9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سلمہ حجاب
چھیڑا تھا ساز دل کا تو آنسو نکل پڑے
جیسے زمیں کے سینے سے چشمے ابل پڑے
مانا کہ منزلوں کے نشاں دور تک نہ تھے
راہوں کا حسن دیکھ کے راہی تو چل پڑے
جب تم بھٹک رہے ہو غم روزگار میں
تو کیسے چین آےُ ہمیں کیسےکل پڑے
ہم کو نباہ کرنا پڑا مصلحت کے ساتھ
جس رخ پہ یہ ہوا تھی اسی رخ پہ چل پڑے
وہ بھی ہو انتظار کی لذت سے ہمکنار
مجھ پہ جو آج بیتی وہی اس پہ کل پڑے
اب خود بنا رہی ہے وہ آنچل کو بادباں
مجھکو ڈبو کے ہاتھ ہواؤں کے شل پڑے
بھٹکے بہت الجھ کے نشیب وفراز میں
انکی جبیں پہ جیسے ہی دو چار بل پڑے