Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMarqueeنظام الدین مرکز میں کورونا وائرس کے 300 مشتبہ افراد

نظام الدین مرکز میں کورونا وائرس کے 300 مشتبہ افراد

نئی دہلی، 30 مارچ (یو این آئی) جنوب مشرقی دہلی کے نظام الدین واقع تبليغی جماعت کے مركزسے کورونا وائرس کے انفیکشن کے 200 مشتبہ افراد کو جانچ کے لئے مختلف اسپتالوں میں داخؒ کرایا گیا ہے جبکہ تقریباً 1200 لوگ اب وہاں موجود ہیں جنہیں نکالا جا رہا ہے۔


مركز کے 300 لوگوں کو کورونا وائرس کے تعلق سے مشتبہ مانا جا رہا ہے۔ یہ سردی، زکام، کھانسی وغیرہ میں مبتلا ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے مركز میں تقریباً دو ہزار لوگ موجود تھے لیکن کچھ لوگ مختلف ریاستوں میں چلے گئے تھے۔ مركز میں وقت گزاركر یہاں سے جانے والوں میں چھ افراد کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں جبکہ ایک شخص کی موت ہو گئی ہے۔ انتقال ہونے والے شخص کی ابھی جانچ رپورٹ نہیں آئی ہے۔

محکمہ صحت، عالمی ادارہ صحت، میونسپل اور دہلی پولیس کی ٹیم مركز سے لوگوں کو نکالنے کا کام کر رہی ہے۔
ایک پولیس کے افسر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے ہی یہاں سے بھیڑ ہٹانے اور سوشل ڈسٹینسنگ کے لئے کہا جا رہا تھا لیکن مركز کے لوگوں نے ان کی بات نہیں سنی۔ یہاں رہنے والے لوگوں میں بڑی تعداد میں 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہیں۔
نظام الدین کے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ مركز سے گزشتہ دو دنوں میں 200 لوگوں کو کورونا وائرس انفیکشن کی جانچ کے لئے مختلف اسپتالوں میں داخل کرایا گیا گیا ہے اور مركز کے ارد گرد کے علاقے کو مکمل طور سیل کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو جانچ کے لئے لے جایا گیا ہے، ان میں بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، ملائیشیا، سعودی عرب، انگلینڈ اور چین کے تقریباً 100 غیر ملکی شہری شامل ہیں۔ مركز کے لوگوں نے لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ اس بیماری کو بھی سرسری طور پر لیا۔

اتوار کو تمل ناڈو کے ایک 64 سالہ شخص کی موت ہو گئی تھی جو مركز میں قیام پذیر تھے۔ مرنے والے شخص کی ابھی جانچ رپورٹ نہیں آئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے جانچ تیز کر دی تھی۔ پولیس معاملے کی سنجیدگی کے پیش نظر علاقے میں ڈرون سے نگرانی کر رہی ہے۔
مركز سے کچھ ہی دوری پر مشہور صوفی نظام الدین اولیاء کی درگاہ ہے جہاں پر بڑی تعداد میں زائرین آتے ہیں لیکن ان دنوں درگاہ مکمل طور بند ہے۔
واضح رہے کہ نظام الدین واقع مركز اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں بیرونی ممالک سے کافی لوگ آتے رہتے ہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular