Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldگھروندہ ۔ایک تجزیہ

گھروندہ ۔ایک تجزیہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر عشرت ناہید

`گھروندہ” “لہو کے پھول کے بعد حیات اللہ انصاری کا دوسرا اہم ناول ہے۔ تقریباً ۶۹۹ صفحات پر مشتمل یہ ناول پہلی بار ۱۹۸۲ء؁ میں نامی پریس لکھنئو سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول خانہ بدوش بنجاروں کی زندگی جو نہ صرف انسانی سماج کے بھٹکتے رہنے والے طبقے کی زندگی ہے، کے مختلف، متنوع اور بعض اوقات متضاد معاملات حقیقت پسندانہ طریقے اور مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس موضوع پر لکھنے سے پہلے مصنف کے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے تھے۔ جنہیں ۲۶، صفحات کے پیش لفظ میں اپنے پر اثر طرز نگارش میں پیش کیے ہیں۔ جس طرح میڈیکل سائنس میں انسانی جسم کے پیچیدہ ساخت کو سمجھانے کے لیے خرگوش یا دیگر مماثل جانور کے پوسٹ مارٹم کا طریقہ اپنایا جاتا ہے کیا اسی طرح انسانی سماج کے اس سے بھی پیچیدہ تر انداز اور اندرونی عوامل کو سمجھنے کے لیے کوئی طریقہ کار اپنا یا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اس کے ذریعے انسانی سماج کے اندرونی طاقتور رجحانات جن میں اقتصادی، معاشرتی ، سیاسی، مذہبی، اخلاقی، جنسیاتی وغیرہ خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں ان کو فطری انداز میں دیکھا پر کھا جا سکے تاکہ ایسے تجزیاتی مطالعے سے بہتر انسانی سماج کی تشکیل میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں حیات اللہ انصاری خانہ بدوشوں کی سماج کی سادگی سے متاثر ہوتے ہیں مگر انھیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ سماج ہزاروں برسوں سے جس طرح جی رہا ہے اور جن تبدیلیوں کا شکار ہوتا رہا ہے اس کی بنا پر اس کا تجزیہ اگرکیا بھی جائے تو وہ خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہو سکے گا جو انسانی سماج کے لیے مفید ثابت ہو سکے، اس مرحلے پر انہوں نے علم اخلاق کی حدود کا ذاتی مشاہدہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ سماجی زندگی کے انقلابات اور سرگرمیوں میں علم اخلاق بھی ایک حد تک معاون ہوتا ہے اس سلسلے میں وہ اپنا تجربہ بتاتے ہیں کہ اچھا انسان بننے کی خواہش کی وجہ سے وہ اخلاقیات کا باضابطہ مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہوئے اور زمانہ طالب علمی یعنی بی۔اے میں انہوں نے اخلاقیات کا مضمون پڑھنا شروع کیا لیکن جب انہوں نے اخلاقی اصولوں کو اپنا کربرتنے کی کوشش کی تو اس راہ میں بڑی روکاوٹیں ملیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سلسلے میں اخلاقیات صحیح رہنمائی نہیں کر سکتی ہے وہ اپنا عملی تجربہ بیان کرتے ہیں۔
“ میں جس زمانے میں اخلاقیات پڑھ رہا تھا ہوسٹل میں رہتا تھا وہاں ہر قسم کے طالب علم تھے اور وہ ہر قسم کی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ بہت سی شرارتیں ایسی بھی ہوتی تھیں کہ اگر ان کو اخلاقیات کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ ایسا جرم تھیں کہ ان کے کرنے والوں کو سزائیں دی جا سکتی تھیں۔ ” (گھرو ندہ ص۔۱۰)
ان حالات میں حیات اللہ انصاری کے دل و دماغ میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا وہ ان شرارتوں میں حصہ لیں یا کنارہ کش ہو کر ان کی شکایتیں کرنے لگیں۔ ہوسٹل میں کی جانے والی شرارتوں میں کچھ رائج قانون کے مطابق جرم کی نوعیت کی بھی تھیں۔ لیکن طلباء اپنے طور پر ان کو جرم نہیں سمجھتے تھے مثلاً روزاہ دار بن کر دکھانا او رحقیقتاً روزہ نہ رکھنا، بے وضو نماز پڑھنا، بغیر اجازت سنیما دیکھنے چلے جانا، غیر حاضر ہو کر بھی حاضری بھروا دینا وغیرہ ایسے حالات میں اخلاق پرعمل کرنا دشوار تر تھا وہ کتابوں میں حل تلاش کرتے اور ناکام ہی رہتے تھے۔ اس دور سے گزرنے کے بعد عملی زندگی میں بھی طرح طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑا مذہبی حلقوں کے مولویوں سے، زمینداروں، وکیلوں، سرکاری افسروں، جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والوں ، ان کے مخالفوں، کسانوں غریبوں غرض سے سے ان کا واسطہ پڑا۔ ان سب کے اپنے اپنے طریقۂ کار تھے اپنی برمفاد روش تھی۔ مہذب لوگ ان پڑھ لوگوں کو کھلے عام بیوقوف بناتے اور سادہ لوح لوگوں میں بھی اپنے طبقے کے کمزوروں کے ساتھ بدسلوک کے معاملات بھی ان کے سامنے سے گذرے۔ ان سب ہی حالات نے انھیں جو سبق سکھائے وہ یہ تھے کہ دنیاداری کا مکمل غلبہ ہے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کی بے راہ روی سے وہ پریشان بھی ہو اٹھتے تھے کہ آخر یہ دوسروں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والی شخصیتیں کس قدر پست کردار رکھتی ہیں۔ حصول تعلیم کے دور میں انھیں ناکارہ کم عقل اساتذہ سے بھی واسطہ پڑا۔ نصاب میں کچھ بے مقصد کتابیں بھی شامل نظر آئیں۔ امتحان کے بھی غیر جانبدار نظر نہیں آئے۔ اور جب انھوں نے ادب کی وادی میں قدم رکھا تو یہاں بھی گروہ بندی، اور دوست نوازی کا ہی بول بالا نظر آیا اور انھیں احساس ہوا کہ یہاں بھی فن کی قدر و قیمت کو صحیح طور پر جانچا پر کھا نہیں جاتا ہے۔ اخلاق و کردار کی اصلاحی کتب بھی پڑھیں ان میں بیان کی گئی حکایتوں کو بھی عمل کے میدان میں سخت دشواریوں کا سامنا تھا یعنی وہ ایسے لوگوں کے لیے لکھی گئی ہیں جو اپنے مزاج پر پوری طرح قابو رکھ سکتے ہوں۔ یعنی کسی بھی برائی کو آن و احد میں چھوڑ کر نیکی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہوں۔ جو بہر حال آسان معاملہ نہیں ہے۔ اخلاقیت سے ہٹ کر جرائم اور غیر سماجی حرکتوں پر غور کیا تو وہ اس سے ذیادہ خطرناک راہ دکھائی دی۔ ایسے حیران کن ماحول سے اکتا کر مصنف نے اخلاق اور بد اخلاقی دونوں سے مایوس ہو کر گاندھی جی کی’تلاش حق‘ کی طرف ذہن کو موڑا۔ گاندھی جی پیکر اخلاق اور اصول پسند ملے مگر جب ان کے سیوا ٓشرم میں چند دن قیام کیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں رہنے والوں کے قلوب پر ان تعلیمات کا اثر صرف واجبی سا ہی پڑ رہا ہے وہ لکھتے ہیں۔
“میں نے گاندھی جی کے آشرم سیوا گرام میں بھی ان کی موجودگی میں کچھ دن گذارے ۔ میں نے وہاں کی زندگی اور رہنے والوں کا مطالعہ کیا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں کے درجنوں باسیوں میں سے دوچار ہی ایسے نکلیں گے جو گاندھی جی کی راہ پر پوری کا کیا سوال ادھوری طرح بھی چل سکیں۔ آج ۳۵، سال کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ میں جس نتیجے پر پہنچا تھا وہ غلط نہیں تھا۔” (گھرو ندہ ص۔۲۴)
یہ مضمون حیات اللہ انصاری نے ۱۹۸۶ء؁ میں تحریر کیا تھا آج گاندھی جی کی تعلیمات پر چلنے والوں کی تعداد انگلیوں پر بھی گنی جانا دشوار ہے۔ مہاتما بدھ جو صحیح جذبات، صحیح فکر اور صحیح عمل کے لیے قربانی و تیاگ کا راستہ اختیار کر کے بھکشو بن گئے تھے ان دونوں عظیم رہنمائوں کے بتائے ہوئے راستے پر عمل پیرا ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ انسانی سماج کو مجموعی حیثیت سے کوئی روشنی قابلِ حصول نظر نہیں آتی ہے اور پھر کسی ایک انسان کا اچھا یا برا ہونا اس کا انفرادی فعل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا گہرا تعلق سماج کی مجموعی حالت سے بھی ہوتا ہے کسی ایک گائوں میں اگر ذریعہ معاش نہ ہو اور غربت عام ہو تو وہاں کے لوگوں میں رہنے سہنے، کھانے پینے اور زندگی بسر کرنے کے طور طریق سب ارزل ہی ملیں گے۔ اسی گائوں میں اگر ایک نہر نکال دی جا تی ہے اور اس کے ارد گرد کی زمینیں گائوں والوں کو کاشت کے لیے دیدی جاتی ہیں تو تھوڑے ہی عرصے میں یہ گائوں ترقی کی سمت آگے بڑھنے لگتا ہے وہاں کے رہنے والوں کے اخلاق و کردار میں بھی تبدیلیاں لازمی طور پر آجاتی ہیں۔ اسی طرح اودھ کے نوابی عہد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار والے طبقے کی آمدنی بے حد و حساب ہونے کی وجہ سے وہ عیاشی کی طرف مائل ہوئے اور ان کا اثر اوسط طبقے پر بھی پڑا طوائفیں اور رنگ رلیاں عام ہونے لگیں۔ ان حرکتوںؓ کی وجہ سے نوابی عہد پر زوال آیا۔ واعظ اور مصلح بھی پیدا ہونے لگے نئی نسل اس عیاشی کے ماحول سے گریز کرنے لگی تعلیم کے فروغ سے ان کی سرکاری عہدے تک رسائی ہونے لگی۔ طوائفیں اور بربادی کے ساز و سامان از خود ختم ہونے لگے۔ سماج میں یہ تبدیلیاں حالات کے تحت آئیں۔ فرد پر سماج کے اثرات کا اندازہ کھانے پینے کی اشیاء سے بھی لگا سکتے ہیں۔ ایک علاقے میں ایک قسم کا تیل استعمال ہوتا ہے جو دوسرے علاقے کے لوگوں کے لیے کھانے میں ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ سماج ہی تمامتر تبدیلیوں کا مرکز ہے۔ فرد بھی سماج پر اثر انداز ہوتا ہے مثال کے طور پر مہاتما گاندھی ، کارل مارکس، لینن وغیرہ نے سماج کو پوری طرح متاثر کیا ہے۔ مصنف یہاں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ سماج اور فرد دونوں میں اثر انداز ہونے کی قوت موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر حتمی طور پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ ان دونوں کے باہمی رشتے کی پیچیدگی سے علم اور دیگر معلوم ذرائع کو وہ ناکافی تصور کرتا ہے اور اپنے دل میں یہ خواہش محسوس کرتا ہے کہ جہاں علم کی حدیں اس کے لیے ناکافی ہیں تو پھر فکشن یا تخیل کے ذریعے کیوں نہ وہ اس مسٔلے کا حل تلاش کرلے۔
در اصل حیات اللہ انصاری فرد اور سماج کے اندرونی عمل کو اپنی الگ الگ خاصیت کے ساتھ سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف سماجی حلقوں میں تبدیلیوں کا، حرکت و عمل کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اور ان کا مطالعہ کسی نہ کسی نہج سے اس سلسلہ کو بہ آسانی سمجھ لینے میں معاون ہو سکتا ہے۔ برسوں کی ریاضت اور غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایک نسبتاً سادہ سماج کا تفصیلی جائزہ اس طرح پیش کیا جائے جو سماج کی مختلف طاقتوں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور جنسی وغیرہ محرکات اور عمل کو واضح شکل میں لوگوں کے سامنے لا سکے۔ اس سے فرد اور سماج کے باہمی رشتے اور فطری انسانی تقاضوں کو نہ صرف سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ ایک اصول پسندانہ فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو سکے گی۔ اسی یقین و اعتماد کے ساتھ حیات اللہ انصاری نے “گھر وندہ”ناول تخلیق کیا ہے اور وہ پر اعتماد ی کے ساتھ اپنے ناول کے ہیرو شہاب کی زبانی یہ کہلانے کی جسارت بھی کرتے ہیں۔
“یہ بھی دیکھو شہاب تم نے بنجارہ بن کر کیا کیا سیکھ لیا۔ دنیا کو سمجھنے میں بہتوں سے آگے نکل گئے ہو۔ اپنی تہذیب میں کیا کیا خامیاں ہیں بڑے لوگ کس کس طرح غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ سب تم کتنا سمجھ گئے ہو۔ اب میں اپنے گھر جا رہا ہوں تو ذیادہ سمجھ دار اور بہتر آدمی بن کر جا رہا ہوں۔” ( گھرو ندہ ص۔۶۹۶)
اس مقصد اور اس کے نتیجے کے پیش نظر جب ہم گھروندہ پر نظر ڈالتے ہیں توتقریباً سات سو صفحات پر پھیلے اس ناول کے چھبیس ابواب میں سے ہر باب پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ زبان و بیان پر حیات اللہ انصاری کو پوری قدرت حاصل ہے وہ اپنی ہربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دماغ کے ساتھ دل بھی ان کی تحریر میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔
کہانی کا آغاز لکھنئو کے ایک زمیندار گھرانے کے باغ میں ہوتا ہے۔ جہاں شہاب جو زمیندارگھرانے کا اکیس سالہ نوجوان ہے۔ تفریح کی غرض سے اپنے باغ میں جاتا ہے وہا ں اس کے ہاتھ میں آم دیکھ کر ایک لڑکی کی آواز آتی ہے۔ “کون سا آم ہے یہ بڑا من سکھ ہے؟ اس لڑکی کو دیکھ کر شہاب وہ آم اسے دے دیتا ہے۔ لڑکی آم لے کر ہنستے ہوئے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتی ہے اور اپنی ساتھی لڑکی کو آواز لگا کر بھاگ جاتی ہے۔ لڑکی کے کھلنڈرے انداز اور حسین نقوش شہاب کے دل و دماغ پر اتنے گہرے اثر انداز ہوتے ہیں کہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی کیفیت کچھ یوں بیان کی گئی ہے۔
“شہاب کو کبھی عشق سے کوئی خاص دلچسپی رہتی تھی اور نہ شعر و شاعری سے اور نہ گانے اور رقص سے اور نہ ہی سیاست سے جس میں اس کے چچا اور باپ لگے رہتے تھے۔”
لیکن ایک معمولی سا واقعہ ہی شہاب کی زندگی کو بدل دیتا ہے وہ متواتر اس لڑکی کے متعلق سوچتا رہتا ہے اور اندازہ کر لیتا ہے۔
“مگر وہ ہے بنجارن ہی۔ پنڈلیوں سے اونچا لہنگا تنگ چولی اور کمر سے لپٹا ہوا دوپٹہ۔ سوائے بنجارن کے اور کون پہنتا ہے۔ سنا ہے ان عورتوں سے جو کوئی چھیڑ خانی کرتا ہے اس کو یہ چاقو مار دیتی ہیں۔ ہاں وہ مار تو سکتی ہے چاقو، آندھی کی طرح آزاد معلوم ہوتی ہے وہ بنجارن ظالم بنجارن دماغ میں ایسی گھس گئی ہے کہ وہاں اپنے سوا کسی اور چیز کو چھوڑا ہی نہیں۔” (گھرو ندہ ص۔۴۱)
بنجارن کے عشق کا شکار ہو کر شہاب اپنی سائیکل لے کر اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے نہر کے کنارے بنجاروں کا قافلہ ٹھہرا ہوا تھا وہاں اس لڑکی سے شہاب کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ شہاب اس سے اظہار محبت کرتا ہے تو وہ اس کو سمجھاتی ہے لیکن شہاب محبت کے نشے میں سرشار تھا بنجارن اس کے جوش و جذبے سے متاثر ہوتی ہے اور خود بھی اس کی طرح ملتفت ہو جاتی ہے۔ وہ اسے بنجاروں کے طور طریقوں اور سخت آزمائشوں سے گزرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ تھوک چاٹنے اور پیشاب پینے جیسے کراہیت آمیز آزمائشوں سے گزرنے کے بعد دونوں کی شادی کی رسم ادا ہوتی ہے۔
شہاب کی گمشدگی پر گھر کے افراد پریشان ہوتے ہیں۔ اس کی بہت تلاش کرتے ہیں۔مگر ناکام رہتے ہیں کیونکہ شہاب ان کے گمان کے پرے ایسی جگہ تھا جہاں اسے تلاش کرنے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔شہاب کو خانہ بدوش قبیلے کی یہ زندگی جہاں ہر طرف بے فکر، مسرت اور خوشی بکھری ہوئی نظر آتی ہے پرستان کی طلسمی دنیا لگتی ہے۔ حالانکہ محل کی جگہ جھولداری، پہننے کے لیے پھٹے کپڑے اور کھانے کے لیے چنے و جوار کی سوکھی روڑی اور ساگ ملتی تھی جو بے مزہ ہوتی تھی مگر بھوک کے وقت وہ اسے مزے لے لے کر اور مسرت کے ساتھ کھاتا ہے۔ اس کی محبوبہ رنگین بھی امکان بھر کوشش کرتی کہ اس کو شہری عورت کی طرح راحت دے سکے، اس کی پسند کے کھانے بنا سکے اور اس کی پسند کے مطابق خود کو سنوار سکے۔ ساتھ ہی وہ شہاب کو بھی بنجارہ زندگی کے آداب سکھا تی رہتی ہے۔ رنگین کی محنت سے بہت جلد شہاب اس سانچے میں ڈھل بھی جاتا ہے۔ شہاب سمجھ لیتا ہے کہ کھلی آب و ہوا اور بنجاروں کی زندگی میں ایک قسم کا گہرا رشتہ ہے جس کا اندازہ خود بنجاروں کو بھی نہیں ہے۔
ناول میں کہانی ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے۔ بنجاروں کے درمیان رہتے ہوئے شہاب کو قدم قدم پر نئے نئے اور حیرت انگیز حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ بنجارہ قبیلہ میں شہری لوگوں کے بچہ چھوڑ جانے اور اس کو گود لے کر پالنے کی رسم ہے۔ شہر کے باشندے اپنی ناجائز اولاد کو بنجاروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور ان کا سردار بچہ کو پالنے کی رقم کا سودا طے کرکے مناسب جوڑے کو وہ بچہ گود دے دیتا ہے۔ ایسا ایک بچہ رنگین سے بات کرکے سردار اس کو دے دیتا ہے۔ رنگین کو اس وجہ سے بچہ دینا طے کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا شوہر شہاب ایک پڑھا لکھا بنجارہ ہے۔ قبیلہ کے رواج کے مطابق بچہ کو پالنے والوں کو دی جاتی ہے جو رنگین اور شہاب کے حصے میں آتی ہے۔ شہاب اس سودے بازی اور بنجارہ طور طریق پر آمادہ نہیں ہوتا ہے مگر رنگین کے سمجھانے پر بہر حال رضا مند ہو جاتا ہے۔ رنگین شہاب کو تردّد کے ساتھ خاموش دیکھ کر پوچھتی ہے کہ کیا وہ اس معاملے میں ناراض ہے شہاب کہتا ہے۔
“یہ بات کہ تم ایک بچہ کو اپنا نے جارہی ہو میری مرضی کی بھی تو ضرورت تھی اس کے لیے۔”
رنگین تعجب کا اظہار کرتی ہے کہ اس میں اس کی مرضی کی کیا بات ہے؟ کیا وہ ایسی اچھی بات کو ناپسند بھی کر سکتا ہے پھر وہ بتاتی ہے کہ بنجاروں میں آدھے جوڑے ان پر رشک کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات ہم بنجاروں میں عام ہے اور بچہ کو گود لینے میں ہمارے رسم و رواج کے مطابق صرف ماں کی مرضی معلوم کی جاتی ہے باپ کو تو اس فیصلے کی پابندی ہی کرنا ہوتی ہے۔ اس واقعہ سے شہاب کو اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ بنجارہ قبیلے کا مذہب یا قانون جو کچھ بھی ہے وہ اسی قسم کے رسم و رواج پر مبنی ہے۔ فطری سماج کے فطری اصول کچھ اسی قسم کے بنائے اور اپنائے گئے ہیں۔ جو صدیوں سے ان میں رائج ہیں۔ بچہ کا خیر مقدم سب مل کر کرتے ہیں کیونکہ اس وقت یہ لوگ باغ میں مقیم تھے اس وجہ سے بچہ کا نام “باغی” رکھ دیا گیا جو ان لوگوں کے لب و لہجے میں باگی بن گیا۔ اب باگی شہاب اور رنگین کی اولاد کی حیثیت سے سارے قافلہ والوں کی محبتوں اور شفقتوں کا مرکز بن کر پلنے لگتا ہے۔
شہاب برسات کے موسم کی خوشگوار فضا میں راگ رنگ اور مستی کے نظاروں کے ساتھ ان تمام تکالیف اور اذیتوں کو بھی برداشت کرتا ہے جو خانہ بدوش قافلوں کا مقدر ہے اور اسے یہ لوگ صدیوں سے برداشت کرتے ہوئے اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ حالات اور ماحول سے ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرنے کا فن انھیں زمانے نے سکھا دیا ہے شہاب کو اس زندگی کے حالات سردار سمجھاتا ہے اور بتاتا ہے۔
“ہمارے باپ دادا ایران سے قالین اور افغانستان سے گرگابیاں لالا کر ہندوستان میں فروخت کیا کرتے تھے اور اس تجارت سے بھاری رقمیں حاصل کیا کرتے تھے اس زمانے میں ہم لوگوں کے خیمے اس طرح معمولی چادروں کے نہیں ہوا کرتے تھے جو ہلکی بارش سے بھی رسنے لگیں۔ اس زمانے میں خیمے کمبلوں کے ہوتے تھے جن کے اوپر موم جامہ چڑھا دیا جاتا تھا اور اس زمانے میں قبیلے کے پاس مرغابیاں، بکریاں، دنبے ہوتے تھے۔ سوکھی لکڑیاں اور کوئلے ہوتے تھے۔ برسات میں مزے مزے کے کھانے پکتے تھے اور کباب بنتے تھے۔ اب تو مرغابیاں پالو تو انڈے کم دیتی ہیں اور جلدی جلدی مر جاتی ہیں۔ بکریاں پالو تو چراگاہیں نہیں اور زمیندار ان کو ہمارے ساتھ دیکھتے ہیں تو اپنی زمین پر پڑائو نہیں ڈالنے دیتے۔’ (گھرو ندہ ص۔ ۳۱۸۔۳۱۹)
اس طرح وہ شہاب کو برسات کی تکلیفیں برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے شہاب موسم برسات کے ناخوشگوار ماحول کی اذیت کی وجہ سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے جس کا اندازہ کرکے رنگین کے دل میں خدشات پیدا ہونے لگتے ہیں جس کا اظہار وہ شہاب سے کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر جانے کا تو نہیں سوچنے لگا۔ شہاب کہتا ہے کہ وہ اس طرح کیوں شک کا اظہار کرتی رہتی ہے تو وہ جواب دیتی ہے۔
“میں تمہاری آنکھوں سے پہچان لیتی ہوں۔ اگر تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو میرے قول و قسم کا تقاضہ ہوگا کہ میں تم سے جدا ہو کر اپنی جان دے دوں۔ میرا عہد اور میری قسم مجھ سے کہے گی۔ “ااب تو ستی ہو جا، مرغا بیوں کے جوڑے میں جب کوئی مرجاتا ہے تو دوسرا بھی چیخ چیخ کر جان دے دیتا ہے۔”(گھرو ندہ ص۔ ۳۱۵)
تب شہاب اس کو احساس دلاتا ہے کہ جب وہ اس کے بغیر جی نہیں سکتی تو پھر اس کے ساتھ چلنے پر آمادہ کیوں انہیں ہوتی یہ ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتی تب وہ جواب دیتی ہے۔
“میں تمہارے لیے ستی ہو سکتی ہوں مگر قبیلہ نہیں چھوڑ سکتی میں ہی کیا ہمارے یہاں کی کوئی لڑکی نہیں چھوڑ سکتی ہے۔”
اور جب شہاب کہتا ہے
“رنگین اس معاملے میں اتنی ضد کیوں؟ تو رنگین بے ساختہ کہتی ہے تم مجھ
سے بار بار ایسی بات کرتے ہو ذرا تم مچھلی سے تو کہہ کر دیکھو کہ تالاب سے
نکل کر خشکی میں رہ لے۔'(گھرو ندہ ص۔ ۳۱۵)
اس کے بعد شہاب کی زندگی میں ایک اہم واقعہ ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی شہر میں جہاں قافلہ ٹھہرا ہوتا ہے وہیں کے میلے میں شہاب اور رنگین کا بیٹا باگی گم ہو جاتا ہے سارے قبیلے کے لوگ اسے تلاش کرتے ہیں مگر وہ نہیں مل پاتا ہے۔ بنجاروں میں بچوں کی گمشدگی بھی ہوتی رہتی تھی مگر اس سب کے باوجود وہ لوگ کسی ایک جوڑے کے غم کو ان کا ذاتی غم نہیں سمجھتے تھے سردار بھی شہاب کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتا ہے یہ معاملہ اس کاذ ْاتی معاملہ نہیں ہے باگی کی گمشدگی قبیلہ کا مشترکہ غم ہے۔ قبیلہ کا سردار غمگین ہو کر کہتا ہے۔
“ہم لوگوں کی دنیا جو کچھ ہے قبیلہ ہے، اس کے باہر کچھ نہیں ہے اسی قبیلہ میں ہماری خوشیاں ہیں، ہماری راحتیں ہیں۔ یہی ہمارا آخر دم تک ساتھ دیتا ہے اس لیے ہم بنجارے دل بڑا رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے نباہ کرتے ہیں ان کی برائیوں کو برداشت کرتے ہیں اور غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں۔”(گھرو ندہ ص۔ ۵۴۱)
ایک مرتبہ پولیس نے قبیلہ کو گھیر کر دبش ڈالی اور تلاشی لینے کے بعد سردار اور دوسرے بنجاروں کو مارا پیٹا اور اپنے ساتھ پکڑ کر لے گئے۔ الزام یہ تھا کہ قبیلہ کے لوگوں نے چوری کی ہے مال وغیرہ تو ملا نہیں تھا۔ شہاب اور رنگین کو جب قبیلہ کے حالات معلوم ہوتے ہیں تو رنگین پر ایسا اثر ہوتا ہے جیسے صدیوں سے پوشیدہ بنجارہ قبیلہ کا ماضی اس کی روح میں اتر آیا ہے اور وہ مجسم بنجارن اور قبیلہ کی نگراں ہمدرد کے روپ میں قبیلہ کو بچانے کے لیے کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہے۔
“شہاب نے محسوس کیا کہ رنگین ایسی بدل گئی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی عورت ہے جو لڑ جھگڑ رہی تھی آواز میں بلا کا درد تھا اور آنکھوں میں گہرائی اور دوراندیشی۔ وہ بولی، ہم خطرے میں ہیں، تم کچھ کروگے؟، شہاب نے جواب دیا، کرونگا کیوں نہیں” (گھرو ندہ ص۔ ۵۵۴)
ایسے نازک مواقع کے لیے قبیلہ کے پاس ایک خفیہ و بڑا فنڈرہتا تھا وہ رقم شہاب کو دے کر رنگین کہتی ہے کہ قبیلہ کو بچالے اس کی باتیں سن کر شہاب محسوس کرتا ہے کہ سارا زمانہ بنجاروں کے خلاف ہو جاتا ہے ایسے وقت میں بنجاروں کو اپنے حفاظتی اقدام خود ہی کرنا پڑتے ہیں اور وہ مجبوراً ایسے اقدام بھی کر گزرتے ہیں جو عام لوگوں کے نزدیک بد اخلاقی، بد چلنی اور جرائم کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں اس نے سوچا کہ وہ بھی بنجارہ سماج میں شامل ہے اس لیے اس کا بھی فرض ہے کہ بنجاروں پر ناگہانی آفت میں ان کا امکانی بھر ساتھ دے۔ لہٰذہ وہ اپنے پرانے کپڑے جو شہر سے پہن کر آیا تھا پہنتا ہے اور اپنی سائیکل لے کر تھانے جاتا ہے۔ پولیس کی جانی پہچانی حرکتیں، قدم قدم پر رشوت دے کر بنجاروں کا پتہ لگاتا ہے شہر کے ایک ہوٹل میں ٹھہر کر وہ منصوبہ بنا کر وکیل سے رابطہ قائم کرتا ہے اور اس کے ذریعے معاملہ طے کراکے بنجاروں کی رہائی کرا لیتا ہے۔ رہائی کی شرط یہ تھی کہ قافلہ فوراً کوچ کر کے بنارس کی سمت چل دیگا اس پر عمل بھی ہوا۔ شہاب کو یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ چوری واقعی قبیلہ کے لوگوں نے کی تھی اور بہت بڑی رقم سونا، چاندی اور نقدی کے روپ میں ان کے پاس تھی۔ قبیلہ کے لوگ اس سلسلے میں بھی شہاب کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ ٹھیک طریقے سے زیور وغیرہ فروخت کریگا اور اس سے مشورہ کرکے اس چوری کے معاملے میں جو ضابطے قبیلے کے لوگوں نے توڑ دیئے ہیں ان پر غور و فیصلہ ہوگا۔ چوری کرنے والوں کے پاس دلیلیں تھیں کہ آمدنی کے ذرائع اب محدود ہو چکے ہیں اس لیے ایسی حرکتوں کو جائز قرار دینا چاہیے اور دوسرے سماجی سدھار پر بھی قبیلے میں کچھ تبدیلیوں کے لیے فیصلہ لینا چاہیے، بنارس میں پہنچ کر قبیلے کہیں پہچان نہ لیے جائیں اس خدشے کے تحت سردار کے حکم کے مطابق سادھو بن کر الگ الگ ٹھہرتے ہیں کیونکہ ایک جگہ خیمہ لگا کر رہنے سے پولیس کے بنجاروں کو پہچان لینے کا ڈر تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنے اپنے طریقوں سے بھیس بدل کر جوگی جوگن بن کر لوگوں کو الو بناتے ہیں۔ انھیں چوری کا مال بیچنے کے لیے شہاب کی ضرورت تھی۔ کیونکہ اب تک شہاب بنجارہ قبیلہ میں اپنا اہم مقام بنا چکا تھا۔ شہاب جب وہاں پہنچتا ہے تو بدلے ہوئے حالات سن کر اسے اندازہ ہوتا ہے کو بنجارہ سماج میں بھی اپنے فطری طور طریقوں میں زمانے کے مطابق تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنے روایتی کردار کو بدلنے کی بھی سوچنے لگے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو روایت پر سختی سے عمل پیرا ہیں وہ سخت تذبذب کے شکار ہو گئے ہیں ان کے نزدیک چوری کو جائز قرار دینا سخت ترین گناہ تھا اور اس فعل سے قبیلے پر تباہی آجانے کا خطرہ منڈلاتا رہتا تھا۔ ایسے پریشان کن حالات میں جب اپنی اہمیت کا اندازہ شہاب کو ہو جاتا ہے تو وہ بے راہ روی کاراستہ اختیار کر لیتا ہے اور عیاشی کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ تب ایک دن رنگین اسے علیحدہ لے جاکر نہایت سنجیدگی اور بے رخی کے ساتھ سمجھاتی ہے کہ چوری کرنے والے لوگ اپنی حرکت کو جائز قرار دینے کے لیے اسے اپنے ساتھ ملا رہے ہیں اور وہ ان کی ہمدردی اپنی جذباتی تسکین کے لیے کرنے بھی لگا ہے اتنا ہی نہیں وہ اب عیاش پسند ہو کر عیاشی میں مشغول ہو چکا ہے یہ حرکتیں بھی قبیلے والوں سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ۔ در اصل شہاب نے پولیس کی حراست سے بنجاروں کو رہا کروانے کے بعد ایسا رخ اختیار کر لیا تھا کہ جب وہ قبیلے کے سادھو اور جو گن والے بھیس میں بنجارہ عورتوں سے ملتا تھا تو ان میں سے کچھ کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی بھی کوشش کرتا تھا۔ رنگین اسے بتاتی ہے وہ بنجار ہ نہیں مصلحت پسندی کی وجہ سے شہاب کی رکیک حرکتیں برداشت کر لیتی ہیں لیکن اب معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ قبیلہ کے لیے شہاب نا قابل برداشت ہو گیا ہے۔ اور قبیلہ نے رنگین کو شہاب کے لیے آخری فیصلہ کر لینے کو پابند کر دیا ہے آخری فیصلہ ان کے نزدیک شہاب کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہے اور رنگین کو بھی اپنی قسم کے مطابق جان دے دینا ہے۔ یعنی اب ان دونوں کی موت ہی قبیلہ کی زندگی ٹھہر گئی تھی۔ ایسے نازک مرحلے میں شہاب رنگین کو اپنی محبت کا یقین دلا کر دونوں کے عشق کی یاد تازہ کرتا ہے اور مارنے یا مرنے کے بجائے قبیلے سے بھاگ جانے کا منصوبہ پیش کرتا ہے جس پر رنگین راضی ہو جاتی ہے۔ رنگین قبیلے والوں کو یہ یقین دلا کر آئی تھی کہ وہ شہاب کو ختم کرکے اپنی بھی جان دے دیگی اور قبیلے کو منھ نہ دکھائیگی۔ شہاب اور رنگین ایک بار پھر ایک دوسرے سے زندگی بھر ساتھ نباہنے کے قول و قسم کرتے ہیں اور بنارس سے شہاب کے گھر لکھنئو بھاگ جانے کا پلان بنا کر اس پر عمل کرتے ہیں۔
اسٹیشن پر پہنچ کر رنگین اپنے رسم و رواج کے مطابق قبیلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیتی ہے اور اپنے طور پر اپنی ماں بہنوں کو بھی آخری سلام پہنچا دیتی ہے۔ ریل روانہ ہوتی ہے۔ شہاب رنگین کو شہری زندگی کے آداب سکھاتا اور سمجھانا شروع کرتا ہے مگر رنگین کی کیفیت یہ تھی کہ۔
“جب آندھی آتی ہے تو آسمان کی چڑیاں گھونسلے کی طرف بھاگتی ہیں اور ایک میں ہوں جو آندھی سے ڈر کر گھونسلے سے آسمان کی طرف بھاگ رہی ہوں ۱۱؎
راستے میں دونوں ایک دوسرے کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں اس پر بھی تبادلئہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ اور رات میں نیند کے غلبے نے دونوں کو الگ خواب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اور صبح ہونے پر شہاب کو پتہ چلتا ہے کہ رات میں رنگین نے اپنے آپ کو شہری زندگی میں نہ کھپ سکنے کا اندازہ کرکے کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا اور اپنی زلفوں کی لٹ چاقو سے کاٹ کر شہاب کے پیروں میں باندھ کر نہ جانے کس اسٹیشن پر اتر کر وہ گوشئہ گمنامی میں غائب ہو گئی۔ یعنی اس نے اپنا حسن اور محبت شہاب کے قدموں پر نچھاور کر کے اپنے آپ کو اس منزل سے دور کر لیا۔ اور اس طرح سے شہاب کی ناکامی کی حالت میں نادل کا اختتام ہو جاتا ہے۔
“گھروندا”کا جب ہم فنی نقطئہ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ ناول کے فنی تقاضوں پر پورا اترتا نظر آتا ہے۔ ناول کا پلاٹ مربوط، منظم اور کسا ہوا ہے۔ زندگی کی سچائیاں، حقائق اور واقعات پوری حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ جن سے ناول نگار کے وسیع مطالعہ، گہرے مشاہدے اور ہندوستانی سماج سے واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ناول کسی سماج کی تشکیل میں حصہ لینے والے بنیادی عوامل کو پیش کرتا ہے۔ ناول نگار کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی گھروندا جن عناصر سے تشکیل پاتا ہے وہ اس گھروندے میں جزولا نیفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کے انفرادی جذبات و احساسات اور بعض تقاضے وقتی طور پر ان پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں ۔
لیکن بنیادی عناصر کی ہیئت اور ماہیت پر اثر نہیں ڈالتے اور تشکیل میں حصہ لینے والے عناصر کی قوت کے سامنے پسپا ہو جاتے ہیں۔ اس ناول میں ناول نگار نے انسانی سماج کی پیچیدگیوں کو واضح کرنے کے لیے اور پیچیدہ عمل کے دوران میں تشکیلی اور تعمیری قوتوں کے عمل اور ردِ عمل کے تجزیاتی نتائج کو پیش کرنے کے لیے ناول میں خانہ بدوش بنجاروں کے سماج اور سماجی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔
ناول کا پلاٹ ایک دم سیدھا سادا اور پیچیدگیوں سے پاک ہے صدیوں سے جاری روایتی انداز کے راستوں پر خانہ بدوشی کے سفر اس کی مشکلات اور صعوبتوں، ہوس کے مارے مہذب لوگوں کی ذلیل حرکتیں جن کے ذریعے بنجارنوں کے ساتھ بد سلوکیوں کی داستانیں بھی کافی دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ حالانکہ کہانی کچھ بہت ذیادہ پر اسرار بھی نہیں ہے، سیلاب میں قافلے کا گھر جانا اور پھر سانپوں کے حملے تو دوسری طرف سرکاری حکام کی بن جارہ عورتوں پر حریض نگاہیں ڈال کر ان کے استحصال کی خواہش، بھیڑیوں، لکڑبھگوں اور گیدڑوں کی پورشیں غرض یہ کہ طرح طرح کے آلام و مصائب سے گذر کر زندگی کی شاہراہ تک رسائی حاصل کرنا وغیرہ کو ایسے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی پوری توجہ ہر لحظہ ہر آن ناول سے وابستہ رہتی ہے۔
کسی ناول میں پلاٹ کے بعد کردار ہی اس کا اہم عنصر ہوتا ہے۔ کردار ہی کہانی کو ارتقائی منزلوں سے روشناس کراتے ہیں اور زندگی کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ گھروندہ میں بھی مختلف کرداروں کے ذریعے کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کا ہیرو شہاب متوسط زمیندار گھرانے کا ایک نوجوان ہے جو ابھی اپنی تعلیم بھی پوری نہیں کر سکا ہے۔ وہ کرکٹ کا اچھا کھلاڑی ہی نہیں بلکہ اپنے کالج کا فاسٹ بالر بھی ہے۔ اس نسبت ایک خاندانی لڑکی محمودہ سے ہو چکی ہے لیکن وہ بنجارن `رنگین کے عشق میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ سب کچھ بھول کر گھر سے فرار ہو جاتا ہے۔ اور بنجاروں کی سخت آزمائشوں سے گذر کر اپنی محبوبہ رنگین سے شادی کرکے ایک بنجارہ بن کر زندگی گذارنے لگتا ہے۔ چار سال کا طویل عرصہ بنجاروں کے بیچ گذارنے کے بعد نامساعد حالات ہونے پر وہ دو بارہ اپنی دنیا میں لوٹتا ہے تو اپنے ساتھ اپنی بیوی رنگین کو بھی چلنے کے لیے رضا مند کر لیتا ہے۔ مگر رنگین اپنی آہنی روایتوں سے بندھی لڑکی ہے جس کے جذبات کی عکاسی ناول نگار اس طرح کراتا ہے۔
“ساب پتھر کے کوئلے کو اگر ایک انگارے سے جلائو تو کیا ہوگا؟ یہی نا انگارہ تو جل کر راکھ ہو جائیگا لیکن پتھر کا کوئلہ ذرا سا دھواں دے دیگا۔ بس اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔”
ناول کے آخر میں رنگین پتھر کے کوئلے کی طرح بے اثر ثابت ہو کر شہاب کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ ؎۱۲
شہاب کے ذریعے ناول نگارنے دو تہذیبوں کے درمیان کی خلیج کو سمجھانے کی کوشش کی ہے ان تہذیبوں کے بیچ جو خلاء ہے اسے پر کرنا دشوار تر ہے کیونکہ ایک طرف آزاد زندگی ہے تو دوسری طرف مختلف اقسام کی پابندیاں، قوانین اور شرائط ناول میں یہ کردار نئی نسل کے ماحول اور ان کے جنسی رجحان کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
`گھروندا’کا دوسرا اہم کردار `رنگین’کا ہے۔ رنگین ایک دلکش اور کھلنڈرانہ طبیعت کی لڑکی ہے۔ اس کا کردار ناول کے تمامتر ابواب پر حاوی ہے۔ رنگین سنجیدہ، حالات کی نزاکتوں کی سمجھ رکھنے والی اور زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہے۔ ناول نگار نے اس کردار کے ذریعے بنجارہ تہذیب، ان کی سماجی، اقتصادی، اخلاقی اور مذہبی اقدار جیسی روایتوں کی عکاسی کی ہے۔ یہ کردار در اصل ایک پسماندہ اور وحشی زندگی کو پیش کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف شہاب ایک مہذب دنیا کافرد ہے تو دوسری طرف رنگین اس کے بر عکس دنیا کی واسی ہے جو یہ ثابت کر دیتی ہے کہ دونوں دنیائوں کے بیچ کا سفر ریل کے سفر کے ذریعے طے نہیں کیا جا سکتا۔
اس طرح رنگین کے کردار میں جو بات سب سے زیادہ اثر انگیز ہے وہ شہری زندگی سے متعلق اس کے خیالات ہیں وہ شہری زندگی میں خود کو ڈھالنے کے بجائے اپنے آپ کو گمنامی کے اندھیرے میں غرق کر لینے کو ترجیح دیتی ہے۔ رنگین کا کردار ناول کا سب سے جاذب کردار ہے جو قاری کو اپنی طرف پوری طرح متوجہ رکھتا ہے۔ اور ایک نا قابلِ فراموش کردار ثابت ہوتا ہے۔
شہاب اور رنگین کے علاوہ بہت سارے کردار ہیں جو ناول کے پلاٹ کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں ان میں بنفشہ، بادل، سردار، زعفرانی، ڈاکٹر سفیدا کے علاوہ سراج اور میمونہ بیگم وغیرہ ہیں۔
بنفشہ ایک ایسی لڑکی ہے جس کے بچپن میں ہی والدین کا انتقال ہو چکا ہے اوروہ ایک معمر عورت جسے وہ `خالہ’کہتی ہے، کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ شہاب سے محبت کرتی ہے اور اسے پانے کی تمنا دل میں رکھتی ہے لیکن جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل میں ناکام رہیگی تب وہ “ارڑھی”بننے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔
اس کردار کے ذریعے ناول نگار نے مخفی محبت، آپسی بھائی چارے کے ساتھ ساتھ جذبئہ ایثار کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہے۔
زعفرانی ایک `ارڑھی’ہے۔ بنجارہ اصطلاح میں ارڑھی کے معنی اس لڑکی کے ہوتے ہیں جو قبیلے کے باہر والوں کے لیے تو دستیاب رہتی ہے مگر قبیلہ کے لیے حرام ہوتی ہے۔ قبیلے میں اس قسم کی دو چار لڑکیاں ہر وقت رہتی ہیں جب کبھی پولیس والے، زمیندار وغیرہ قبیلے والوں سے لڑکی طلب کرتے ہیں تب زعفرانی کو بھیجا جاتا ہے۔
ناول میں یہ کردار اپنی روایتوں کی عکاسی کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ شہری زندگی اور ان کے رہن سہن پر تنقید کرتا نطر آتا ہے اور مصنف کے مختلف خیالات کو بھی واضح کرتا ہے جیسے وہ بڑے کنبے کو ناپسند کرتا ہے اور یہ کہ بنجارہ عورتیں تندرست رہتی ہیں، ان کے بچے بھی زیادہ نہیں ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ناول نگار زعفرانی کی زبان سے اس طرح کراتا ہے۔
“ارے تجھے کیا نظر آگیا رنگین میں؟ بے چاری شہر والیوں کو کیوں چھوڑ رہے ہو وہ تو بڑی اچھی ہوتی ہیں بس ذرا بیمار رہتی ہیں اگر بیمار نہ ہوں تو پھر موٹی ہو کر بھینس ہو جاتی ہیں۔ شہری بیویوں کا کیا کہنا ہر وقت کراہ رہی ہیں اسپتال کی دوائیں ہیں کہ چلی آرہی ہیں ہر سال بچہ ہوتا ہے بچے بھی بیمار پڑ رہے ہیں۔”
اس طرح یہ کردار ناول نگار کے قبائلی اور شہری زندگی کے درمیان کے گہرے مشاہدے اور عمیق مطالعے کو پیش کرتا ہے۔
`گھروندہ’میں `سردار’بھی ایک اہم کردار ہے قبیلہ کا ہر اہم فیصلہ اور بنجاروں کے درمیان ہونے والے تنازعات کا تصفیہ سردار ہی کرتا ہے وہ پورے قبیلے کا نگہبان اور ذمہ دار ہے۔
ڈاکٹر سفیدا کے کردار کے ذریعے بنجارہ قبیلے میں دوسری شادی کے مسٗلے کو پیش کیا گیا ہے۔ کہ کسی طرح ان لوگوں میں دوسری شادی ہو جاتی ہے اور حالات بدلنے پر وہ کس طریقے سے اپنی زندگی بسر کر لینے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ در اصل ناول نگار نے عام سماج کی طرح اس سماج کے بھی تمام طبقات کو پیش کیا ہے تاکہ ناول حقیقت اور زندگی کے قریب نظر آسکے۔ اور اس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب بھی ہیں۔
ناول میں بنجاروں کی زندگی کے ہر پہلو کی تصویر کشی بھی پوری حقیقت نگاری کے ساتھ کی گئی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر فرد کا کردار کس طرح پورے سماج کو متاثر کرتا ہے اور سماج کے کیا اثرات اس فرد پر پڑتے ہیں اس کی واضح مثالیں ہمیں مختلف ابواب میں ملتی ہیں۔ بن جاروں کی روایتی، مذہبی، اور معاشی و جنسی حالت کی ہر کیفیت مکمل طور پر دکھائی دیتی ہے۔
عصمت فروشی کے پیشے کو اختیار کرنے کے لیے بنجارہ سماج کے طور طریقوں پر وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً ایسی عورت جو `ارڑھی’بن چکی ہوتی ہے اسے اپنی کمائی میں سے ایک حصہ قبیلہ میں جمع کراتا پڑتا ہے، دوسرے یہ کہ قبیلہ والوں کے لیے وہ عورت مطلق حرام ہو جاتی ہے۔ وہ نہ تو خود کسی مرد کی طرف التفات کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مرد اس سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور تھا کہ اس پیشے کے اختیار کرنے سے پہلے ایک رات “رخصتی”کے نام پر ہوتی ہے جس میں وہ اپنے من پسند مرد کے ساتھ پوری رات گذار سکتی ہے۔ اور صبح ہونے کے بعد وہ اس کے لیے بھی حرام قرار دے دی جاتی ہے۔ یہ سب قاعدے قانون قبیلے میں صدیوں سے رائج ہیں اور ان پر سختی سے پورا قبیلہ ازخود عمل بھی کرتا ہے اور ان کے عقائد کے مطابق کوتاہی برتنے پر پیران پیر ناراض ہو کر اس مجرم کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ کوڑھ کا مرض اس قبیلے کے لیے بہت ہی سخت ہیبت ناک مرض تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی روایتوں میں کہا گیا ہے کہ دو صدیوں تک یہ قبیلہ کوڑھ کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے اس سے پہلے وہ بہت بڑا اور خوشحال قبیلہ تھا۔ ان کے یہاں کوڑھ کی نحوست پر کچھ گیت بھی ملتے ہیں ان میں ایک گیت ہے۔
“کوڑھ بھیڑیا ہے جو محبت کو کھا لیتا ہے مامتا بھی اس کے سامنے مر جاتی ہے اور پریم بھی، اے کوڑھی تو بھول جاکہ کون ہے اور تیرا باپ کون ہے اور تیری ماں کون ہے؟ تیری محبوبہ کون ہے؟ چھوڑ دے سب کو جاکر ڈوب مر کسی گہرے کنویں میں”(گھرو ندہ ص۔ ۴۲۴)
بنجاروں کے رسم و رواج کے ساتھ ساتھ ان کے تفریحی مشاغل کا بھی دلچسپ بیان اس ناول میں ملتا ہے جو ناول نگار کے گہرے مشاہدے کی عکاسی کرتا ہے۔ ناول کے دسویں باب میں اجتماعی مسرت کا جشن منانے کا نقشہ اس طرح پیش کیا گیا ہے۔ جشن کے لیے خوشگوار موسم اور چاندنی رات کا انتخاب کیا جاتا ہے اور مناسب و موزوں مقام پر قافلہ ٹھہرا دیا جاتا ہے، جہاں جشن کی ایک دن پہلے تیاری ہوتی اور رات میں مرد اور عورتیں خصوصی طور پر سج سنور کر اپنے آپ کو پر کشش اور جاذب نظر بنا کر جمع ہوتے ہیں عورتوں کا حسن دیکھ کر شہاب کی حیرت کا بیان کچھ یوں ہے۔
“شہاب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بن جاروں میں اتنا حسن ہے مگر میں آج سے پہلے اس بات کا اندازہ نہ کر سکا پھر اس نے ان لڑکیوں کو گنا جن کو وہ اچھی صورت والیاں قرار دے رہا تھا پتہ چلا کہ کم سے کم تیس لڑکیاں ایسی ہونگی جو حسین تھیں۔ البتہ ہر حسن کا رنگ بھی الگ الگ تھا اور ان کے اندر کی موسیقی بھی الگ الگ تھی کسی کی آنکھیں خوابی تھیں تو کسی کی غلافی، کسی کی آنکھیں کٹوارا تھیں تو کسی کی آم کی پھانک، کسی کی آنکھیں ستاروں سے ٹکرلے ری تھیں تو کسی کی جوانی سے مدہوش ہو رہی تھیں۔ نوجوان لڑکے بھی تناور درخت معلوم ہو رہے تے۔ صحت اور مسرت ان سے پھوٹی پڑتی تھی۔ بوڑھے بھی اپنے سن وسال سے دس سال کم نظر آ رہے تھے۔ آج بنجاروں کا مزاج ہی دوسرا تھا۔ آج میاں بیوی عاشق و معشوق ایک دوسرے کے متلاشی ہی نہیں تھے بلکہ ہر ایک اجتماعی لطف اندوزی کی تلاش میں تھا۔”(گھرو ندہ ص۔ ۲۴۷)
پورا قبیلہ ناچ گانے خوشی و مسرت لٹانے، تاڑی کا نشہ کرنے اور گوشت کے تکے کھا کر اپنی خوشی کا بھرپور مظاہرہ کرنے میں مگن تھا۔ عید ملن جیسا ماحول تھا۔ آخر شب میں تھک کر سب اپنے خیموں میں چلے جاتے ہیں۔
بنجاروں کے روز مرہ کے واقعات، ان میں آنے والی تبدیلیوں کے اسباب اور ان کے ذہنوں پر طاری اوہام پرستی ان کے پختہ اعتقاد و یقین کو بھی مختلف پہلوئوں سے سمجھنے کے لیے بھی یہ ناول اچھا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اس فطری سماج کے سیدھے سادے اصولوں والی زندگی جہاں مصنوعی تہذیب و تمدن کی قید و بند سے پوری طرح آزاد تھی وہیں حددرجہ اوہام پرستی میں مبتلا تھی ہر شخص بھوتوں، پریتوں اور چڑیلوں وغیرہ آسیبوں کا قائل تھا۔
“قبیلے کی کئی عورتیں اس فن کو جانتی تھیں ان کے پاس قبیلے کے لوگ برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ جس شہر میں بھی قبیلہ جاتا تھا اس کے کچھ لوگ وہاں کے فقیروں اور سادھوئوں کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے اور ان سے بھی تعویذ اور منتر مانگ کر لاتے تھے۔ تین عورتیں ایسی تھیں جن پر کبھی کبھی پیران پیر آجاتے تھے۔ پھر وہ بال کھول کر جھومتی تھیں اور مردانی آواز میں حکم دیتی تھیں کہ یہ کرو اور وہ کرو۔ اس وقت اکثر بن جارے ان کی خدمت میں حاضری دے کر درخواستیں کرتے تھے۔ رنگین ایسی باتوں کی اہمیت شہاب کو برابر سمجھایا کرتی تھی۔ اگر شہاب ایسے احکام کی خلاف ورزی کرتا رنگین کو برا لگتا تھا اگر قبیلے کی بڑی بوڑھیوں کو پتہ چل جاتا تھا تو وہ چلا چلا کر شہاب کو برا بھلا کہنے لگتی تھیں اور ڈرتی تھیں کہ کہیں شہاب کی بری حرکتوں کا خمیازہ اوروں کو بھی نہ بھگتنا پڑے۔”
ناول میں بنجاروں کے کام دھندوں پر سے بھی پردے اٹھائے گئے ہیں کہ کس طرح مجمع لگا کر وہ عام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ سانڈے کا تیل فروخت کرنے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنوعی طور پر سانڈے کا تیل تیار کیا جاتا ہے اور اسے اصلی بتا کر فروخت کرتے ہیں۔ فروخت کرتے وقت ان کے ایجنٹ تعریف کرکے نقلی خریدار بن جاتے ہیں اور پھر عوام اس کو خریدنے لگتی ہیں۔ نفسیاتی مریضوں کو نقلی تیل سے بھی قوت ارادی کے قوی ہو جانے سے فائدہ ہونے کا احساس ہو جاتا ہے اور کاروبار چل نکلتا ہے۔ اسی طرح بنجاروں کا یہ قافلہ میلے میں کس کس طرح کے آمدنی کے ذرائع اختیار کرتا ہے اسے بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے وہ عورتیں جو کسبی یا عصمت فروشی کے لیے مخصوص تھیں وہ بن سنور کر ناچ گانے کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف ملتفت کرکے پیسہ کماتی تھیں تو کچھ لڑکے بھی گاکر اور ناچ کر روپیہ اکھٹا کرنے پر معمور تھے۔ کچھ لوگ پتھروں کے رنگین ٹکڑوں کونگوں کے نام پر فروخت کرتے تھے، کچھ جادو، ٹونہ اور دوائوں کی تجارت کرتے، چھوٹی موٹی چوری اور جیب تراشی بھی ان کے ذرائع آمدنی میں شامل رہتی تھی، کٹھ پتلیوں کے تماشے بھی دکھا کر یہ لوگ پیسے وصول کرتے تھے۔ بھیک مانگنا البتہ ان کے سماج میں بہت برا فعل تصور کیا جاتا تھا۔ قبیلہ کا ہر فرد پوری تند ہی، لگن اور محنت کے ساتھ میلے میں کمانے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا تھا۔ اور مست و مگن ہو کر میلے میں موج و مستی بھی کرتا تھا۔ ان لوگوں کا مستقبل کے متعلق سوچنا بھی فضول سمجھا جاتا تھا ان کے نزدیک حال، ماضی اور مستقبل سب ایک خط مستقیم نہیں ایک نقطہ تھے۔ بنجارہ سماج اپنے اس قبیلے کو ہر فن مولا قبیلہ سمجھتے تھے۔
مختصر یہ کہ اس ناول کے ذریعے ناول نگار نے بن جارہ سماج کی زندگی کے ہر پہلو پر بھرپور روشنی ڈلای ہے۔
“گھروندہ”ناول میں حیات اللہ انصاری نے ان تمام پہلوئوں کو جو عام طور پر ہمارے ماحول اور روایتی زندگی پر چھپائے ہوئے رہتے ہیں ان سے الگ ہٹ کر حسن کے قدرتی انداز اور فطری خوبصورتی کو جنگلوں اور جھیلوں کے مناظر کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ اس کے ذریعے ہم شہروں کی مصنوعی زندگی کے بجائے دیہاتوں اور جنگلوں کے فطری حسن سے بھی آشنا ہوتے ہیں اور فطری سماج کے سادہ دلکش حالات سے بھی لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ادب میں جہاں شہروں میں عقل کو مقدم سمجھا جاتا ہے تو اس ناول کے خانہ بدوش افراد کے نزدیک جذبے کو ہر حال میں اولیت دی جاتی ہے زندگی کی راہوں کا تعین ان کے یہاں فطری جذبوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
حیات اللہ انصاری نے اس ناول کے لیے نیا اسلوب، نئے الفاظ اور نئے اندازِ فکر کو اپنایا ہے۔ خانہ بدوش زندگی کے تمام لوازمات کو ایک خاص تو ازن، دلچسپ ترتیب اور دلکش آرائش کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے لباس، کھانے پینے کے طور طریقے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے ، خوشی اورغم کے ماحول کی بھی پوری عکاسی کردی ہے۔ ان کے اس ناول کی روشنی میں ہم ایک سادہ، معصوم فطری سماج تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ یقیناً اس ناول کے ذریعے ہم قدرتی انداز فکر اور ایک نوعیت کی حقیقت کا بڑی گہرائی کے ساتھ واضح تصور بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ غالباً انہیں خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر عبد المغنی نے حیات اللہ انصاری کے ناولوں پر تبصرہ کرتے ہوئے گھروندہ کو عالمی ادب کا امتیازی ناول قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
“اپنے موضوع کے حدود میں `گھروندہ’ایک بھر پور بہت کامیاب اور اہم ناول ہے۔ اس کا شمار با آسانی اردو کے بہترین ناولوں میں کیا جاسکتا ہے
۔ اپنے موضوع کی جہت سے یہ ایک منفرد کارنامہ بھی ہے۔ بنجارہ زندگی پر یہ اردو ادب میں ایک واحد مکمل ناول ہے اور اپنی فنی خوبصورتی کے لحاظ سے عالمی
ادب میں بھی اسے ایک امتیازی مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ ”۱ ؎
ڈاکٹر جلال اصغر آفریدی نے بھی اپنے تحقیقی مقالے میں بجا طور پر اس کا اعتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں
“واقعہ یہ ہے کہ خانہ بدوشوں کے کلچر اور آداب زندگی کو مہذب سماج کے آئینے میں پیش کرنے کی بہت ہی منظم، مئوثر اور مکمل پلاٹ کی صورت میں “گھروندہ”کے ذریعہ سامنے آتا ہے ہندوستان کی سماجی زندگی کے اس پہلو پر اردو میں تو یہ پہلا ناول ہے ہی، ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں بھی شاید ہی ایسی کوئی مثال فراہم ہو سکے، موضوع، پلاٹ اور کرداروں کے باہمی برتائو کے اعتبار سے “گھروندہ”ایک امتیازی نوعیت اور اہمیت کا حامل ناول ہے۔”۲؎
اردو میں یہ ناول نہایت کامیاب قرار دیا گیا ہے جس میں شہر، سماج اور فطری بنجارہ سماج کے تقابل کے ساتھ کھلے ماحول کا بھی دلچسپ مشاہدہ کرایا گیا ہے۔ ایسی پر اثر قوت مشاہدہ اردو کے کم ہی ناول نگاروں کو حاصل ہو سکی ہے۔ شہاب کے روپ میں جیسے خود حیات اللہ انصاری نے بنجارہ بن کر ان کی زندگی کا بھر پور جائزہ انھیں کے انداز میں پیش کر ڈالا ہے سماج کے دوسرے طبقوں جن سے بنجاروں کا سابقہ پڑتا ہے مثلاً زمیندار، جاگیردار، حکام، پولیس اور عام شہری لوگ جس طرح ان سے اپنے معاملات کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے بنجارہ سماج پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا بھی ہو بہو عکس ناول میں سمودیا ہے صرف اتنا ہی نہیں ان کا زر خیز دماغ ان مسائل کے امکانی حل کی طرف بھی پڑھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کی تحریک چلانے والے سماج سدھارک اگر بنجاروں کی زندگی اور خانہ بدوشی کو ختم کراکے اچھے سماجی ماحول میں ان کو ڈھالنا چاہیں تو ان کے لیے بھی بہت کچھ راہیں ناول میں سمجھائی ہیں مگر اصلاح الفاظ سے نہیں ہوتی دماغ کے ساتھ دلوں تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات مختلف انداز میں ناول میں بتائی گئی ہے۔
حواشی:
۱؎ :مضمون ْحیات اللہ انصاری مطبوعہ کتاب نما دہلی نومبر ۱۹۸۶؁ء
۲؎: تحقیقی مقالہ ، حیات اللہ انصاری حیات و خدمات ڈاکٹر جلال اصغر آفریدی ص۔۹۰

(اسسٹنٹ پروفیسر مانولکھنو کیمپس )،لکھنو

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular