Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکاٹھمنڈو-شاعری -اور، ثاقبؔ ہارونی

کاٹھمنڈو-شاعری -اور، ثاقبؔ ہارونی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

افروز عالم دبئی

نہیں تیرا نشیمن قصر ِ سلطانی کے گنبد پر
تو‘ شاہیں ہے بسیرا کرپہاڑوں کی چٹانوں پر
۔۔۔۔۔۔۔علامہ اقبالؔ

اُرد‘وکے شاہین نے جب اپنے پنکھ پسارے تو افریقہ اور عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں ‘ کناڈا کی برفیلی وادیوں‘ امریکہ کی پُر کیف آب و ہوا سمیت جزیرہ نما آسٹریلیا اور یوروپ کے سرد علاقوں میں اپنے قدموں کی ہلکی چاپ سے ذہنوں کے چراغ روشن کئے ۔ پھر اُرد‘ و کا جادو اس طرح جاگا کہ زبان وادب کے بیشمار رسالے، اخبارات، اور آیٔے دن شایٔع ہونے والی کتب، اردو زبان و ادب کے لیٔے شیدائیوں کا بے لوث اپنے جیب خاص پر بار‘ ہر شام سجنے والی شاندار محفل اس بات کی غماز ہے کہ دنیا کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال چاہے جو ر ہی ہو یا آگے رہیں گی زبان و ادب کا یہ کارواں اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں رہے گا۔ یوں بھی زبانیں زندہ قوم کی میراث ہوتی ہیں ساتھ ساتھ اسے اگر تازہ فضائیں موثر رہیں تو یہ فصل یوں ہی لہلہاتی رہیے گی ۔
اچھی خاصی آبادی والا پُر نور کاٹھمنڈو ہمالیہ کے بالائی حصے پر بسے ہوئے آزاد ترین ریاست نیپال کا دارالحکومت ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور قدیم ثقافت کی بدولت پوری دنیا کی نگاہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہے ۔ جدید ترین آشائش اور قدیم ترین صنم کدوں سے بھرے اس شہر کی صبح پُر رونق اور شام گلزار ہوتی ہے ،یوں بھی بالائی پہاڑی علاقے کی شام کا سرد ہونا اور صبح کا خوشنما ہونا ایک قدرتی عمل ہے یہ تو آپ جانتے ہیں نا ؟ نیپال میں بنیادی طور پر دو قسم کی نسلیں آباد ہیں، ایک پہاڑی لوگ اور ایک مدیس، پہاڑی لوگوں کی قد کاٹھی چینی لوگوں سے ملتی جلتی ہے،مثلا رنگ گورا ناک چپٹی، زبان نیپالی کے بنا پر ان کی زبان نیپالی ہے، مدیسی لوگوں کا رنگ روپ شمالی ہند کے لوگوں کی طرح ہوتا ہے جبکہ یہ لوگ نیپالی کے علاوہ ہندی اور اردو بھی بولتے ہیں، بھارتی سرحد سے لگے ہوے نیپال کا ۲۲ ضلع، مدیس کا علاقہ کہلاتا ہے ، جغرافیا کے لحاج سے یہ میدانی علاقہ ہے۔ لمبے عرصے تک نیپال کی شناخت ـ ـ ہندو ملک کی تھی تاہم نیپال میں ہر وقت امن کا ماحول تھا، مسلمانوں کی ۱۰ فیصد آبادی نے کبھی کویٔ شکایت نہیں کی۔ نیپالی لوگوں کے سر پہ ٹوپی بھی ان کی شناخت ہے۔ یہ گفتگو بہت ہی طویل ہے ہم اصل موضوع سے بھٹک سکتے ہیں اس لئے ہم واپس زبان و ادب کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں پھر ثاقب ؔ ہارونی کی شاعری سے محظوظ ہونے کی کوشش کریں گے ۔
نیپال کی سرکاری اور روز مرہ کی زبان نیپالی ہے جو برّ ِ صغیر کی کئی دوسری زبانوں کی طرح سنسکرت کے بطن سے پیدا ہوئی ہے ‘ رسم الخط کی رو‘ح بھی دیوناگری میں پیوست ہے لیکن اُرد‘و جو کہ خطہ کے حوالے سے بے شک کہیں کی زبان نہیں ہے، پھر بھی آج دنیا کے ہر شہر میں رائج ہوئی جا رہی ہے ۔ آخرکار اردو کے اس شاہین نے پہاڑوں کی چٹانوں پراپنا خیمہ ڈال ہی لیا۔ ہر شہر کی طرح اب کاٹھمنڈو میں بھی اردو کا خوب خوب بول بالا ہے ‘ گلیوں محلوں میں ‘ بازاروں اور دوکانوں پر‘ اُرد‘و میں گفت و شنید جاری ہے۔ کاٹھمنڈو میں اردو کی محفلیں بھی سجتی ہیں ‘ مشاعرے بھی ہوتے ہیں ‘ انجمن بھی قائم ہیں اور اب اُرد‘و اکیڈمی بھی ‘ برِ صغیر کے دوسرے مدارس کی طرح دینیات کی تعلیم بھی اُرد‘و زبان میں ہوتی ہے۔اسی بالائی علاقے سے اُرد‘و ادب کا ایک شخص اپنے علم و فن کی چُستی سے اپنی پہچان بنانے کی جدو جہد میں مگن ہے اور اسے ٹھیک ٹھاک شہرت بھی مل رہی ہے۔ہم اسے ثاقبؔ ہارونی کے نام سے جانتے ہیں۔
سن ۲۰۱۵ ؁ء بنگلور کے ایک عالمی مشاعرے میں پہلی بار میری ملاقات ثاقب ؔ ہارونی سے ہوئی تھی ‘ تب سے اب تک رفاقت کا سلسلہ جاری ہے ‘ چونکہ ثاقبؔ ہارونی میرے نہایت ہی خاص چند یارانِ غار میں سے ایک ہیں اس لئے ان کا لکھا ہوا ہر کچھ مجھے عزیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں دانستاََ اس طرف نہیں جانا چاہ رہا ہوں، کہ ثاقب ؔہارونی کے کہے گئے اشعار با معنی ہیں کہ نہیں‘ شعر کے دونوں مصرعوں میں ربط کا تناسب کیا ہے ‘ استعارے کا اشارہ کیا ہے‘ روز مرہ کی زبان کیسے برتی گئی ہے‘ محاورے کے ساتھ انصاف ہوا ہے کہ نہیں ‘ زحافت کس مصرعے میں کس طرح ہے ‘ یہ مناسب ہے کہ نہیں حالانکہ انہی عناصر کی ظہور ترتیب میں اشعار کی خوبصورتی پنہا ں ہے ۔اشعار کے نشو نما میں یہ عوامل اپنا کردار نبھاتے ہیں جس سے ادب کو زندگی ملتی ہے اور غزل کے حسن پر نکھار آتا ہے۔
آپ ہوئے ‘ ہم ہوئے‘ کہ میرؔ ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
(نامعلوم)
ثاقب ؔ ہارونی کا ادبی میدانِ عمل بھی غزل ہے ۔ غزل جو صوفیوں کی خانقاہوں سے گھنگرؤ ں تک کا سفر اس دُ لار سے طے کیا کہ آزادی کے پروانوں کی زبان بھی پُر جوش اشعار سے رطب النسا ن رہیں۔ یہ غزل جو شرفاء کے دیوان خانوں اور شاہوں کے دربار میں محبوب رہی ۔ یہ غزل نصاب کی کتابوں سے لے کر سرکاری ایوانوں تک اپنا مقام رکھتی ہے ۔ یہ غزل جسے درمیان کے عہد میں کچھ نقد نگاروں کے سخت حملے کا سا منا بھی رہا ۔ اکابرین قلم نے نیم وحشی صنف تک کہا اور لکھا لیکن غزل کا یہ جادو ہے کہ جو معشوقہ کی طرح اُرد‘و ادب کے قلب کو گرمائے ہوئے ہے ۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ثاقبؔ ہارونی جیسا ادب پرور شاعر غزل کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی بھی سوچے ؟
آؤ ہم آج کرتے ہیں وعدہ وفا کی بات
باقی ہے جسم و جان میں پھر سانس ہو نہ ہو
شہر میں سب پست قامت ہیں
تیری آواز بھی دبی ہے کیا
بدن کا پیرہن بھی تار ہو سکتا ہے جنگل میں
چھڑانے میں لگا ہوں آج میں دامن کو خاروں سے
وہ بہ ظاہر تو دے چکا ہے جواب
در حقیقت وہ امتحان میں ہے
ثاقب ؔہارونی کی بنیادی تعلیم دینی مدارس میں ہوئی ہے لیکن موصوف جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں اپنے ضروری معاملات کے سلسلے میں ملکوں ملکوں پھرتے ہیں، اس دشت کی سیاہی سے جو کچھ زر حاصل ہوتا ہے وہ اپنے تعلیمی اداروں پر صرف کرتے ہیںاور جو تجربہ و مشاہدہ ہوتا ہے اس کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کرادب کی آہنی دیوار تیار کرتے ہیں جس کے حصار میں لحاظ‘ مروت‘ اخوت‘ ثقافت‘ تربیت اور اپناپن پرورش پاتے ہیں ۔یہی عناصر سماجی ڈھانچے کے تانہ بانہ ہیں اور ثاقبؔ کی شاعری کے محور بھی ۔یہی سبب ہے کہ آپ کے اشعار میں صاف ستھرے مضامین کے ساتھ ساتھ شوخیاں ومستیاں در آئی ہیں جو با رنگ عو‘د اپنی خوشبوؤں کا احساس دلاتی ہیں
رخ گلاب کو شبنم سے دھو لیا جائے
سکون جو نہ ملے پھر تو رو لیا جائے
کچھ ایسی صدا منبر و محراب سے نکلے
یہ جاگ جایٔے قوم ذرا خواب سے نکلے
اے روح غزل خالق معار قوافی
روٹھی ہیں ردیفیں بھی منانے کے لیے
کوائف کے مطابق ثاقب ؔ ہارونی کا اصل نام محمدمبین مسلمان ہے ۔۔تاریخ پیدائش ۱۶ مارچ ۱۹۶۸، اور جائے پیدائش ضلع کپیل وستو،نیپال ہے، ۔ یہ علاقہ ہندوستانی ریاست اتر پردیش کے شمالی سرحدسے بہت قریب ہے ۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی ٹھیک ٹھاک آبادی ہے، جہاں ثاقب ہارونی نے اپنے لڑکپن کے دن گزارے، پھر حصول علم کے لیے بھارت کے کیٔ شہروں میں قیام کیا۔ جبکہ اب لمبے عرصے سے کاٹھمنڈو میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔
میں اپنی گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے ثاقب کا پہلا شعری مجموعہ آہنگِ ہمالیہ کو آپ کے ذمے کررہا ہوں ‘ اور آپ سے گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ آ پ اپنے مذاق اور معیار کے مطابق مطالعہ کریں اور اپنی رایٔے سے نوازیں
صلاے عام ہے یاران نقطہ داں کے لیے
(غالب)
��

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular