Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکوئی اپنا نہیں

کوئی اپنا نہیں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محمد تہلیل

آزادی سے پہلے بزرگوں نے ایک خواب دیکھاتھا کہ انگریزوں کے چنگل سے چھٹکارا پانے کے بعد ہندوستان تمام اقوام کی ترقی وخوشحالی کا ذریعہ بنے گا ،یہی ایک بنیادی مقصد تھا جس کے لیے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں نے جنگ آزادی میں برابر سعی کی ۔مسلسل جد وجہد کے بعد آزادی تو ہاتھ آگئی مگراپنوں اور کچھ غیروں کی مدد سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
آزادی سے انگریزوں سے چھٹکارا کا جو ایجنڈا تھا وہ پورا ہوگیا مگرکچھ نا عاقبت اندیشوںنے ہندومسلم کا قضیہ چھیڑ دیااور دونوں قوموں کی جد وجہد اور قربانیوں سے بھری لازوال داستانیں نہیں رہیں بلکہ معاملہ اکثریت اور اقلیت میں تبدیل ہوگیا ،قومی اعتبار سے مسلم اقلیت اور ہندو اکثریت کا زور پکڑنے لگا،اب جن جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہندوستان کا سیاسی ارتقا جاری تھا اور مسلمانوںنے قومی حیثیت اختیار کرتے ہوئے جن مطالبات کی فہرست تیار کی تھی اس کی پوری تصویر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ دھندلی ہوتی گئی اور حال یہ ہے کہ اب مسلمانوں کو مکمل طور پر منظر نامہ سے غائب کرنے کی بات ہورہی ہے ،اور آج ان کی حالت صرف اقلیت کی رہ گئی ہے،ایسی اقلیت جو اکثریت کے خیرات پر جی رہی ہو۔
موجودہ بی جے پی حکومت کی مسلمانوں کے تئیں کیا ہمدردی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ،مگر کانگریس نے بھی مسلمانوں کو ان کی وفاداری کا کیاصلہ دیا ،یہ بھی خود میں ایک بڑا سوال ہے۔سچ کہا جاے تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے ہی جاری ہے،شا ید ہم ہاشم پورہ قتل عام کو بھول گئے ہیں کہ کس طرح بوڑھے اور جوان مسلمانوں کو اٹھا کر ایک سنسان جگہ میں لے جاکر قتل کر دیا گیا۔ میرٹھ،بھاگل پوراور بھیونڈی وغیرہ میں فسادات کی شکل میں مسلمانوں کا جو مسلسل انکا ئونٹر ہوتا رہا، اس دوران ان ریاستوںمیں بی جے پی کی نہیں بلکہ کانگریس کی حکومت تھی۔
۱۹۴۹،میں جب بابری مسجد میں سیاسی ہتھکنڈے کے تحت مورتیاں نصب کی گئیں تواس وقت جواہر لال نہروملک کے وزیر اعظم تھے۔۱۹۸۶، میں جب بابری مسجد کا تالا کھول کر ہندوئوں کو وہاں بلا روک ٹوک عبادت کی اجازت دی گئی توراجیو گاندھی وزیر اعظم تھے ۔اور ۱۹۸۹،میں جب رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو اس وقت بھی راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے۔اور پھر جب ۱۹۹۲ میں بابری مسجدکو منہدم کیا گیا اور بڑی تعداد میں مسلما نوں کا قتل عام ہوا،تواس وقت نرسمہارائو وزیر اعظم تھے، اور کانگریس کو شاید یہ بھی یاد ہوگا کہ جب اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تو راجیو گاندھی نے یہ یادگار جملہ کہا تھاـــ’’جب کوئی بڑا درخت گرتا ہے تو زمین ہلتی ہے۔‘‘
ممبئی اور مالیگائوں بم دھماکوں کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا،مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی اور یہ سب کانگریس کے دور اقتدار میں ہوا،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں کی شر انگیزی اور شرارت کو کمتر سمجھ رہے ہیںیا ۲۰۰۲ ،کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کو بھول جانا چاہتے ہیں ،ہمارا موقف ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمان نوں کانہیں۔گرچہ وہ مسلمانوں سے ہمددی کا گن گائے۔
۱۱/۹ کے بعد ملک کے جمہوری فاشزم نے ایک نئی کروٹ لی اور پھر ۲۰۰۲ ،میں بی جے پی حکومت نے اگر سیمی(Students’Islamic movement of India )پر پابندی لگائی تو وہیں ۲۰۰۴ ،سے ۲۰۱۴،تک جو بم دھماکے ہوئے اور جس طرح سے بے قصور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلا خوں میں ڈالا گیا، یہ پورا دور بھی مسلمانوں کے لئے کسی انکائونٹر سے کم نہیں تھااور اس پورے دور میں ملک کے اقتدار پر کانگریس کی سیکولر حکمرانی تھی۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی مشکلیں اور بڑھ گئی ہیں ،انہیں صرف ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں بلکہ مویشیوں کو خرید و فروخت کرنے کے نئے ضابطوں نے ان کی ایک بڑی آبادی کو بے روز گار کر دیا،اگر ایک طرف گئوکشی،لو جہاد،دیش دروہی اورآتنگ واد ی جیسے سنگین مسئلوں سے مسلم برادری دوچارہے تو وہیں دوسری طرف حکومت ان کے مذہبی معاملات میںدخیل ہوکر ایک خاص برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہے اور یہ بھی کہ آج حکومت نے کچھ مخصوص نظریہ کے حاملین کو پال رکھا ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹریہ بنانے کے لئے پوری طاقت لگا دیا ہے، جو ایک سیکولر ملک کے لئے خطرہ ہے۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کا حل کیاہے؟ ملک میں بنام فلاح و بہود سرگرم مسلمانوں کی تنظیموں نے اس مشکل صورتحال سے اپنی بچائو اور حفاظت کے لئے کیا تدبیریں اختیار کیں اور مسلمان کب تک اس ظلم اور درند گی کا شکار ہو تے رہیں گے، سچ کہا جائے تو ہند وستان میں مسلمانوں کی کوئی ایجنسی نہیں ہے۔وہ ایک ایسی قوم ہے جن کو بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ٹھیک طرح نما ئند ہ گی نہیںمل پاتی ، ۲۵کروڑ کی اتنی بڑی آبادی مگر نمائندگی کے نام پر لوک سبھا میں صرف ۲۳ رکن پارلیمینٹ ، دوسرے فرقوں کو ان اعداد و شمار پر کوئی شرمند گی نہیں ہوگی مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مسلما ن اس کے بارے میں کیا سو چتے ہونگے ۔
دوسری طرف یہ بات بھی مسلمانان ہندکو اچھی طرح سمجھ لینی چا ہے کہ جس طرح وہ بے فکر ی ، غیر ذمہ داری اور لا شعور ی کی زندگی میں مبتلا ہیں اگر ان حالات میں کل ملک کے شدت پسندہند و ہندوستان کو ہند وا سٹیٹ بنانا چا ہیں تو پھر کوئی نہیں جو انہیں اس فیصلے سے روک سکے گا ۔
سیل نفرت کا اگر روکا نہیں ہم نے ابھی
خون کے دریا بہیں گے آگ کے طوفان میں
اور یہ تلخ سچائی ہے کہ ہند وستان میں جس طرح مسلما ن سیکڑوں خانوں میں تقسیم ہے ان کا متحد ہو نا خود میںایک بہت بڑا سوال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہند وستا ن میں مسلما ن اب خالص مسلم طرز سیا ست کی جنگ ہا ر چکا ہے ۔ اس کے باوجو د ایماندارافراد کو اپنی جد و جہد جا ری کھنی چاہیے ہو سکتا ہے کہ فر عون کے محل میں کسی مو سی نے جنم لے رکھا ہو۔
8285501159

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular