بہار کے ووٹروں کو یہ مدے متاثر کر سکتے ہیں -دوسری طرف مسلم ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے جسکا فایدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے -فر فرہ شریف کے سجادہ نشینوں میں بھی چچا بھتیجہ کی جنگ چل رہی ہے -پہلے دونوں ممتا بنرجی کے حامی تھے اب چچا ممتا کی طرف اور بھتیجہ نئی پارٹی نبنا کر لیفٹ کانگریس اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں زر آزما رہا ہے -کہتے ہیں کہ یہ درگاہ قریب ١٠٠ سیٹوں کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے مگر آپسی اختلاف کی وجہ سے غیر موثر بھی ہو سکتآ ہے -امید کی جانی چاہئے پولنگ کا وقت آتے آتے چچا بھتیجہ اس خطرہ کو بھانپ کر کوئی تدارکی قدم اٹھاینگے۔
کانگریس اسم کو لے کر بھی اس بار بہت سیریس ہے اور سابقہ غلطی کا ازالہ کرنے پر آمادہ دکھائی دے رہی ہے اس بار نے بدر الدین اجمل کی پارٹی سے سمجھوتہ کر لیا ہے اسکے علاوہ بی جے پی کی حلیف بوڈو پارٹی نے اسکا ساتھ چھوڑ کر کانگریس اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی ہے -پرینکا گاندھی نے اپنی خاص ا سٹائل میں انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے – شہریت تبدیلی قانون وہاں کا سب سے بڑا مسلہ ہے اس قانون کے خلف سبب سے پہلی آواز وہیں سے اٹھی تھی -کانگریس نے یہ قانون نافذ نہ کرنے کا اعلان کر کے عوام کی نبض پکڑ لی ہے -سنب سے بڑی بات یہ کہ اس نے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل کو وہاں کا انچارج بنا دیا ہے اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں براجمان ہیں – آسام سے اب تک مل رہی خبریں کانگریس کے لئے خاصی امید افزا ہیں۔
تمل ناڈو میں حکمران آل انڈیا آنا ڈی ایم کے آپسی گٹ بازی کا شکار ہے آنجہانی جے للیتا کی داہنا ہاتھ سمجھی جانے والی ششی کلا نے سرگرم سیاست سے علاحدگی کا اعلان کر دیا ہے سہی معنوں اے آئ ڈی ایم کے اس وقت بنا ملاح کی ناؤ ہے بی جے پی اس میں اپنا فایدہ دیکھ رہی ہے دوسری ترگ ڈی ایم کے اور کانگریس کا اتحاد ا سٹالن کی قیادت میں مضبوطی سے میدان میں اترا ہے راہل گاندھی نے کانگریس کی طرف سے اور امت شاہ نے بی جے پی کی طرف سے مہم بھی شروع کر دی ہے -حکومت مخالف رجحان اور آنا ڈی ایم کے کی گٹ بازی کا فایدہ ڈی ایم کے کانگریس اتحاد کے لئے امید کی کرن ہے۔
ادھر کسان یونین نے انتخابات والی ریاستوں میں جا کر بی جی پی کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کر کے اسکی مشکلیں اور بڑھا دی ہیں- کسانوں کی تحریک بھلے ہی دوسری ریاستوں میں نہ دکھائی دیتی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر کے کسانو کی ہمدردیاں ان کسانوں کے ساتھ ہیں اور وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ کسان اپنی چند مانگوں کے لئے ہی نہیں در حقیقت زراعت کو کارپوریٹ کے حوالہ کئے جانے کی سازش کے خلاف لڑ رہے ہیں -عوام کو بھی احساس ہے کہ یہ ہمارے غذائی تحفظ سے وابستہ مسلہ ہے – اس معاملہ میں بی جے پی کے چند اندھے حامیوں کے علاوہ کوئی بھی اسکی حمایت نہیں کر رہا ہے -ویسے بھی اب بی جے پی کے پاس عوام کو پرچانے کا کوئی اشو بچا نہیں ہے جھوٹے وعدوں فرضی دعووں اور لفاظی سے وہ کب تک عوام کا ذہنی استحصال کر سکتی ہے آخر کبھی تو عوام کو گرانی بیروزگاری تباہ حال معیشت اور کھوکھلے ہو رہے ہندستان کا احساس ہوگا -فرقہ پرستی شمشان قبرستان پاکستان جیسے احمقانہ مسائل اب اپنی سیاسی افادیت کھوتے جا رہے ہیں-مو دی حکومت میڈیا کے ذریعہ بہت دنوں تک فروعی مسائل میں عوام کو الجھائے نہیں رکھ سکتی -عوام بیدار ہو ر ہے ہیں اور انکی یہی بیداری بی جے پی کی سیاسی موت ثابت ہوگی۔
سیاسی مبصرین اور سینئر صحافی حضرات آسام تمل ناڈو اور پڈو چیری میں کانگریس اور اسکے اتحاد کی کامیابی یقینی مان رہے ہیں کیرالہ میں مقابلہ کمیونسٹ اتحاد اور کانگریس اتحاد کے ما بین ہے -یہاں بی جے پی نے میٹرو مین کہے جانے والے سری دھرن کو شامل کر کے اور انھیں بطور وزیر اعلی پروجیکٹ کر کے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے مگر چند سیٹوں کے علاوہ اسکو زیادہ امید خود بھی نہیں ہے اصل دنگل بنگال میں ہی ہوگا اور وہیں سبھی کی نظریں مرکوز ہیں۔
٭٭٭