Monday, May 13, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکوبرا پوسٹ کا خلاصہ:ملک کی جمہوریت و سا لمیت کے لئے خطرے...

کوبرا پوسٹ کا خلاصہ:ملک کی جمہوریت و سا لمیت کے لئے خطرے کے علاوہ قوم مسلم کے لئے لمحہ ٔفکریہ

غلام سید علی علیمی علیگؔ   

 

یہ مانا گیا ہے کہ جمہوریت کے چار ستون ہوتے ہیں (١) حکومت (٢)مجالس مقننہ [ پارلیمٹ ،صوبائی اسمبلیاں] (٣) عدالت اور (٤) میڈیا، جب تک یہ چاروں اپنا اپنا کام اپنے اپنے حدود و قیود میں رہ کرکر تے ہیں جمہوریت پنپتی ، پھلتی اورپھولتی رہتی ہے، اور جب یہ چاروںاپنے اپنے حدود پھلانگتے ہیں یا اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرنے لگتے ہیں تو ملک جمہوریت سے تاناشاہی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔

یہبھی مانا جاتا ہے کہ حاکم کی من مانی پر پارلیمنٹ لگام لگاتی ہے، اور حکومت اور پارلیمنٹ کی ملی بھگت پر عدالت اور ان سب پر میڈیا کا خوف ہوتا ہے، میڈیا عوام کی آواز بلند کرتا ہے ، ان کے مسائل اقتدار میں بیٹھے لوگوں تک پہنچاتا ہے،ایک جمہوری ملک میں میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کو مضبوط کرے۔

ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد خود کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا، بھارتی سیکولرزم کا مطلب ملک تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرے گا، سب کو قبول کرے گا۔

اس وقت بھارت میں سیکولرجمہوریت کی بنیادیں دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہیں اور یہ صاف ہوتا جا رہا ہے کہ ہندوستان کو اپنا مذہب مل چکا ہے، تمام سیاسی پارٹیاں صرف اکثریتی طبقے کے دھرم کی سیاست کر رہی ہیں، اور شاید یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیوں کہ جمہوریت کا سب سے بڑا عیب یہی ہے کہ اس میں سر گنِے جاتے ہیں ، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس سرمیں دانش وبینش ہے یا حماقت وسفاہت، ڈاکٹر اقبال نے بہت پہلے کہا تھا:

اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش

ہر چندکہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے!

اقبال کے مردِ فرنگی کی بات پورے طور پر درست ہے، آج سیکولر بھارت پر شدت پسند ہندو نواز سیاسی جماعت کا قبضہ ہے، جوحکومت تو چلا نہیں پا رہی ہے،البتہ اس کے ہر فیصلے میں عوام کو بے انتہا پریشانیوں سے دوچار ہوناپڑا،نوٹ بندی، جی، ایس ،ٹی، ہو یا ہر چیز کے ساتھ آدھار کو لازم کرنے کا فیصلہ ، جانوروں کی خرید و فروخت کا معاملہ یا کچھ صوبوں میں بیف پر پابندی کا فیصلہ ہو، سب میں حکومت کی نااہلی سامنے آئی اور عام شہریوں کو مصیبت سے دوچار ہونا پڑا، لیکن پھر بھی عام ہندو خوش وخرم بلکہ اکثر تو مطمئن بھی نظر آتے ہیں،کیوں کہ ان کے حساب سے یہ ہندوؤں کی حکومت ہے۔

 ہیومن رائٹس واچ جو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی ایک تنظیم ہے ، ٢٠١٧ء میں دنیا بھر میں ہوئے انسانی حقوق کی پامالی پر اس نے رپورٹ پیش کی ہے ، جس کے صفحہ ٢٦١ پر ہندوستان کے متعلق لکھا ہے:

”٢٠١٧ء کے ہندوستان میں مذہبی اقلیت، دلت اور حکومت کی تنقید کرنے والوں پر فرقہ وارانہ تشددکا اندیشہ بڑھا ہے، اور اس کو سرانجام دینے والے گروہوں میں سے اکثر برسرِ اقتدار سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا حمایتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، حکومت ان حملوں کی فوری یا قابل اعتبار جانچ کرانے میں ناکام رہی، وہیں بی ،جے ، پی کے بہت سے سینئر لیڈر کھلم کھلا ہندو برتری اور جنونی وطن پرستی کو بڑھاوا دیتے رہے جس کی وجہ تشدد و کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا، اختلاف رائے کرنے والے کو غدار وطن ( دیش دروہی)قرار دیا گیا، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور دانش وروں کو ان کے نظریے اوربے خوف اظہار خیال کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی غیر سرکار تنظیموں (N.G.Os) کو فارین فنڈنگ ریگولیشن کے ذریعہ ٹارگیٹ کیا گیا۔”(انگریزی سے ترجمہ)

میڈیا جس سے لوگوں کی بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ یہ توقع کرتے  ہیں کہ وہ تمام حقائق کو غیر جانبدارانہ طور سے پیش کرے گی، اس وقت اس کا حال بھی بہت بر ا ہے ، ٢٦/مارچ ٢٠١٨ء سے پہلے بھی کہا جاتا تھا بلکہ لوگوں کو یقین تھا کہ بھارت کے مواصلاتی ادارے بِک چکے ہیں، لیکن اس کا ثبوت نہیں تھا ، Cobrapost.comنامی نیوز پورٹل نے اس پرباضابطہ ثبوت پیش کر دیا ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں زیادہ تر پیسوں کے بدلے ذلیل سے ذلیل حرکت کرنے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتی ہیں۔

Coprapost.comنے ٢٦/مارچ ٢٠١٨ء تقریباً تین درجن میڈیا اداروں پر اپنی تحقیقات کی رپورٹ شائع کی ، جسے ”آپریشن ١٣٦”کا عنواندیا، سینئر صحافی پشپ شرما نے تحقیقات کو سرانجام دیا، تحقیقات کے نتائج بڑے چونکادینے والے ہیں، پوری رپورٹ انگریزی اور ہندی میں کوبراپوسٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے،اردو قارئین کے لئے رپورٹ کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔

”اس جانچ میں پایا گیا ہے کہ کس طرح بھارتی میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑکر پریس کی آزادی کا غلط استعمال کر رہی ہے اور نازیبا مواد نشر کرکے صحافت کے پیشے پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے، صحافی پشپ شرما نے شری مد بھگوت گیتا پرچار سمیتی ،اجین کے مبلغ بن کر اور اپنا نام آچاریہ چھترپال اٹل بتا کر ملک کے باعزت اور قابل اعتماد مانے جانے والے قریب ٣/ درجن میڈیا اداروں کے اعلیٰ اور ذمہ دار عہدہ داروں سے ملاقات کی، پشپ نے انھیں ایک خاص طرح کی صحافتی تحریک کے لئے چھ سے پچاس کروڑ تک کا بجٹ بتایا، شرمانے انھیں جو ایجنڈا بتایا تھا اس میں یہ شرطیں شامل تھیں:

١۔ صحافتی تحریک کے شروعاتی اور پہلے مرحلے میں ہندوتوا کی تبلیغ کی جائے گی، جس کے تحت موافق ماحول تیار کر مذہبی پروگراموں کے ذریعہ ہندوتوا کو بڑھاوا دیا جائے گا۔

٢۔ اس کے بعد وینیہ کٹیار، وما بھارتی، موہن بھاگوت اور دوسرے ہندووادی نیتاؤں کی تقریروں کو بڑھاوا دے کر فرقہ پرستی کی راہ پر ووٹروں کو اکٹھا کرنے کے لئے تحریک تیار کی جائے گی۔

٣۔ جیسے ہی عام انتخابات نزدیک آجائیں گے یہ تحریک ہمارے سیاسی حریفوں کو ٹارگیٹ کرے گی، راہل گاندھی، مایاوتی او ر اکھیلیش یادو جیسے اپوزیٹ پارٹیوں کے بڑے نیتاؤں کو ‘پپّو’ ‘بوا’ اور ‘ببوا’ کہہ کر عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا، تاکہ انتخابات کے دوران عوام انھیں اہمیت نہ دے اور اس سے ہم ووٹروں کا رخ اپنی طرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

٤۔میڈیا اداروں کو اس تحریک کو ان کے ساتھ موجود تمام پلیٹ فارموں پر جیسے پرنٹ ،الیکٹرانک، ریڈیو، ڈیجیٹل، ای۔نیوز پورٹل، ویب سائٹ کے ساتھ سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹویٹر پر بھی چلانا ہوگا۔

اس ایجنڈے کو لے کر پشپ شرما نے جن میڈیا اداروں سے بات کی حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی میڈیا اداروں نے اس تحریک کو چلانے میں اپنی دل چسپی دکھائی، بات چیت کا اہم حصہ مندرجہ ذیل نکات میں ذکر کیے جا رہے ہیں:

١۔ میڈیا ہندوتوا کو عقیدہ اور مذہبی وعظ کے طور بڑھاوا دینے کے لئے متفق ہوئی۔

٢۔ میڈیا فرقہ پرست مواد کے ساتھ ووٹروں کا پولرازیشن کرنے کے لئے ایک خاص اشتہار شائع اور نشر کرنے پر متفق ہوئی۔

٣۔ اپنے میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے یہ برسرِ اقتدار سیاسی پارٹی کے لئے اس کے سیاسی حریفوں کی کردار کشی کرنے کے لئے متفق ہوئی۔

٤۔ ان میں سے کئی نے اس ڈیل کے بدلے نقد ادائیگی یعنی کالا دھن قبول کرنے کے لئے اتفاق ظاہر کیا۔

٥۔ ان میں سے کچھ اداروں کے مالکوں یا ملازموں نے صحافی کو بتایا کہ وہ خود سنگھ سے جڑے رہے ہیں اور ہندووادی نظریہ سے متاثر ہیں لہذا انھیں اس تحریک پر کام کرنے میں خوشی ہوگی۔

٦۔ان میں سے کچھ اپنی نشریات میں برسرِ اقتدار پارٹی کے حق میں کہانیا ں اور خبریں لگانے کے لئے متفق ہوئے۔

٧۔ ان میں سے کئی پشپ شرما کے ذریعے بتائے گئے نام نہاد مقاصدکو خاص طور سے پورا کرنے کے لئے اشتہار بنانے اور اسے چلانے پر متفق ہوئے۔

٨۔ تقربیاً سبھی اس تحریک کو ان کے ساتھ موجود تمام پلیٹ فارموں جیسے پرنٹ، الیکٹرانک،ڈیجیٹل، ای۔نیوز پورٹل، ویب سائٹ، اور سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹویٹر پر چلانے کے لئے متفق ہوئے۔

٩۔ ان میں سے کچھ نے اپنے ادارے کے علاوہ دوسرے صحافیوں کی مدد سے دوسرے اداروں میں برسرِ اقتدار پارٹی کا تعاون کرنے والی اسٹوری چلوانے کے لئے بھی دل چسپی ظاہر کی۔

١٠۔ ان میں سے کچھ تو مرکزی وزیر ارن جیٹلی، منوج سنہا،جسونت سنہا،مینکاگاندھی اور ان کے بیٹے ورون گاندھی کے خلاف خبریں چلانے کے لئے بھی تیار ہوئے۔

١١۔ ان میں کچھ ادارے این ۔ڈی۔اے حکومت میں بی۔جے۔پی کی معاون پارٹیوں کے بڑے لیڈروں جیسے انوپریا پٹیل، اوم پرکاش راج بھر اور اوپیندر کُشواہا کے خلاف بھی خبریں چلانے کے لئے تیار ہوئے۔

١٢۔ کچھ میڈیا ادارے پرشانت بھوشن، دُشینت دوے،کامنی جے سوال اوراندرا جے سنگھ جیسے قانونی جانکار اور سماج میں مانے جانے چہروں کو بدنام کرنے کے لئے بھی تیار دکھے۔

١٣۔ کچھ اداروں نے تحریک چلانے والے کسانوں کو ماؤوادیوں کے طور پر پیش کرنے کے لئے بھی اتفاق ظاہر کیا۔

١٤۔ ان میں سے کئی نے راہل گاندھی جیسے نیتاؤں کی ”کردار کشی” کے ایک خاص مواد تیار کرنے اور اسے بڑھاوا دینے کے لئے اپنااتفاق ظاہر کیا۔

انگریزی اور ہندی میں شائع لمبی رپورٹ کے کچھ حصے کا ترجمہ میں نے پیش کیا ہے، لیکن اتنا ہی اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ ہندوستانی میڈیا کتنی ذلیل ہو چکی ہے، وہ پیسوں کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے، اس کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس کی ایک غلط رپورٹ سے پوری کی پوری آبادی خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاسکتی ہے، اب ان میڈیا اداروں کا نام دیکھ لیں جنھوں قانون اور اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر سودے بازی کی ہے، کوبرا پوسٹ نے بتایا ہے کہ:

”آپریشن ١٣٦ کے پہلے حصہ میں ہم نے انڈیا ٹی وی(IndiaTV)،ساب نیٹ ورک (SAB Network)، ڈی۔این۔ اے ، امر اُجالا، یو۔این۔ آئی، نائن ۔اَکس ٹشن (9X Tashan)،سماچار پَلَس، ایچ۔این۔این لائیو 24×7، پنجاب کیسری، سوتنتربھارت، اسکوپ ہوپ (Scoop Whoop)، انڈیا واچ، ریڈف ڈاٹ کام (Rediff.com)، آج ہندی ڈیلی، سادھنا پرائم نیوز، اور دینک جاگرن(Dainikjagran)سے جڑے لوگوں کی بات چیت کے خاص حصوں کو دکھائے ہیں۔”

آپ ان نیوز چینلوں اور اخباروں کے نام دوبارہ پڑھ لیں ، اس میں انڈیا ٹی وی ہے جو ہندوستا ن میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے نیوز چینلوں میں سے ایک ہے، اس میں دینک جاگرن ہے جو ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے، اس میں سب کے سب نامی گرامی ہیں، اور سب کے سب بِکنے کے لئے تیار ۔

رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ یہ سب صرف پیسوں کے لئے بکنے کے لئے تیار تھے، لیکن یہ آدھی سچائی ہے، وہ بِکنے کے لئے تیار تھے اس لئے کہ جو کرنے کے لئے انھیں پیسے کی پیش کش کی گئی تھی، ایساکام کرنے کے لئے یہ میڈیا ہاؤسیز بے تاب بھی رہتے ہیں کیوں کہ ان کی ذہن سازی بی ۔جے ۔پی اور آر۔ایس۔ ایس کی طرف کر دی گئی ہے، جس طرح داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہ انسانی بم بنانے سے پہلے اسے جنت کی حوروں کا خواب دکھا دیتے ہیں، اسی طرح ہندو دہشت گرد تنظیم آر۔ایس۔ ایس اور اس کی ہم نوا تنظیمیں‘ دھرم یودھ’ اور‘موکچھ ’ کا دھتورا اپنے لوگوں دماغ میں بھر رہی ہیں، اور یہ میڈیا ادارے اسی دھتورے کے نشے میں مست ہیں، ورنہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر پشپ شرما مسلمان بن کر تحقیقات کرتے اور کہتے کہ مسلمانوں کی شبیہ جو میڈیا کے ذریعہ خراب کی جاتی رہی ہےاس کو بحال کرنے کا ایجنڈا چلاؤ، اور کسی مسلم لیڈر مثلاً اسدالدین اویسی کو معمار وطن کے طور پر پیش کرو، اس کے بدلے ہم سو کروڑ دینے کو تیار ہیں ،تب بھی یہ لوگ ہرگز تیار نہ ہوتے ۔

 کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میںپورب ،پچھم ،اتر،دکھن ہرطرف کی ہوائیں مسلمانوں کے خلاف چل رہی ہیں، یہی لوگ مسلمانوں سے اپنا تشخص ترک کرنے کوکہہ رہے ہیں، وہیں ہندؤں سے کٹر مذہبی ہو جانے پر دباؤ بھی ڈال رہے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنا شمار ہندو میں نہیں کرانا چاہتے ان کو بھی ہندو منوانے پر تلے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ مسلم علما اور دانش وروں سے مجھے کیا اپیل کرنی چاہیے، یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ بین المسالک اختلافات ہوتے ہوئے بھی سیاسی اتحاد کی کوشش کریں، کیوںکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ بین المشارب اختلافات ہی نہیں تھم رہے ہیں، یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ عوام میں بیداری لائی جائے کیوں کہ عوام اپنے علما ہی سے بیزار ہوتی جا رہی ہے، یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ روحانی انقلاب برپا کرکے خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات صوفیا کی طرح ہزاروں کفارومشرکین کو حلقہ بگوش اسلام کیا جائے ، کیوں کہ میں دیکھ رہا ہوںکہ تقریباً اسیّ فی صد مسلم آبادی صرف نام کی مسلم ہے،حالانکہ سب کسی نہ کسی روحانی سلسلے میں مرید ہیں۔۔۔تو مجھے کیا کہنا چاہیے؟؟کیا یہی کہنا چاہیے کہ یہ سب قرب قیامت کی نشانی ہے، جلد ہی دجالی فتنہ آنے والا ہے، پھر حضرت عیسیٰ تشریف لائیں گے ، دجال کو جہنم رسید کریں گے، پھر اسلامی حکومت قائم ہوگی، اسلام کا بول بالا ہوگا۔۔۔!!!یہی کہنا چاہیے نا! شاید یہی کہنا چاہیے!

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular