کسان تحریک کو کچلنے کےلئے عدلیہ کاسہارا

0
109

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
دہلی کی سرحدوں پر لاکھوں کسانوں کا احتجاج جاری ہے اس احتجاج کو ابتک 50دن ہوچکے ہیں،لیکن احتجاجی مظاہروں میں شامل کسان لیڈروں نے یہ واضح کردیاہے کہ اس متنازع قانون کی واپسی کے علاوہ دوسری کوئی چیز ہرگز منظور نہیں ہے،ان تینوں بل کی واپسی ہی مسئلہ کا واحد حل ہے،ورنہ یہ احتجاج جاری رہےگا، کسانوں کی اس تحریک کو ڈیڑھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں لیکن اسکے باوجود انکے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ہرروز اس میں شدت ہی پیدا ہورہی ہے،کسانوں نے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کردیاہے،اور اسکےلئے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کےلئے پرعزم ہیں،کسانوں کی اس تحریک کو ناکام بنانےکےلئے اب تک بہت ساری کوششیں کی گئی،انکی تحریک کو بدنام کرنے اور ختم کرنےکےلئے بہت سے حربے آزمائے لیکن حکومت کو اس میں ناکامی ہی ہاتھ آئی،اس آندولن کو ختم کرنےکےلئے برابر سازشیں رچی گئیں لیکن کسانوں کے منظم،مثالی اور حکمت عملی سے پر اس تحریک کو کچلنے میں کامیابی نہیں ملی،حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا افسوسناک رویہ اور انکی ہٹ دھرمی کسانوں کے مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ پیدا کررہاہے جویقینا افسوسناک ہے،60 سے زائد کسانوں کی موت ہوچکی ہے کئی ایک نے تو خودکشی کرلی،لیکن ان سب چیزوں سے اس بےشرم حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا،حکومت نے 8بار کسان لیڈروں کو بات چیت کےلئے بلایا لیکن کوئی مسئلہ حل نہ ہوسکا،یہ سمجھئے کہ جتنی بار کسانوں کوبات چیت کےلئے بلایاگیا بات چیت کے نام پر انکا وقت ضائع کیا گیا،تاحال اس احتجاج کو ناکام بنانے کےلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں،جس طرح شاہین باغ تحریک کو کچل دیاگیا، کیا کسان آندولن کو بھی اسی طرح طاقت کے نشے میں کچل دیاجائےگا؟یہ سوال اہم ہوتاجارہاہے،گذشتہ ماہ کسان تحریک کےسلسلےمیں سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی گئی تھی،جس میں یہ کہاگیاتھاکہ کسانوں کو سرحدسے ہٹایاجائے،راستہ بلاک کرکے مظاہرہ کرنا شاہین باغ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری گائڈ لائن کے منافی ہے،اس حلف نامہ میں یہ بھی کہاگیاتھاکہ مظاہرے اور روڈ جام کی وجہ سے روزانہ 3500 کروڑ کانقصان ہورہاہےاورخام مال کی قیمت میں 30فیصد اضافہ ہوگیاہے،اس درخواست کی بنیاد پر عدالت عظمی نے مرکزی حکومت سے جواب طلبی کےلئے نوٹس جاری کیاتھا،اور برہمی کااظہار کرتےہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کااشارہ دیاتھا،لیکن اسی درمیان مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ اپنانیاحلف نامہ داخل کرتےہوئے عجلت میں کہاتھاکہ یہ قوانین جلدبازی میں نہیں بنائےگئے،بلکہ یہ دودہوں کے غوروخوض کانتیجہ ہیں اور انکی منسوخی غیرمنصفانہ یاناقابل قبول ہوگی،حکومت کے اس اٹل موقف اورہٹ دھرمی کےبعد تازہ خبرکے مطابق عدالت عظمی نے ان متنازع قوانین پر تاحکم ثانی روک لگادی،اورتعطل ختم کرنے کےلئے 4 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دیدی،لیکن حیرت ناک بات یہ ہےکہ اس کمیٹی میں شامل چاروں ارکان پہلے سے ہی ان تینوں قوانین کی حمایت میں ہیں پھریہ لوگ کسانوں کی بات کیسے سنیں گے؟ یہ سوال بھی کیاجارہا ہےکہ جولوگ پہلے سے ہی حکومت کے فیصلوں کےحامی ہیں ایسے لوگوں کوہی اس کمیٹی کےاراکین میں شامل کیوں کیاگیا؟ کیایہ سب حکومت کے اشاروں پر تو نہیں ہورہاہے؟کیا کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنےکےلئے عدالت کا سہارا لیاجارہاہے؟ یہ اور اسطرح کے درجنوں سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں،جسکا ازالہ بہت ضروری ہے،بظاہر ایسا لگتاہے کہ سپریم کورٹ نے روک لگاکر اورکمیٹی تشکیل دےکر حکومت کے فیصلے پر ساڑھے تین ماہ بعد ہتھوڑا چلادیاہے،لیکن یہ بات اسلئے بھی ہضم نہیں ہوتی کہ عدالت عظمی نے 6 سال میں ایک بار بھی موجودہ حکومت کے فیصلے کےخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ کوئی سرگرمی دکھائی،چھ سالوں میں کئی ایک ایسے فیصلے کئے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ابتک کرنا پڑرہاہے لیکن ایک بار بھی سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کی مخالفت نہیں کی جسکانتیجہ یہ ہورہاہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا بھروسہ عدلیہ سے اٹھتاجارہاہے جو جمہوری نظام کےلئے انتہائی خطرناک ہے،ایک ایسے وقت جبکہ ملک شدید بحرانی کا شکارہے، اورجمہوریت پر خطرہ منڈلا رہاہے ایسے میں جمہوریت کے تحفظ کےلئے عدالت کی ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایسے میں جمہوریت کوتحفظ فراہم کرنا ملک کے ہرشہری اور اور ہرادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے،ملک کا میڈیا تو اپنا وقار اور اعتماد کھوچکاہے،میڈیا کی طرح اگرعدالت بھی اپنا وقار محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ اس ملک کی بدقسمتی ہی کہلائے گی،جسکا نتیجہ انتہائی خوفناک ہوگا،کسانوں سے بات چیت کےلئے سپریم کورٹ نے جس چاررکنی کمیٹی کی تشکیل کی ہے،کسان لیڈروں نے یہ صاف کردیاہے کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونگے،8جنوری کو جب آٹھویں دور کی بات چیت حکومت اور کسانوں کے درمیان بے نتیجہ ختم ہوگئی تو حکومتی نمائندوں نے اسی وقت یہ کہاتھاکہ “قانون واپس نہیں ہوگا آپ عدالت میں جاؤ”کسانوں لیڈروں نے اسکا جواب دیتے ہوئے کہاتھاکہ ہم عدالت نہیں جائیں گے،ہمیں عدالت سے کوئی امیدنہیں ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے 6سالوں میں ایک باربھی حکومتی فیصلوں کی مخالفت نہیں کی جبکہ اس دوران دسیوں فیصلے ملک مخالف اور عوام مخالف ہوئے اسکےباوجود عدالت عظمی نے اسکی مخالفت نہیں کی لہذا ہم عدالت نہیں جائیں گے اور ہمارا یہ احتجاج جاری رہےگا،سپریم کورٹ نے جس چاررکنی کمیٹی کی تشکیل کی ہے یہ کمیٹی سوالات کے گھیرے میں ہے اور اس پر اعتراضات کا سلسلہ بڑھتاجارہاہے،کانگریس سمیت مختلف اپوزیشن پارٹیوں نے اس پرسوال اٹھایاہے،رندیپ سرجے والا جوکانگریس کے ترجمان ہیں انھوں نے کہاہے کہ”ہم سپریم کورٹ کی طرف سے اظہار تشویش کا خیرمقدم کرتے ہیں،لیکن جوچاررکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ چونکا دینے والی ہے،یہ چاروں ارکان پہلے ہی سیاہ قوانین کے حق میں اپنی حمایت ظاہر کرچکے ہیں،پھر وہ کسانوں کے ساتھ انصاف کیسے کرسکیں گے؟چاروں ارکان مودی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،وہ انصاف کیا کریں گے؟ ایک رکن نے حمایت میں مضمون لکھاتھا،ایک رکن نے میمورنڈم دیاتھا،اور تیسرے نے حکومت کومکتوب روانہ کیاتھا”دوسری طرف کسان تنظیمیں عدالت کے فیصلے پررضامند نہیں ہیں،کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہاہے کہ” ملک کے کسان عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں،اشوک گلاؤٹی کی سربراہی میں کمیٹی کی سفارش کی گئی ہے،گلاؤٹی نے زرعی قوانین کی حمایت کی تھی،معزز سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے تمام ارکان اوپن مارکیٹ کے نظام یا قانون کے حامی ہیں،اشوک گلاؤٹی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ان قوانین کو لاگو کرنے کی سفارش کی تھی،اس فیصلے سے ملک کاکسان مایوس ہے،کسانوں کامطالبہ قانون کومنسوخ کرنےکا ہے اور کم سے کم قیمت کو ایک قانون بنانےکاہے”احتجاجی کسان تنظیموں نے دوٹوک اندازمیں یہ کہاہے کہ سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے ہم ہرگز پیش نہیں ہونگے،کیونکہ یہ کمیٹی موافق حکومت ہے،زرعی قوانين کی منسوخی کے علاوہ ہمیں کوئی بھی فیصلہ منظور نہیں،سنگھو بارڈر پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسان لیڈر بلبیر سنگھ راجے وال نے کہا کہ کمیٹی میں شامل ارکان کی غیرجانبداری مشکوک ہے،کسانوں نے سپریم کورٹ سے کبھی بھی کمیٹی کی تشکیل کامطالبہ نہیں کیا،تاکہ یہ مسئلہ حل ہوجائے،جونئی صورتِ حال پیش آئی ہے یہ حکومت کاہی سیاسی کھیل ہے،انھوں نے یہ بھی کہاکہ اصولی طورپر وہ کمیٹی کے قیام کے مخالف ہیں،کیونکہ احتجاج سے توجہ ہٹانے کےلئے حکومت کا یہ ایک اور حربہ ہے،ہمارے طے شدہ منصوبے کے مطابق 26جنوری کو ٹریکٹر مارچ بھی ہوگا،اور پورے دہلی میں کسانوں کا احتجاجی جلوس نکالا جائےگا”سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے کہاہے کہ متحدہ کسان مورچہ پہلے ہی ایک بیان جاری کرچکاہے کہ ہم اس کمیٹی کے عمل میں حصہ نہیں لیں گے،عدالت میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی تھی جس میں کمیٹی بنانے کےلئے کہاگیاہو،کمیٹی کانام جاری ہونے کے ساتھ ہی ہمارے خدشات واضح ہوگئے ہیں،یہ ایک سرکاری کمیٹی ہے،زرعی قوانین پر عارضی پابندی عائد کردی گئی ہے جسے کسی بھی وقت اٹھایاجاسکتاہے،اس بنیاد پر تحریک کوختم نہیں کیاجاسکتا”سوال یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اگرچہ ان تینوں قوانین پر عارضی پابندی تو لگادی ہے لیکن جب یہ پابندی ختم ہوجائےگی اسکے بعد کیاہوگا؟کیاوہی ہوگا جو حکومت چاہتی ہے؟ یعنی پھر زبردستی اس کالے قانون کو سرپرتھوپ دیاجائےگا،اور نافذ کردیاجائےگا،جبتک کسانوں کایہ آندولن ختم ہوچکاہوگا، آپ کو یادہوگا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے فیصلے پرجسطرح پہلے سپریم کورٹ نے روک لگادی تھی پھر بعد میں عدالت نے اسکی اجازت دیدی تھی، کیاکسانوں سے ساتھی بھی ایسا ہی ہوگا؟اگر ایساہی ہے تو پھر حکومت کی منشاء تو پوری ہوہی رہی ہے عوام کے مسائل حل ہوں،انکے مطالبے پورے ہوں یہ کیاضروری ہے؟
نومبرکے اواخر میں شروع ہونے والی کسانوں کی یہ تحریک شدید سردی میں جاری ہے،حکومت کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کسانوں کومطمئن کرتی انکے مطالبات کوتسلیم کیاجاتا،اور لاکھوں بزرگ اورخواتین جوکسان تحریک کاحصہ ہیں انھیں واپس اپنے گھربھیجا جاتا،لیکن افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہےکہ کبھی ان پر الزام تراشی کی جاتی ہے توکبھی بہار اور ہریانہ میں پولس کے ذریعے ظلم وبربریت کا معاملہ کیاجاتاہے، پولس کے ذریعے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرنے کےبعد ان پر مقدمہ بھی درج کیاگیاہے،شدید سردی میں کبھی احتجاجی کسانوں پر پانی کی بوچھار کی جاتی ہے تو کبھی اورکچھ،ہریانہ کے کرنال میں اس وقت ہنگامہ ہوگیا جب کیملاگاؤں میں کسانوں نے وزیر اعلی کھٹر کے ریلی کی مخالفت کی،پولس نے کسانوں کو روکا تو جھڑپ شروع ہوگئی،ہنگامہ اس قدر بڑھاکہ کسانوں کو روکنے کےلئے آنسوگیس کے گولے چھوڑے گئے اور پانی کی بوچھارکی گئی،اور اب خبر یہ ہے کہ ان احتجاجیوں کے خلاف ہریانہ حکومت نے تقریباً سو لوگوں کےخلاف کیس درج کرلیاہے،اس واقعے کے بعد ہریانہ میں سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے،اورحکومت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں،وہاں کی بی جےپی حکومت کسی بھی وقت گرسکتی ہے،کیونکہ اسکی اتحادی جے جے پی کےقائد اورنائب وزیراعلی دشنیت چوٹالہ ان دنوں دہلی میں خیمہ زن ہیں اورکل انھوں نے راجناتھ سنگھ اورامیت شاہ کے علاوہ مودی سے بھی ملاقات کی اور تقریباً ایک گھنٹے مودی سے تبادلہ خیال کیا،سیاسی تجزیہ نگاروں کاخیال ہےکہ یہ حکومت بچانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے،اسی درمیان یہ خبربھی آرہی ہے کہ ہریانہ کے 60گاؤں میں بی جے پی اورجےجےپی کے لیڈروں کاداخلہ منع ہے یہ فیصلہ وہاں کی کھاپ پنچایت نے جاری کیاہے،اخباری رپورٹ کےمطابق بیس ہزار مقامات پر زرعی قوانین کی کاپیاں کسانوں نے کل جلائی ہیں،آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی نے دہلی کےآس پاس کے 300کیلو میٹر کے تمام اضلاع کے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دہلی میں یوم جمہوریہ ٹریکٹر پریڈ کی تیاری کریں اور سرحدوں پر جمع ہوں ،یہ شدت سپریم کورٹ کی کمیٹی تشکیل دینےکے بعد پیداہوئی ہے،آگے نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا ابھی مشکل ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسانوں کی اس ملک گیر تحریک کو کچلنے کےلئے اب عدالت کا سہارا لیاجارہاہے،عدالت عظمی کااگلافرمان کیاہوگا ؟ اسکےلئے ابھی ہمیں انتظار کرناہوگا۔کیونکہ عدالت کے ذریعے تشکیل دی گئی کمیٹی کےسامنے کسانوں نے پیش ہونے اوربات چیت کرنے سےمکمل انکارکردیاہے،مرکزکی ہٹ دھرمی اورضدپرکسانوں نے تویہاں تک واضح کردیا ہےکہ”ہم مریں گےیاجیتیں گے”۔
برائے رابطہ: 8099695186

(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہہیں)
[email protected]

 

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here