Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد عباس دھالیوال

اردو ادب میں جب ہم بیسویں صدی کے جدید لب و لہجہ کے رنگ اور مذہبی رواداری کے نمائندہ شعراء کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں ندا فاضلی کا نام سر فہرست آتا ہے آپ نے بطور شاعر، فلمی نغمہ نگار اور مکالمہ نگار بے حد مقبولیت حاصل کی۔ ان کا پورا نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے۔ لیکن آ پ کی شہرت و مقبولیت ندا فاضلی کے نام سے ہی ملی ۔ ندا فاضلی کی پیدائش 12 اکتوبر، 1938ء کو مدھیہ پردیش کے شہر گوالیر میں ہوئی۔
گوالیار میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی نے ابتدائی تعلیم دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ ندا فاضلی کے والد ایک شاعر تھے۔ جب ملک تقسیم ہوا تو اس دوران ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان ہجرت کر گئے، لیکن فاضلی ہندوستان میں ہی رہے۔ آپ کے شاعری کی طرف مرغوب ہونے کا ایک واقع مشہور ہے کہ آپ نے بچپن میں ایک ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی اور شاعری کی طرف دل مرغوب ہوگیا ۔ آپ انسانیت کے پرستار تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر شاعری بھی آدمیت کی عکاسی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا پہلے پہل مرزا اسداللہ خاں غالب، میر تقی میر سے بے حد متاثر ہوئے ساتھ ہی میرا اور کبیر کے کلام کو بھی شوق سے پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کا بھی بغور مطالعہ کیا اس طرح سے ندا فاضلی نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں میں ہر لحاظ سے اضافہ کرتے ہوئے اس کو مختلف قسم کی رنگ و خوشبو سے معطر کیا۔
جب ہم ندا فاضلی کے ابتدائی دنوں کو دیکھتے ہیں تو آپ اپنی زندگی کے دنوں میں فکر روزگار و ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور پھر دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لیے آپ اپنی تصانیف لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ رنگ سے لبریز لہجہ لوگوں کو بے حد پسند آیا اور یہیں پر فلم بنانے والوں کی نظر آ پ پر پڑی ۔ اس کے ساتھ ہی ہندی اور اردو ادب والوں میں بھی آپ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے ۔ جس کے نتیجے میں آپ کو مختلف مشاعروں میں بطور شاعر شرکت کرنے کے دعوت نامے ملنے لگے۔ اس کے بعد آپ مختلف غزلوں نظموں اور گیتوں کو ملک کے کئی نامی گلوکاروں نے اپنی آواز میں گاکر ندا فاضلی کو بے حد مقبولیت و شہرت دلائی۔
گلوکارہ کویتا سبرامنیم اور معروف غزل گائیک جگجیت سنگھ نے بھی غزلیں گائیں اور کئی البم بھی بنے۔
ندا فاضلی کی معروف غزلوں میں، ” دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے” بے حد مقبول و مشہور ہوئیں۔ اسی طرح آ پ کے فلمی گیتوں میں “آ بھی جا” ( سُر – زندگی کا نغمہ)، اسی طرح فلم آپ تو ایسے نہ تھے تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے اور عامر خان کی فلم میں نصیر الدین شاہ پر فلمائے گئے نغمے “ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے” (فلم – سرفروش) وغیرہ عوام میں آج بھی مقبولِ عام ہیں۔ مذکورہ فلم کا ایک شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
ان کی شاعری فنکارانہ صلاحیتوں سے لبریز ہے ۔ آپ جب کلام لکھتے تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور کی تصویر ہے یا پھر کسی موسیقی کار کی موسیقی۔
ندا فاضلی کے شروعات دور کی جب ہم بات کرتے ہیں تو آپ نے پہلے پہل 1960ء کے زمانہ میں مختلف شعرا پر تنقیدی مضامین لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔ ندا نے اپنا مجموعہ کلام 1969ء میں شائع کروایا۔ ندا فاضلی کا کلام عموماً جن موضوعات سے مرصع ہوتا ہے اس میں بچپن، غم انگیزی، فطری عناصر، زندگی کا فلسفہ، انسانی رشتے مذہبی رواداری جیسے امور سے لبریز ہوتی ہے۔
ندا فاضلی کی فلمی دنیا میں اینٹری کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کے ہندی فلموں کے معروف ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لیے آپ نغمے لکھیں، پہلے یہ گیت معروف نغمہ نگار جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر کو لکھنے تھے لیکن اسی بیچ ان کی وفات ہو گئی ۔ جس کے بعد یہ نغمے ندا فاضلی نے لکھے اور ان کے چلتے انھیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس طرح سے وہ فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔
تقسیم ہند سے کبھی بھی اتفاق نہیں کرنے والے ندا فاضلی نے مذہب کے نام پر فسادات، سیاست دانوں اور فرقہ پرستوں پر اپنی شاعری میں کھل کر دبنگ انداز میں تنقید کی ۔چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ایک شعر کہ۔
ہمارے یہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ 1992 جب بابری مسجد شہید کی گئی اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے فسادات کے دوران، تحفظی و جوہات کی بنا پر ندا فاضلی نے اپنے ایک دوست کے گھر پناہ لی تھی۔ جبکہ آپ کو مذہبی رواداری پر کام کرنے کے بدلے میں بہت سارے اعزازات وقتاً فوقتاً سرفراز ہوتے رہے
ایک جگہ کہتے ہیں کہ
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
مختلف قسم کے خیال والا ایک اور شعر دیکھیں کہ:
بولا بچا دیکھ کر مسجد عالیشان
اللّٰہ تیرے ایک کا اتنا بڑا مکان
ایک شعر میں ایک ہی آدمی کی شخصیت کے پوشیدہ پہلو ؤ ں کا اظہار کرتے ہیں اور انسانی نفسیات کی مختلف اشکال میں تقسیم شخصیت کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے
روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا
پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی
جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا
مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی
اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
ان کی ایک مشہور غزل جو بھی اگر کسی گلی محلے یا بازار سے گزریں تو اکثر کو کسی نہ کسی گھر دکان بجتی سنائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
ایک اور بہت ہی منفرد و مختلف خیالات سے لبریز غزل کے چند اشعار دیکھیں کہ
گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا
چڑیوں کو دانے بچوں کو گڑ دھانی دے مولا
دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے
سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا
تیرے ہوتے کوئی کس کی جان کا دشمن کیوں ہو
جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولا
ایک چھوٹی بحر کی غزل کے چند اشعار دیکھیں کہ
تیرا سچ ہے ترے عذابوں میں
جھوٹ لکھا ہے سب کتابوں میں
ایک سے مل کے سب سے مل لیجے
آج ہر شخص ہے نقابوں میں
ان کی ناکامیوں کو بھی گنیے
جن کی شہرت ہے کامیابوں میں
ایک اور منفرد رنگ کی غزل کے دو اشعار دیکھیں کہ
دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے
جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہئے
یوں تو قدم قدم پہ ہے دیوار سامنے
کوئی نہ ہو تو خود سے الجھ جانا چاہئے
ایک غزل میں کے دو اشعار دیکھیں کہ کتنے خوبصورت انداز میں ہندی کے الفاظ کو جڑے ہیں کہ
دکھ میں نیر بہا دیتے تھے سکھ میں ہنسنے لگتے تھے
سیدھے سادے لوگ تھے لیکن کتنے اچھے لگتے تھے
نفرت چڑھتی آندھی جیسی پیار ابلتے چشموں سا
بیری ہوں یا سنگی ساتھی سارے اپنے لگتے تھے
ایک اور غزل کے اشعار دیکھیں کہ کتنے خوبصورت اور سادہ انداز میں زندگی کے حقائق کو بیان کر رہے ہیں کہ
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
ایک اور زندگی کے کرب کی عکاسی کرتی غزل کے اشعار دیکھیں کہ
زمیں دی ہے تو تھوڑا سا آسماں بھی دے
مرے خدا مرے ہونے کا کچھ گماں بھی دے
بنا کے بت مجھے بینائی کا عذاب نہ دے
یہ ہی عذاب ہے قسمت تو پھر زباں بھی دے
یہ کائنات کا پھیلاؤ تو بہت کم ہے
جہاں سما سکے تنہائی وہ مکاں بھی دے
میں اپنے آپ سے کب تک کیا کروں باتیں
مری زباں کو تو کوئی ترجماں بھی دے
فلک کو چاند ستارے نوازنے والے
مجھے چراغ جلانے کو سائباں بھی دے
ندا فاضلی نے قریب 24 کتابوں کو اپنے خون دل تخلیق کیا۔ آپ کی معروف تخلیقات میں سے لفظوں کے پھول،مور ناچ آنکھ اور خواب کے درمیان میں * سفر میں دھوپ تو ہوگی، کھویا ہوا سا کچھ،دنیا ایک کھلونا ہے وغیرہ شامل ہیں اس کے ساتھ ہی آپ نے کئی ٹی۔ وی۔ سیریلز کے لیے بھی گیت لکھے۔ سیلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لیے ٹائٹل گیت آپ ہی تخلیقات ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف صوبائی حکومتوں کی نصابی کتب میں ندا فاضلی کی زندگی کے حالات و تخلیقات شامل کی گئی ہیں جو بچوں کو درس و تدریس کے طور پر پڑھائی جاتی ہیںآپ کی ادبی خدمات کے صلے میں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے آپ کو میر تقی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کےندا فاضلی کو انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف مواقع پر ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا جاتا رہا۔ان میں1998 ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ 2003 سٹار سکرین ایوارڈ برائے بہترین نغمہ نگار – فلم “سُر“ کے لیے۔ جب کہ حکومت ہند کی جانب سے 2013پدم شری اعزاز سے نوازا گیا۔
اس طرح اردو کا یہ جدید لب و لہجہ کا آفتاب جب تک زندہ رہا اپنی منفرد قسم کی شعاعوں سے ہمارے ذہن و دل کو منور کرتا رہا۔ لیکن پھر آخر کار 8 فروری 2016 کو دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا ئے فانی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوتے ہوئے غروب ہو گیا یقیناً ندا فاضلی کی موت سے جو شعر و سخن اور ادب کی دنیا میں خلاء پیدا ہوا، اس کی بھرپائی ہوپانا مشکل ہے۔
مالیر کوٹلوی۔ پنجاب
Ph.9855259650

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular