تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: ڈاکٹر جہاں آرا سلیم
میری دیرینہ خواہش میں بدایوں عرصۂ دراز سے شامل تھا۔ کئی بار ارادہ کیا اور رخت سفر بھی باندھا لیکن دل کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔ چند گھنٹوں سے زیادہ بدایوں میں ٹھہرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ایک بار ایک دن ٹھہرے بھی لیکن موقع مناسب نہیں تھا کیوں کہ تب میں بہن کی ساس کے انتقال ہونے پر گئی تھی۔ وقت مٹھی میں دبی ریت کی طرح آہستہ آہستہ گزرتا رہا اور یوں کئی برس بیت گئے۔ پہلے بچے چھوٹے تھے اب اسکول جانے لگے تھے۔ شوہر کی اپنی کاروباری مصروفیات تھیں۔
کہتے ہیں دل سے جس بات کو کرنا چاہو ایک دن وہ ہوکر رہتی ہے۔ بس کچھ ایسا ہی ہوا ۔ میری بہن جو بائیں بازو پارٹی کی سرگرم کارکن تھی، پارٹی کی کسی میٹنگ میں لکھؤ آئی ہوئی تھی۔ میٹنگ ختم ہونے پر وہ مجھ سے ملنے کے لئے گھر آئی۔ ان دنوں لکھنؤ میں’ لکھنؤ مہوتسو‘چل رہا تھا۔ میں نے اسے ایک دن کے لئے روک لیا۔ دوسرے دن ہم لکھنؤ مہوتسو گھومنے کے لئے گئے جو اب بیگم حضرت محل پارک کے بجائے آشیانہ کے بہت بڑے میدان میں لگنے لگا تھا۔ وہیںنگار ؔنے ساتھ بدایوں چلنے کے لئے مجھے آمادہ کرلیا۔ بچے اب اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ اپنا کام خود کرسکتے تھے اور اپنے ڈیڈی کا بھی خیال رکھ سکتے تھے۔ شوہر نے بھی خوشی خوشی جانے کی اجازت دے دی۔
بدایوں دیکھنے کی چاہت میں میں نے بدایوں سے متعلق بہت سی معلومات پہلے ہی حاصل کررکھی تھیں ۔مثلاً فارسی لغت میں بدایوں کا نام صوفی نامہ درج ہے۔ صوفیوں کی آماجگاہ ہونے کے ناطے اسے صرف بدایوں نہیں ، بدایوں شریف کہا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ 180مربع کلو میٹر ہے۔ یہ اترپردیش کے خطۂ روہیل کھنڈ کا ایک ضلع ہے اور دریائے سوت کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ تاریخ کے حساب سے ایک ہندوراجہ بدھ نے 905عیسوی میں اس کو بسایا۔اس وقت اس کانام ’ویدا میوتا‘ تھا پھر ’ویدا مئو‘ ہوا ۔یہ ویدوں کی تعلیم کا مرکز بھی رہا تھا۔ 1030عیسوی میں سلطان محمود غزنوی کے بھانجے نے اسے فتح کیا۔اس کے بعد 1197میں قطب الدین ایبک نے اس پر قبضہ کرلیا۔یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا۔ شہنشاہ اکبر اعظم کے دور میں بدایوں کو صوبہ دہلی کی ایک سرکار بنا دیا گیا۔بدایوں میں ایک دردناک واقعہ بھی پیش آیا۔زبردست آتش زدگی میںسارا شہر جل کر خاک ہوگیا۔مٹنے اور سنورنے کے سلسلے کے بعد شاہ جہاں کے دور میں بدایوں اور سنبھل کو ملا کر ایک سرکار بنا دیا گیا۔مغلوں کے زوال کے بعد بدایوں روہیلا راجاؤں کے قبضے میں آگیا۔ 1778عیسوی کی تاریخ بتاتی ہے کہ بدایوں کو اودھ کے نوابوں نے فتح کرلیا لیکن نوابوں کے ہاتھوں میں بھی زیادہ عرصہ نہیں رہ سکا۔ انگریزوں کے تسلط میں آگیا اور ضلع کی حیثیت سے سرفراز ہوا۔اس میںبریلی، پیلی بھیت، شاہجہاں پور، مرادآباد، سنبھل ،امروہہ ،رامپور اوربجنور ضلعے آتے ہیں۔
صبح قیصر باغ سے بس پکڑ کر بانس بریلی کا سفر طے کیا۔بریلی سے دوسری بس پکڑ کر بدایوں پہنچ گئے۔ یہ سفر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے میں پورا کیا لیکن ہماری منزل بدایوں کا ایک گاؤںرمضان پور تھی جو بہن کی آبائی سسرال تھی۔ یہاں ہم ایک جیپ پر سوار ہوکر رمضان پور پہنچ گئے۔ قیصر باغ ، لکھنؤ سے رمضان پور کی دوری تقریباً 266کلو میٹر ہے اور یہاں تک پہنچنے میں تقریباً 6گھنٹے کا وقت لگ گیا۔قدیمی شہر ہونے کے ناطے یہاںبڑی پرانی پرانی عمارتیں نظر آئیںجن کی بہت چوڑی چوڑی لکھوری اینٹوں کی دیواریںتھیں،شام تک ہم گھر پہنچے ۔دن بھر کے سفر کی وجہ سے تھکان کافی ہوگئی تھی ،اس لئے سب سے پہلے فریش ہوئے چائے پی اور آرام کیا۔دن کا کھانا راستے میں کھا لیا گیا تھا اس لئے پیٹ بھرا ہواتھا۔
مغرب کا وقت ہونے پر وضو بنایا ،نماز پڑھی اور آنگن میں نکل آئی۔ رات کے کھانے کی تیاری چل رہی تھی۔میرے آنے پر بچوں اور نفیس صاحب کی خوشی دیکھتے ہی بن رہی تھی۔ ’’آپا جان کو کل بدایوں کی سیر کرانی ہے‘‘نگار نے نفیس سے کہا۔
’جی ‘بالکل بدایوںکی سیر کرائیے۔ایک ٹیکسی بک کروالیں اور شروعات سب سے پہلے محبت کی نشانی سے کریں۔
محبت کی نشانی! کیا بدایوں میں بھی کوئی محبت کی نشانی ہے؟ میںنے پوچھا۔
جی ہاں ، کالاتاج محل
شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں آگرہ میں سفید سنگ مرمر کا تاج محل بنواتھا۔اسی طرز پر ممتاز محل کی بہن محبوب بیگم نے اپنے شوہر کی یاد میں کالا تاج محل بنوایا ۔اسے نواب اخلاص خاں کا مقبریا روضہ بھی کہا جاتا ہے۔
صبح ناشتہ سے فارغ ہوئے ۔ ٹیکسی والا ٹیکسی لے کر وقت مقررہ پر آگیا۔میں نگار اور ان کے دوبچے مریم اور ہیرو ٹیکسی میںسوار ہوگئے۔ ٹیکسی والا ہمیں محلہ ابراہیم لے کے آیا ۔ابراہیم، نواب اخلاص خاںکے والد تھے۔محلہ سونٹھ کے رنگ محل میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ان کا تعلق سلیم چشتی فتح پور سیکری والے سے تھا ۔یہ آپ کے دادا ہوتے تھے۔ اخلاص خاںکے والد کے نام پر یہ محلہ آباد کیا گیا تھا۔اسی محلے میں کالا تاج محل کی تاریخی عمارت ہے۔ یہ روضہ ایک بہت بڑی آراضی میں تقریباً بارہ بیگھے میں بنا ہوا ہے۔ اس کے گرد گھنی آبادی ہے ۔ یہ بڑی شاندار عمارت ہے۔ ککیا اینٹ اور سرخی چونے سے اس عمارت کی تعمیر ہوئی ہے۔چاروں طرف سے دیکھنے میں ایک جیسی عمارت ہے۔ چاروں طرف کونوں پر مینار ہیں۔ ان میناروں کے اندر سے اوپر جانے کے لئے زینے بنے ہیں۔ نیچے کے حصے میں اندر جانے کے لئے چاروں طرف سے چار گیٹ ہیں۔ اندر کے حصے میں پانچ مزاریں بنی ہوئی ہیں۔ان مزاروں کے اوپر ایک بہت اونچا گنبد ہے جس کی اندرونی چھت پرجامیٹک ڈیزائن کی نقاشی کی گئی ہے۔ آفتاب کی کرنوں میں یہ روضہ رنگ بدلتا سا نظر آتا ہے۔ ہم مینار کے اندر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چھت پر گئے ۔چاروں طرف مینڈیریاں بنی ہوئی تھیں۔بہت خوبصورت محرابیں تھیںجن میںکنگورے بنے تھے۔ چھت کا پانی نکلنے کے لئے بہت ہی خوبصورت پرنالے بنے تھے۔ ان پرنالوں سے عمارت کے اندر روشنی بھی جاتی تھی۔چاروں اطراف سے بدایوں شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس عمارت انتظام کاروں کی لاپرواہی کی شکار بنی ہوئی ہے جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ اس تاریخی عمارت کی قدر کی جاتی۔
محلہ ابراہیم سے نکل کر کچھ دور ’راپڈ والا ‘گنبد ہے۔ یہ گنبد قادری درگاہ کے قریب ہے۔ یہ بھی ایک مقبرہ ہے ۔بادشاہ ہمایوں کے دور میں دولت خاں عرف احمد نے اسے بنوایا تھا۔اس عمارت کے بیس میں چوڑی اینٹیں ہیں اور اوپری عمارت میں ککیا اینٹ اور سرخ چونے کا استعمال کیا گیا ہے۔اس گنبد کی اونچائی تقریباً ساٹھ سے ستر فٹ ہے۔ اس میں چاروں طرف جھرونکے بنے ہوئے ہیں ۔ اندر آنے کے لئے ہر طرف سے دروازے ہیں۔یہ بدایوں کے پچھم میں آباد ہے۔آج یہ بھی اپنی بدحالی پر آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔ بلا کی خاموشی یہاںچھائی تھی۔
’رپڈ والا‘گنبد سے کچھ آگے چلنے پر’ مقدومن جہاں‘ کا مقبرہ تھا۔یہ اس وقت کے حاکم علاء الدین خاںکی والدہ کامقبرہ کہلاتا ہے۔ 1461عیسوی میں سید علاء الدین ہندوستان کے حاکم تھے۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں حکمرانی چھوڑ کر بدایوں میں آکر سکونت اختیار کرلی تھی۔انھوں نے ہی اپنی ماں کے نام کا یہ مقبرہ تعمیر کروایا تھا۔ محلہ میر سرائے بھی انھوں نے ہی بسایا تھا۔ مقدومن جہاں کا مقبرہ شیخ پور روڈ پر تعمیر ہے۔مقبرہ کے اطراف میں گندگی کا انبار ہے۔یہ عمارت بھی بے توجہی کا شکار ہے۔
شیخ پور سے نکل کر اب ہماری ٹیکسی چندوسی ہائی وے پر تھی۔ ہم ساگر تال دیکھنے کے لئے جارہے تھے۔ ساگرتال بہت ہی خوبصورت جگہ ہے یہاں حضرت نظام الدین اولیا کے والد کی زیارت گاہ ہے۔ دور دور سے لوگ اس کی زیارت کرنے اور سلام پیش کرنے کے لئے آتے ہیں۔یہاں پر ایک مسجد بھی ہے ۔ یہیں پر حضرت نظام الدین کے دادا کی بھی مزار ہے۔ ساگر تال بہت وسیع ہے۔ بوٹنگ کا بھی انتظام ہے۔اس کو تاریخی خوبصورت زیارت گاہ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں آ کر ہم نے بوٹنگ بھی کی اور کھانا بھی کھایا اور اچھا وقت گزارا۔
ساگر تال سے کچھ آگے خواجہ نظام الدین کے نانا اور نانی کی مزاریں تھیں جہاں ہم گئے تو نہیں مگر دور سے بیٹھے بیٹھے ٹیکسی سے فاتحہ پڑھااور آگے کی منزل کے لئے بڑھ گئے۔ سورج غروب ہوچکا تھااس لئے کہیں اور جانا مناسب نہیں تھا۔ہم سب گھر واپس آگئے کہ باقی جگہوں کو کل دیکھیں گے۔ دن بہت خوشگوار گزرا۔گیارہویں بارہویں صدی کی شاندار ،پائیدار،خوبصورت مصوری اور آرٹ کی تاریخی عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا تھا۔سوچ رہی تھی ککیا اینٹ اور سرخی چونے سے بنی عمارتیں اتنی شاندار! اس خیال سے حیرت ہوئی۔ایک آج کل کی بلڈنگیں ہیں کہ ایک سال میںہی پلاسٹر ٹوٹ جاتے ہیں اور اینٹیں نظر آنے لگتی ہیں۔
گھر آکر منھ ہاتھ دھویا ، کپڑے تبدیل کئے، چائے پی، عشا کی نماز کا وقت ہوگیا تھا۔کئی نمازیں قضا ہو چکی تھیں۔اس لئے اول وقت میں عشا کی نماز ادا کی۔ کھانا تیار تھا۔سب نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔کچھ دیر آنگن میں چہل قدمی کی، اس کے بعد بستروںمیں جا پہنچے ۔
صبح آنکھ جلد ی کھل گئی۔فجر کی نماز پڑھی، قرآن کی تلاوت کی جیسی کہ میری روزانہ کی عادت ہے۔ نگار نے چائے بنوائی، چائے کی چسکیوں کے ساتھ آج کیا کیا دیکھنا اس بات کو طے کیا گیا۔طے پایا کہ گھر سے جلدی نکلا جائے ،صبح نوبجے تک ناشتہ سے فارغ ہو کر سب تیار ہوئے۔دس بجے تک ٹیکسی والا آگیا اور ہم سب نکل پڑے کچھ دوسری خاص جگہیں دیکھنے کے لئے۔سب سے پہلے ہم درگاہ بڑے سرکار پہنچے جو رمضان پور سے نکل کر بدایوں شہرجانے والے راستے میں ہے۔بڑے سرکار کا نام حضرت خواجہ حسن ہے۔ شیخ شاہی آپ کا لقب ہے۔ روشن ضمیر سلطان العارفین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔آپ کو ہی بڑے سرکار کہا جاتا ہے۔ آپ کا خاندان بارہویں صدی میںیمن دیش سے شاہی آرام تخت وتاج چھوڑ کر عیش وآرام سے تنگ ہوکر بہت سے دیسوں سے ہوتا ہوا بدایوں پہنچا تھا۔آپ کا تعلق حضرت علی سے بھی بتایا جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کے ماں باپ ، دوچھوٹے بھائی حضرت محمد عثمان اور حضرت ابوبکر شاہ بھی تھے۔ان کے ہمراہ ان کی ایک چھوٹی بہن زینب بی بی بھی تھیں۔شروع میں قاضی حمیدالدین ناگوری کے زیر سایہ علم حاصل کیاتھا،جن کی مزار دہلی کی مہرولی میں درگاہ قطب شاہ میں ہے۔اس وقت علاء الدین خلجی کی دہلی میں حکومت ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد آپ بدایوں شریف آکر بس گئے۔ آپ نے بدایوں کے محلہ ’سوتھا‘میں ایک خانقاہ کی تعمیر کروائی تھی۔ تمام عمر آپ نے شادی نہیںکی اور اپنا خرچ چلانے کے لئے رسیاں بٹتے تھے۔آپ محفل سماع کے شوقین تھے۔ اکثر وجد میں آجاتے تھے۔آپ کو بھوت پریت بتانے کاعلم حاصل تھا۔لوگ اس نیت سے بھی آپ کی درگاہ آتے اور کہاجاتا ہے کہ فیضیاب بھی ہوتے تھے۔ آپ کا مزار بہت بڑے دائرے میں بنا ہوا ہے۔ آپ کامزار بہت اچھی حالت میں ہے کیوںکہ لوگ اس کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔چوبیس رمضان کو ہر سال آپ کا عرس مبارک منایاجات ہے جس میں دور دور سے لوگ شرکت کے لئے آتے ہیں۔
بڑے سرکار کی مزار سے کچھ ہی دوری پر چھوٹے سرکار کی درگاہ ہے۔ یہ درگاہ بھی بہت اچھی حالت میں ہے کیوں کہ یہاں کے لوگوں نے اس درگاہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ چھوٹے سرکار کا اصلی نام خواجہ بدرالدین ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی باتیںکراماتی ہوتی تھیں۔اس درگاہ کے اندر ایک کنواں ہے جو دیکھنے میں عام کنویںجیسا ہے لیکن لوگوں میں یہ پریوں والا کنواں سے مشہور ہے۔یہاں کے زائرین کا اعتقاد ہے کہ بے اولاد عورتیں اس کے پانی سے غسل کرکے اولاد کی خوشی سے سرفراز ہوتی ہیں۔اس میں کہاں تک سچائی ہے یہ تو اللہ جانے ۔خواجہ بدرالدین کھوئے ہوئے بچوں کا سراغ بھی بتادیا کرتے تھے۔ اس طرح چھوٹے سرکار کی کرامات کے بڑے قصے سننے میں آئے جو ہمیں داستانی معلوم ہوئے۔ ممکن ہے ان میں سچائی بھی ہو۔
بڑی زیارت گاہ اور چھوٹی زیارت گاہ کے درمیان ’’استاد پیریہ کلّا میر‘‘ کی مزار تھی۔آپ چھوٹے سرکار اور بڑے سرکار کے استاد تھے۔ اس مزار کے آس پاس گھنا جنگل تھا۔یہاں کی بھی ایک کہانی مشہور تھی کہ کلّا میر کی مزار کی خاک اگر نہ بول پانے والے بچے کو چٹائی جائے تو وہ بولنے لگتا ہے۔ان مزاروںپر بڑی اچھی قوالیاں سننے کو ملیں۔ ہم نے یہاںخاصا وقت گزارا۔ اس کے بعد ہم لوگ بدایوں کی جامع مسجد دیکھنے کے لئے گئے۔
جامع مسجد محلہ مولوی ٹولہ میں ہے۔یہ بہت وسیع مسجد ہے۔یہاں تقریباً چالیس ہزار افراد ایک ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔اس مسجد کی بنیاد شمس الدین التمش نے 1211میں رکھی تھی۔1224عیسوی میںیہ مکمل بن کر تیار ہوئی۔مسجد کے چاروںطرف بڑے بڑے برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ درمیان میں بہت بڑا وضو خانہ ہے۔ مسجد کی عمارت بڑی کشادہ اور شاندار ہے۔ مسلم کلچر کا بہترین نمونہ۔ جامع مسجد بدایوںکوشمالی ہندمیں پہلی مایہ ناز مسلم یادگار ہونے کا فخر حاصل رہا ہے۔جابجا قرآنی آیات دیکھنے سے اس کی تاریخی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ 1192عیسوی میںراجہ مہی پال کی حکومت تھی۔بدایوں میں التمش نے جنگ میں راجہ مہی پال کو ہرا دیاتھا۔یہ جامع مسجد اس کے قلعہ کو توڑ کر تعمیر کروائی گئی تھی۔ میں نے یہاں ظہر کی نمازپڑھی اور دورکعت نماز تحیۃ المسجد بھی پڑھی۔آج یہ مسجد بھی تنازع کا موضوع بنی ہوئی ہے۔جیسے کہ بابری مسجد ایودھیا کا معاملہ سامنے آیا۔ آستھا کے نام پر مسلمانوں سے چھین کر ایک خاص قوم کے حوالے جج صاحبان نے کردیا۔ جیسے کاشی اور متھرا کی مسجدوں کا معاملہ زیر عدالت ہے۔جنگ میںہار جیت تو لگی رہتی ہے ۔ہارنے والے کو اپنا وہ سب کچھ جو اس کا ہوتا ہے جیتنے والے کو دینا ہی پڑتا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ وہی التمش تھے جن کی بیٹی رضیہ سلطان تھی۔ جس کی بہادری کے قصے تاریخ میں درج ہیں۔اس کے مخالفین بھی اس کی بہادری کو تسلیم کرتے تھے۔
جامع مسجد کے دیدار کے بعد جب ہم رمضان پور واپسی کررہے تھے ،وہاں پر ایک اور مزار تھی۔ نگار ہمیں وہاں لے گئیں۔اس مزار کے پاس رمضان پور کا سالانہ میلہ بھی لگتا ہے۔ یہ میلہ جنوری کے مہینے میں لگتا ہے۔ نگار نے بتایا یہ مزار گونگے شاہ کی ہے۔ میلہ جس رقبہ پر لگتا ہے وہ رقبہ حضرت گونگے شاہ کے نام سے وقف رجسٹرڈ ہے۔ یہ آراضی تقریباً 16ایکڑ ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے انگریزی وقف ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ میلہ بھی انگریزوں کے زمانے سے لگتا آرہا ہے۔ یہاں مختلف پردیسوں سے لوگ آتے ہیں۔یہاںمویسیوں کی خریدوفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔کئی ماہ تک یہ میلہ چلتا ہے۔ گونگے شاہ کا مزار بہت معمولی بنا ہوا تھا۔میں نے مزار کے باہر کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی۔راستے میں نگار نے اپنے کئی رشتے داروں کے مکان دکھائے جن کے مکین اب دہلی، علی گڑھ اور بیرون ملک میں رہتے ہیں۔مثلاً اپنے خسر جیلر صاحب کا مکان ، اپنے چچیا خسر کمشنر شمشاد احمد صاحب کامکان، ان کے بھائی آفتاب احمد جج صاحب کامکان وغیروغیرہ۔مغرب سے پہلے پہلے ہم گھر واپس آگئے ۔میں بہت خوش تھی کہ تاریخی شہر بدایوں کی میں نے سیر کی اور خوب کی۔جب ہم چائے کی چسکیاںلے رہے تھے،میرے بہنوئی نفیس میاں نے بتایا کہ بدایوں نہ صرف تاریخی اہمیت ، روحانی عظمت کا حامل ہے بلکہ بدایوں نے بڑے بڑے شاعرو ادیب ،موسیقار اور مصور بھی دئے ہیں۔مثلاً فانی بدایونی،شکیل بدایونی، بے خود بدایونی، جوہر بدایونی، دلاورفگار، ادا جعفری،عرفان صدیقی، استاد فدا حسین خاں،استاد حفیظ خاں،غلام مصطفیٰ وغیرہ نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ میں نے پورا بدایوں دیکھ لیا۔ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی رہ گیا ہے مثلاًسورج کُنڈ، نگلا مندر، بھاگیرتھی گپھا، گوری شنکر مندر، مقبرہ چمن آرا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اگلی صبح مجھے واپس جانا تھا اس لئے بہت خوبصورت یادوںکے ساتھ میں لکھنؤ واپس آگئی کہ جو باقی رہااگر زندگی رہی تو اگلی بار دیکھیں گے۔
7905845518