Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim World’’کبھی کتابوں میں ہم بھی گلاب رکھتے تھے‘‘

’’کبھی کتابوں میں ہم بھی گلاب رکھتے تھے‘‘

گلشن جہاں

انسان اور کتاب کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ۔ اسی تعلق کی مناسبت سے ماہِ اپریل کی ۲۳ تاریخ کو عالمی یوم کتاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد عوام میںکتب بینی کے ذوق و شوق کو پروان چڑھانا اور ان کی تبلیغ و اشاعت کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کتاب ہماری ایسی رفیق ہے جو تمام زندگی ہم سے وفا کرتی ہے اور کبھی کوئی مطالبہ نہیں کرتی۔رفیق تنہائی ہونے کے ساتھ ساتھ کتابیں عالم انسانی کی تہذیب و ثقافت ،معاشی و معاشرتی اور علم و ادب آئینہ دار بھی ہوا کرتی ہیں۔کتب بینی سے ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت غور و فکر کی عادت کی نشو ونما ہوتی ہے اور ہمارا علمی شعور بیدار ہوتا ہے۔لہٰذا کتب کی اہمیت و افادیت اورقدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،لیکن فی زمانہ کتب بینی کی صورتحال مایوس کن ہے۔
ایک زمانہ تھا جب کتابیں بزرگوں سے لے کر خواتین اور نوجوانوں تک کے سرہانے ہواکرتی تھیں ۔لوگ جن چیزوں کو عزیز جانتے تھے اکثر اپنی پسندیدہ کتابوں میں رکھا کرتے تھے اب وہ کسی قریبی دوست کا خط ہو یا محبوب کا دیا گلاب خواہ معشوق کی نشانی ہو۔لیکن افسوس اب نہ کتاب سے اتنی دوستی رہی نہ ان میں سوکھے گلاب کی خوشبو۔یہ خوشبو انسان کے ذہن و دماغ پر پڑے پردے ہٹانے کے ساتھ ساتھ اس کو قلبی سکون بھی عطا کرتی تھی۔لیکن یہ کیا کہ رفتہ رفتہ ہم نے اپنی اس دوست سے ترک تعلق کر لیا؟
دور حاضر سائنس کا دور صحیح لیکن کتابوں سے اتنی بے رخی اچھی نہیں ۔کتب بینی کا ذوق و شوق کم ہوتا جا رہا ہے۔صاحب علم ،خاتون خانہ اور نونحالان قوم تک مطالعہ سے جی چراتے ہیں۔جو قوم کتابوں کی دنیا سے مستفید ہوتی تھی اب وہ واٹس ایپ ،فیس بک ٹویٹر اور دیگر سوشل سائٹس پر اپنا وقت صرف کرتی ہے۔جس کے مضر اثرات صحت عامہ پر مرتب ہو رہے ہیں ۔نتیجتاًموبائل کے بے جا استعمال سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ فون سے نکلنے والی شعایں انسانی جسم کے دوسرے اجزاء پر بھی برا اثر ڈالتی ہیں ۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جو کتاب ہماری سچی دوست ،تنہائی کا ساتھی،دل کا قرار،علم و ہنر کا عطیہ ہونے کے ساتھ ساتھ گفتگو کا سلیقہ سکھاتی ہے ،علم کی روشنی سے ہمارے ذہن کو منو ر کرتی ہے ، ،ماضی سے متعارف کرواتی ہے، حال کی معلومات فراہم کرتی ہے اور تابناک مستقبل کے لئے راہ ہموار کرتی ہے،اس ذخیرئہ معلومات سے ہم نے بے راہ روی کیوں اختیار کرلی ہے؟گویا وہ لائیبریری میں دھول سے لت پت ،شوکیش میں سجی ،قارئین کی منتظر کتابیں ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں کہ ہم کتب بینی سے اپنے ذہنوں کوکشادہ بنائیں،نگاہوں میں بلندی اور سینوں میں وسعت پیدا کر سکیں ۔یہ کیا کہ ہمیں کتب بینی کا ذوق نہ رہا ،مطالعے کی طلب باقی نہ رہی؟۔تاریخ شاہد ہے کہ جب جب کسی قوم نے علم و ہنر کو اس سرمایہ کو فراموش کیا ہے اس نے اپنے مستقبل کو تاریکی میں ڈبویا ہے ۔لہٰذا یہ سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہے کہ صرف ایک دن یوم عالمی کتاب کے نام مانوس کر دینے سے کام نہیں چلے گا ،بلکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا ایک ایک دن ،ایک ایک لمحہ ضائع نہ کرتے ہوئے کتابوں سے استفادہ کریںاور اپنے ملک و ملت کی خدمت کرکے انسانی مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
ریسرچ اسکالرشعبئہ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular