Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکتابوں کی کتاب : عذاب دانش

کتابوں کی کتاب : عذاب دانش

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پروفیسر جمال نصرت

سونپی ہیں میرے عہد نے مجھ کو بھی کچھ امانتیں
عقل و خرد کا بار بھی دامن تار تار بھی
یہ عالم نقوی کی چھٹی کتاب ہے یعنی لہو چراغ ،مستقبل ،اذان ،بیسویں صدی کا مرثیہ ،زمین کا نوحہ کے بعد عذاب دانش جو کتابوں کی کتاب ہے ۔یہ چھوٹے فانٹ پر سات سو سے زاید صفحات اور 185مضامین پر مشتمل ہے ۔میں نے اول الذکر کے سوا سب پوری پوری پڑھی ہیں ۔عذاب دانش میں طرح طرح کے موضوعوع کا احاطہ ہے ۔فلاسفی ،تعلیم و تربیت ،نفسیات ،سائنس ،سیاست ،زراعت ،ادب اردو ،صاحب قلم ،صلاح کہ کون کون سی نئی کتابیں آئیں ہیں جنکو پڑھاجائے ۔اور اس کے سوا بھی بہت کچھ ،یہ بھی مشکل حالات میں کیا کیا جائے ۔اس کا کینوس بہت بڑا ہے ۔اس کو پڑھنے میں قریب 25دن لگے تھے ۔( یہ تاثر بھی اسی وقت لکھا تھا ) عالم نقوی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں جبکہ در اصل وہ ایک استاد ،ماہر نفسیات ،صلاحکار ،اور عاشق اردو کے ساتھ ذہین صحافی ہیں ۔کتاب پڑھنے میں بہت مزہ آیا دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اسنے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرےدل میں ہے
عا لم صاحب واقعی عالم ،لائق اور ذہین مصنف ہیں ۔ قریب 70سال کے لکھتے لکھتے ہوگئے ۔علی گڑھ سے انسیت ہے ۔ وطن لکھنؤ ہے ،والدین سید کاظم نقوی صاحب و عالیہ بی بی ہیں جن کا بہت کم ساتھ ملا خدمت نہ کرنے کا ملال اور یہ ہی شریک حیات صاحبہ جو صرف 18سال ساتھ رہ کر دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کا نام اور کام دیکر جہاں سے رخصت ہوگئیں ۔ان کو اسکول ،ساتھی استاد اور دوست اور بچے بہت اچھے ملے اللہ کا شکر ہے کہ زندگی خوشگوار ہے ۔اللہ کرے سب یوں ہی چلے اور یہ کتابیں تیار ہیںشائع نہ ہوئیں و لا تفرقو ، بازار، امید کے بعد کتابوں کا یہ سلسلہ اور تیزی سے آگے بڑھے ۔
اردو کے مشہور صحافی اور میرے چچا عشرت علی صدیقی صاحب جن کا ۸۰ برس کی صحافت کا ریکارڈ ہے جن کے پاس میں سندیلے سے آکر انٹر اور بی ایس سی کی تعلیم کے لئے لکھنؤ میں رہا ۔اس قیام میں صحافت اور اس کی باریکیوں کو کچھ سمجھ سکا ۔جن کی دوئے ،جناوی دور ،خاص نمبر لیڈروں اور پبلک کو سمجھا نا ،امن قائم رکھنا ،ٹیلی پرنٹر ۔بجلی ،چھاپے خانے ،کاتب ،کمپوزیٹر وغیرہ کی فکر میں ان سب کے بعد بھی اگلے دن اخبار کا ملنا ۔چچا سب کچھ لکھتے مگر مذہب ،سائنس اور کھیل کود پر نہیں لکھتے تھے ۔عالم نقوی کو یہ سب دشواریاں ملیں اور انہوں نے عشرت صاحب کی بس کھیل کود والی روایت قائم رکھی ہے ۔شاید عمران خان کے بعد یہ روایت بھی ختم ہو ۔کتابوں پر لکھنا میرے بس کی بات نہیں یہ مجھے مرحوم عابد سہیل صاحب سے سکھا یا ۔اے پی جے عبد الکلام صاحب کی ’’ اگنا ئٹیڈ مائنڈس ‘‘ IGNITED MINDSکی کتاب کا رسم اجرا 2003کی انجیرنگ کانگریس لکھنؤ میں ہوناتھا ۔میں کنوینر تھا اور ہینگوین انڈیا سے میٹنگ میں یہ وعدہ کرلیا تھا کہ تبصرہ اس پر ٹائمس آف انڈیا کے عابد صاحب سے کرادونگا جو میرے پڑوسی تھے ۔انہوں نے اپنی مصروفیت اور اس تاریخ کو لکھنؤ سے باہر ہونے کا بتایا لیکن مجھے لکھنے کا انداز بتایا جو بہت کار گر ہے ۔بس ایک اہم بات کہ ’’بلا پڑھے کبھی نہ لکھنا دیکھو میں نہیں لکھ رہا ہوں ‘‘۔خیر میں نے لکھا جسے انہوں نے پاس کردیا کچھ ترمیمات کے بعد: عالم صاحب کی لکھنؤ کی یاد میں اتنی اچھی نہ تھیں کہ یہ شعر لکھا :
بڑی مشکل سے آتے ہیں سمجھ میں یہ لکھنؤ والے
دلوں میں فاصلے لب پر مگر آداب رہتا ہے
ظفر شہیدی
آرزو یہ کہ حفیظ نعمانی ،شاہنواز فاروقی اور جاوید چودھری جیسی نشر لکھتے ۔یہ عزائم لکھنؤ ،قومی آواز دہلی انقلاب اور اردو ٹائمس ممبئی میں مضمون ،نوٹس اور اداریئے لکھتے رہے اور ادب اودھ نامہ علیگڑھ کو سنبھالے ہیں ۔عذاب دانش اسی سلسلے کی کارگزاری ہے اس دستاویز سے ظاہر ہے کہ ایک ذہین ،مشبت سوچ استاد نما ،مسلم ایمان والے عاشق اردو نے تحریر کیا ہے ۔اس نشست میں اتنی ضخیم اور طرح طرح کے موضوع پر لکھنا کٹھن ہے ۔خیر میں نے بھی آسان راستہ ڈھونڈلیا ہے سماج کا غافل رہنا بے حسی اردو سے سرد مہری ،ایمان سے دوری ،روپئے سے محبت اور ضمیر کو فروخت کرنے پر ایک دانشور کا دماغ یقیناً بیچین ہوگا ،اور عذاب دانش کی تخلیق ہوگئی ۔سماج کی درستی کے لئے ضروری ہے کہ (۱) علم اور کردار سازی (۲) آپسی لڑائیوں کو دور کرنے کی مثبت کو شش(۳) صاحب منزلت کی پیروی (۴) قوت حاصل کرنا اور ہوشیار رہنا (۵) وقت اور بیجا خرچ پر نظر اور یہ مشورہ ( قرآن کریم ) قریب ۳۰مضامین میں ملتا ہے ۔عینی آپا ،مشتاق احمد یوسفی ،قدرت اللہ شہاب ،ولی الحق انصاری ابن صفی ،منور رانا ،مولانا امین الدین ،حفیظ نعمانی کے طرفدار اور غالب ،میر انیس ،و اقبال کے پرستار ہیں ۔ڈاکٹر صبیحہ انور کے ،ہم نے دیکھا استمبول ،کی ایک بات کو دہرایا ہے کہ کسی کی شناخت مٹانا ہے تو اس کی زبان مٹادو ،اور زبان مٹانا ہے تو اس کا رسم الخط ۔اردو دوستی پر قریب قریب ۲۰ مضامین جو الگ الگ سلسلوں سے کتاب میں ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ کام کتنا ہو چکا ہے اور وقت کتنا باقی ہے ؟ رضوان فاروقی کے حوالے سے زمانے کے بدلاؤ کو لکھنؤ کی علامت میں رکھا ہے ۔ڈر بھگایا ہے ۔اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو وہی صرف اس کا مستحق ہے ۔اردو تہذیب ،مادری زبان سے محبت بھی اور خرچ بھی ہو ۔اردو بک رویو کی ضرورت اور خطرات سے ہوشیار رہنے کو کہا ہے ۔وہ نئی نسل سے پر امیدیں مشکلوں میں کام کرنا آنا چاہئے ۔جو بچا ہے اسے سنبھالو اس پر خوش ہو اور عزت دو ۔ایک ذمہدار صحافی ہیں ۔اپنی بات پر حوالہ اورثبوت بھی دوران جملہ درج کرتے ہیں جو ان کا قد اور بڑھاتا ہے ۔آتنکواد ،دہشت گردی اور فرقہ پرستی پر تو قریب ۳۵ مضامین ہیں ۔کچھ حوالے یوں ہیں : مسلم فرقہ پرستی صرف مسلم نقصان ہے جبکہ ہندو فرقہ پرستی تو پورے ملک کا نقصان ہے ۔بیباک صحافی یوں بھی کہتا ہے کہ اگر یر قانیوں کی مخالفت نہ ہوئی تو پھر ملک کا خدا حافظ ۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کا حل بہت آسان ہے ۔صرف دل اورا نصاف ۔
انصاف نہیں ہے اس سے دل صاف نہیں ہے
دل صاف نہیں ہے اس سے انصاف نہیں ہے
صورت حال دیکھ کر کچھ نہ کرنا نا انصافی ہے ’’گجرات ‘‘۔۲۰۱۴کے چناؤ سے قبل بہت سے دھماکے ہوئے اور فائدہ ہوا ۔پنجاب کشمیر تھوڑی ہے ۔پنجاب کے لوگ ہمارے ہیں جبکہ کشمیر کی صرف زمین ہماری ہے ۔شیعہ سنی ،سنی سنی فساد ،خانقاہوں اور مسجدوں پر حملہ کرانا اور پھر قتل ۔اس کے بعد لیبل لگانا کہ تم ہی لڑاکو ہو ۔طریقہ بس مال والے کو مال سے خریدنا عقل والے کو عقل سے ،مذہب والے کو مذہب سے دھوکہ دیناواہ رے آ تنکوادی اپنا ہی گھر پھونک دیا ۔( عقل والے کو عقل سے ،مذہب والے کو مذہب سے دھوکہ دینا)
افضل گرو کو پھانسی آناًفاناً میں پیشگی اطلاع تو کیا نعش بھی نہیں دی ۔نا انصافی لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے ضروری تھی ۔ملالہ کے ساتھ زیادتی تو ہوئی پھر صہونی ڈرامہ کھیل کر بد نام کیا گیا ۔مسلمان تو بنا ہے اسی کے لیے ۔تسلیمہ نسرین اور ایڈوانی کی غلط تحریریں ۔با حوالہ ایڈوانی جی کا بیان کہ ۲۰۵۰ میں ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی ۔اسرائیل ،امریکہ ،انگلینڈ اور فرانس کا حکم آتنکوادی بجالاتے رہے۔اس طرح عراق ،سیریا افغانستان اور دیگر تباہ ہوئے ۔کچھ ایسا ہی پروپگنڈہ ۲۰۰۲ گودھرا سے قبل بھی تھا ۔نیویارک ٹائمس نے لکھا کہ صدام حسین کی پھانسی سے قبل دانتوں میں بم کی تلاش کی گئی تو بو کھلاہٹ چھاگئی ۔یہ ہے خبر کا اثر ۔صدام حسین کا چہرا کھلا تھا اور پھانسی دینے والے نقاب میں تھے ۔۲۸ فروری کو گودھرامیں ہوا اور ۲۴ فروری کو بجرنگ دل نے دریا باد ۔بارہ بنکی میں درندگی کی جسے ہندی جن مورچہ نے شائع کیا اس کا حوالہ پروفیسر گپتا نے بھی دیا ہے ۔منصوبہ بندی فحاشی اور بد امنی پھیلانے کا علاج ،بس سزا اور جلد ی سے اسی طرح کے بہت سے مضامین اور اس کے علاوہ سائنس کے تعلق سے ،ماحولیات ،آلودگی ،پانی، بجلی ،سنامی نیو کلیر عتاب ،بلیک ہول ،قدرت ،نیو تکنیک ،زلزلے وغیرہ انسے ہونے والے خطرات کا ذکر ہے ۔ان کے علاوہ بھی بہت سے متفرق مضامین جن کے ذکر بہت پر کشش ہیں ۔
پھانسی کی ضرورت
پولیس اصلاحات
اپنا پوسٹ مارٹم
تنگ آمد بجنگ آمد
مسلمانوں کے شکار سے الیکشن کی تیاریاں
لوک پال بل صرف چھوٹی مچھلیوں کا شکار
بچارہ ہیمنت کر کرے ۔آیا معاملہ تو وہ بھی نپٹا دیا گیا ۔
۶ دسمبر اور یوم فتح
آو جھوٹ جھوٹ کھیلیں ۔
گیہوں کا سڑنا اور اس کا سستا کر کے بانٹنا ۔اخبار اور اشتہار ۔شبہ سرخی کو پانچویں صفحہ پر میڈیا اور ذمہ داری سماج کی ۔میڈیا اور اخلاق ۔عقل حکمت عمل اور سیاست دین کے تابع نہیں تو آزادی کیسی ؟
آزادی کی نیلم پری ! جمہوریت ۔۴۹ فیصد یہ تو صفر ہے ۔سنیما ہال دہلی میں مرنے والوں کو ۱۸ لاکھ یہ تو بھوپال گیس والوں کو بھی نہیں ۔گجرات کی کئیوں بات ہو ؟ طلبہ اور معلم تبصرہ اور اس کا طریقہ اسکول اور جیل ۔حالت غیر خانقاہ کا کوری شریف اور اس کی اعلی منزلت رسم اجرا میں برائی نہیں ہوتی ۔صرف مبارکبادیں میری امی میں کم لکھا شاید انکساری رہی ۔پھر لکھیں کہیں کہیں تاریخیں تو دیں لیکن سن نہیں ،آگے مشکل ہو سکتی ہے ۔اب لکھدیں ۔
کتاب کے آخر ی حصے میں ان مضامین اور کتابوں کا ذکر ہے جن کو مفید پایا ۔بڑی دیدہ ریزی اور غیر جانب داری ۔احسن اعظمی اور حیدر علوی کے سخن اور دانش داری کو سراہا ہے ۔
رقص جنوں کچھ اور چلے سچ کے ساز پر
ہاتھوں پہ اپنے لے کے چلو آج اپنے سر
حیدر علوی
عشق رسول خوف الٰہی اگر رہے
ممکن نہیں زمانے کا پھر دل میں ڈر رہے
احسن اعظمی
نیا دور کا مجاز نمبر اور صحافت نمبر ۔بڑی محنت اور بڑا نتیجہ انور جمال انور کی انبسات حیات ۔قابل اور لائق اولاد بھی ،شاعر بھی ابو لمجاہد زاہد و فیاض ٹانڈوی کے پر اثر کام
منور رانا کی نشر تو بس انہیں کا ورثہ ہے ۔سہیل انجم سے بحرانی دور کا بیان طاہر نقوی کی باتیں ۔ترجمہ کیا جائے اس کی درخواست شاکر جرولی کی غزلیں
پلکوں پہ لے کے سوئے تھے آزادیوں کے خواب
جاگے تو بھی پڑی ہوئی زنجیر پاؤں میں ۔
شاہ حسین نہری کی نظمیں ،دکھتی رگ پر ہاتھ ۔انور ندیم آفریدی پٹھان میں اور کبھی یہ یہودی بھی تھے ۔
خالدہ ادیب کی انسائڈ انڈیا ۔معلومات پختہ عباس اختر کا مزاج مکمل ۔
عبد الرحمن مومن ،سوانح یوں لکھا کریں ان کے علاوہ بھی اور مضامین اور کتابوں کا ذکر ہے جو ان کے اہم ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
عذاب دانش کا مقدمہ بھی چھوٹا اور فانٹ بھی چھوٹا کیوں ہے واضح نہیں ہوپایا ۔یہ کتاب اور اس کے مضامین وقت پر ایک دستاویز ہیں ۔یہ حوالے کی بھی کتاب ہے ۔اس دور کے اخبار اور رسائل کی یاد داشت کے لیے کٹنگ رکھنے کی اب ضرورت نہیں ۔کتاب کو سب جگہ پہنچانا اردو والوں کی ذمہ داری ہے ۔
ہے نڈرقلم یہ خلوص و ضمیر کی آواز
تم زندہ باد عالم نقوی تم زندہ باد ۔
یہ ہے عمل و خرد کا بار بھی دامن تار تار بھی
لکھنؤ :9415029050

۱

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular