Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldیوپی بہار کے مسلمانوں کا بندھوا مزدور بننے سے انکار

یوپی بہار کے مسلمانوں کا بندھوا مزدور بننے سے انکار

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

محمد حسین شیرانی

ہندوستان سمیت پوری دنیا کے جمہوری معاشروں میں ایک خاص میعاد کے بعد عوام کو اس کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی حکومت منتخب کرے ۔ ہندوستان ایک مضبوط ہوتا ہوا جمہوری ملک ہے جہاں اب تک عوام ہر الیکشن کے ساتھ اپنی پسند کی حکومت چنتے آئے ہیںلیکن ہندوستان میں با شعور جمہوری عوام کے مزاج میں کسی بھی صورت حال سے اثر انداز ہو جا نے کی خاصیت موجود ہے اور اسی لئے انتخابات سے قبل کے واقعات جمہوری عمل پر اثر انداز ہو جاتے ہیں ۔ 2019کے لوک سبھا انتخابات کی آمد آمد ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے اعتبار سے اس کوشش میں لگ رہی ہیں کہ وہ ووٹر کو اپنی طرف راغب کر سکیں۔ ابھی تک ایک سچ یہی سامنے آتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیا سی جماعتوں کے اتحاد کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بل پر حکومت بنانے کے لائق ووٹ حاصل کر سکے۔اس لئے بی جے پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کی نگاہیں مسلم ووٹ پر ہوتی ہیں اور جیسا کہ ممتاز مسلم دانشوروں کا خیال ہے کہ 2014میں بی جے پی آر ایس ایس کی نریندر مودی حکومت آنے کے بعد ملک کے سیاسی مکالمے سے لفظ مسلمان غائب ہو گیا ہے یعنی یہ حکومت جان بوجھ کر ملک کی آبادی کے ایک ایسے حصے کو جسے دوسری بڑی اکثریت ہونے کا شرف حاصل ہے ، جان بوجھ کر نظر انداز کررہی ہے ۔ اگر یہ صرف بی جے پی آر ایس ایس کا ہی رویہ ہوتا تو تشویش کی بات نہیں تھی ۔ فکر مندی یہاں ہے کہ کانگریس سمیت دوسری سیکولر پارٹیاں بھی مسلمان سے مسلمان کو اپنے بھر پور سیاسی مکالمے میں شامل کر نے سے انکار کر رہی ہیں ۔ اب جب کہ پارلیمانی انتخابات کاآغاز دو ڈھائی مہینہ کی دوری پر ہے، ملکی سطح پر کوئی مسلم رہنما کسی بھی سیاسی پارٹی سے اوبھر کر ایسا نہیں نکل رہا جو ملک میں مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے نظر انداز کئے جانے کے خلاف ملت کی تشویش کو زبان دے سکے ۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ انتخابات سے قبل پہلا بڑا سیاسی اتحاد اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے کیا ہے ۔اس ریاست میں یادو کمیونیٹی کے پورے ووٹ 9فیصد ہیںجن پر سماج وادی پارٹی کے موجودہ لیڈر، سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اینڈتے پھر رہے ہیں اور اس سچائی پر نظر ڈالنے سے انکار کر رہے ہیں کہ یوپی کی آبادی کے ہر 100افراد میں سے جو 9یادو ہیں وہ سب کے سب ان کے ساتھ نہیں ۔ اسی طرح بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایاوتی کے پاس صرف 13فیصد یعنی زیادہ سے زیادہ ہر 100میں سے 13جاٹو ہیں اور وہ بھی پچھلے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ چلے گئے تھے ۔ یعنی ایس پی بی ایس پی کا سیاسی اتحاد جن مکمل 22فیصد ووٹوں کی بنیاد پر کھڑا ہے ان میں سے آدھے ووٹ ان پارٹیوں کے ساتھ نہیں ہے تو پھر یہ اتحاد کس کے بل پر حکمران بی جے پی آر ایس ایس اور قومی اپوزیشن کانگریس کے خلاف الیکشن لڑنے کھڑا ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس سوال کاجواب تلاشِ بسیار کی شعوری کوشش کے بغیر بھی از خود آ کھڑا ہوتا ہے تو کیا اس کا مطلب نکال لیا جا ئے کہ 4سے 5فیصد یا دو اور 5سے 6فیصد جاٹو صرف اپنی بنیاد پر الیکشن جیتنے کے یقین سے محروم ہونے کے باوجود یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ مسلمان ان کا بندھوا مزدور بن کر گھر سے نکلے گا ، پولنگ بوتھ پر جائے گا اور ان کے حق میں ووٹ دے کر اپنے گھر لوٹ آئے گا ۔یا دو ووٹر میں وہ بہار ہو یا یوپی دونوں جگہ ایک اور ہلاکت خیز رجحان یہ ہے کہ اگر امیدوار ان کی کمیونیٹی کا نہیں ہے تو ووٹ کسی سیکولر پارٹی کے بجائے بی جے پی آر ایس ایس کو جاتا ہے ۔ اتنی نازک صورت حال کے با وجود بہت عجلت میں کیا گیا سیاسی اتحاد سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی اس ناقص فہم کا نتیجہ ہے کہ مسلم ووٹ ہر حال میں ان کی طرف جائیں گے ۔ یوپی کا مسلمان یہ سوال کرنے لگاہے کہ سماج وادی پارٹی 4سے 5فیصد ووٹ لے کر اب تک 4بار اقتدار میں آ چکی ہے اس کے باوجود یوپی کے 19.2فیصد مسلم ووٹروں کے سامنے اس کا اعتراف کرنے سے کیوں جھجھکتی ہے کہ اس کی اصل بنیاد مسلم ووٹر ہے ۔ یہ جھجھک بے معنیٰ نہیں کیونکہ اعتراف کرتے ہی مسلم فرقے کو اس کا جائز سیاسی حصہ دینے کی بات سامنے آ جا ئے گی ۔ لیکن اس بار یوپی کا مسلمان اس سیاست کی سیکولر پارٹیوں سے اپنا حق مانگ رہا ہے ۔ اسے پورے جمہوری اور سیاسی عمل میں بہ لحاظ آبادی اس کا حصہ ملنا چاہئے ۔ جن انتخابی حلقوں میں مسلمان ووٹر وں کی تعداد فیصلہ کن ہے وہاں مسلم امیدوار کھڑے کرنے کی ذمہ داری اس سیاسی پارٹی یا اتحاد پر عائد ہوتی ہے جو مسلم ووٹوں کے بل پر اپنے امیدوار کو لوک سبھا تک پہنچتا رہے ہیں۔یوپی کا مسلمان سیاسی کارکن لیئی کی بالٹی اور پوسٹر لے کر گھومنے یا لیڈروں کے لئے دری بچھانے کی غلامی کر کے تھک گیا ، اسے اپنی محنت اور وفاداری کے صلے میں جائز مقام نہیں ملتا تو وہ بندھوا مزدوری سے انکار کر ے گا ۔ یہ فکر اتر پردیش اور بہار ان دونوں ریاستوں میں بالکل عام ہے کہ یادو کمیونیٹی کے لیڈران مسلمانوں کو اپنا بندھوا مزدور سمجھنے کی غلطی نہ کرے کیونکہ انہوں نے اپنے اقتدار کے لمبے لمبے ادوار میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا اور انہیں مناسب اور متناسب نمائندگی بھی نہیں دی۔جہاں تک بہوجن سماج پارٹی کا تعلق ہے مایاوتی کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہی ہیں ، انہوں نے ہمیشہ اپنی سیاسی مصلحت کو ہر شے پر مقدم سمجھا ہے ۔ وہ سماج وادی پارٹی سے بھی اسی بے تکلفی کے ساتھ معاہدے کرتی ہیں جس بے تکلفی کے ساتھ بی جے پی آر ایس ایس سے ہاتھ ملاتی رہی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے اپنے تمام سیاسی رنگ دکھا ئے ہیں ۔ بی جے پی کے لئے ان کی ہمدردی سب پر ظاہر ہے۔ گجرات میں ان کی انتخابی مہم ان کے رویہ کا کھلا ثبوت ہے ۔ بی ایس پی میں مسلمانوں کی قیادت کو کبھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ ڈاکٹر مسعود کا پارٹی سے نکلنے کے بعد کوٹھی خالی کرانے کا منظر ابھی یوپی کا مسلمان نہیں بھولا جس میں ان کا سامان نکال کر سڑک پر پھینک دیا گیا تھا ٹھیک جس طرح نسیم الدین صدیقی بی ایس پی کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کئے گئے۔ اکھلیش کی پارٹی میں ایک نمایاں چہرہ اعظم خاں کاہے لیکن اس چہرے پر مایوسی کی شکنیں اس وقت صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ بہار میں راشٹریہ جنتا دل کسی بھی لیڈر کو ابھرنے سے روکتا رہا ہے ، آر جے ڈی میں کوئی لیڈر اگر کبھی کوئی تھا تو لا لو پرساد یادو تھے اور اب تیجسوی یادو ہیں ۔ بہار میں یادو یوپی کے مقابلے میں زیادہ یعنی 14فیصد ہے اور 2011کی مردم شماری کے مطابق مسلم ووٹروں کی تعداد 17فیصد ہے ۔ اس کے باوجود آرجے ڈی کے پاس کوئی مسلم چہرہ ایسا نہیں جو اس وقت پارٹی کی نمائندگی کرتا نظر آئے ۔ یعنی یادو کمیونیٹی کی غلبے والی پارٹیاں اپنی سیاسی شہزوری کی بنیاد مسلم ووٹ میں رکھنے کے باوجود مسلم نمائندگی دینے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں یو پی اور بہار کا مسلم ووٹر ایسی سیکولر پارٹیوں سے بھی کافی مایوس نظر آ رہا ہے جو سیکو لر پارٹیاں بی جے پی آر ایس ایس کے خلاف لڑائی میں اس کی طاقت کا پوری طرح استعمال کر کے اسے محکوم اور غلام بنائے رکھنا چاہتی ہے۔
ایسے میں امید کی کرن بن کر کانگریس ابھرتی ہے لیکن یوپی اور بہار دونوں ریاستوں میں کانگریس کی بہت کمزور تنظیمی موجودگی مسلمان کو کا نگریس پر اعتماد کرنے سے روکتی ہے ۔لہٰذا یہ فکر عام ہو رہی ہے کہ اگر سیکولر پارٹیاں کانگریس کے ساتھ مضبوط اتحاد میں آئیں تو مسلم ووٹر پوری دیانت داری کے ساتھ ان کا ساتھ دے کر جمہوری عمل میں رہتے ہوئے انتخابات کے ذریعہ ایک سیاسی تبدیلی لا سکتا ہے ۔ اور اگر یو پی کے 19.2فیصد اور بہار کے 17فیصد مسلم ووٹرس اس نہج پر سوچ رہے ہیں تو ان ریاستوں میں قابل اعتنا سیکولر پارٹیوں کو نئے سرے سے ضرور سوچنا چاہئے کہ جمہوریت ،سیکولرزم اور ان کی اپنی بقا کے لئے سود مند کیا ہے ؟
اگر ایس پی بی ایس پی کی پوری طاقت کی بنیاد مجموعی طور پر 23فیصد یادو اور جاٹو ووٹ پر ہے جس کا بڑا حصہ یا تو ووٹ دینے نہیں جا ئے گا یا دوسری پارٹیوں کو بھی ووٹ دے گا تو اس صورت میں مسلمان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان پارٹیوں کی تائید میں جائے لیکن اگر یوپی میں کانگریس کی طرف رغبت اورملائم سنگھ یادو کے بھائی شیوپال سنگھ یادو کی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا کی تنظیمی صلاحیت یکجا ہو سکے اور بہت چھوٹی علاقائی پارٹیوں کو بھی ایک بڑے اتحاد میں شامل کیا جائے تو اگرچہ ایک تیسرا محاذ بنتا نظر آئے گا لیکن یہ محاذ اس امکانی صورت حال کو بدل سکتاہے جس میں مسلمان الیکشن تک بندھوا مزدور اور الیکشن کے بعد تماشائی بنا رہ جاتا ہے ۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ اکھلیش یاد جس پارٹی پر ناز کر تے ہیں اس کا اصل تنظیمی ڈھانچہ شیو پال سنگھ یاد و کے پاس ہے اور پولنگ بوتھ کی سطح تک ان کے کارکن نہ صرف پھیلے ہوئے ہیں بلکہ مستعدی سے کام بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے پچھلے دنوں لکھنؤ میں اپنی ریلی کر کے اپنی تنظیمی گٹھاؤ کا کھلا مظاہرہ کیا ہے ۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular